Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1436ھ

ہ رسالہ

15 - 17
توہم پرستی اور چھوت چھات

مولانا حافظ فضل الرحیم
	
”عن ابی ھریرة رضی اللہ عن قال قال رسول اللہ صلى الله عليه وسلم: لا عدویٰ، ولا ھامة، ولا صفر، فقال اعرابی: یا رسول اللہ، فما بال الابل تکون فی الرمل لکانھا الظباءُ فیخالطھا الاجرب فیجربھا؟ فقال رسول اللہ صلى الله عليه وسلم: فمن اعدی الاول؟“(رواہ البخاری)

”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چھوت چھات (بیماری کا دوسرے سے لگنے کا وہم)اور اُلو(کو منحوس سمجھنا)اور صفر (کے مہینہ کو منحوس سمجھنا )کوئی چیز نہیں ۔ایک اعرابی نے عرض کیا یا رسول اللہ !ان اونٹوں کو کیا ہوتا ہے، جو ریگستان میں رہتے ہیں کہ اچانک ان میں خارش زدہ اونٹ آجاتا ہے تو دوسرے اونٹوں کو بھی خارش زدہ بنا دیتا ہے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے پہلے اونٹ (جس کی وجہ سے باقی اونٹوں میں خارش لگی)کو کس سے خارش لگی؟ (یعنی جس طرح پہلے اونٹ کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے خارش لگی اسی طرح دوسروں کو بھی حکم الہٰی ہی سے خارش لگی)“۔

اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے واضح انداز میں تو ہم پرستی اور چھوت چھات کی نفی فرمائی ہے۔

آج کل مسلمانوں میں بھی اسلامی تعلیمات کی کمی کی وجہ سے تو ہم پرستی بہت زیادہ ذہنوں میں راسخ ہو چکی ہے ۔بعض لوگوں نے صفر کے مہینہ کا نام تیرہ تیزی رکھ دیا ۔بعض مقامات میں اس مہینہ کی تیرہ تاریخ کو چنے ابال کر تقسیم کیے جاتے ہیں اور عام طور پر اس مہینہ کے آخری بدھ کو متبرک سمجھا جاتا ہے ۔ حالاں کہ اسلامی شریعت میں ایسی کوئی بات نہیں ۔صفر اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ہے ۔صفر کا معنی ہے خالی ہونا۔صفر کے مہینے میں چوں کہ جنگ کی ممانعت تھی، جس کی وجہ سے اہل عرب یا تو گھروں میں بیٹھے رہتے یا سامان تجارت کی خریداری کے لیے اپنے گھروں سے باہر چلے جاتے ،جن کی وجہ سے گھر خالی ہوجاتے ۔لہٰذا اس ماہ کا نام صفر پڑگیا۔ایک روایت یہ بھی ہے کہ صفر کا معنی ہے زرد ہونا۔ چوں کہ اس ماہ میں خزاں کا موسم آگیا اور پتے زرد ہوگئے، لہٰذا اس ماہ کا نام صفر ہوگیا۔

صفر کے مہینہ کو منحوس سمجھنا یا اس میں مختلف باتوں کا وہم کرنا آج کے معاشرہ کی خصوصیت نہیں ، بلکہ قبل ازا سلام اہل عرب کے تصورات بھی اس ماہ میں اس طرح کے تھے ،اہل عرب صفر کے مہینہ میں کاروبار نہیں کرتے تھے کہ اس سے خسارہ ہوتا تھا ۔اسی طرح شوال کے مہینہ میں شادی کرنے کو اچھا نہیں سمجھتے تھے ،حالاں کہ حضرت عائشہ  فرماتی ہیں کہ میرا نکاح شوال ہی کے مہینہ میں ہوا تھا۔اہل عرب میں اس کے علاوہ اور بھی بہت سے توہمات عام تھے۔بدھ کے دن کو منحوس سمجھتے اور یہ بھی عقیدہ تھا کہ اگر کسی کے گھر پر اُلو بیٹھ جائے تو وہ گھر اجاڑ ہو جاتا ہے ۔حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ ہم حضرت عبداللہ بن عباس  کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک چڑیا اڑتی ہوئی چہچہاتی ہوئی، سامنے سے گزری تو ایک شخص نے کہا ”خیر خیر،حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا چڑیوں کا بولنا نہ بھلائی کی علامت ہے اور نہ مصیبت کی ،یہ صرف وہم ہے“۔

ہمارے معاشرے میں بھی بہت سے توہمارت عام ہیں ۔مثلاً کالی بلی سامنے سے گزر جائے تو راستہ بدل لینا چاہیے، ورنہ اسی راستے پر چلنے سے نقصان ہو سکتا ہے۔چھری گرے تو لڑائی ہو جاتی ہے۔کو ابو لے تو مہمان آجاتا ہے۔آنکھ پھڑ کے تو بری خبر ملتی ہے ۔ہتھیلی میں کھجلی ہو تو دولت آتی ہے ۔جوتی پر جوتی چڑھ جائے تو سفر پیش آتا ہے اور اسی قسم کی بہت سی نیک اور بدشگونیاں دیکھنے اور سننے میں آتی ہیں۔ان تمام باتوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

