Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1436ھ

ہ رسالہ

10 - 17
فتنے کے اسباب

حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کے ایک بیان کی تسہیل
تسہیل: محترم سید عروہ عرفان

ان کی شانِ استغنا یہ تھی کہ اتنی ضرورت و حاجت کے وقت میں دو سو ریال ملنے پر بھی (جو اس وقت کے لحاظ سے بڑی رقم ہوتی ہے) ہدیہ کا گمان نہ ہوا ،بلکہ امانت ہی سمجھتے رہے۔ ہم ہوتے تو نہ جانے کتنی تاویلیں کرکے اسے ہدیہ بنالیتے اور کوئی دُوَنی لاکر دیتا تو ہم اسے سو سناتے کہ ہم کیا غریب محتاج ہیں کہ دونی دے دی، یہ کوئی انسانیت ہے؟

ان حضرات میں استغنا بھی تواضع کے ساتھ تھا۔ اس لیے اگر کسی وقت استغنا سے دوسرے کی ذلت ہوتی تو وہاں یہ حضرات صورت استغنا کو چھوڑ کر تواضع کی صورت اختیار کرلیتے تھے، جیسا حضرت حاتم اصم نے کیا کہ اپنی عزت کو مسلمان کی عزت پر نثار کرکے انکار کے بعد بھی اس کا ہدیہ قبول کرلیا۔

مگر اب یہ حالت ہے کہ ایک طبقے نے ایک بات لے لی، دوسرے نے دوسری بات لے لی۔ کوئی حد سے زیادہ خلیق بن گیا، کوئی مستغنی بن گیا۔ افسوس ہے کہ اہل حق کے اندر ہی الگ الگ پارٹیاں ہوگئیں،جدا جدا طبقے بن گئے۔ میں کہتا ہوں کہ اگر یہ اختلاف شرعی حدود سے متجاوز ہے تو جس نے تجاوز کیا ہو وہ اپنی اصلاح کرے اور اگر یہ اختلاف شرعی حدود کے اندر ہے تو یہ پارٹی بندی کیسی؟ سب کو یہ تفریق چھوڑ کر ایک ہوجانا چاہیے۔

مزاج کا اختلاف تو شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے سلف میں بھی ہوا ہے، مگر وہاں یہ تفریق نہ تھی۔ کوئی ایک دوسرے پر اعترا ض نہ کرتا تھا۔ مگر اب یہ حالت ہے کہ ہر ایک دوسرے پر اعتراض کرتا ہے۔ نہ اِدھر تہذیب رہی، نہ اُدھر۔

ہمیں اپنے سلف کے حالات پر غور کرنا چاہیے۔ ہمارے بزرگوں کی حکایتیں بھی ایسی ہیں کہ ان سے اصلاح ہوسکتی ہے۔ سلف کی حکایات کو اصلا ح میں بڑا دخل ہے۔ اس لیے اسلاف کی حکایات کا مطالعہ کرنا چاہیے کہ وہ کس طرح نرمی اور دل جوئی کرتے تھے۔

مولانا شاہ عبدالقادر صاحب کے وعظ میں ایک شخص آیا، جس کا پجاما ٹخنوں سے نیچا تھا۔ جب وعظ ختم ہوچکا تو آپ نے اس شخص کو روک لیا۔ اب وہ ڈرا کہ میری خبر لی جائے گی۔ پھر اس سے فرمایا کہ بھائی! مجھ میں ایک عیب ہے کہ میرا پجاما ٹخنوں سے نیچا لٹک جاتا ہے اور حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص ٹخنوں سے نیچا پجاما پہنے گا وہ جہنم میں جائے گا۔ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میں اس عذاب میں مبتلا نہ ہوجاؤں۔ ذرا میرا پجاما تودیکھنا کہ ٹخنوں سے نیچے تو نہیں ہے؟ وہ شخص قدموں میں گر پڑا کہ حضرت خدا نہ خواستہ آپ کے اندر یہ عیب کیوں ہوتا، یہ عیب تو میرے اندرہے۔ میں آج سے توبہ کرتا ہوں، پھر ایساکبھی نہ کروں گا۔

