Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1436ھ

ہ رسالہ

7 - 17
سنتِ نبوی صلی الله علیہ وسلم کی اتباع اور فضیلت

احتشام الحسن، متعلم جامعہ فاروقیہ کراچی
	
اللہ رب العزت نے مجسمہ انسانی کو اپنے ہاتھ سے تخلیق کیا،اس کو اشرف المخلوقات کا لقب دیا ،اس کی فطرت میں حق و باطل، ہدایت و ضلالت اور خیرو شر کے دو متضاد مادے رکھ دیے اور اس کو دارالامتحان میں پہنچا دیا۔انسان اگر راہِ حق کا مسافر بن جائے تو فرشتے اس کی قدم بوسی کو اتریں اور اگر فطرت سے بغاوت پر آمادہ ہوجائے توجانور بھی اس سے پناہ مانگیں۔انسان کو رضائے الٰہی کی منزل تک پہنچنے کے لیے کسی نمونہ ،آئیڈیل اور میر کارواں کی ضرورت پڑتی ہے، جس کے نقشِ قدم پر چل کر اور نشان منزل کو اپنا کر دائمی کام یابی پاسکے۔

اللہ رب العزت نے امتِ محمدیہ پر ایک عظیم احسان کیا ،خاتم النبیین، رحمة للعالمین، حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم کی شکل میں ایک نجات دھندہ عطا کیا ،ایک بے مثال، بے نظیر، آئیڈیل ونمونہ ودیعت کیا، ہدایت و خیر کے اس روشن چراغ کو جبلِ فاران کے افق سے نمودار کیا ، جو بلند ہوا اور ہوتا جارہا ہے ، جو چمکا اورچمکتا جا رہا ہے ، جو بڑھا اور بڑھتا جا رہا ہے ، جو پھیلا اور پھیلتا چلاجا رہا ہے ، جس کی کتاب ِ حیات کا ہر ورق و صفحہ، ہر موضوع و عنوان ، ہر سطرو جملہ اور ہر حرف ولفظ ، ہر زمانہ ،ہر شعبہ میں ہدایت کا روشن چراغ ہے ، جس نے زمان و مکان کی لامحدود وسعتوں کو مہر درخشاں کی مثل ضوفشاں کر دیا، انسانی معاشرے کے دشت بے اماں میں گل ہائے رنگارنگ اور میوہ ہائے شیریں سے لدے شجر سایہ دار کھڑے کر دیے اور افق تا افق محیط تاریکیوں کے سینے پر روشنی کی کرنیں پھیلادیں۔ عرب کے صحرا نشینوں نے آپ کی پیروی اور اتباع کرکے روم و فارس اور عرب و عجم پر حکم رانی کی ہے #
        ہوں گے جو محمد صلی الله علیہ وسلم کی سنت کے نگہبان
        ان لوگوں کو ہم ملک کا سردار کر دیں گے
        جس راہ سے گزریں گے سنتِ محمد صلی الله علیہ وسلم کے فدائی
        اس راہ کے ہر ذرے کو بیدار کر دیں گے

اتباع کیا ہے؟
اتباع کامعنی ہے"پیروی کرنا،تابع داری کرنااورپیچھے چلنا"۔امام فراء فرماتے ہیں:”الاتباع أن یسیر الرجل وأنت تسیر وراء ہ․“(نضرة النعیم:10/2)اتباع کااصل معنی ہے :”اقتفاء أثرالماشی“۔کسی کے نقشِ قدم پرچلنا،حکیم اختر صاحب فرماتے ہیں:

نقشِ قدم نبی کے ہیں جنت کے راستے
اتباع ” تبعیة“سے ہے ،” تبعیة“اس بچہ کو کہا جاتا ہے جو اپنی ماں اور باپ کی بلاسوچے سمجھے نقل کرتا ہو ۔حضوراکرم صلی الله علیہ وسلم کے لیے قرآن مجید میں اتباع کا لفظ اس لیے آیا ہے کہ ہم آپ صلی الله علیہ وسلم کی بغیر سوچے سمجھے اور بلا چوں چراں پیروی کریں ۔ امام احمد ، امام شافعی  اور امام ابن عبد البر اتباع کی اصطلاحی تعریف کرتے ہیں:”ھو أن یتبع الرجل ماجاء عن النبی صلی الله علیہ وسلم وعن أ صحابہ، ثم ھو من بعد فی التابعین مخیر“ (نضرة النعیم :10/2،بحوالہ أضواء البیان للسلقیطی:538/7) ترجمہ :اتباع یہ ہے کہ کوئی شخص حضور صلی الله علیہ وسلم، صحابہ کرام کی اتباع کرے اوران دونوں طبقات کے بعد والوں یعنی تابعین کے بارے میں اختیار ہے چاہے ان کی اتباع کرے یا نہ کرے۔