”لا طیرة، وخیرھا الفال․ قالوا وما الفال؟ قال: الکلمة الصالحة یسمعھا احدکُم․“(بخاری)

یعنی ”بدشگونی کوئی چیز نہیں اور بہترین چیز نیک فال ہے ۔لوگوں نے عرض کیا ۔

فال کیا چیز ہے؟فرمایا کہ وہ اچھا کلمہ جو تم میں سے کوئی کسی سے سنے“۔

تو ہمات کے ضمن میں ایک وہم کی صورت چھوت چھات کا نظریہ بھی ہے، یعنی ایک دوسرے سے بیماری لگنے کا وہم اسے عربی میں عدویٰ کہتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صحابہ کرام کے سامنے ”لاعدویٰ“ ارشاد فرما کر چھوت چھات کی نفی فرمائی(یعنی ایک دوسرے سے بیماری لگنے کا وہم کوئی حقیقت نہیں رکھتا )تو صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہمارے تن درست اونٹ ریگستانوں میں چل رہے ہوتے ہیں کہ ایک خارش زدہ اونٹ آکر باقی اونٹوں کو بھی خارش میں مبتلا کر دیتا ہے۔(اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیماری ایک دوسرے سے لگتی ہے)۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ پہلے اونٹ کو کس سے خارش لگی؟

اس ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک دوسرے سے بیماری لگنے کی کوئی حقیقت نہیں ۔لیکن صحیح بخاری ہی کی روایت میں ہے :” لا یوردن الممرض علی المصح“یعنی ”بیمار اونٹ تن درست اونٹ کے پاس نہ اتارا جائے“۔ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بخاری شریف میں اشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم منقول ہے :”فر من المجذوم کما تفر من الاسد․“

”جذام میں مبتلا شخص سے اس طرح بھاگو جس طرح شیر سے ڈر کر بھاگتے ہو۔“

لیکن ایک رخ یہ بھی ہے کہ حضرت جابر  سے ابن ماجہ میں روایت ہے کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جذام میں مبتلا شخص کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے ہم راہ پیالے میں (کھانے کے لیے )شریک کر لیا ۔اور فرمایا، تو کھا،اللہ پر اعتماد اور اسی پر بھروسہ کرتے ہوئے “۔

دونوں طرح کی روایات سامنے آنے کے بعد شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے ”’ماثبت بالسنة“میں ”چھوت کی کوئی حقیقت نہیں “کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ طبیعت و خلقت کے لحاظ سے کوئی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی اور جو کچھ ظاہر ہوتا ہے وہ دراصل اللہ کے حکم اور منشا سے ہوتا ہے، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیمار اونٹ کو تن درست اونٹ کے پاس لے جانے سے منع فرمایا اور جذامی سے دور رہنے کو فرمایا۔پھر شیخ عبد الحق ”جذامی سے دور بھاگو“کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جذامی کے جسم سے ایک خاص قسم کی بدبودار گیس نکلتی ہے، جو جذامی کے پاس زیادہ نشست و برخاست کرنے والے اور ایک ساتھ کھانے اور سونے والے پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اور یہ بات ”چھوت “نہیں، بلکہ فن طب کا ایک اصول اور ضابطہ ہے اور اطباء کا تجربہ ہے لہٰذا اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ۔لیکن ہر ایمان دار مسلمان سمجھتا ہے کہ ہر کام صرف اللہ کے حکم سے ہوتا ہے اور کوئی چیز بغیر خدا کے حکم سے نہ نفع پہنچا سکتی ہے اور نہ نقصان ،اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ محض وہم کی بنا پر یہ سمجھنا کہ ایک دوسرے سے بیماری لگ جاتی ہے یا لگ گئی ہے اور ایسے خیالات رکھنا جن کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں، یہ چھوت اور توہم پرستی ہے، البتہ طبی تحقیق و تجربہ سے جو امور ثابت ہو جائیں ان کو ذہن میں رکھنا اور ان اصولوں پر عمل کرنا چھوت چھات ،یا توہم پرستی نہیں ۔لیکن اس کے باوجود ہر مسلمان کو یہ پختہ اعتقاد رکھنا چاہیے کہ حقیقت میں نہ جراثیم بیمار کرتے ہیں اور نہ دوا شفا دیتی ہے، بلکہ بیماری بھی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے آتی ہے، اگر چہ جراثیم واسطہ بن جاتے ہیں اور شفا بھی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی عطا فرماتے ہیں، اگر چہ دوا ذریعہ شفا بن جاتی ہے۔

Flag Counter