یہ تھی ہمارے بزرگوں کی نرمی اور دل جوئی!
خیر، حضرت عمر نے اپنے احباب کی دل جوئی کے لیے لباس بدلنا منظور فرمالیا۔ امیرالمومنین کے کپڑوں کی گٹھڑی دیکھی گئی تو اس میں دوسرا جوڑا بھلا کہاں؟ وہ روپیہ پیسہ جمع کرتے تھے اور نہ جوڑے۔ آپ کے پاس بس وہی ایک جوڑا تھا، جو پہنے ہوئے تھے۔ کسی دوسرے مسلمان سے ایک جوڑا مانگ کر دیا گیا، جسے پہن کر وہ گھوڑے پرسوار ہوئے۔ مگر دوچار قدم ہی گئے تھے کہ اتر گئے اور فرمایا کہ تم نے تو اپنے بھائی کو ہلاک ہی کردیا۔یہ کپڑے پہن کر، اس سواری پر بیٹھ کر میری تو حالت ہی بدل گئی۔ لاؤ، میرے وہی کپڑے اور وہی اونٹنی مجھے دے دو۔ چناں چہ اسی حالت میں نصاریٰ کے سامنے پیش ہوئے اور یہی ہیئت بیت المقدس کی فتح کا سبب بنی، کیوں کہ ان کی کتابوں میںآ پ کی یہی شان لکھی گئی تھی۔

سید احمد حلان نے ”فتوحاتِ اسلامیہ“ میں آپ کے زہد کا حال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب انتقال کے وقت حضرت عزرائیل علیہ السلام اُن کے گھر آئے تو گھر دیکھ کر بولے، سبحان اللہ، کیا یہ امیر المومنین کا گھر ہے جہاں کچھ بھی نہیں!آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، جس گھر میں تم آنے والے ہو، اس گھر کو ایساہی ہونا چاہیے۔

مسلمانوں کو اپنی طرزِ معاشرت ایسی ہی سادہ رکھنی چاہیے۔ بالخصوص میں اہل علم کو بھی ایک بات کہتاہوں کہ علما کی سادگی صرف اس بات میں نہیں کہ وہ کسی خاص موقع پر جوڑا نہ بدلیں، بلکہ ہماری اصل سادگی اور بے تکلفی یہ ہے کہ اگر کوئی بات ہمیں معلوم نہ ہو یا کوئی مسئلہ سمجھ میں نہ آئے تو پچاس آدمیوں کے سامنے کہہ دیں کہ مجھے معلوم نہیں یا مجھے سمجھ نہیں آیا۔ مدرس کی بے تکلفی یہ ہے کہ اگر اس سے کسی مقام کی تقریر میں غلطی ہوجائے اور شاگرد متنبہ کرے تو فوراً اپنی غلطی کا اقرار کرلے۔

آج ہم اس صفت کا قحط پاتے ہیں۔ حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب رحمہ اللہ سے دسیوں مرتبہ ایسا ہوا کہ جہاں کہیں آپ سے تقریر میں کچھ غلطی ہوئی اور کسی طالب علم نے عرض کردی تو وہ فوراً فرمادیتے کہ واقعی مجھ سے غلطی ہوئی ہے، صحیح تقریر یہی ہے، جو تم نے بتائی ہے۔ مولانا پر اس بات کا ایسا غلبہ ہوتا کہ ایک ہی مجلس میں بار بار یہ بات فرماتے کہ مجھ سے غلطی ہوئی ہے، تم ٹھیک کہتے ہو۔

ہم میں یہ مرض ہے کہ طلبہ کے سامنے اپنے غلطی کا اقرار کبھی نہیں کریں گے۔ اگر وہ درست بھی ہوگا تو گھونٹ گھانٹ کر اسے چپ کرادیں گے۔ پھر یہ مرض ایسا متعدی ہوا کہ ان طلبہ نے بھی اپنے شاگردوں کو گھونٹنا شروع کردیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ سب میں تکلف اور تصنع (بناوٹ) کا مرض اچھی طرح سرایت کرگیا۔