سنت کسے کہتے ہیں ؟
سنت ایک خاص طریقہ اور ضابطہ کو کہا جاتا ہے۔اس کا اطلاق سیرت وعادت اور فطرت ومزاج پر بھی ہوتا ہے ۔ہر صاحب لغت نے اپنے مزاج اور طبیعت کے مطابق سنت کی لغوی تحقیق کی ہے ، علامہ ابن درید نے”کتاب الجمہرة“میں صفحہ95 پر ، اسمٰعیل بن حماد جوہری نے الصحاح صفحہ518 پر، ،علامہ محمد مرتضیٰ زبیدی  نے ”تاج العروس“ کے 9/343پر، امام راغب اصفہانینے ”المفردات“کے صفحہ250 پر، علامہ ز مخشری نے”اساس البلاغة“کے صفحہ369 پر اورعلامہ ابن اثیر (الجزری) نے ”النہایة1/318 “پر سنت کی لغوی تحقیق کی ہے ۔علامہ ابن منظور افریقی (مصری) نے ”لسان العرب“میں جو تحقیق کی ہے وہ سب کا لبِ لباب ہے، وہ فرماتے ہیں:۔

”والسنة: الطریقة والسیرة، حسنة کانت أوقبیحة، قال خالد بن عتبة الھذیلی:#فلا یجزعن سیرة أنت سرتھا، فاول أرض سنة من یسیر ھا․والحدیث: من سن سنة حسنة فلہ أجرھا وأجرمن عمل بھا، ومن سن سنة سیئة کان علیہ وزرھا وزر من عمل بھا․“(لسان العرب:62/399)
ترجمہ :۔ سنت سیرت کے معنی میں بھی آتا ہے، خواہ اچھی ہو یا بری، چناں چہ ہذیلی شاعر کہتا ہے :جو سیرت تم نے اختیار کر لی ہے، اس سے ہر گز مت گھبراؤ ،اس لیے کہ جو شخص کوئی سیرت اختیار کرتا ہے وہی اس کا سب سے پہلا پسند کرنے والا ہوتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ: جس شخص نے اچھی سنت اختیار کی اس کو اس کا اجر …اور جس نے بری سنت اختیار کی اس کا گنا ہ اس کو…ملے گا۔

سنت کی اصطلاحی تعریف فنون و اغراض کے مختلف ہونے سے بدل جاتی ہے ، محدثین، فقہاء اور اصولیین نے اپنی اپنی سوچ اور زاویہ سے سنت کی تعریف کی ہے، چند صفحات سب کے تحمل سے قاصر ہیں، اس لیے بطور خلاصہ ایک ہی ذکر کی جاتی ہے:

”کل ما اثر من النبی صلى الله عليه وسلم من قول، أو فعل، أو تقریر، أو صفة خلیقة أو خلقیة، سواء کان ذلک قبل البعثة، کتحنثہ فی غار حرا، أوبعدھا․“(السنة قبل التدوین:18۔19)
ترجمہ: سنت ہر وہ قول، فعل اور تقریر جو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے منقول ہو ، چاہے وہ فطری ہو یا اخلاقی، قبل البعثت ہو یا بعد البعثت ۔

سنت کی دو اقسام ہیں: سنت ِ موٴ کدہ اور سنتِ غیر موٴکدہ۔ پہلی ہدی اور دوسری کو زوائد کہتے ہیں،علامہ مکحول فرماتے ہیں:”السنة سنتان: سنة الأخذبھافریضة، وترکھاکفر، وسنة الأخذبھا فضیلة، وترکھالی غیرحرج․“
ترجمہ: سنت کی دو قسمیں ہیں جس پر عمل کر نا فرض کا درجہ رکھتا ہے اور ترک کفر تک پہنچاتاہے۔ جس پر عمل کرنے سے ثواب ملتا ہے اور چھوڑنے میں کوئی حرج نہیں ۔

