Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1436ھ

ہ رسالہ

9 - 16
امامت کا منصب اور امام

ضبط وترتیب :مفتی احمد خان
	
حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ کا یہ بیان فضلاء جامعہ فاروقیہ سے اس فکر کی عکاسی کرتا ہے جس کا اظہار اجتماعی وانفرادی مجالس میں حضرت ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں کہ ایک عالمِ دین کو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے نائب وخلیفہ ہونے کی حیثیت سے امت کے ساتھ کیا رویہ رکھنا چاہیے اور کس طرح معاملہ اختیار کرنا چاہیے… اسی فکر کی ایک کڑی مختلف علاقوں کی سطح پر جوڑ واجتماع کا انعقاد ہے … جن میں ایک طویل محنت اور دور دراز کے اسفار کے بعد… ساتھیوں میں یہ درد اور فکر بیدار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ استاد محترم نے یہ بیان اسی طرح ایک جوڑ کے موقع پر فرمایا…… جو اندرون سندھ کے شہرواڈکی، سانگھڑ میں منعقد ہوا… بیان بہت عمدہ اور مفید تھا… افادہٴ عام کی نیت سے قارئین کے سامنے پیش کیا جارہا ہے۔ (ادارہ)

ہمارا جذبہ یہ ہو۔ اس لیے کہ ہم نے اپنے استاد، اپنے والد، اپنے مربی، اپنے مرشد کو یہی کرتے ہوئے دیکھا۔ سب کو سینے سے لگایا۔ آپ کے سامنے ہے کہ آج پاکستان میں وفاق المدارس العربیہ جتنا بڑا ادارہ ہے، کوئی دوسرا مذہبی ادارہ ہمارے ملک اتنا بڑانہیں ہے، نہ کوئی سیاسی، مذہبی، دینی جماعت اتنی بڑی ہے جتنا بڑا وفاق ہے۔ حضرت وفاق کے بالاتفاق ،یعنی کسی کو بھی حضرت کے بارے میں ذرہ برابر اشکال نہیں ،اختلاف نہیں ،مولانا فضل الرحمٰن صاحب ہیں وہ دل سے خوش ہیں ،مولاناسمیع الحق صاحب دل سے خوش ہیں، مولانا محمد احمد لدھیانوی صاحب دل سے خوش ہیں۔ تبلیغ والے دل سے خوش ہیں، جہاد والے دل سے خوش ہیں۔ تمام مدارس خواہ ان کا تعلق حضرت شیخ الاسلام حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ سے ہو یا حکیم الامت حضرت مولانا تھانوی رحمة اللہ علیہ سے ہو، حضرت کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں۔

اور․․․ ہم کس کی اولاد ہیں؟ ہم بھی انھی کی اولاد ہیں۔ میں خاص طورپر آپ سے یہ بات کر رہا ہوں کہ جب ہم ان سے تعلق رکھتے ہیں تو پھر ہم اس حوالے سے بالکل واضح ہوں۔ ہمارے درمیان اس قسم کا کوئی انتشاریا اس طرح کا کوئی اختلاف یا کوئی تحفظات․․․ ہر گز نہ ہوں۔

اگر خدا نہ خواستہ آ ج سے پہلے تھے تو اس کو ختم کر دیں۔ ہم توبہ کریں، استغفار کریں، کیوں کہ یہ سب دین کا کام ہے۔ مسجد کی خدمت دین کی خدمت ہے۔ اسی طریقے سے دعوت وتبلیغ کی خدمت، دین کی خدمت ہے۔ مدرسے کی خدمت بھی دین کی خدمت ہے۔ اگر کہیں سیاسی ضرورتوں میں کام آنے کی ضرورت ہے تو یہ دین کی خدمت ہے۔ فرقہ باطلہ کی تردیدہو تو یہ دین کی خدمت ہے، جو ہم سب کو مل کر کرنی چاہیے۔

