Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1436ھ

ہ رسالہ

13 - 17
قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ

شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مہاجر مدنیؒ
	
مرض الموت میں کھڑے ہو کر نماز پڑھنا
حضرت گنگوہی  کے متعلق تذکرة الرشید میں لکھا ہے کہ اپنے معاملہ میں آپ کا تقویٰ واحتیاط اس قدر تھا کہ مسئلہ مختلف فیہا میں قول راجح پر اقرب الی الاحتیاط فرماتے تھے، باوجود ضرورت کے احتیاط کو ہر گز نہیں چھوڑتے تھے، آپ کی احتیاط کی ادنیٰ مثال یہ ہے کہ آپ نے اپنے امراض میں، کیسا ہی شدید مرض کیوں نہ ہو، کبھی بیٹھ کر نماز نہیں پڑھی۔ مرض الموت میں جب تک اس قدر حالت رہی کہ دو آدمیوں کے سہارے سے کھڑے ہو کر نماز پڑھ سکے، اس وقت تک اس طرح پڑھی کہ دو تین آدمیوں نے بڑی مشکل سے اٹھایا اور دونوں جانبوں سے کمر میں ہاتھ ڈال کرکھڑے ہو گئے اور قیام ورکوع وسجود انہیں کے سہارے سے نماز ادا کی۔ ہر چند خدام نے عرض کیا کہ حضرت بیٹھ کر نماز ادا کر لیجیے، مگر نہ کچھ جواب دیا، نہ قبول فرمایا۔

ایک روز مولوی محمد یحییٰ صاحب رحمہ الله نے عرض کیا کہ حضرت اگر اس وقت میں بھی جائز نہیں تو وہ کون سا وقت او رکون سی حالت ہو گی جس میں بیٹھ کر نماز پڑھنا شرعاً جائز ہے؟ آپ نے فرمایا کہ قادر بقدرةالغیر تو قادر ہوتا ہے اورجب میرے دوست ایسے ہیں کہ مجھ کو اٹھا کر نماز پڑھاتے ہیں تو میں کیوں کر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہوں۔ آخر جب نوبت ضعف اس قدر پہنچ گئی کہ دوسروں کے سہارے بھی کھڑے ہونے کی قدرت نہ رہی تو اس وقت چند وقت کی نمازیں آپ نے بیٹھ کر پڑھیں؟ گویا بتلا دیا کہ اتباع شرع اس کو کہتے ہیں ۔ تقویٰ اس کا نام ہے ۔ اختیار احوط اس طرح ہوتا ہے۔ ( تذکرة الرشید، ص:4-2)

بینائی کی خاطر ایک سجدہ بھی تکیہ پر گوارا نہیں
مفتی محمود صاحب نے بروایت اپنے والد صاحب  حضرت قطب العالم مولانا گنگوہی  کا ایک واقعہ بیان فرمایا کہ نزول آب کے بعد حضرت سے آنکھ بنوانے کے لیے عرض کیا گیا تو آپ نے انکار فرما دیا۔ ایک ڈاکٹر صاحب نے وعدہ کیا کہ حضرت کی کوئی نماز قضا نہ ہونے دوں گا۔ فجر اول وقت اور ظہر آخر وقت میں پڑھ لیں۔ البتہ چند روز تک سجدہ زمین پر ادا نہ فرمائیں اور نماز میں تکیہ رکھ کر اس پر سجدہ کر لیں۔

اس پر ارشاد فرمایا کہ چند دن کی نمازیں تو بہت ہوتی ہیں۔ ایک سجدہ بھی اس طرح گوارا نہیں۔ کسی خادم نے عرض کیا کہ حضرت درسِ حدیث دیتے تھے، اب یہ فیض بندہوگیا ہے ۔ آنکھ بنوانے سے پھر یہ فیض جاری ہو جائے ۔ اس پر ارشاد فرمایا: اس میں میرے کسی عمل کو کیا دخل ہے ؟ جب تک قدرت نے چاہا جاری رہا، جب چاہا بند ہو گیا۔ پھر کسی نے عرض کیا کہ حضرت اس میں حرج ہی کیا ہے ؟ فرمایا: حدیث شریف میں بصارت سلب ہونے پر جنت کی بشارت ہے، مجھ کو یہ نعمت ملی ہے، میں اس کو کیوں ضائع کروں؟ چناں چہ آخر تک آنکھ نہ بنوائی۔

درس بند ہوجانے پر ہدیہ لینے میں تقویٰ
حضرت تھانوی کا ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ مولانا گنگوہی نے حدیث کا درس اپنے ہاں گنگوہ میں جاری کر رکھا تھا ،وہ سب توکل پر تھا، چناں چہ وہ درس جب بند ہوا ( کیوں کہ مولانا کی بینائی جاتی رہی تھی) تو اس کے بعد جب کبھی باہر سے بڑی بڑی رقمیں آتیں تو مولانا سب واپس کردیتے کہ اب درس نہیں رہا۔ بعض لوگوں نے مولانا کو رائے دی کہ حضرت رقم واپس کیوں کی جائے؟ صاحب رقم سے کسی دوسرے مصرفِ خیر کی اجازت لے کر اس میں صرف فرما دیجیے گا۔ حضرت نے فرمایا کہ میں لوگوں سے کیوں اجازت لیتا پھروں؟!