میں نے حضرت مولانا شاہ محمد اسحاق دہلوی رحمہ اللہ کے بارے میں اپنے دو بزرگوں سے سنا ہے کہ مکہ معظمہ میں ایک بزرگ عالم قرآن کی تفسیر بیان کیا کرتے تھے، اس طرح کہ پہلے آیت پڑھتے اور پھر اس کے متعلقات کے مسائل بیان کرتے۔ حضرت شاہ صاحب بھی ان کے حلقے میں کبھی کبھی جا بیٹھتے تھے۔ ایک دن شیخ نے کسی مقام پر ایک فقہی مسئلے میں غلطی کی۔ اس وقت شاہ صاحب خاموش رہے۔ جب درس ختم ہوچکا تو شیخ صاحب کے پاس چپکے سے جاکر متنبہ کیاکہ یہ مسئلہ مجھے تو اس طرح یاد ہے۔ شیخ کو جب یہ پتا چلا تو تمام طلبہ کو اسی وقت بلالیا۔ سب جمع ہوگئے تو انھوں نے کہا:” قد غلطنا فی ہذہ المسئلة و نبہنا علیہ ہذا الشیخ ،و الصحیح ہکذا․“ یعنی ہم نے اس مسئلے میں غلطی کی ہے، جس پر ہمیں اس شیخ (شاہ اسحاق دہلوی) نے متنبہ کیا ہے اور درست ،مسئلہ یہ ہے۔

یہ ہیں علما!
انھیں یہ کہتے ہوئے بالکل بھی تکلیف نہیں ہوتی کہ ہم سے یہاں غلطی ہوگئی ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ بھی کہہ دیا کہ اس شیخ نے متنبہ کیا، حالاں کہ حضرت شاہ صاحب نے خفیہ اسی لیے متنبہ کیا تھا کہ اگلے دن یہ اس مقام کی صحیح تقریر اپنی طرف سے کردیں، مگر انھیں اتنا صبر کہاں تھا؟! اسی وقت سب طلبہ کو بلاکر اپنی غلطی کا اقرار کرلیا اور اپنے محسن کو بھی ظاہر کردیا کہ جس نے غلطی پر متنبہ کیا تھا۔ اگر ہم ہوتے تو اول تو اپنی غلطی تسلیم ہی نہ کرتے اور جو کرتے بھی تو یہ ظاہر نہ کرتے کہ اس غلطی پر ہمیں کسی دوسرنے سے متنبہ کیا ہے۔ بلکہ اگلے دن اس طرح تقریر کرتے کہ طلبہ پریہ ظاہر ہو کہ شیخ کو خود ہی معلوم ہوگیا ہے۔ آخر، یہ تکبر اور تصنع نہیں ہے تو پھر کیا ہے؟

کسی بات کے متعلق اپنی لاعلمی ظاہر کردینا کوئی نقص نہیں ہے، نہ کوئی عیب ہے۔ ہم اور آپ کیا چیز ہیں؟ بعض دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سوال پر لاادری (میں نہیں جانتا) فرمایا ہے۔ چناں چہ ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ سب سے اچھی جگہ کون سی ہے اور سب سے بری جگہ کون سی ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مجھے نہیں معلوم، حضرت جبریل علیہ السلام سے پوچھ کر بتاؤں گا۔ چناں چہ حضرت جبرئیل سے یہی سوال پوچھا۔ انھوں نے کہا، مجھے بھی نہیں معلوم، اللہ تعالیٰ سے پوچھ کر بتاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ سے پوچھا تو ارشاد ہوا:”خیرالبقاع المسجد و شر البقاع السوق․“ کہ سب سے اچھی جگہ مسجد ہے اور سب سے بدتر بازار ہے۔

دیکھیے، بعض دفعہ انبیا اور ملائکہ نے بھی لا ادری فرمادیا ہے تو پھر میں اور آپ کی یہ کہنے میں کیا شان گھٹتی ہے؟ مگر افسوس! ہم سے کبھی یہ نہ ہوسکا۔ پس اگرکسی عالم میں یہ خوبی موجود ہے تو بے شک فخر کی بات ہے اور اس میں واقعی تصنع اور تکلف نہیں ہے۔ اور اگر یہ خوبی نہیں ہے تو اس کو اپنے اندر جھانکنا چاہیے کہ یہ کوئی فخر کی بات نہیں ہے کہ ہم نے عمامہ نہیں باندھا یا جبہ نہیں پہنا، ننگے پیر چل دیے۔ کیوں کہ ان باتوں سے تو تعریف ہوتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ فلانا بہت بے نفس اور متواضع ہے۔

