Deobandi Books

نقد و نظر

ن مضامی

47 - 58
رائے کی اہلیت اور بحث ومباحثہ کی آزادی
مولانا حافظ زاہد حسین رشیدی ہمارے فاضل دوست ہیں اور مخدومنا المکرم حضرت مولانا قاضی مظہر حسین صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاندانی تعلق کے باعث وہ ہمارے لیے قابل احترام بھی ہیں۔ ہمارے ایک اور فاضل دوست مولانا حافظ عبد الوحید اشرفی کی زیر ادارت شائع ہونے والے جریدہ ماہنامہ ’’فقاہت‘‘ لاہور کے دسمبر ۲۰۱۱ء کے شمارے میں، جو احناف کی ترجمانی کرنے والا ایک سنجیدہ فکری وعلمی جریدہ ہے، مولانا حافظ زاہد حسین رشیدی نے اپنے ایک مضمون میں ’’الشریعہ‘‘ کی کھلے علمی مباحثہ کی پالیسی کوموضوع بنایا ہے اور اس سلسلے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے جس پر ہم ان کے بے حد شکر گزار ہیں اور ان کا مضمون ’’فقاہت‘‘ کے شکریہ کے ساتھ ’’الشریعہ‘‘ کے زیر نظر شمارے میں شائع کر رہے ہیں۔
انھوں نے جن تحفظات کا اظہار کیا ہے، ہمیں ان سب سے اختلاف نہیں ہے اور ان میں سے بعض خدشات وتحفظات ہمارے بھی پیش نظر ہیں جن کا انھوں نے درد دل کے ساتھ ذکر کیا ہے، لیکن ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہم صرف تحفظات کے دائرے میں محصور رہنے کو درست نہیں سمجھتے، بلکہ ان ضروریات پر بھی ہماری نظر ہے جو آج کے معروضی حالات میں اہل علم سے سنجیدہ توجہ کا تقاضا کر رہی ہیں۔ تحفظات اور ضروریات کے دائرے ہر دور میں الگ الگ رہے ہیں اور دونوں کے تقاضوں کو سامنے رکھنے والوں کا ذوق اور طرز عمل بھی ہمیشہ ایک دوسرے سے مختلف رہا ہے۔ اگر ماضی کی علمی ودینی تاریخ کو اس پہلو سے دیکھا جائے تو کوئی دور بھی اس کشمکش سے خالی نظر نہیں آتا۔
مثال کے طور پر کوئی واقعہ پیش آئے بغیر محض مسئلہ کی کوئی صورت فرض کر کے اس پر حکم لگانا، جسے ’’فقہ فرضی‘‘ کہا جاتا ہے، صحابہ کرام اور تابعین کبار کے دور میں پسندیدہ بات نہیں سمجھی جاتی تھی، حتیٰ کہ ایک بار حضرت امام ابوحنیفہؒ نے حضرت قتادہ سے کوئی مسئلہ پوچھا تو انھوں نے دریافت کیا کہ کیا ایسی کوئی صورت پیش آئی ہے؟ جواب میں امام ابوحنیفہ نے کہا کہ ایسی صورت پیش تو نہیں آئی تو حضرت قتادہ نے فرمایا کہ:
’’مجھ سے ایسی باتیں نہ پوچھا کرو جو ابھی واقع ہی نہیں ہوئیں۔‘‘
(بحوالہ امام ابوحنیفہ کی سیاسی زندگی ص ۲۳۵، از مولانا مناظر احسن گیلانی)
جبکہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ نے اس ’’فقہ فرضی‘‘ کے لیے باقاعدہ علمی مجلس قائم کر کے محض مفروضہ صورتوں پر ۸۰ہزار سے زائد احکام ومسائل مرتب کیے جو آج تک فقہ حنفی کی علمی اساس ہیں۔
اسی طرح صحابہ کرام اور کبار تابعین کے دور میں عقائد کے باب میں عقلی بحثوں کو ناپسند کیا جاتا تھا اور اسے عقائد خراب کرنے اور عقائد میں شکوک پیدا کرنے کی کوشش تصور کیا جاتا تھا، حتیٰ کہ میں نے کسی جگہ حضرت امام ابو یوسف کا یہ فتویٰ پڑھا ہے جس کا حوالہ اس وقت میرے ذہن میں نہیں ہے کہ عقائد میں عقلی بحثیں کرنے والے متکلم کے پیچھے نماز جائز نہیں ہے، لیکن بعد میں وقت کی ضروریات نے یہ ماحول پیدا کر دیا کہ عقائد کی بحثیں ہی معقولات کے حوالے سے ہونے لگیں، اس کو باقاعدہ علم کلام کا نام دیا گیا اور اسی عنوان سے یہ ہمارے ہاں مستقل پڑھایا جاتا ہے۔
