Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1436ھ

ہ رسالہ

3 - 17
خیر و شر کی تمیز کا فقدان

مولانا سید محمد واضح رشید حسنی ندوی
	
مغربی مفکرین کا ایک نظریہ ہے جس کو عالم اسلام کے مغرب زدہ لوگوں نے آنکھ بند کر کے قبول کر لیا ہے کہ عہد وسطیٰ ظلم و تشدد کا عہد تھا ،سختیاں تھیں ، پابند یاں تھیں ،بندشیں تھیں ،آمرانہ نظام تھا ،نہ آزادی تھی اور نہ آزادی کا نام اورنہ آزادی سیاسی معاملات میں حصہ لینے کی ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں شخصی حکومتیں قائم تھیں اور یہ شخصی حکومتیں یورپ میں بھی تھیں اور ایشیا میں بھی اور افریقہ میں بھی ،اس وقت دولت کے حصول اور معیار زندگی کو بلند کرنے کے ایسے مواقع حاصل نہیں تھے جو آج کے صنعتی عہد میں کمپنیوں اور فیکٹریوں کی کثرت اور تجارت کے پھیلاؤ کی وجہ سے حاصل ہیں اور سرمایہ کاری کے لیے تنظیموں کے قیام اور علمی اور فنی ماہرین کی کثرت اور قوت خرید ،درآمد برآمد کی سہولت ،علم و فن کی ترقی ،ایک ملک سے دوسرے ملک جانے کی آسانیاں جو اس وقت میسر ہیں وہ پہلے نہیں تھیں ،موجودہ تہذیب کی یہ ایک بڑی کام یابی ہے، جس میں وہ عہد ماضی سے بہتر ہے،لیکن انسانی زندگی کو بحیثیت انسانی زندگی دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان تمام سہولتوں اور عصر حاضر کی کام یابیوں اور صنعتی ترقیوں اور معیار زندگی کی بلندی کے باوجود انسان پریشانیوں ،پابندیوں اور جبر و قہر سے آزاد نہیں ہوسکا، بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوا ہے ،ہاں! پریشانیوں کے نام اور شکلیں ضرور بد ل گئی ہیں۔

حقیقت حال کی واقفیت کے لیے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی وہ رپورٹس کافی ہیں ،جو وقتاً فوقتاً شائع ہوتی رہتی ہیں، جو موجودہ دنیا میں انسانی حقوق کی صورت حال بیان کرتی ہیں ،یہ رپورٹیں ایک آئینہ کے مانند ہیں ،جس میں بآسانی موجودہ عہد کی شکل دیکھی جاسکتی ہے ،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ظلم واستبداد ،بیجا مداخلت ،بنیادی حقوق سے محرومی اور رنگ و نسل کے اختلاف،سیاسی فکر و نظر کی ناموافقت اور طرز معاشرت کے فرق کی وجہ سے ایک قوم دوسری قوم کے ساتھ ،ایک طبقہ دوسرے طبقہ کے ساتھ ،ایک حکومت اپنے عوام کے ساتھ کس کھلی جارحیت کا مظاہرہ کر رہی ہے،اس کے لیے بہت زیادہ غور و خوض اور کسی گہری نظر کی ضرورت نہیں ؛بلکہ اس کے ادراک کے لیے عقل عام کافی ہے۔