اور جس بات سے تعریف ہوتی ہو، اس کا اختیار کرنا بڑا کمال نہیں ہے۔ کیا لا ادری کہنے میں تعریف ہوتی ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ اس میں اس وقت بڑی ذلت ہوتی ہے، گو بعد میں تعریف ہو۔

یہ ساری گفتگو اس تناظر میں چل رہی تھی کہ میں نے بعض دوستوں کو یہاں روشنی زیادہ کرنے کا اہتمام کرتے دیکھا تھا۔ اس پر میں نے یہ سب باتیں عرض کی ہیں کہ ہمیں بے تکلف اور سادہ ہونا چاہیے۔ اگرچہ میری گفتگو اور آیت کا موضوع یہ نہیں تھا، بس درمیان میں ایک بات پر تنبیہ کرنا چاہتا تھا۔ اپنی طرف سے تو میں گفتگو میں ربط کا خیال رکھتا ہوں، لیکن جب اللہ تعالیٰ کسی خاص مضمون کو بیان کرانا چاہتے ہیں تو پھر ربط وغیرہ کا خیال نہیں رہتا۔ اس وقت وہی کہنا پڑتا ہے، جو وہ کہلواتے ہیں۔بہ قول مولانا روم کے،
        قافیہ اندیشم ودلدار من
        گویدم مندیش جز دیدار من
کہ میں قافیہ سوچتا ہوں اور میرا محبوب مجھ سے کہتا ہے کہ میرے دیدار کے سوا کچھ مت سوچو!

اسی طرح، گو بیان میں بھی ربط کا ہونا ضروری ہے، مگر درمیان میں جب کوئی دوسرا ضروری مضمون ذہن میں آجاتا ہے تو میں اسے چھوڑتا نہیں۔ ربط کی ایسی پابندی بھی نہ ہونی چاہیے کہ ضرورت کا لحاظ بھی نہ کیا جائے، اس لیے درمیان میں تکلف اوربے تکلیف پر یہ مضمون ایک ضرورت سے بیان کردیا گیا۔ اب میں اصل موضوع کی طرف آتا ہوں۔

میں یہ بیان کررہا تھا کہ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے ہماری دو محبوب چیزوں کا ذکر فرمایا ہے (یعنی، تمہارے اموال اور اولاد بس تمھارے لیے ایک آزمائش کی چیز ہیں) اور ان کے بعض نقصانات پر ہمیں مطلع کیا ہے کہ جن میں ہم اکثر مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ہماری بدحالیوں کا زیادہ سبب انھی دو چیزوں کی محبت ہے۔ چناں چہ مال کی محبت کے باعث آپس میں دشمنی ہوجاتی ہے۔ مسلمانوں میں آئے دن جو مقدمہ بازی ہوتی رہتی ہے، اسی مال کی محبت کی وجہ سے ہے۔ نیز مال کی محبت کی وجہ ہی سے دوسروں کا حق دبا لیا جاتا ہے۔

آپ اپنے مرض کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ میں کوئی گہری بات نہیں کررہا ہوں۔ یہ تو کھلی ہوئی باتیں ہیں ،جنھیں ہر شخص اپنے اندر غور کرکے جان سکتا ہے۔ کیا آپ اس کا انکار کرسکتے ہیں کہ ہم لوگ اکثر بیٹیوں کو حصہ نہیں دیتے۔ زیادہ تر تو خود باپ ہی ایسا کرتے ہیں کہ وہ اپنے سامنے ہی اپنی جائداد لڑکوں کو دے جاتے ہیں۔ اگر باپ نے ایسا نہ کیا تو بعد میں بھائی ایسا کرتے ہیں کہ بہنوں کو حصہ نہیں دیتے۔ دنیا دار تو ان کا حق ہی نہیں سمجھتے، مگر وہ اس میں یہ تاویل کرتے ہیں کہ بہنوں نے معاف کردیا ہے۔

میں کہتا ہوں کہ اول معافی کی حقیقت تو سمجھ لیجیے، پھر میں پوچھوں گا کہ کیا بہنیں اسی طرح معاف کرتی ہیں؟

