حیوانات کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم کا رحیمانہ سلوک
مفتی محمد مجیب الرحمن دیودرگی
اس دور میں جب کہ مسلمانوں کی شبیہ بگاڑ کر پیش کرنے کی سعی نا مسعود کی جارہی ہے، مسلمانوں کو مسیحا کے بجائے قاتل، صلح پسند کے بجائے جنگ جو، امن پسند کے بجائے شدت پسند کے عنوان سے متعارف کرنے کی پیہم کوشش جاری ہے، ناقدین اسلام واعدائے اسلام کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ مسلمان کبھی شدت پسند وجنگ جو ہو ہی نہیں سکتا، کیوں کہ اس کا رشتہ ایسے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے ملتا ہے، جو صرف انسانیت ہی کے لیے نہیں؛ بلکہ سارے عالموں کے لیے رحمت بنا کر مبعوث کیے گئے ہیں، جن کی رحمت کا اثر صرف انسانوں تک ہی محدود نہ تھا؛ بلکہ اس سے متجاوز ہو کر آپ کا سایہ عاطفت ورحمت چرند پرند حیوانات تک کے لیے عام تھا، جہاں آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی تعلیمات کے ذریعہ جانوروں کے ساتھ نرمی کی ہدایات دیں، وہیں عمل کے ذریعہ بھی جانور کے ساتھ رحم وکرم کا معاملہ کرکے دکھا یا، آج جب کہ جانوروں کے حقوق کے تحفظ کی خاطر کئی تنظیمیں بیدار ہورہی ہیں، کئی حکومتیں جانوروں کے تحفظ کے لیے سرگرم مہمیں چلارہی ہیں، جانوروں کے حقوق کی رعایت نہ کرنے والوں کے لیے کڑی سے کڑی سزائیں تجویز کی جارہی ہیں، ان قوانین کے پامال کرنے والوں کو قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑرہی ہیں، قربان جائیے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم پر! جنہوں نے آج سے چودہ صدی قبل حیوانات کے حقوق کے تحفظ اور ان کی حمایت کا اعلان فرمایا، آپصلی الله علیہ وسلم نے جانور کو بھوکا رکھنے، اسے تکلیف دینے، اس پر سکت سے زائد بوجھ لادنے سے منع فرمایا، نیز جانور کو نشانہ بنانے، جانور پر لعنت کرنے والے کو مجرم قرار دیا، جانوروں کی تکلیف دہی کو آپ صلی الله علیہ وسلم نے قساوتِ قلبی میں سے شمار کیا ۔
جانور کے ساتھ رحم وکرم ان کے ساتھ نرمی کے بے شمار واقعات کتابوں میں مذکور ہیں، لیکن ہم چند واقعات واقوال کے نقل پر اکتفا کرتے ہیں۔
نشانہ بازی
زمانہٴ جاہلیت میں جانوروں کو تکلیف دہی کی رائج صورتوں میں ایک اہم صورت زندہ جانور کو نشانہ بازی کے لیے مقرر کرنا تھا، غور کیجیے زندہ جانور کو جب تیروں کے ذریعہ چھلنی کیا جاتا ہوگا تو کس قدر اسے تکلیف ہوتی ہوگی؟! آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا، ایک دفعہ ابن عمر رضي الله عنه قریش کے چند نوجوانوں کے پاس سے گذرے؟ جو ایک زندہ پرندہ کو لٹکا کر نشانہ بازی کررہے تھے، وہ ابن عمررضي الله عنه کو دیکھ کر متفرق ہوگئے، ابن عمر رضي الله عنه نے ان سے دریافت کیا یہ کس نے کیا ہے، اس فعل کے مرتکب پر اللہ کی لعنت ہے۔پھر ابن عمر رضي الله عنه نے آپ صلى الله عليه وسلم کا قول نقل کیا، اللہ کی لعنت اس شخص پر ہے جس نے نشانہ بازی کے لیے ذی روح کو استعمال کیا۔(مسلم: 958، باب صبر البہائم) ایک دفعہ ابن عمر رضي الله عنه یحیی بن سعید رضي الله عنه کے پاس آئے تو بنی یحیی کا ایک غلام مرغی کو باندھ کر نشانہ بازی کررہا تھا، ابن عمر رضي الله عنه نے اس مرغی کو کھول دیا، پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے، اس بچے کو ڈراوٴ اوراس طرح پرندہ کو قید کرکے قتل کرنے سے روکو، اس لیے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے جانوروں کو قید کرکے قتل کرنے سے منع فرمایا ہے۔(بخاری: 5514 مایکرہ من المثلة)
پرندہ اور اس کے والدین میں جدائی