مسلح کشمکش ،انسانی لہو کی ارزانی ،پر تشدد کارروائیاں پوری دنیا میں عام ہیں ۔چھوٹی بڑی طاقتوں کے ہاتھ اس سے رنگین ہیں ،اس کی زندہ مثال پناہ گزینوں کا ایک ملک سے دوسرے ملک کو ہجرت کرتا ہوا یہ سیلاب بلا ہے، جو بڑھتا جارہاہے اور اس کے لیے اقوام متحدہ کا ایک مستقل ادارہ ہے ،جن کی تعداد قدیم عہد کی پوری دنیا کی آبادی کے برابر ہوگئی ہے ،باصلاحیت ،اہل لیاقت اور جنییس لوگ اپنے اپنے ملکوں میں آزاد نہیں ہیں ،ان کی بڑی تعداد دوسرے ملکوں میں آباد ہونے پر مجبور ہوتی ہے ،سیاست دانوں ،دانش وروں اور سابق وزیروں کو اپنی جانوں کا خطر ہ ہے اور اپنے وطن میں انہیں عدم تحفظ کا احساس ہے ،انسان کو اذیت پہنچانے کے لیے زہریلی گیس اور ہلاکت خیز ہتھیاروں کا عام رواج ہے اور اس زہریلے مادہ کے لیے بڑے بڑے کارخانے قائم ہیں ،ناتواں لوگوں پر یلغار موجودہ دنیا کی ایک عام سی بات ہے ، سیا سی اور اجتماعی دونوں میدانوں میں اس کا یکساں مظاہرہ کیا جارہا ہے، تاریخ سے اگر کسی کو کچھ بھی لگاؤ ہے تو وہ اس بات کی تصدیق کرنے پر مجبور ہوگا کہ آج اقتدار وقوت کے حصول کے لیے جائز و ناجائز جو وسائل اختیار کیے جاتے ہیں ،ان سے قدیم دنیا ناواقف تھی اور عوام اسی طرح بے بس ہیں ،جس طرح قدیم عہد میں تھے ۔

جو ممالک پس ماندہ و کمزور ہیں انہیں جس انداز میں مختلف قسم کی پریشانیوں اور سیاسی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ،اس کی مثال ماضی کی تاریخ میں نہیں ملتی ،اس دباؤ کے لیے انوکھی تدبیریں اختیار کی جاتی ہیں، جن سے ظلم کرنے والا اپنی کار روائی کا جواز تلاش کر لیتا ہے، ان کی سازشوں سے انقلاب رونما ہوتے ہیں ،حکومتیں بدلی جاتی ہیں ،ارباب حکومت بدلے جاتے ہیں، ملک کی سیاسی پالیسی بدلی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ انقلاب عوام کی مرضی سے عمل میں آیا ہے، حالاں کہ عوام کا کوئی تعلق اس سے نہیں ہوتا ۔

نئی طاقت بر سر اقتدار آتی ہے تو اگلوں کے کام اور ان کی پالیسی کو یک قلم منسوخ کر دیتی ہے اور ان کے آثار تک کو محو کر دینے پر تل جاتی ہے،ان کے ہر اقدام پر لعن طعن کی بارش کی جاتی ہے اور ملک کو ایک نئی جہت پر ڈالنے کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے ،حکام فرضی انتخاب میں بڑی اکثریت سے منتخب ہوتے ہیں ، جیل خانوں کو پرانے قیدیوں سے خالی کر کے نئے قیدیوں سے بھرا جاتا ہے ، قیدیوں کو جن میں اہل علم و دانش اور اہل فکر اور اہل ثروت اور مصلح ہوتے ہیں ،سخت جسمانی اذیتیں دی جاتی ہیں ،اکثر جھوٹے الزامات لگا کر جبراً ان سے اعتراف جرم کروا کر ان کو موت کی سزا دے دی جاتی ہے۔ غارت گری ،جنگوں اور حملوں کا سلسلہ ہر دور میں رہا اور اس دور میں بھی ہے، لیکن پنا ہ گزینوں کے خیموں پر حملوں اور اپنے گھروں میں میٹھی نیند سونے والوں کا بے دریغ قتل ، لڑکوں اور شیر خوار بچوں، حتی کہ شکم مادر میں معصوم جانوں کو یک لخت ختم کردینے کا جنون ،خدا کے حضور میں سجدہ ریز بے گناہ بندوں کا اجتماعی قتل اور تجارتی مرکزوں ،فیکٹریوں اور کارخانوں میں نذر آتش کرنا اور لوگوں کو زندہ جلا دینا ،عبادت خانوں اور مسجدوں کا غاصبانہ انہدام، کتب مقدسہ کی بے حرمتی اور محض عقیدہ کے اختلاف ،فکر و نظر کی نا اتفاقی کی وجہ سے مختلف قبیلوں اور قوموں کا علم و فن اور ذرائع معاش سے محرومی ،رنگ و نسل کی بنیادوں پر امتیازی سلوک، جس طرح اس زمانہ میں عام ہے قدیم زمانہ میں اتنا عام نہ تھا اور آج کی طرح اس زمانہ کی حکومتیں اور بڑی طاقتیں ان ظا لمانہ اقدار پر اس طرح ایمان نہیں رکھتی تھیں جس طرح آج کی تر قی یافتہ اور حریت و مساوات کی علمبردار طاقتیں نہ صرف یہ کہ ایمان رکھتی ہیں ؛بلکہ ان کو برت رہی ہیں اور دوسری طرف عہد و سطیٰ کا بنظر حقارت جائز ہ بھی لیتی رہتی ہیں۔