معافی کی حقیقت اس آیت میں مذکور ہے: ﴿فان طبن لکم عن شيء منہ نفسا فکلوہ ھنیئاً مریئا․﴾ اللہ تعالیٰ مردوں سے خطاب فرماتے ہیں کہ اگر عورتیں اپنے مہر میں سے کچھ حصہ دل کی خوشی سے تمھیں دے دیں تو اسے کھاؤ، خوش گواری اورلذت کے ساتھ۔ اس سے معلوم ہوا کہ معافی اور عطا کے لیے دل کی خوش گواری ضروری ہے۔ مگر یہاں اس کی ذرا پروا نہیں کی جاتی کہ بہن نے خوشی سے دی ہے یا اوپری دل سے۔ بس جہاں بہن کی زبان سے اتنا نکلا کہ میں نہیں لیتی، بھائی جان نے اسے معافی سمجھ لیا۔ پھر پلٹ کر کوئی اس سے یہ نہیں کہتا کہ یہ بات وہ دل سے کہہ رہی ہے یا زبان سے۔

یہیں میں فکر میں پڑجاتا ہوں کہ آج کل جو چندہ لیا جاتا ہے، اس میں بھی اکثر خوش دلی کا اہتمام نہیں ہوتا۔ اگرچہ اس میں دینے والوں پر بھی ملامت ہے کہ وہ دین کے کاموں میں خوش دلی سے کیوں نہیں خرچ کرتے، لیکن اگر وہ یہ کوتاہی کرتے ہیں تو اس سے لینے والوں کو وہ چندہ حلال نہیں ہوجائے گا۔ حدیث میں صاف حکم موجود ہے:” الا لا یحل مال امرء مسلم الا بطیب نفس منہ“ یعنی یاد رکھو، کسی مسلمان آدمی کا مال اس کی خوشی کے بغیر حلال نہیں ہوتا۔

اگر کسی نے محض شرم اور مروت سے چندہ دیا ہوتو اس کا لینا ہرگز جائز نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ صاحب اتنی احتیاط کی جائے تو چندہ بہت کم آئے گا ،جس سے کام نہیں چل سکتا تو اول تو مجھے اسی پر اعتراض ہے کہ کام نہیں چل سکتا۔ آپ تجریہ کرکے دیکھ لیجیے کہ ضروری کام میں تو اتنا ہی روپیہ صرف ہوتا ہے جو حدود شریعت کے موافق ہو۔ اور جو ایسا ویسا چندہ ہوتا ہے وہ کام میں صرف نہیں ہوتا، بلکہ بے تکا خرچ ہوتا ہے۔ کہیں بے ضرورت عمارات میں، کہیں مہمانوں کی فضول خاطر مدارات وغیرہ میں۔

اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ تھوڑے سے چندے سے کام نہیں چل سکتا تو میں پوچھتا ہوں کہ کام چلانے سے کیا غرض ہے؟ ظاہر ہے کہ یہی غرض ہے کہ اللہ تعالیٰ راضی ہوں۔ اگر وہ راضی نہ ہوئے تو بتائیے کہ کام چلا کر کیا کیجیے گا؟ اس لیے آسان صورت یہی ہے کہ شریعت کی حدود کے مطابق چندہ لیجیے اور جتنا کام اس میں چل سکے، اتنا کام چلائیے۔ زیادہ کا قصد ہی نہ کیجیے۔ اگر کسی وقت زیادہ چندہ آجائے تو اس وقت اور کام بڑھا دیجیے اور اگر پھر کم ہوجائے تو کام بھی کم کردیجیے، کیوں کہ آپ اتنے ہی کام کے مکلف ہیں جتنا کرسکتے ہیں۔ اس سے زیادہ کے مکلف نہیں ہیں۔

اس لیے جتنا کام حلال چندے میں آپ کرسکتے ہیں، اس سے زیادہ ہرگز نہ کریں تاکہ حرام چندے کی ضرورت ہی نہ رہے۔

مگر اب یہ حالت ہوگئی ہے کہ ابتدا ہی سے بڑے پیمانے پر کام شروع کیا جاتا ہے اور اس کے لیے چندہ کافی نہیں ہوتا تو پھر حدود سے آگے بڑھتے ہیں اور اس میں کچھ پروا نہیں کرتے کہ کون خوشی سے دے رہا ہے اورکون دباؤ یا مروت میں دے رہا ہے۔

