Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1436ھ

ہ رسالہ

16 - 17
عقیدہ ٴختم نبوت کے لیے اکابرین کی قربانیاں!

مولوی محمد زکریا ملک ،کراچی
	
﴿مَّا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُمْ وَلَکِن رَّسُولَ اللَّہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ وَکَانَ اللَّہُ بِکُلِّ شَیْْء ٍ عَلِیْما﴾(الاحزاب :40)
ترجمہ:”محمد باپ نہیں کسی کے تمہارے مردوں میں سے، لیکن رسول ہیں اللہ کے اور مہر سب نبیوں پر اور اللہ سب چیزوں کا جاننے والا ہے۔“ (ترجمہ شیخ الہند)

قال النبی صلى الله عليه وسلم:”انا خاتم النبین، لا نبی بعدی․“(الحدیث)

اسلام اللہ تعالیٰ کا آخری دین ہے ،آخری قانون سماوی اور آخری پیغام ہدایت ہے، جو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ آخری امت ،امت محمد یہ کو عطا کیا ہے ۔

جو لوگ کلمہٴ طیبہ”لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ “پڑھ کر دین اسلام میں داخل ہونے کاعہد کرتے ہیں ،ان کو دین اسلام کی ان تمام باتوں کا جاننا لازم ہو جاتا ہے جن کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم دی اور جن کا ثبوت تواتر سے ہوا ہے ،ایسے امور کو ضروریات دین کہا جاتا ہے ،پس تمام ضروریات دین کو جاننا شرط اسلام ہے اور ضروریات دین میں سے کسی ایک کا انکار کرنا دراصل کلمہ طیبہ کا انکار اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا انکار ہے ۔اس لیے جوشخص ضروریات دین میں سے کسی ایک کا انکار کرے یا ان میں شک و شبہ کا اظہار کرے یا ان کے متواتر معنی و مفہوم کو تسلیم نہ کرے تو ایسا شخص مسلمان نہیں، بلکہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔

امام العصر حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری  نے ایک مرتبہ فرمایا کہ:”طب کا مسئلہ ہے ،جس آدمی کو کوڑھ کی بیماری لگ جائے ،اس کو جتنی بھی لذیذ اور طاقت بخش خوراک کھلائیں ،اس کی بیماری ترقی کرتی جائے گی ۔اسی طرح جس کا عقیدہ خراب ہو اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی دوسرا نبی مانے وہ کتنے ہی اچھے عمل کیوں نہ کرے ، لوگوں سے نرم سلوک اور اچھے برتاؤ کے ساتھ پیش آئے ، اس کا کفر و شرک بڑھتا جائے گا۔“

قرآن کی سو سے زائد آیات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم النبین ہونا ثابت ہے،اسی طرح کم و بیش دو سو سے زائد احادیث مبارکہ ،جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے :﴿مَّا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُمْ وَلَکِن رَّسُولَ اللَّہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ وَکَانَ اللَّہُ بِکُلِّ شَیْْء ٍ عَلِیْماً﴾کی تفسیر میں ارشاد فرمائیں ،ان سے بھی آپ کا آخری نبی ہونا ثابت ہے ۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”انا خاتم النبیین لا نبی بعدی“ترمذی شریف کی ایک روایت میں فرمایا:”ان النبوة والرسالة قد انقطعت، فلا رسول بعدی ولا نبی“اور بخاری شریف کی روایت میں ایک مکان سے تشبیہ دے کر فرمایا کہ:”ان مثلی و مثل الانبیاء من قبلی کمثل رجل بنی بیتاً، فاحسنہ، واجملہ، الا موضع لبنة من زاویة فجعل الناس یطوفون بہ، ویعجبون لہ، ویقولون: ھلا وضعت ھذہ اللبنة؟ قال: فانا اللبنة، وانا خاتم النبیین․“

اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کی ایک اور انداز سے وضاحت فرمائی ،حجة الوداح کے موقع پر یہ آیت نازل ہوئی:﴿الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلاَمَ دِیْناً﴾(المائدہ :3)