ہم ’’تحفظات‘‘ اور ’’ضروریات‘‘ کے دونوں دائروں کو ضروری سمجھتے ہیں۔ ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ دونوں کا متوازن اظہار ہوتے رہنے سے ہی اعتدال کا راستہ ملے گا، اسی لیے ہم علمی مباحثہ کو ضروری خیال کرتے ہیں اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے ذہن میں علمی مباحثہ کا تصور وہی ہے جس کے تحت حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ نے انفرادی اجتہاد کی بجائے اجتماعی اور مشاورتی اجتہاد کا راستہ اختیار کیا تھا اور اس کے لیے کھلے علمی مباحثہ کو ضروری خیال کیا تھا۔ اس کا خاکہ مولانا مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ:
’’اجتماعی مساعی اسی وقت باور آور ہوتی ہیں جب ضبط ونظم کے تحت ان کو انجام دیا جائے۔ امامؒ پر جہاں یہ راز واضح ہو چکا تھا، اسی کے ساتھ وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ مجلس کے تمام اراکین کو جب تک کامل آزادی اپنے خیالات کے اظہار میں نہیں دی جائے گی، اجتماع کا جومقصد ہے وہ پورا نہیں ہو سکتا۔ آزادی کے اس دائرے کو امامؒ نے کتنی وسعت دے رکھی تھی ؟ اس کا اندازہ اسی واقعے سے ہو سکتا ہے جس کو امامؒ کے مختلف سوانح نگاروں نے نقل کیا ہے۔ الجرجانی کہتے ہیں کہ میں امام کی مجلس میں حاضر تھا کہ ایک نوجوان جو اسی حلقہ میں بیٹھا ہوا تھا، امام سے اس نے کوئی سوال کیا جس کا امامؒ نے جواب دیا، لیکن جوان کو میں نے دیکھا کہ جواب سننے کے ساتھ ہی بے تحاشہ اور امام کو مخاطب کر کے ’اخطات‘ (آپ نے غلطی کی ہے) کہہ رہا ہے۔ جرجانی کہتے ہیں کہ جوان کے اس طرز گفتگو کو دیکھ کر میں تو حیران ہو گیا اور حلقہ والوں کی طرف خطاب کر کے میں نے کہا کہ
’’بڑے تعجب کی بات ہے کہ استاذ (شیخ) کے احترام کا تم لوگ بالکل لحاظ نہیں کرتے۔‘‘
جرجانی ابھی اپنی نصیحت کو پوری بھی نہیں کر پائے تھے کہ وہ سن رہے تھے کہ خود امام ابوحنیفہؒ فرما رہے ہیں:
دعہم فانی قد عودتہم ذلک من نفسی
’’تم ان لوگوں کوچھوڑ دو، میں نے خود ہی اس طرز کلام کا ان کو عادی بنایا ہے۔‘‘
جس سے معلوم ہوا کہ اس آزادی کا قصداً وارادتاً امام نے اپنی مجلس کے اراکین کو کہیے یا تلامذہ کو، عادی بنا رکھا تھا اور یہ جان کر بنا رکھا تھا کہ جومقصد ہے، اس آزادی کے بغیر وہ حاصل نہیں ہو سکتا۔‘‘ (امام ابوحنیفہ کی سیاسی زندگی، ص ۲۳۸)