ہم اگرعملاً شریک نہیں ہوسکتے ہیں تو کم سے کم دعا کر سکتے ہیں، ہم کم سے کم حوصلہ افزائی تو کرسکتے ہیں۔ لیکن ہم ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے رہتے ہیں۔ ہم ترازو لے کر بیٹھ جاتے ہیں کہ یہ ایک کلوہے، یہ ڈیڑھ کلو ہے․․․ ہماری حیثیت کیا ہے کہ ہم لوگوں کو تولتے پھریں۔ اس سے انتشار پیدا ہوتا ہے، اس سے ہماری طاقت ختم ہوجاتی ہے، اس سے برکت ختم ہو جاتی ہے، اس سے اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت ہٹ جاتی ہے، اللہ کی مدد باقی نہیں رہتی۔ اس لیے ہم اس کا اہتمام کریں اور اختلاف و انتشار سے بچیں۔

آ خرمیں گزارش یہ ہے کہ ہم اپنے مرکز کے ساتھ مضبوط رشتہ قائم رکھیں۔ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔ جو شاخ، جو ڈالی، جو ٹہنی، تنے کے ساتھ جڑی ہوئی ہوتی ہے وہ سرسبزوشاداب رہتی ہے۔ ا س پر پھول آتے ہیں، اس پر پھل آتے ہیں، اس پر کلیاں آتی ہیں۔ وہ دیکھنے میں خوش نما لگتی ہے۔ لیکن اگر ڈالی اور شاخ تنے سے ٹوٹ جائے پھر کیا ہوتا ہے؟ پیروں تلے روندی جاتی ہیں۔ پھر کیا ہوتا ہے؟ وہ شاخ سوکھ جاتی ہے۔ پھر کیا ہوتا ہے؟ وہ جلا دی جاتی ہے۔ اس لیے گزارش ہے، درخواست ہے کہ آپ اپنے اساتذہ سے، اپنے مرکز سے،جیسے بھی، جس طرح بھی، جیسے آپ کو سہولت ہو، آپ کبھی کراچی تشریف لائیں تو آپ جامعہ تشریف لے آئیں اور اپنے اساتذہ سے ملیں۔ وہ شاید آپ کو نہ پہچانیں، اس میں ان کا قصور نہیں ہے۔ قصور آپ کا ہے۔ اس لیے کہ اساتذہ کے شاگرد ہزاروں کی تعداد میں ہوتے ہیں۔ کس کس کو پہچانیں گے۔ لیکن اساتذہ تو چند ہیں، لہٰذا، آپ کے لیے انھیں پہچاننا کوئی مشکل نہیں ہے۔ بلکہ ان کے لیے آپ کو پہچاننا مشکل ہے۔ اس لیے اگر خدانہ خواستہ وہ آپ کو نہ پہچانیں تو آپ دل میں یہ خیال نہ لائیے کہ استاد تو مجھے پہچانتے ہی نہیں ہیں۔ فوراًیہ قبول کریں کہ یہ میرا قصور ہے۔ چنانچہ آپ دو تین دفعہ ملیں گے تو پھر وہ سارے حجاب، وہ سارے تکلفات سب ختم ہو جائیں گے۔ کئی ساتھی یہاں ایسے ہیں جن سے خیبر والے پروگرام میں ملاقات ہوئی تھی، اب انھیں پہچاننے میں کوئی دشواری نہیں ہے۔ اب اگر تیسری دفعہ کہیں ملاقات ہوگی تو اور زیادہ شناسائی بڑھ جائے گی۔ یہی ربط، یہی تعلق ہے۔ چنانچہ آپ کبھی کراچی تشریف لائیں تو آپ یہاں آکر بھی اساتذہ سے ملیں۔ اسی طرح سے کبھی خط کے ذریعے اپنے احوال لکھیں، کبھی فون کے ذریعے اپنے احوال بتائیں۔ اس سے تعلق میں قوت اور برکت آتی ہے۔ یوں آ پ اپنے اساتذہ کی دعاؤں میں شریک ہوجائیں گے۔ وہ راتوں کو اٹھیں گے، اللہ سے مانگیں گے تو آپ کا قصہ، آپ کا معاملہ بھی یاد آجائے گا۔ پھر آپ کے لیے بھی مانگیں گے۔ آپ کا کام ہوجائے گا، آپ کا بیڑا پار ہوجائے گا۔ اس لیے میرے دوستو، اپنے اساتذہ سے تعلق برقرار رکھنے کی خوب کوشش کریں۔