یعنی اعلان کرادیا کہ :اب دین وشریعت مکمل ہو چکے ہیں ،اب اس میں کسی قسم کی ترمیم و تنسیخ کی گنجائش اور ضرورت باقی نہیں رہی ۔

تکمیل دین کا اعلان ہی ختم نبوت کا اعلان تھا ،کیوں کہ دین میں ترمیم وتنسیخ انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ سے ہوتی تھی ۔اب جب دین مکمل ہو گیا تو قیامت تک اس میں کسی قسم کی ترمیم و تنسیخ کی ضرورت نہ رہی تو نبی کے آنے کا مقصد ہی پورا ہوگیا ،لہٰذا اس سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت ثابت ہوگی۔

عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ ہی دین کی اساس اور بنیاد ہے، کیوں کہ عقیدہ ختم نبوت ہے تو قرآن محفوظ ہے،عقیدہ ختم نبوت ہے تو دین کی تعلیمات محفوظ ہیں ،اگر یہ عقیدہ باقی نہیں رہتا تو پھر نہ دین باقی رہے گا، نہ اس کی تعلیمات اور نہ قرآن باقی رہے گا ،کیوں کہ بعد میں آنے والے ہر نبی کو دین میں تبدیلی اور تنسیخ کا حق ہوگا ۔اس لیے اس عقیدہ پر پورے دین کی عمارت قائم ہے ،اسی میں امت کی وحدت کا راز مضمر ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جب کبھی کسی نے اس عقیدہ میں نقب لگانے کی کوشش کی یا اس مسئلہ سے اختلاف کرنے کی کوشش کی تو امت مسلمہ نے بھرپور دفاع کیا ۔اس لیے عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ یا با الفاظ دیگر منکرین ختم نبوت کا استیصال دین کا ہی ایک حصہ ہے اور مسلمانوں نے ہمیشہ اس کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھا ہے اورامت نے ہر دور میں اپنا یہ فریضہ احسن طریقے سے انجام دیا ہے اور اس فریضے کی ادائیگی میں کسی کوتاہی اور غفلت کی مرتکب نہیں ہوئی۔

خود آں حضرت صلى الله عليه وسلم نے اپنے آخری دور میں سب سے پہلے جھوٹے مدعیان ِ نبوت کا خاتمہ کر کے امت کے سامنے اس کام کا عملی نمونہ پیش کیا ،چناں چہ یمن میں عبہلہ نامی ایک شخص، جس کو اسود عنسی کہا جاتا تھا ،اس نے سب سے پہلے ختم نبوت سے بغاوت کر کے اپنی جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا ۔آں حضرت صلى الله عليه وسلم نے اہل یمن کواس سے قتال و جہاد کا باقاعدہ تحریری حکم صادر فرمایا اور بالآخر حضرت فیروز دیلمی کے خنجر نے اس کی جھوٹی نبوت کا آخری فیصلہ سناد یا ۔

نبوی دور میں ختم نبوت کے دوسرے غدار کو مسیلمہ کذاب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔اس نے نبوت محمدی میں شرکت کا دعویٰ کیا تھا ،حضرت ابوبکر صدیق نے حضرت خالد بن ولید کی سربراہی میں صحابہ کرام کی ایک جماعت کو اس کی سرزنش کے لیے بھیجا ،بالآخر ایک معرکة الاراء جنگ ہوئی اور مسیلمہ کذاب کو اس کے بیس ہزار پیروکاروں کے ساتھ قلعہ”حدیقة الموت“کے راستے جہنم کی راہ دکھائی ۔صرف اس ایک معرکہ میں مسلمانوں نے تحفظ ختم نبوت کے لیے بارہ سو صحابہ کرام  و تابعین  کی شہادت کا نذرانہ پیش کیا ،جن میں ستر بدری صحابہ کرام اور سات سو سے زائد وہ صحابہ کرام تھے جو قرآن کریم کے ماہر تھے اور قراء کہلائے جاتے تھے ۔اتنی بڑی قربانی تمام غزوات اور سرایا میں نہیں دی گئی ،کیوں کہ حضورصلى الله عليه وسلم کے زمانے میں جتنی جنگیں لڑی گئیں،غزوات اور سرایا ملا کر ان میں شہید ہونے والے صحابہ کرام کی کل تعداد259ہے۔

