آداب معاشرت
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُیُوتَ النَّبِیِّ إِلَّا أَن یُؤْذَنَ لَکُمْ إِلَی طَعَامٍ غَیْْرَ نَاظِرِیْنَ إِنَاہُ وَلَکِنْ إِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍ إِنَّ ذَلِکُمْ کَانَ یُؤْذِیْ النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیِیْ مِنکُمْ وَاللَّہُ لَا یَسْتَحْیِیْ مِنَ الْحَقِّ وَإِذَا سَأَلْتُمُوہُنَّ مَتَاعاً فَاسْأَلُوہُنَّ مِن وَرَاء حِجَابٍ ذَلِکُمْ أَطْہَرُ لِقُلُوبِکُمْ وَقُلُوبِہِنَّ وَمَا کَانَ لَکُمْ أَن تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّہِ وَلَا أَن تَنکِحُوا أَزْوَاجَہُ مِن بَعْدِہِ أَبَداً إِنَّ ذَلِکُمْ کَانَ عِندَ اللَّہِ عَظِیْماً﴾․(سورةاحزاب:53)
(اے ایمان والو!نبی کے گھروں میں داخل نہ ہو، مگر یہ کہ تم کو کسی کھانے پر آنے کی اجازت دی جائے ،نہ کہ انتظار کرتے ہوئے کھانے کی تیاری کی ،لیکن جب تم کو بلایا جائے تو ضرور آؤ،پھر جب تم کھانا کھا چکو تو منتشر ہو جاؤ ، باتیں کرنے نہ لگے رہو،تمہاری یہ حرکتیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم )کو تکلیف دیتی تھیں، لیکن وہ تمہارا لحاظ کرتے تھے اور اللہ حق کے اظہار میں کسی کا لحاظ نہیں کرتا اور جب تم کو نبی کی بیویوں سے کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگو،یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے ،تمہارے لیے ہر گز جائز نہیں کہ تم اللہ کے رسول کو تکلیف پہنچاؤ،اور نہ یہ جائزہے کہ تم ان کی بیویوں سے ان کے بعد نکاح کرو،یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے ۔)
پیش نظر آیت کریمہ میں مسلمانوں کے ایک دوسرے کے گھروں میں آنے جانے اور اسلامی معاشرت سے متعلق چند آداب و احکام بیان کیے گئے ہیں ،سبب نزول کے اعتبار سے چوں کہ اس کا تعلق آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے ہے ،اس لیے بیوت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر فرمایا گیا ہے ،لیکن ان احکام میں عموم پایا جاتا ہے،کیوں کہ شریعت کا یہ مسلمہ اصول ہے:”العبرة لعموم اللفظ لالخصوص السبب“یعنی اعتبار لفظ کے عموم کا ہوتا ہے ،سبب کے اختصاص کا نہیں۔
آداب کی تعلیم میں چاراحکام دیے گئے ہیں یا یوں کہ لیجیے کہ چار ادب سکھائے گئے ہیں:
پہلا ادب یہ ہے کہ جب تک تمہیں گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی جائے، یعنی تمہیں کھانے کی دعوت نہ دی جائے اس وقت تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں تمہیں داخل ہونے کی اجازت نہیں، اس میں دو ادب سکھائے گئے ہیں،ایک یہ کہ گھروں میں داخل ہونے کے لیے اجازت طلبی ضروری ہے اور اگر اجازت نہ دی جائے تو واپس پلٹ جاؤ۔
دوسری یہ بات کہ کسی دعوت میں بن بلائے مت جاؤ، بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب انہیں معلوم ہوتا ہے کہ فلاں جگہ کھانے کی تقریب ہے تو وہ بن بلائے پہنچ جاتے ہیں ،اس آیت کریمہ میں اس سے روکا گیااور بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر اپنے عمل سے اس کی وضاحت فرمائی ۔
تیسرا ادب یہ سکھایا گیا ہے کہ اگر کسی دعوت میں بلایا جائے تو اسے بہانہ بنا کر کھانے کی تیاری کے انتظار میں وہیں دھونی مار کر مت بیٹھ رہو۔جس دین نے اپنے ماننے والوں کو قناعت اور کفایت کی تعلیم دی ہے اور فقیری اور ناداری کی حالت میں بھی خود داری کا ادب سکھایا ہے ان کے لیے یہ ہر گز مناسب نہیں کہ وہ کسی طماعی اور سفلہ پن کا مظاہر کریں اور ساتھ ہی یہ بات بھی کہ آنحضرت صلی اللہ علہ وسلم کے زمانے میں لوگوں کا رہن سہن نہایت ہی سادہ تھا ،زنانہ مکانوں کے ساتھ مردانہ بیٹھکیں نہیں تھیں۔ایسے میں قبل از وقت لوگوں کا جمع ہو جانا اہل خانہ کے لیے اذیت کا باعث ہوتا تھا ۔اس لیے اس بات سے روکا گیا کہ کھانے کے پکنے کے انتظار میں مت بیٹھو۔آیت میں ناظرین ،منتظرین کے معنی میں ہے اور اناہ میں اناہ کھانا پکنے کو کہتے ہیں ۔