اتباع ِ سنت فطری تقاضا
شریعت کے قوانین وضوابط اپنی جگہ، مگر فطرت کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں ،محبت کے کچھ اصول ہوتے ہیں ۔ انسانی فطرت ہے کہ جو جتنا بڑا محسن ہوتا ہے طبیعت اس جانب مائل ہوتی اور اس کے رنگ میں رنگنے کا جی چاہتا ہے۔محب ہمہ تن اسی جستجو میں رہتا ہے کہ محبوب کی محبت میں اضافہ ہی ہوتا چلاجائے ۔امت محمد یہ میں کوئی فرداس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتاجب تک حضور صلی الله علیہ وسلم کی محبت سب محبتوں پر غالب نہ ہو ،اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿النَّبِیُّ أَوْلَی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ أَنفُسِہِمْ ﴾(احزاب:6) مسلمانوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی محبت میں ایسے ایسے کارنامہ سر انجام دیے ہیں کہ دنیا ان جیسی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ ہر زمانے کے مسلمانوں نے اپنا تن ،من ،دھن آپ صلی الله علیہ وسلم کی ناموس عصمت پرنچھاورکیا ہے۔

محب تو محب رہا، محبوب کے کیا کہنے …!!ہر وقت وہر گھڑی اپنی امت ہی کی فکر میں ہیں …عرش ہویا فرش ،دن ہویا رات ،گرمی ہویا سردی، صحت ہویا مرض،خوشی ہویاغمی، مرض الموت ہویا قیامت،حشر ہویا نشر ،ہر وقت ایک ہی صدا، ایک ہی ندا،ایک ہی پکار اور ایک ہی التجاہے ،یارب امتی، امتی…!! آپ صلی الله علیہ وسلم ہم سے اتنی محبت کرتے ہوں اور حضور صلی الله علیہ وسلم کے ہم پراتنے احسانات ہوں ،اس کے باوجود بھی ہم سنتوں کو سنت کہہ کر چھوڑدیں تو کہاں کا انصاف ہے؟یقینا ہم کچھ بھول رہے ہیں …!!

اتباعِ سنت قرآن مجید کی نظر میں
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مختلف مواقع پر مختلف انداز میں سنتِ نبوی کی اتباع کا حکم دیا ہے،کبھی وعدہ کرکے تو کبھی وعید سناکر ،کبھی ڈانٹ کر، کبھی خوش خبری سناکر تو کبھی ڈراکر ، کبھی انعام دے کر تو کبھی عذاب سناکر ۔ سب کالب لباب اور خلاصہ یہی ہے کہ تمہیں پسند ہویا ناپسند،تم پرخوش گوار گزرے یانا گوار ، تمہیں ہر حا ل میں محبوب صلی الله علیہ وسلم کی اتباع کرنی ہے ۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی ذات کو بہترین نمونہ قرار دیا ۔

﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَةٌ حَسَنَة﴾․(احزاب:31)
کہیں پر مطلق اطاعت کا تاج آپ صلی الله علیہ وسلم کے سر پر رکھ دیا:﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِیُطَاعَ بِإِذْن الله﴾․(نساء:64)
کہیں پر رسول کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا:
﴿مَّنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّہ﴾․(نساء:80)
کہیں پر اپنی محبت کو حضور صلی الله علیہ وسلم کی اتباع کے ساتھ مشروط کر دیا:﴿قُلْ إِن کُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّہَ فَاتَّبِعُونِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّہ﴾․(آل عمران:31)
کہیں پر رسول صلی الله علیہ وسلم کے امرونہی کا پابند بنا دیا:﴿َمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانتَہُوا﴾․(حشر:7)

اللہ رب العزت نے جس طرح اپنے کلام میں اتباعِ سنت کی تاکید وتلقین کی ہے، اسی طرح تکوینی طور پر حضور پاک صلی الله علیہ وسلم کی ایک ایک سنت کو زندہ رکھا۔ آج دنیا بھر میں فقہاء کے چار مسالک رائج ہیں۔ بظاہر تو وہ فقہی اختلافات نظر آتے ہیں ، مگر در حقیقت ہر ہر سنت کی اتباع کا غیر محسوس طریقہ ہے۔