مُرید بھی پیر کو تیرالیتا ہے
حضرت گنگوہی نور الله مرقدہ کے متعلق مولانا عاشق الہیٰ صاحب  لکھتے ہیں کہ سچی تواضع اور انکسار نفس جتنا امام ربانی میں دیکھا گیا دوسری جگہ کم نظر سے گذرے گا۔ حقیقت میں آپ اپنے آپ کو سب سے کم سمجھتے تھے اور بہ حیثیت تبلیغ جو خدمتِ عالیہ آپ کے سپرد کی گئی تھی یعنی ہدایت اور رہبری اس کو آپ انجام دیتے۔ بیعت فرماتے، ذکر وشغل بتلاتے، نفس کے مفاسد وقبائح بیان فرماتے اور معالجہ فرماتے، مگر بایں ہمہ اس کا کبھی وسوسہ آپ کے قلب پر نہیں گذرتا تھا کہ میں عالم ہوں اور یہ جاہل ہیں، میں پیر ہوں اور یہ مرید ہیں ، میں مطلوب ہوں اور یہ طالب ہیں، مجھے ان پر فوقیت ہے اور میرا درجہ ان کے اوپر ہے ۔ کبھی کسی نے نہ سنا ہو گا کہ آپ نے اپنے خدام کو خدام یا متوسل یا منتسب کے نام سے یاد فرمایا ہو، ہمیشہ اپنے لوگوں سے تعبیر فرماتے اور دعا میں یاد رکھنے کی ضرورت اپنے لیے طالبین سے زیادہ ظاہر فرمایا کرتے کہ تم میرے لیے دعا کیا کرو ،میں تمہارے لیے دعا کروں۔ بعض مرید بھی پیر کو تیرالیتے ہیں۔

حضرت شیخ عبدالقدوس قدس الله سرہ کا حجرہ
دوسری جگہ لکھتے ہیں اپنے متعلق تواضع وانکسار کا یہ حال تھا کہ کبھی کسی تقریر سے اپنی خوبی کا کچھ بھی اثر ظاہر ہوا تو معاً اس کی تردید فرماتے اور اپنے سے اس انتساب کی نفی فرما دیا کرتے تھے۔ ایک بار حضرت شیخ عبدالقدوس کے خرقہ کا تذکرہ فرما رہے تھے کہ پچاس برس حضرت کے بدن پر رہا ہے۔ اس ضمن میں فرمایا: اسی حجرہ میں حضرت شیخ اور شیخ جلال الدین تھانیسری رہا کرتے تھے، بیچ میں دیوار حائل تھی تو کہاں تو فقیر کا یہ حال تھا اور اب اسی حجرہ میں دنیا بھری پڑی ہے۔

مجھ میں کوئی کمال نہیں
حضرت حکیم الامت تحریر فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت گنگوہی کی خدمت میں اپنے کچھ حالات لکھے، مولانا نے جواب میں تحریر فرمایا کہ بھائی! ہمیں تو اب تک بھی یہ حالات نصیب نہیں ہوئے۔ کیا ٹھکانہ ہے تواضع کا۔ پھر فرمایا کہ مولانا گنگوہی نے ایک جگہ قسم کھائی ہے کہ مجھ میں کوئی کمال نہیں ہے۔ بعض مخلص لوگوں کو اس سے شک ہو گیا کہ مولانا میں کمال کا ہونا تو ظاہر ہے تو اس قول سے مولانا کا جھو ٹ بولنا لازم آتا ہے ۔ پھر ہمارے حضرت حکیم الامت نے مولانا کے قول کی تفسیر میں فرمایا کہ بزرگوں کو آئندہ کمالات کی طلب میں موجودہ کمالات پر نظر نہیں ہوتی۔ بس مولانا اپنے کمالاتِ موجودہ کی کمالاتِ آئندہ کے سامنے نفی خیال فرماتے تھے۔