اس کے بعد گھروں اور تقریبات میں آنے کے لیے صحیح طریقہ ارشاد فرمایا گیا ہے ۔وہ یہ ہے کہ جب تمہیں بلایا جائے تو کھانے کے وقت پہنچو تا کہ میزبان کو کوئی دشواری پیش نہ آئے ۔اور جب کھانا کھا چکو تو وہاں سے منتشر ہوجاؤ،طویل باتیں چھیڑ کر وہاں نہ بیٹھے رہو،کیوں کہ بعض دفعہ مہمانوں کا کھانے کے بعد دیر تک بیٹھے رہنا میزبان کے لیے باعث کلفت ہوتا ہے ۔ممکن ہے کہ میزبان کے لیے اس کے بعد کچھ اور ضروری مصروفیات ہوں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جگہ کی تنگی کے باعث مہمانوں کو باری باری کھلایا جارہا ہو،ظاہر ہے کہ پہلے مہمانوں کے جانے کے بعد دوسرے مہمانوں کو کھانے پر بلایا جا سکے گا اور گر پہلے مہمانوں میں سے کچھ لوگ باتوں میں لگے بیٹھے رہیں تو میزبان کو بھی تکلیف ہو گی اور مہمان بھی اذیت محسوس کریں گے۔
ہاں !اگر یہ اندازہ ہو سکے کہ میزبان کی خواہش ہے کہ مہمان دیر تک تشریف رکھیں، تاکہ اس کی تقریب کے لیے رونق کا سامان بنیں اور جگہ کی کشادگی کے باعث کسی تنگی کا بھی اندیشہ نہ ہو ،تو پھر دیر تک بیٹھنے اور باتوں میں لگے رہنے میں کوئی حرج نہیں۔
اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کریم النفسی اور مروت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو بہت بلند و بالا خصلتوں اور عادتوں کا پیکر بنایا ہے ۔اس لیے تمہارا وقت سے پہلے آبیٹھنا اور پھر دیر تک بیٹھ کر باتیں کرتے رہنا اور اجازت لیے بغیر اندر چلے آنا …اس سے انہیں جگہ کی تنگی اور مردانہ اور زنانہ حصہ ایک ہونے کی وجہ سے جو اذیت پہنچتی تھی وہ اپنی کریم النفسی کے باعث اس کا اظہار نہیں فرماتے تھے ۔تکلیف برداشت کے لیتے تھے، لیکن مہمانوں سے کچھ کہنا لحاظ اور مروت کے خلاف سمجھتے تھے۔لیکن اللہ تعالیٰ حق کے اظہار میں کسی کا لحاظ نہیں فرماتا، یہ باتیں اسلامی معاشرت کے نقطہ نگاہ سے بہت نقصان دہ ہیں اور ان ہی سے بہت سے مفاسد بھی پیدا ہو سکتے ہیں ۔اس وجہ سے وہ تمہیں ان باتوں سے آگاہ فرمارہا ہے، تاکہ اسلامی معاشرہ انسانی خصائل حمیدہ کاصحیح ترجمان ثابت ہو۔
صحابہ کرام کا معاشرہ جو ہمہ وقت وہمہ جہت تربیت کے بعد تمام نوع انسانی کے لیے ایک نمونے کا معاشرہ بنا ،یہ صرف آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کا اعجاز اور اسلامی اخلاق کا اثر تھا ،ورنہ اہل عرب اپنی عادات واطوار میں اس وقت کی دنیا میں سب سے زیادہ اجڈ اور غیر شائستہ تھے ۔وہ معاشرے کے بنیادی آداب سے بھی تہی دامن تھے ۔آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تربیت میں جس طرح نہایت حکیمانہ طریقہ اختیار کیا، اسی طرح اپنے مزاج کے خلاف ان کی بہت سی ناشائستہ باتوں کو بھی برداشت کیا ۔اور جیسا کہ عرض کیا گیا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی کریم النفسی کے باعث لوگوں کی غلط باتوں پر ٹوکنا اور خاص طور پر گھر آئے ہوئے مہمانوں کی کسی بات پر تنبیہ کرنا خلاف مروت سمجھتے تھے ،اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم اذیت برداشت کرتے تھے، لیکن کہنا پسند نہ تھا ۔آپ صلى الله عليه وسلم کے خادم خاص حضرت انس بن مالک کی روایت ہے کہ حضرت زینب کے ولیمے میں سب لوگ تو کھانے سے فارغ ہو کر رخصت ہوگئے، مگر دو تین حضرات بیٹھ کر باتیں کرنے میں لگ گئے ۔تنگ آکر حضورصلى الله عليه وسلم اٹھے اور ازواج مطہرات کے یہاں ایک چکر لگایا ۔واپس تشریف لائے تو دیکھا کہ وہ حضرات بیٹھے ہوئے ہیں ۔آپ پھر پلٹ گئے اور حضرت عائشہ کے حجرے میں جا بیٹھے۔ اچھی خاصی رات گزر جانے کے بعد جب آپ کو معلوم ہوا کہ وہ چلے گئے ہیں ۔تب آپ حضرت زینب کے مکان میں تشریف لائے ،اس کے بعد یہ آیات نازل ہوئیں اور اصلاح معاشرت کے ساتھ ساتھ پردے کے بھی چند احکام دیے گئے اور سورة النور میں ان احکام کی تکمیل کی گئی۔