جہاں تک تعلق ہے سندھ کا تو آپ کے سامنے ہے کہ پاکستان میں اور خاص کر کراچی میں بے شمار مدارس ہیں، آپ مجھے یہ بتائیے کیا کسی مدرسے سے سندھی میں رسالہ نکلتا ہے؟ لوگ ہم سے کہتے ہیں کہ آپ سندھی میں رسالہ کیوں نکالتے ہیں؟ اس لیے نکالتے ہیں کہ ہم سندھ میں رہتے ہیں۔ سندھ پر ہماراحق ہے۔ اور کب سے یہ رسالہ نکالتے ہیں؟ آج تیس برس کے قریب ہو گئے ہیں، دوچار برس کی بات نہیں ہے۔ ایک زمانے سے سندھی ”الفاروق“ شائع ہورہا ہے اور الحمدللہ، حضرت مولانا سید حسین شاہ صاحب دامت برکاتہم العالیہ بڑی ذمے داری اور بڑے اہتمام کے ساتھ، مسلسل کام کررہے ہیں۔ اس کے لیے وہ سفر بھی کرتے ہیں۔ آپ حضرات سے گزارش ہے کہ اپنے اپنے دائرے میں، اپنے اپنے حلقے میں، اس رسالے کاتعارف کرائیں۔ آپ کراچی آئیں تو ان نے ملیں اور کہیں کہ مجھے پرانے دس رسالے دے دیں۔ وہ آپ کو بلامعاوضہ ہی دے دیں گے۔ وہ رسالے اپنے ساتھ لے آئیے۔ یہاں آکر ایک ساتھی کو دیں، دوسرے ساتھی کو دیں، تیسرے کو دیں، چوتھے کو دیں، اس طرح سے آپ کی مادرِعلمی کا تعارف بڑھے گا، دین کی بات دور تک جائے گی۔

اسی طرح سندھ کے طلبہ کا معاملہ ہے کہ ہمارے ہاں آج سے نہیں، ایک زمانے سے ہماری ترجیحات میں یہ شامل ہے کہ ہم سندھ کے طلبہ کا داخلہ ترجیحی کرتے ہیں، لیکن یہ ایک ہی ادارہ ہے۔ آپ بھی جانتے ہیں کہ ہم ایک نظام چلارہے ہیں۔ اس نظام سے نکلنا ہمارے لیے آسان نہیں ہے۔ پھر بھی سندھ کے طلبہ کے لیے ترجیح ہے۔ وہ کیو ں ہے؟ وہ اس لیے کہ سندھ کے مخصوص حالات ہیں، ان مخصوص حالات میں آپ خود سوچیں کہ جب آ پ کا مرکز، آپ کی مادرِعلمی، آپ کے اساتذہ اتنے فکر مند ہیں تو آ پ کو کتنا فکر مند ہونا چاہیے؟

ہم تو کراچی میں بیٹھ کر آپ کی فکر کر رہے ہیں، اور آپ اپنے مقام پراپنی فکر نہیں کر رہے۔ آپ فکر کریں، بلکہ بہت زیادہ فکر کریں۔

اور جو ابتدائی باتیں میں نے مسجد اورمکتب کے حوالے سے عرض کیں، آپ یاد رکھیے کہ اگر آ پنے ان باتوں کو زندہ نہیں کیا تو آپ مر جائیں گے، دوسرے آپ پر غالب آجائیں گے۔ یہاں پر توبڑی بڑی شیطانی محنتیں چل رہی ہیں، حکومتی سطح پر محنتیں چل رہی ہیں، باقاعدہ مفت۔ یہاں سے دوسرے ملکوں کے سفر کرائے جاتے ہیں، عیش وعشرت کرائی جاتی ہے۔ اور وہ بے چارہ مسلمان جب واپس آتا ہے تو اپنے گھر میں بھی وہی کافروں کا سا وطیرہ اختیار کرلیتا ہے۔ ایمان سے بھی جاتا ہے۔آپ بتائیے کہ ایسا ہے یا نہیں؟ اگر ہم مردہ ہوں، ہماری مسجد بے جان ہو، ہمارا امام محنت نہ کر رہا ہو، ہمارامکتب کام نہ کر رہا ہو، ہمارے پاس جو وسائل ہیں، وہ وسائل ان کے پاس نہیں ہے، جتنی مسجدیں آپ کے پاس ہیں، جتنے مدرسے آپ کے پاس ہیں، جتنے مکاتب آپ کے پاس ہیں، جتنے علماء آپ کے پاس ہیں، ان کے پاس نہیں ہیں۔ وہ پیسے کے زور پر کام کرتے ہیں اور اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ آپ یاد رکھیں، اگر آپ کی محنت ہوگی تو باقی ساری محنتیں پامال ہوجائیں گی، ختم ہوجائیں گی۔