اتباعِ سنت نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں
آقائے نام دار حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم خاتم النبیین وخاتم المرسلین ہیں۔ آپ جانتے تھے کہ ایک نبی و رسول کا مقام و مرتبہ کیا ہوتا ہے، اس کے حکم و امر کی کیا حیثیت ہوتی ہے اور اگر کوئی حکم عدولی کرے تو اس کا انجام قوم عاد، لوط اور قوم نوح کی طرح ہوتا ہے اور اس کا حشر فرعون ،ہامان اور نمرود کی طرح ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے آپ صلی الله علیہ وسلم نے بروقت اپنی امت کو اطاعت و اتباع کی ترغیب و تربیت کی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

فعلیکم بسنتی وسنة الخلفاء المجتھدین الراشدین، تمسکوا بھا، و عضواعلیھا بالنوا جذ․(رواہ احمد:28 /373)
ترجمہ :تم پر میری اور میرے خلفائے راشدین کی سنت پر عمل لازمی ہے ،اس کو تھام لو اور اس پر مضبوطی اختیار کرو۔

من تمسک بالسنة دخل الجنة․ (کنزالعمال:1/105) ترجمہ: جس نے سنت کو تھاما، وہ جنت میں داخل ہو گیا۔

فمن کانت فترتہ اِلیٰ سنتی، فقد افلح، ومن کانت فترتہ الیٰ غیر ذلک، فقد ھلک۔ (رواہ أحمد:11/375)
ترجمہ :جس کا اطمینان جاکر میری سنت پر ہوا، وہ کام یاب ہو گیا، اور جس کا اطمینان اس کے علاوہ پر ہوا، وہ ہلاک ہوگیا۔

فمن رغب عن سنتی فلیس منی۔(رواہ البخاری، کتاب النکاح، باب الترغیب فی النکاح:5063،ومسلم،کتاب النکاح:1401،وأحمد:11/9)
ترجمہ: جس نے میری سنت سے بے رغبتی کی وہ مجھ سے نہیں ہے۔

من أحب سنتی فقد أحبنی، ومن أحبنی کان معی فی الجنة۔(تہذیب تاریخ دمشق الکبیر:3/145)
ترجمہ: جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی ، جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔

من تمسک بسنتی عند فساد أمتی فلہ أجرما ئة شہید․ (مشکاةٰ المصابیح:1/62،رقم:176،ط:المکتب الاسلامی)
ترجمہ: جس نے میری امت کے فساد کے وقت میری سنت کو تھاما ، اس کو سو(100)شہیدوں کا ثواب ملے گا۔

خیر الحدیث کتاب اللہ، خیر الھدی ھدی محمد صلی اللہ علیہ وسلم، ومن شرالأمور محدثاتھا، وکل بدعة ضلالة۔(المسلم:2/592)
ترجمہ: بہترین کلام کتاب اللہ ہے، عمدہ سیرت ، محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہے اور اس میں نئی چیزیں گھڑنا بدترین کام ہے اور ہر بدعت گم راہی ہے۔

قرآن و سنت کی ان قطعی نصوص کے بعد کیا کوئی حجت باقی رہ جاتی ہے؟ !! حیرت اور تعجب ہوتا ہے کہ آخر ہم کہاں پھرے جا رہے ہیں ؟!! ہم پیچھے مڑکر کیوں نہیں دیکھتے؟!!

اتباعِ سنت اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین
بعثتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل عرب پستی کے دہانے پر کھڑے تھے، ضلالت و گم راہی کی آخری حدود تک پہنچ چکے تھے اور اچھائی، بھلائی اور نیکی ان میں آخری سانسیں لے رہی تھی، مگر چند دنوں اور ہفتوں میں ان کی کایا پلٹ گئی، ان کی زندگیاں بدل گئیں، انہوں نے قیصر وکسریٰ کی قبائیں نوچیں، بڑے بڑے صاحب جبروت بادشاہوں کے تاج پاؤں میں روندے، ملائکہ ان کی مدد کو اترے، جنت کی ان کو بشارتیں آئیں ، فرشتوں نے ان کو سلام بھیجے، سمندروں اور دریاؤں نے ان کو راستے دیے، جس ملک وعلاقہ میں پہنچے وہاں کے باشندے ان کے گرویدہ ہوگئے، ظفر و فتح نے ان کے قدم چومے اور آسمان سے ان پر سکینہ نازل ہوئی۔