ہمیں یہ تسلیم ہے کہ علم و فن اور صنعت و حرفت کے امکان اس عہد میں بہت وسیع ہیں ،لیکن اس علم و فن اور صنعت گری سے انسانیت کی تعمیر کے بجائے اس کی تخریب کازیادہ کام لیا جارہا ہے ،اگر کسی کو یقین نہ ہوتو مختلف ملکوں میں دفاع کے وسائل پر جو کچھ خرج کیا جارہا ہے اس کو دوسرے رفاہی کاموں پر خرچ ہونے والے اخراجات سے موازنہ کر کے دیکھ لے۔

بڑی طاقتیں عالمی مسائل میں یہ کہہ کر دراندازی کرتی ہیں کہ طاقت کے توازن میں فرق آرہا ہے اور اس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو باور کرائیں کہ کسی بھی علاقہ سے ان کے انخلا کے نتیجہ میں عدم توازن کا خطرہ ہے؛لیکن یہ بھی کسی سے مخفی نہیں کہ ان کی ہر ادا کسی نہ کسی سیاسی مصلحت اور اندرونی داؤ پیچ کا نتیجہ ہوتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ جہاں ان کی شدت سے ضرورت محسوس کی جاتی ہے وہاں ان کا کوئی کارندہ بھی نہیں پہنچتا اور جہاں ان کی قطعی ضرورت نہیں ہوتی وہ بن بلائے مہمان کی طرح آموجودہ ہوتی ہیں، ظالم ظلم کا جواز تلاش کر لیتا ہے اور اپنے ظلم کو مدد اور نجات دہندگی کا نام دیتا ہے اور مظلوم اپنی مظلومیت کا رونا روتا رہتا ہے اور اس کی دادرسی کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا ۔

بڑی طاقتوں کا یہ نفاق اور کھلا تضاد بوسنیا اور ہرزے گوینا کے سلسلہ میں کھل کر سامنے آیا ،سوڈان ،صومالیہ،افغانستان اور برماکے سلسلہ میں بھی ان کی پوزیشن دیکھنے میں آئی ،امریکہ کے کمرشل سینٹر میں دھماکہ کے سلسلہ میں امریکہ کی داد ا گیری بھی دنیا نے دیکھی اور عراق ،تونس ،لیبیا ،مصر اور شام کے سلسلہ میں ان بڑی طاقتوں کا موقف دنیا دیکھ رہی ہے۔

عالمی مسائل کی سنگینی اور ان کی ژولیدگی کی وجہ صرف یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں کوئی غیر جانب دار طاقت ،کوئی نیو ٹرل تنظیم اور کوئی انصاف پرور نظام قائم نہیں ہے، جو اصول و انصاف کی بنا پر عالمی مسائل میں ثالثی کرے اور ظالم کو ظلم کرنے سے روک دے اور مظلوم کی اشک شوئی کرے ،یہ ایک ایسی صورت حال ہے جو پوری انسانیت کے لیے زبر دست خطرہ کا پیش خیمہ بنتی جارہی ہے۔