اس کے ساتھ ہی برادرم مولانا حافظ زاہد حسین رشیدی صاحب کے ارشادات کے تناظر میں یہ بات عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں رائے، اجتہاد اور فتویٰ کے دائروں کوخلط ملط کر دیا گیا ہے اور ہم ان سب کے بارے میں یکساں لہجے میں بات کرنے کے عادی ہو گئے ہیں، حالانکہ ان تینوں کے الگ الگ دائرے اور الگ الگ احکام ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر رائے کو اجتہاد تصور کیا جائے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر اجتہادی قول کو مفتیٰ بہ قرار دے دیا جائے۔ کوئی مجتہد اپنے کسی غور طلب مسئلہ کے کسی ایک پہلو کے بارے میں کسی متعلقہ شخص سے رائے لیتا ہے جو صاحب علم نہیں ہے اور اس کی رائے کو اپنے اجتہاد کی بنیاد بھی بنا لیتا ہے۔ اب اس شخص کی رائے اجتہاد کا درجہ نہیں رکھتی، مگر اجتہادی عمل کا حصہ بن گئی ہے۔ اسی طرح ہمارے ہاں فقہاء کرام کے مفتیٰ بہ اقوال اور غیر مفتیٰ بہ اقوال کا واضح فرق موجود ہے، لیکن ان میں سے کسی کے اجتہاد ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے ان تینوں میں فرق قائم رکھنا ضروری ہے اور اس بنیاد پر ان تینوں کے معیارات بھی الگ الگ ہی ہوں گے۔
ہم نے ’’عمومی مباحثہ‘‘ میں ہر شخص کے لیے رائے کے حق کی بات ضرور کی ہے، لیکن جہاں علمی مباحثہ کی بات ہوئی ہے، وہاں ہم نے ان نوجوان اہل علم کا حوالہ دیا ہے جو اصحاب علم ہیں او رمطالعہ کی وسعت رکھتے ہیں۔ ہم نے ان کے لیے نہ اجتہاد کا حق مانگا ہے اور نہ ہی انھیں فتویٰ کی اتھارٹی دینے کی بات کی ہے۔ صرف اتنی درخواست کی ہے کہ اگر وہ نوجوان اہل علم جو علمی استعداد رکھتے ہیں اور دینی لٹریچر کے ساتھ ساتھ آج کے حالات وضروریات پر بھی نظر رکھتے ہیں، انھیں رائے کے حق سے محروم نہ کیجیے۔جو وہ محسوس کرتے ہیں، اس کے اظہار کا انھیں حق دیجیے اور پھر انھیں فتووں اور طعن وتشنیع کا نشانہ بنانے کی بجائے دلیل کے ساتھ اور محبت کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کیجیے کہ دین کے ساتھ ساتھ اخلاقیات اور معروضی حالات کا بھی یہی تقاضا ہے۔
مولانا حافظ زاہد حسین رشیدی کے مضمون کا تفصیلی تجزیہ کرنے کی بجائے سردست چند اصولی باتوں پر اکتفا کر رہا ہوں۔ اگر ا س کے بعد ضرورت باقی رہی تو یہ خدمت بھی کسی مناسب موقع پر انجام دی جا سکتی ہے۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ
تاریخ اشاعت: 
جنوری ۲۰۱۲ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 گوجرانوالہ کے اخبار نویس دوستوں سے 1 1
3 اسلام پر رحم کیجئے 2 1
4 وفاقی وزیر مذہبی امور حاجی سیف اللہ خان کا ارشاد 3 1
5 ایم آر ڈی اور علماء حق 4 1
6 روزنامہ نوائے وقت اپنی روش پر نظر ثانی کرے 5 1
7 ایم آر ڈی کے بیس نکات اور مولانا فضل الرحمان 6 1
8 وکلاء کرام ! خدا کے لیے سنجیدگی اختیار کریں 7 1
9 جمہوریت، ووٹ اور اسلام 8 1
10 سنی شیعہ کشیدگی اور ظفر حسین نقوی 9 1
11 بھارت کی عظمت اور نجم سیٹھی کا خطاب 10 1
12 میاں محمد شہباز شریف ۔ خدیو پنجاب؟ 11 1
13 مرزا طاہر احمد کی خوش فہمی 12 1
14 محراب و منبر کے وارث محنت مزدوری کیوں نہیں کرتے؟ 13 1
15 راجہ صاحب کی خدمت میں 14 1
16 مذہبی طبقات کا طرز مباحثہ ۔ راجہ صاحب کا تاثر 15 1
17 عقائد اور نظریات میں بنیادی فرق 16 1
18 علماء دیوبند اور سر سید احمد خان مرحوم ۔ راجہ صاحب کی غلط فہمی 17 1
19 جہاد کے حوالے سے راجہ صاحب کی الجھن 18 1
20 صوفیائے کرام اور مجاہدین ۔ راجہ صاحب کا ایک مغالطہ 19 1