تو جب آپ کا ادارہ، آپ کا مرکز اس حوالے سے اتنافکر مند ہے کہ سندھ کے طلبہ کا استقبال کیا جائے، سندھ کے طلبہ کو سال کے دوران میں جمع کیا جائے، ان کو رخ دیا جائے، ان کو ترجیحات بتائی جائیں ، انھیں نظام بتایا جائے کہ آپ کیسے کام کریں۔ آپ اپنے مقام پر رہتے ہوئے، آپ اپنی جگہ پر ہوتے ہوئے اگر خدانہ خواستہ فکر مند نہیں ہوں گے تو میرے دوستو، نقصان ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس نقصان سے محفوظ فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ہماری مساجد کی، مدارس کی، مکاتب کی، علماء کی، تمام دینی کاموں کی حفاظت فرمائے۔

حضرت زیدمجدہم حضرت مولانا سلیم اللہ خاں صاحب کی عمر آپ کے سامنے ہے۔ 90برس سے زائدہے، اور آج بھی وہ سبق پڑھاتے ہیں۔ آج بھی انہوں نے سبق پڑھایا۔ آپ مجھے بتائیے کہ ہم لوگ جوان، نوجوان، قوتوں والے، طاقتوں والے، گھٹنے مضبوط، پیر مضبوط، کندھے مضبوط، دل مضبوط، دماغ مضبوط․․․ ہم اگر پیچھے ہٹیں گے تو یہ بہت بڑی شرمندگی کی بات ہے یا نہیں؟ حضرت زید مجدہم کے لیے خصوصی دعاؤں کا بھی اہتمام کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کا سایہ عافیت کے ساتھ، خیریت کے ساتھ ،برکت کے ساتھ ،پوری امت پر اور بالخصوص ہم سب پر تا دیر قائم فرمائیں۔ ہم اپنی دعاؤں میں، اپنے اعمالِ صالحہ کے بعد، حضرت کے لیے اور اپنے ادارے کے لیے خصوصی دعائیں کریں۔

جامعہ فاروقیہ اب ایک ادارہ نہیں ہے، اب وہ بہت سارے اداروں میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ”مقر ثانی“ حب ریورروڈپر ہے۔آپ جب کراچی آئیں تو یہ بھی اپنے پروگرام میں شامل کرلیں کہ جامعہ فاروقیہ کے مقر ثانی جائیں گے۔ ہم سے آپ آکر تقاضا کریں کہ ہم آئیں ہیں، وہاں بھی ہمیں آپ لے کر چلیں توہم آپ کو مقر ثانی لے کر جائیں گے۔ جامعہ فاروقیہ، شاہ فیصل کالونی ایک ایکڑ زمین پر کافی نہیں تھا، اور مقرثانی 73ایکڑ سے زائد رقبے پر ہے۔اس میں پہاڑ بھی ہیں، اس میں نشیب بھی ہیں، اس میں فراز بھی ہے، اس میں میدان بھی ہے۔ اس میں مسجد بھی ہے، اس میں مدرسہ بھی ہے۔ صرف مسجد دس ایکڑ کے رقبے پر ہے۔ دس ہزار نمازیوں کی گنجائش کی مسجد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اپنے کرم سے اس کا بیسمنٹ مکمل کرادیا ہے۔ جو لوگ تعمیرات کا کام کرتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ بیسمنٹ، عمارت کی تعمیر میں سب سے مشکل اور سب سے مہنگاہوتا ہے۔ اس میں لوہا ہی لوہا ہوتا ہے۔وہ اللہ نے کرادیا۔ پھر بیسمنٹ کی چھت کرادی۔ بیسمنٹ کے اوپر 98کالم ہیں اور اتنے بڑے بڑے کالم ہیں کہ دونوں ہاتھ ڈالیں تو پورا نہیں آتا۔ وہ اللہ نے کھڑے کرادیے۔ اس کے بعدچھت تھی۔ وہ اللہ نے کرادی۔ اب اس مسجد کا 80فیصد ڈھانچا الحمدللہ، مکمل ہے۔ نمازیں اسی میں ہو رہی ہیں۔ جمعہ اسی میں ہو رہا ہے۔ شعبہ حفظ جو بہت بڑا شعبہ ہے، تقریباً پندرہ درسگاہیں ہیں، وہ ساری درس گاہیں اسی مسجد کے اندر ہیں۔ طلبہ کے کے ایک بڑی عمارت بھی مکمل ہو گئی ہے بڑی تعداد میں طلبہ کی رہائش بھی اسی عمارت کے اندر ہے۔ درسگاہیں اور دفاتر بھی ہیں۔ اور ایک اہم ضرورت جو اللہ تعالیٰ نے کرادی وہ یہ کہ حضرت کے حکم سے اساتذہ کے مکانات کی تعمیر شروع کرادی ،اس کے پلاسٹر کا کام، بجلی کا کام، بیت الخلاء اور دیگرضروری کام سب تکمیل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