اقوام متحدہ کی یہ حیثیت تھی کہ وہ عالمی مسائل میں ثالثی کے فرائض انجام دے، لیکن افسوس کہ وہ ان بڑی طاقتوں کے ہاتھوں میں ایک آلہ کار سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی، جو آپس میں ایک بلاک کی حیثیت رکھتی ہیں اور جن کے مصالح مشترک ہیں اور ایک ہی نظر یہ کے حامل ہیں کہ کسی طرح نوع بشری کے مصائب سے فائدہ اٹھا کر ان کو دست نگر بنایا جائے اور سیاسی فائدہ اٹھایا جائے۔

انسانیت کا کوئی مسئلہ اس وقت تک حل نہیں ہو سکتا جب تک کہ کوئی ایسی طاقت سامنے نہیں آتی جو غیر جانب دار اور انصاف پرور ہونے کے ساتھ تمام مادی اغراض سے بالا تر ہو اور عالم انسانی کی مشکلات کے سامنے سینہ سپر ہوجائے اور کسی ظالم کے سامنے کسی چٹان کی طرح جم جائے۔

دنیا کی موجودہ حالت بد سے بد تر ہوتی جارہی ہے، آج مغرب زدہ اور روشن خیال طبقہ موجودہ تہذیب و تمدن کی ترقیوں کا چاہیے جس قدر دعویٰ کرے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ قبائلی اور نسلی امتیاز کا منحوس سایہ امریکہ، یورپ اور افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں پر آج بھی مسلط ہے اور سفیدفام نسل بڑی طاقتوں کی شہ پر دوسری نسلوں کا استحصال کر رہی ہے ۔

موجودہ یورپ کا سیکولرازم بھی بے نقاب ہو گیا ہے ،دینی انتہا پسندی اس وقت پورے یورپ میں عام ہے، اس نے ساری دنیا کا چہر ہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے ۔اور ان کے نقوش و خطوط مٹا دیے ہیں اور ان پر اپنا عقیدہ ،اپنی زبان ،اپنا کلچر تھوپنے کی کوشش کی جارہی ہے ،کھل کر مسیحیت کی ترویج کی جارہی ہے ،ہر کس و ناکس سمجھ سکتاہے جو بھی عیسائی مشنریوں کی تعداد پر ایک طائرانہ نظر ڈالے گا اور پوپ کے دوروں کا جائزہ لے گا اور ان کے بیانات دیکھے گا اور مشنری نظام کے بجٹ پر اور ان کے بچھائے ہو ئے جال پر غور کرے گا وہ اس کو تسلیم کرے گا کہ یہ مشنری نظام،یہ ہول ناک جنگیں اور یہ خون ریزیاں سب امریکہ ،برطانیہ ،روس ،فرانس اور یورپی ممالک کی تائید سے جاری ہیں اور ان خونی ڈراموں اور انسانیت کو اس بڑے پیمانے پر غلام بنانے کے اقدامات متمدن طاقتوں کی کارستانی ہے ۔

موجودہ دنیا آتش فشاں کے دہانے پر کھڑی ہے ،اخلاقیات، ،دیانتدارانہ معاملات سب کے سب رخصت ہوگئے ہیں ،ساری دنیا ایک نظام کی غلامی میں مبتلا ہو رہی ہے ،ذرائع ابلاغ تک اب آزاد نہیں ،زراعت اور صنعت ،تعلیم بھی مغربی حکومتوں کی تابع داری میں ہیں، اس کے باوجود مغربی تہذیب کی تقدیس اور اس کی ثنا خوانی ترقی پسند کاشعار ہے ،اس لیے کہ خیر و شر کی تمیز جاتی رہی ہے اور عزت نفس کا وجود نہیں ہے۔

Flag Counter