21 مولانا احمد رضا خان بریلویؒ اور خلافت عثمانیہ 20 1
22 کیا اسلام کو کوئی خطرہ نہیں ہے؟ 21 1
23 شہدائے بالاکوٹ کا جہاد ۔ راجہ صاحب کی رائے 22 1
24 قیام پاکستان کی پہلی اینٹ کس نے رکھی؟ 23 1
25 کیا نجات کے لیے ایمان اور نسبت کافی ہے؟ 24 1
26 اسلامی نظام پر تھیاکریسی ہونے کا الزام! 25 1
27 جمعہ کی چھٹی کا مسئلہ، اسلامی ریاست کی اصطلاح ۔ راجہ صاحب کے خیالات 26 1
28 جمعۃ المبارک کی چھٹی 26 27
29 اسلامی ریاست کی اصطلاح اور اس کا پس منظر 26 27
30 نو آبادیاتی ماحول میں ملا اور مسٹر کا کردار 27 1
31 قرآنی اصول اور جناب معین قریشی 28 1
32 محترمہ ہیلری کلنٹن ! کچھ غصہ اور دکھائیے 29 1
33 غامدی صاحب کے ارشادات پر ایک نظر 30 1
34 1-غامدی صاحب کا علمی پس منظر 30 33
35 2-علماء اور سیاست 30 33
36 3- زکوٰۃ کے علاوہ ٹیکسیشن 30 33
37 4-اعلان جہاد کے لیے حکومت کی شرط 30 33
38 5-فتویٰ کا آزادانہ حق 30 33
39 غامدی صاحب اور خبر واحد 31 1
40 رجم کی شرعی حیثیت اور غامدی صاحب 32 1
41 علماء اور عملی سیاست 33 1
42 معز امجد صاحب کے استدلالات پر ایک نظر 34 1
43 1-اس بحث کا پس منظر 34 42
44 2-قطعی اور ظنی اصولوں میں فرق 34 42
45 3-اعلان جہاد کے لیے حکومت کی شرط 34 42
46 4- زکوٰۃ کے علاوہ ٹیکسیشن 34 42
47 5-فتویٰ کا آزادانہ حق 34 42
48 غامدی صاحب سے مباحثہ ۔ ایک غلط فہمی کا ازالہ 35 1
49 یہ جنگ فراڈ ہے ۔ برطانوی صحافی جان پلجر کا تجزیہ 36 1
50 مسئلہ کشمیر اور برطانوی خارجہ جیک اسٹرا کا چٹکلا 37 1
51 توہین رسالت کا قانون اور فرحت اللہ بابر کے سوالات 38 1
52 محترم جاوید غامدی اور ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی کی توضیحات 39 1
53 غامدی صاحب کا تصور سنت 40 1
58 غامدی صاحب کے تصور سنت کے حوالہ سے بحث ومکالمہ 41 1
59 خودکش حملہ ۔ ڈاکٹر محمد فاروق خان کے ارشادات 42 1
60 حدیث وسنت ۔ غامدی صاحب کا موقف 43 1
61 ارباب علم ودانش کی عدالت میں ماہنامہ الشریعہ کا مقدمہ 44 1
62 حامد میر کی سیاسی چاند ماری 45 1
63 آزادانہ بحث ومباحثہ اور ماہنامہ الشریعہ کی پالیسی 46 1
64 رائے کی اہلیت اور بحث ومباحثہ کی آزادی 47 1
65 بیگم نسیم ولی خان کی یاد دہانی کے لیے 48 1
66 فاروق ستار کے مغالطے 49 1
67 نجم سیٹھی اور اسلامی نظریہ سے وفادای کا حلف 50 1
68 الشریعہ بنام ضرب مومن 51 1
69 ایک نظر ادھر بھی 51 68
70 علمی وفکری مسائل میں طرز عمل 51 68
71 طرز تکلم اور اسلوب بیان 51 68
72 معاشرتی وسماجی تعلقات 51 68
73 مشترکہ سیاسی وتحریکی جدوجہد 51 68
74 بعض مسائل کے حوالے سے امام اہل سنتؒ کا موقف 52 1
75 ڈاکٹر امین صاحب کے خیالات 53 1
76 اختلاف رائے کے دائرے، حدود اور آداب 54 1
77 الشریعہ اور ہائیڈ پارک 55 1
78 اسلام اور ریاست ۔ غامدی صاحب کے حالیہ مضمون کا جائزہ 56 1
79 خلیفہ کی اصطلاح اور غامدی صاحب کا موقف 57 1
80 ’’اسلام کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟‘‘ 58 1
Flag Counter