اولاد سے فطری محبت جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں ودیعت کررکھی ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے یہ جذبہ جانوروں کو بھی عطا کیا ہے، بعض طاقت ور جانور تو اولاد کی جدائی پر حملہ آور بھی ہوجاتے ہیں؛ لیکن جو جانور کمزور ہو، اولاد سے وہ جدائی کے غم میں گھٹ جاتا ہے، اسی طرح کا ایک واقعہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے سفر میں پیش آیا، ابن مسعود رضي الله عنه فرماتے ہیں، ہم سفر میں تھے، آپ صلی الله علیہ وسلم کسی ضرورت کے لیے تشریف لے گئے، اتنے میں ہم نے ایک سرخ پرندے کو اس کے چوزوں سمیت دیکھا، لہٰذا ہم نے بچوں کو اٹھالیا، ان چوزوں کی ماں آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنے بازپھیلا کر کچھ کہنے لگی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے پوچھا کس نے اس پرندے کے بچوں کو اس سے جدا کر کے تکلیف دی ہے؟اس کے بچوں کو لوٹا دو۔ (ابوداوٴد:3675،کراہیةاحراق العدو بالنار)
مثلہ کی ممانعت
جانوروں کو زندہ رکھ کر اگر اس کے اعضاء وجوارح کو کاٹا جائے تو اسے کتنی تکلیف ہو گی؟ اس کا اندازہ کرنا دشوار ہے، جانوروں کو جن ذرائع سے تکلیف دی جاتی اسی میں ایک طریقہ زمانہٴ جاہلیت میں مثلہ کا بھی رائج تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس طریقہ کار کی مذمت کی اور اس کے مرتکب پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ، جس شخص نے جانور کا مثلہ کیا اس پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے لعنت فرمائی۔(بخاری: 5515مایکرہ من المثلة) ایک دفعہ مثلہ زدہ گدھا آپ صلی الله علیہ وسلمکے قریب سے گذرا تو آپ علیہ الصلاة والسلام نے اس کے مرتکب پر لعنت فرمائی۔ (مسلم: 2117 باب النہی عن ضرب الحیوان فی وجہہ)
جانوروں پر احسان مغفرت کا ذریعہ
کسی کی ضرورت کی تکمیل، کسی کی تکلیف کا دفعیہ، جس طرح اس کی ضرورت انسانوں میں پائی جاتی ہے، اسی طرح جانور بھی احسان کے مستحق ہوتے ہیں، بلکہ بے زبان جانور انسانوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی احسان کے مستحق ہوتے ہیں، کیوں کہ وہ اپنی تکلیف بیانی کے لیے زبان نہیں رکھتے، لہٰذا آپ صلی الله علیہ وسلم نے جہاں انسانوں کے ساتھ احسان کی تعلیم دی، وہیں جانوروں کے ساتھ بھی احسان کی ترغیب دی، بلکہ بعض خصوصی مواقع پر جانوروں کے ساتھ احسان کو مغفرت کا مستحق قرار دیا، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ایک راہ رو پیاس سے بیتاب ہوکر کنویں میں اتر کر پانی پی لیتا ہے، جب کنویں سے باہر نکلتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک کتا پیاس کی شدت سے مٹی کھارہا ہے، اس شخص نے محسوس کیا کہ یہ کتا بھی میری ہی طرح پیاسا ہے، لہٰذا وہ شخص کنویں میں اترا اور اپنے موزے میں پانی بھر لیا، اور کتے کو سیراب کیا اور اس خدمت پر اللہ نے اس بندہ کی قدر دانی کی، نیز اللہ تعالیٰ نے اس کی مغفرت کردی۔ صحابہ کرام نے سوال کیا؟ کیا ہمیں جانوروں پر بھی احسان کرنے سے اجر ملے گا؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ہر ذی روح پر احسان کرنے سے اجر ملے گا۔ (بخاری: 6009، باب رحمة الناس والبہائم) اس سے تعجب خیز واقعہ وہ ہے جو ابوہریرةرضي الله عنه سے مروی ہے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ایک دفعہ پیاس کی شدت سے ایک کتا کنویں کے اردگرد گھوم رہا تھا، قریب تھا کہ پیاس کی وجہ سے وہ ہلاک ہوجائے، اچانک ایک گناہ گارعورت، جو بنی اسرائیل کی تھی، اس عورت نے اپنے موزے کو نکالا، اور کتے کو پانی پلادیا، اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی مغفرت فرمادی۔ (بخاری:3467) غور کرنے کا مقام ہے ایسے جانورکے ساتھ رحم کرنے کو آپ صلی الله علیہ وسلم نے مغفرت کا ذریعہ قرار دیا ہے ، جسے بعض علماء نے نجس العین تک قرار دیا ہے، بعض علماء نے اگر کتا برتن میں منھ ڈال دے تو سات آٹھ دفعہ برتن کو دھونے کا حکم دیا ہے، اس کے بالمقابل جانوروں کے ساتھ بُرا سلوک بعض دفعہ انسانوں کو جہنم میں بھی لے جاتا ہے، ایک عورت ایک بلی کو تکلیف دینے کی وجہ سے جہنم میں چلی گئی، اس عورت نے بلی کو باندھ دیا تھا،اس کو نہ کھلاتی تھی اور نہ ہی اس کو چھوڑ تی تھی کہ باہر وہ اپنی غذا کا انتظام کرسکے، حتی کہ وہ کمزور ہوگئی اور مر گئی۔(مسلم: 2619)
جانوروں کے ساتھ نرمی کا معاملہ