یہ مدد و نصرت کیوں اتری؟ اس لیے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے اپنے آپ کو مکمل طورپر سنت کے سانچہ میں ڈھال دیا تھا…لباس وپوشاک ،کلام و گفتگو، کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، عبادات و معاملات،اخلاق و اقدار، تہذیب و تمدن… غرض یہ کہ ہر چیز میں دیکھتے کہ ہمارے رسول صلی الله علیہ وسلم کا اس میں کیا طریقہ کار تھا؟ وہ سنت پر مر مٹتے تھے، سنت کے مقابلہ میں کوئی رائے قبول نہ کرتے اور خلافِ سنت کاموں پر آگ بگولہ ہوجاتے، کبھی یہ نہ سوچتے تھے کہ اس میں کوئی علت ہے یا نہیں ، کوئی فائدہ ہے یا نہیں…!! امیر المومنین ، خلیفہ اول، حضرت ابو بکر صدیق فرماتے ہیں: ”میں ہر گز ایسا کام نہیں چھوڑ سکتا، جس کو نبی صلى الله عليه وسلم نے کیا ہو، میں ڈرتا ہوں کہ اگر میں کوئی سنت چھوڑ دوں گا تو بھٹک جاؤں گا۔“ (مسند احمد:1/20)

حضرت عمر نے حجر اسود کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ :
”میں جانتا ہوں تو پتھر ہے ، نفع دے سکتا ہے نہ نقصان، اگر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم تمہیں بوسا نہ دیتے تو میں بھی تمہیں بوسانہ دیتا۔“ (البخاری:1610)

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
”آخری زمانہ میں کچھ لوگ آئیں گے جو شبہاتِ قرآن کریم میں تم سے جھگڑیں گے، تم ان کے مقابلہ میں سنتوں کو تھامو، اصحابِ سنت کتاب اللہ کو زیادہ جاننے والے ہیں۔“(سنن الدارمی:80)

حضرت علی ایک دفعہ کھڑے ہو کر پانی پی رہے تھے، میسرہ بن یعقوب نے پوچھا: آپ کھڑے ہو کر پانی پی رہے ہیں؟ آپ  نے فرمایا:”اگر میں کھڑے ہو کر پانی پیتا ہوں تو میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو اسی طرح دیکھا اور اگر میں بیٹھ کر پانی پیتا ہوں، تو میں نے تب بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کو اسی طرح دیکھا۔“(مسند احمد:2/242)

حضرت عبد اللہ بن عمر  فرماتے ہیں:
”ہم کچھ نہیں جانتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف آپ صلی الله علیہ وسلم کو معبوث کیا ، پس ہم وہی کرتے ہیں جس طرح ان کو کرتے دیکھا ہے۔“(مسند احمد:9/495)

حضرت ابنِ عمر  سب سے زیادہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرتے تھے، سفر میں بلاضرورت لیٹ جاتے اور بغیر ضرورت کے قضاء حاجت کے لیے بیٹھ جاتے، پوچھنے پر یہی جواب دیتے کہ میں نے حضور صلی الله علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ آپ اکثر یہ آیت تلاوت فرماتے تھے:﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَةٌ حَسَنَة﴾․ (مسند احمد:9/191)

حضرت ابن مسعود کے بارے میں آتا ہے کہ آپ سب سے زیادہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی مشابہت اختیار کرتے تھے، حتی کہ گھر کے معمولات معلوم کرنے کے لیے اپنی والدہ کو حضور پاک صلی الله علیہ وسلم کے گھر بھیجتے تھے، ایک دفعہ فرمایا:”اتباع کرو ، بدعت اختیار نہ کرو ، ،پس یہی تمہاری نجات کے لیے کافی ہے۔“(الابانہ:1/328)

حضرت علی نے فرمایا:”اگر دین عقل کے تابع ہو تا تو ہم موزے کے باطن پر مسح کرتے، ،مگر ہم نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو ظاہر پر مسح کرتے دیکھا ہے۔“(مسند احمد:2/242)

اتباع ِ سنت کے موضوع پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے اتنے اقوال ہیں کہ ایک مستقل دیوان بھی ناکافی ہے…!! عقل والوں کے لیے اشارہ بھی کافی ہوتا ہے…!! (جاری)

Flag Counter