امام شافعی زندہ ہوتے تو ان کی تقلید کرتا
ایک مولوی صاحب نے مولانا کی تقریر سن کر جوش میں آکر فرمایا کہ آپ کے پاس آکر حدیث بھی حنفی ہو جاتی ہے۔ مطلب یہ تھا کہ آپ تو ہر حدیث سے حنفیہ کی تائید فرما دیتے ہیں او رحضرت امام شافعی  بھی اس وقت زندہ ہوتے تو اس کا جواب نہیں دے سکتے تھے۔ اس پر مولانا سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ کیا کہا؟ اگر امام شافعی زندہ ہوتے تو کیا میں ان کے سامنے بولتا بھی؟ اور بولتا تو کیا؟ میں تو ان کی تقلید کرتا اور امام ابوحنیفہ کی تقلید کو چھوڑ دیتا، کیوں کہ مجتہدحی کے ہوتے مناسب نہیں ہے کہ مجتہد غیر حی کی تقلید کی جائے۔ اور فرمایا: توبہ توبہ ، حضرت امام اگر تشریف فرما ہوتے تو میرا یہ طالب علما نہ شبہ ہوتا او رحضرت امام اس کا جواب دیتے۔ اب اس وقت امام ابوحنیفہ اور امام شافعی میں سے کوئی بھی موجود نہیں۔ ان کے اقوال ہم لوگوں کے سامنے ہیں اور اپنے علم کے موافق ترجیح دے لیتے ہیں۔

تم کو ذخیرہٴ آخرت جانتا ہوں
حضرت گنگوہی نور الله مرقدہ اپنے مکاتیب میں، جو مکاتیب رشیدیہ کے نام سے طبع ہوئے ہیں،حضرت سہارن پوری کے نام سفر حجاز سے تحریر فرماتے ہیں:
”آپ کا والا نامہ آیا۔ الفت کو یاد دلایا، تم کو ذخیرہٴ آخرت جانتا ہوں۔ تم قابلِ فراموش نہیں ہو۔ دعا کا طالب ہوں۔“

ایک او رخط میں حضرت سہارن پوری کو لکھتے ہیں:
”آپ کا خط آیا، حال معلوم ہوا۔ واردات رجوع الی الله تعالیٰ موجب فرحت ہیں، حق تعالیٰ کا نہایت شکر کرنا لازم ہے کہ بڑی نعمت کبریٰ ہے کہ بمقابلہ اس کے لاکھوں جہاں مثل پرپشہ بھی نہیں اور اس احقر کو تو نہایت ہی باعث شکر وافتخار ہے کہ اگر خود ایسی عطیات سے محروم ہے، بارے احباب کو عطاء متواتر ہے #
        در گور برم از گیسوئے تو تارے
        تا سایہ کند بر سرِ من روزِ قیامت

اپنا حال لکھ نہیں سکا
ایک اور خط میں مولانا روشن علی خان صاحب کو لکھتے ہیں کہ ” اپنا جو حال ہے لکھ نہیں سکتا، چند باتیں یاد ہیں اور بس۔ فقط۔“

کاش آپ کے حسنِ عقیدت کی وجہ سے مغفور ہو جاؤں
ایک اور خط میں مولانا موصوف کو لکھتے ہیں:
” حالات آپ لوگوں کے دریافت ہو کر خود شرمند ہ ومحجوب ہوں کہ آپ کو بندہ کے ساتھ یہ حسنِ عقیدت ہے اور خود ہیچ در ہیچ ہوں۔ کاش! آپ کے حسنِ عقیدت کی وجہ سے مغفور ہوجاؤں۔ حق تعالیٰ رحم فرمائے۔“

دور کی گالیاں
خاں صاحب امیر شاہ خان نے فرمایا کہ مولوی یحییٰ صاحب کاندھلوی فرمایا کرتے تھے کہ ایک مرتبہ مولانا گنگوہی نے فرمایا کہ مولوی یحییٰ صاحب احمد رضا خاں صاحب مدت سے میرا رد کر رہا ہے، ذرا اس کی تصنیف ہمیں بھی تو سنا دو۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت مجھ سے تو نہیں ہو سکے گا۔ حضرت نے فرمایا: کیوں؟ میں نے عرض کیا حضرت اس میں گالیاں ہیں ۔ حضرت نے فرمایا: اجی دور کی گالیوں کا کیا ہے، پڑی ( یعنی بلا سے) گالیاں ہوں۔ تم سناؤ آخر اس کے دلائل تو دیکھیں۔ شاید کوئی معقول بات ہی لکھی ہو، تم ہم ہی رجوع کر لیں۔“ میں نے عرض کیا: مجھ سے تو نہیں ہو سکتا۔

طلبہ کی جوتیاں
حضرت مولانا گنگوہی ایک مرتبہ حدیث کا سبق پڑھا رہے تھے کہ بارش آگئی۔ سب طلبہ کتابیں لے کر اندر بھاگے۔ مگر مولانا سب طلبہ کی جوتیاں جمع کر رہے تھے کہ اٹھا کر لے چلیں۔ لوگوں نے یہ حالت دیکھی تو کٹ گئے۔

Flag Counter