یہی معاملہ بہنوں کے حق میں ہورہاہے کہ اہل علم نے تاویل کرلی ہے کہ اس نے تو اپنا حق چھوڑا ہے۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ ذرا انصاف سے بتائیے کہ کیا بہنوں نے اپنا حق خوشی سے چھوڑاہے؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ محض بدنامی کے خوف سے ایسا کیا ہے، کیوں کہ بہنوں کے لیے یہ بات عیب شمارکی جاتی ہے کہ وہ باپ کی جائداد میں حصہ لیں۔ نیز وہ اس خیال سے بھی حصہ نہیں مانگتیں کہ اگر ہم نے حصہ لے لیا تو شادی بیاہ کے موقع پر بھائی ہمیں پوچھیں گے نہیں اور رشتے داری خراب ہوجائے گی۔ ایسی صورت میں دینا خوشی کا دینا نہیں ہے۔

دوم، ایسے شخص کا دینا معتبر ہوتاہے جسے دیتے وقت اس دینے کی حقیقت بھی معلوم ہو۔ یعنی وہ جو چیز دے رہا ہے ، وہ اس کی حقیقت بھی سمجھتا ہو اور جسے اپنے فعل کی حقیقت ہی معلوم نہ ہو، اس کا دینا معتبر نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نابالغ اور ناعقل کو خرچ سے روک دیا جاتا ہے۔ اس کی جائداد کورٹ میں جاتی ہے کہ وہ اس میں کوئی خرید و فروخت نہیں کرسکتا۔ اس لیے کہ وہ اس خرید و فروخت کے نفع و نقصان سے ناواقف ہے۔

اب دیکھیے کہ بہنیں اپنا حق چھوڑ دیتی ہیں، کیا انھیں اپنے اس فعل کی حقیقت معلوم ہے؟ ہرگز نہیں۔ لڑکیوں کو یہ معلوم ہی نہیں کہ جائداد کیا چیز ہوتی ہے اور وہ کیسی قیمتی چیز کو چھوڑ رہی ہیں۔ اس لیے تجربے کے بغیر ان کی معافی معتبر نہیں ہوگی بلکہ اس میں وہ ناعاقل شمار ہوں گی۔ سچی معافی کی صورت یہ ہے کہ وہ تین چار برس تک اپنی جائداد اپنے قبضے میں رکھیں اور جب انھیں اس عرصے میں اس کا نفع اور لذت خوب معلوم ہوجائے تو اس کے بعد بھی اگر وہ نہ لیں تو بے شک یہ دینا تسلیم کیا جائے گا۔

بعض لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے شادی بیاہ اور بلانے رکھنے میں اتنا کچھ بہنوں کو دے دیا ہے جس سے ان کا حق ان کے پاس پہنچ گیا۔ اس دینے کا کوئی اعتبار نہیں ہے، کیوں کہ اسے جائداد کی قیمت کہہ کر نہیں دیا جاتا اور نہ بہنیں اسے یہ سمجھ کر لیتی ہیں۔ یہ تو محبت کا برتاؤ سمجھ کر کیا جاتا ہے۔نکتہ یہ ہے کہ خرید وفروخت کے معاملے میں (عقد بیع) ایجاب و قبول اور بدل کی تعیین ضروری ہے اور اس پر طرفین کی تراضی(رضا مندی) ضروری ہے۔ یہاں ان میں سے ایک بات بھی نہیں ہوتی۔ اس لیے یہ معافی کسی طرح بھی نہیں ہوتی۔

مجھے مسلمانوں کی یہ حالت دیکھ کر نہایت افسوس ہوتا ہے کہ مسلمان معاملات میں قانونی رعایات تو بہت جلدی کرلیتے ہیں، مگر شرعی رعایات نہیں کرتے۔ اس کی پروا ہی نہیں کرتے کہ اس معاملے میں شرعی قباحت موجود ہے، اس کی اصلاح کرلی جائے۔

مجھے یہ پسند نہیں ہے۔ آدمی کو اتنا اپاہج نہ ہونا چاہیے، بلکہ ایسا ہونا چاہیے #
        چوباز باش کہ صیدے کنی ولقمہ دہی
        طفیل خوارہ مشوچوں کلاغ بے پروبال
یعنی باز کی مانند بنو کہ شکار کرکے خود بھی کھاؤ اور دوسرے کو بھی کھلاؤ؛ جنگلی کوے کی طرح بے پر و بال کے طفیلی خوارہ مت ہوجاؤ۔ (جاری ہے)

Flag Counter