غرض یہ کہ امت نے کبھی کسی جھوٹی نبوت کو برداشت نہیں کیا، ،جھوٹے نبیوں کے استیصال اور خاتمے کے لیے بڑی سے بڑی قربانی پیش کی، ہر طرح کا ظلم برداشت کیا ،آگ میں کودنا قبول کیا ،مگر جھوٹی نبوت کو پنپنے نہیں دیا ۔حضرت ابو مسلم خولانی  کو اسودِ عنسی نے اپنی نبوت کے نہ ماننے پر آگ میں ڈالا ،مگر اللہ تعالیٰ نے آگ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح گلزار بنادیا۔

مسیلمہ کذاب نے حضرت حبیب بن زید سے اپنی نبوت کا اقرار کرانا چاہا ،مگر انہوں نے بار بار انکار کیا ،وہ بدبخت ایک ایک عضو کاٹتا رہا ،بالآخر انہیں شہید کردیا گیا ،مگر حضرت حبیب بن زید  سے اپنی نبوت کا اقرار نہ کراسکا ۔

جب انگریز کے خود ساختہ پودے ملعون مرزا غلام احمد قادیانی نے تدریجاً نبوت کا دعویٰ کیا تو ہمارے اسلاف نے پورے پاک و ہند میں اس فتنے کی سرکوبی کے لیے مختلف تحریکیں چلائیں ۔ملک گیر احتجا ج کیے ۔اکابرین نے پابند سلا سل ہونا قبول کیا ،مگر قادیانیت کے تابوت میں کیلیں ٹھونک دیں۔

1953ء کی تحریک ختم نبوت میں ہزاروں عاشقان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور مجاہدین ختم نبوت نے اپنی جانوں کے نذرا نے پیش کیے۔

1974ء کی تحریک ختم نبوت قادیانیوں کی اپنی احمقانہ حرکتوں کی وجہ سے شروع ہوئی تو اتنا شدید ملک گیر احتجاج کیا گیا کہ وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو اسے قومی اسمبلی میں موضوع بحث بنانا پڑا ،کئی ماہ کی مسلسل بحث اور ٹھوس دلائل کے بعد آخر کار 7 ستمبر1974 ء کو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے قادیانیوں کے غیر مسلم اقلیت ہونے کا اعلان کردیا ،یوں مسلمانوں کی برسوں کی محنت اور قربانی رنگ لائی،جس سے مسلمانان پاکستان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔لیکن اس وقت سے آج تک سامراج اور اقتدار کے پجاری اس قانون میں ترمیم کرنے کے خواب دیکھتے اور اس کو کمزور اور پھر ختم کرنے کی خفیہ سازشیں کرتے آئے ہیں ۔مگر عاشقانِ رسول اپنے اتحاد کے ذیعے ان کی سازشوں کو بے نقاب کرتے آئے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ تاقیامت اللہ رب العزت ہمیں سچا عاشق رسول ہونے کا ثبو ت دیتے ہوئے سامراج اور اس کے غلاموں کی سازشوں کو بے نقاب و ناکام بنانے کی قوت و ہمت عطا فرمائے اور اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق نصیب فرمائے۔

آخر میں امام العصر علامہ محمد انور شاہ کشمیری  کے اس ارشاد پر اپنی بات ختم کرتا ہوں جو وہ اپنے شاگردوں سے تحفظ ختم نبوت کی بیعت لیتے ہوئے فرماتے تھے ”جو شخص قیامت کے دن رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے دامن شفاعت سے وابستہ ہو نا چاہتا ہے وہ قادیانی درندوں سے ناموس رسالت کو بچائے ۔“اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔آمین!

Flag Counter