نہ صرف یہ کہ آپ صلی الله علیہ وسلم خود بھی نرمی کا برتاوٴ کرتے تھے، بلکہ حضرات صحابہ کرام رضي الله عنهم کو بھی اس کی تلقین فرماتے، ایک دفعہ ایک اونٹ بدک گیا، صحابہ کرام رضي الله عنهم کے لیے اس اونٹ کو سنبھالنا دشوار ہوگیا، آپ صلی الله علیہ وسلم اس باغ میں داخل ہوئے جس میں یہ اونٹ تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم اونٹ کی طرف بڑھ رہے تھے، تو صحابہ کرا م رضي الله عنهم نے کہا یہ اونٹ کٹ کھنے کتے کی طرح ہوگیا ہے، یہ آپ پر حملہ آور ہوسکتا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: گھبرانے کی کوئی بات نہیں، جب آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس اونٹ پر نظر التفات کیا تووہ اونٹ سجدہ ریز ہوگیا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کی پیشانی پکڑی اور اسے کام پر لگادیا، یہ دیکھ کر صحابہ کرام رضي الله عنهم کہنے لگے، جب جانور آپ کو سجدہ کرسکتا ہے، ہم انسان ہو کر آپ صلی الله علیہ وسلم کو سجدہ کیوں نہ کریں؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: کسی انسان کے لیے سجدہ درست نہیں، اگر کسی انسان کے لیے سجدہ درست ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔(مسند احمد: 12614)
ایک دفعہ آپ صلی الله علیہ وسلم باغ میں داخل ہوئے، وہاں ایک اونٹ تھا، اس نے جیسے ہی آپ صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا تو وہ رونے لگا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کے آنسو پونچھے، وہ خاموش ہوگیا، آپ صلی الله علیہ وسلمنے اس کے مالک کے سلسلہ میں دریافت کیا تو ایک انصاری صحابی نے کہا کہ میں اس کامالک ہوں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس جانور کے سلسلہ میں اللہ سے نہیں ڈرتے، جس کا اللہ نے تمہیں مالک بنایا ہے، اس سے کام زیادہ لیتے ہو، اور بھوکا رکھتے ہو۔ (ابوداوٴد:2549)
ذبح میں احسان کا پہلو
جانور بھی بڑی حساس طبیعت کے مالک ہوتے ہیں، وہ بھی آثار وقرائن سے پتہ لگالیتے ہیں کہ اب ان کے ساتھ کیا معاملہ ہونے والا ہے؛ اسی لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے جانور کے سامنے چاقو وغیرہ تیز کرنے سے منع کیا، اس سے جانور کو گھبراہٹ ہوگی، نیز آپ صلی الله علیہ وسلم نے ذبح میں احسان کے پہلو کو اپنانے کی بھی ترغیب دی کہ جانور کو مکمل طور پر ذبح کیا جائے، کہیں اسے تڑپتا ہوا نہ چھوڑے، آپ صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے: اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں احسان کو لازم کیا ہے، جب تم قتل کرو تو اچھے انداز میں قتل کرو، جب تم ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو، چھری کو تیز کر لیا کرو اور مذبوح کو راحت پہنچاوٴ۔(مسلم : 1955)
ایک صحابی نے فرمایا: یا رسول اللہ! میں بکری کو ذبح کرتا ہوں ،اس پر رحم بھی آتا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم نے بکری پر رحم کیاتو اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے گا۔(مسند احمد: 15592)
ابن عباس رضي الله عنه فرماتے ہیں: ایک صحابی جانور کو لٹا کر چھری تیز کرنے لگے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تم اس جانور کو کئی موتوں سے مارنا چاہتے ہو؟ اِسے لٹانے سے قبل ہی چھری کیوں نہ تیز کی؟(مستدرک حاکم: 7563)
ابوامامہ رضي الله عنه فرماتے ہیں: جس نے مذبوحہ چڑیا ہی پر رحم کیوں نہ کیا ہو اللہ تعالیٰ روز محشر اس پر رحم فرمائیں گے۔ (طبرانی کبیر: 7915)
نیز آپ صلی الله علیہ وسلم نے جانور پر لعنت کرنے سے بھی منع فرمایا، ایک سفر میں ایک صاحب جانور پر لعنت کرنے لگے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اس اونٹنی پر لعنت کی ہے وہ ہمارے ساتھ نہ آئے۔ (مسند احمد: 19765)
الغرض آپ صلى الله عليه وسلم کی زندگی جانوروں پر رحم کے واقعات سے بھر ی پڑی ہے، یہ چند نقول ہیں ،جن سے ہمیں عبرت ونصیحت حاصل کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم خلقِ خدا کے ساتھ رحم وکرم کا معاملہ کریں۔