یہ سب اللہ کرا رہے ہیں۔ آپ یقین کیجیے، میں نے پہلے بھی مہتممین کے حوالے سے آپ سے گزارش کی کہ سارے خزانوں کی چابیاں تو آپ کے پاس ہیں۔ آپ یہ کبھی نہ کہیں کہ وسائل نہیں۔ وسائل تو بھر ے پڑے ہیں۔ سارا خزانہ اللہ کا آپ کے لیے ہے۔ آ پ بس اس میں سے لینے والے بنیں۔ آپ اگر راتوں کو اٹھ کر مانگیں گے، صلوٰة الحاجات پڑھ کر مانگیں گے، مسلسل مانگتے رہیں گے،نیت آپ کی ٹھیک ہوگی، اخلاص سے آپ کام کریں گے تو کوئی وجہ ہی نہیں کہ کام نہ ہو۔ اللہ چلائے گا۔ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔ میں تو ساتھیوں سے کہتاہوں کہ مرکزی جامعہ فاروقیہ جو ناتھا خان گوٹھ کے ساتھ ہے، کی دو دیواریں ہیں، شمالی اور مغربی ناتھا خان گوٹھ کے ساتھ لگی ہوئی ہیں۔ جنوبی اور مشرقی دیواریں شاہ فیصل کالونی کے ساتھ ملتی ہیں۔ اس میں بھی سوا ئے سڑک کے کوئی فاصلہ نہیں ہے۔ یہ جو ناتھا خان گوٹھ ہے، وہاں پر بھی غریب پسماندہ لوگ آباد ہیں، شاہ فیصل کالونی میں بھی ایسا ہی ہے۔ کوئی ڈیفنس نہیں ہے، کوئی کلفٹن نہیں ہے، کوئی گلشنِ اقبال نہیں ہے، وہ سائٹ کا انڈسٹریل ایریا یا کورنگی کا انڈسٹریل ایریا بھی نہیں ہے۔ جامعہ فاروقیہ کے چاروں طرف غریب آبادی ہے۔ اللہ تعالیٰ کام لے رہا ہے اور خوب کام لے رہا ہے۔ بہت بڑا کام لے رہا ہے۔

میرے دوستو، یہ صرف اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت ہے۔ آپ حضرات سے جو ایک روحانی تعلق ہے، اس کے نتیجے میں یہ چند گزارشات آپ کی خدمت میں عرض کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں اور ہمارے درمیان اس ربط اور تعلق کو اللہ تعالیٰ اخلاص کے ساتھ اور زیادہ قوی اور زیادہ مضبوط فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ آپ حضرات کے تمام دینی کاموں میں خوب خوب برکتیں عطا فرمائیں۔ آمین!

Flag Counter