رمضان اورتلاوتِ قرآن
مفتی محمد مجیب الرحمن دیودرگی
رمضان المبارک کو قرآن کریم سے گہری مناسبت ہے، امام رازی لکھتے ہیں: روزہ اور نزول قرآن کے درمیان گہرا تعلق ہے، جب یہ مہینہ نزولِ قرآن کے ساتھ خاص کیا گیا تو ضروری تھا کہ یہ مہینہ روزوں کے ساتھ بھی خاص ہو۔(تفسیر کبیر3/98) حضرت موسی علیہ السلا م کو جب اللہ تعالیٰ نے کتاب دینے کاارادہ کیاتو انہیں ایک ماہ تک روزہ رکھنے کا حکم دیا، پھر اس کے بعد دس دن کا اضافہ کیا ،اس کے بعد کلام الہٰی عطاکیا گیا؛ اسی لیے آپ صلی الله علیہ وسلم رمضان المبارک میں دیگر مہینوں کے مقابلے میں طویل قرأت فرماتے ، ایک رات رمضان میں حضرت حذیفہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ نیت باندھ لی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے سورہ بقرہ پڑھی، پھر سورہٴ نساء، پھر سورہٴ آل عمران، کسی بھی آیت تخویف پر سے گذرتے تو رکتے، دو ہی رکعت میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ پڑھا تھا کہ حضرت بلال آگئے، نماز کے لیے اذان دے دی،(مسند احمد) امام نسائی نے نقل کیا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے چار رکعات نماز ادا کی تھی ، آپ صلی الله علیہ وسلم کے اسی اہتمام کو دیکھ کر بعض اسلاف رمضان کی تین راتوں میں ختم فرماتے، بعض لوگ ہر ہفتہ ایک قرآن اور بعض افراد ہر دس دن میں ایک قرآن ختم کرنے کا اہتمام کرتے۔(لطائف المعارف1/11)
قرآن کریم کی تلاوت کے فضائل وفوائد بے شمار ذکر کیے گئے ہیں؛اسی لیے اکابراولیائے کرام تلاوتِ قرآن کا بہت ہی زیادہ اہتمام فرماتے تھے؛ چناں چہ بعض بعض افراد کے تلاوتِ قرآن کے ایسے محیر العقول واقعات ہیں، جنہیں دیکھ کر سوائے حیرانگی کے کچھ نہیں کہا جاسکتا؛ لہٰذا ایسے ہی چند واقعات کو تاریخ کی کتابوں سے یہاں نقل کیا جارہا ہے، جسے پڑھ کر ہم بھی اس ابدی وسرمدی کتاب کی تلاوت کی طرف متوجہ ہوں، اس کی تلاوت کے ذریعہ اپنی دنیا وآخرت کو سنواریں۔
٭.. امام بخاری… رمضان کی پہلی رات میں اپنے ساتھیوں کو جمع کرتے، ان کی امامت فرماتے، ہر رکعت میں بیس آیتوں کی تلاوت فرماتے، نیز اسی ترتیب پر قرآن ختم فرماتے، ہر دن سحری تک قرآ ن کریم کا ایک تہائی حصہ تلاوت فرماتے، اس طرح تین رات میں قرآن ختم فرماتے اورر مضان کے ہر دن میں ایک قرآن ختم کرتے اور یہ ختم افطار کے موقعہ پر ہوتا اور ہر مرتبہ ختم کرتے ہوئے دعاء کا اہتمام کرتے۔ (فتح الباری1/481)
٭..امام احمد… امام احمد دن رات میں سو رکعت نماز پڑھتے تھے، جب کوڑے لگنے سے کمزور ہوئے تو رات دن میں ڈیڑھ سو رکعت نفل نماز پڑھتے تھے، حالاں کہ عمر اس وقت اسی برس کے قریب تھی، ہر سات دن میں ایک ختم فرماتے، ہر سات راتوں میں ایک قرآن مجید ختم فرماتے، عشاء کی نماز کے بعد تھوڑی دیر سوتے پھرصبح تک نماز دعا میں رہتے، امام احمد نے پانچ حج کئے جس میں تین پیدل تھے اور دو حج سوار ہو کر۔ (صفة الصفوة 1/484)
٭.. زھیر بن محمد…رمضان کے ایک دن ورات میں تین قرآن ختم فرماتے، مکمل رمضان میں 90 دفعہ قرآن ختم کرتے۔ (صفة 1/510)
٭.. ابو العباس بن عطاء…روز انہ ایک قرآن کریم کی تلاوت کرتے، رمضان کے ایک دن ورات میں تین قرآن ختم فرماتے۔(صفة 1/533) (البدایہ 11/164)
٭.. ابو بکر محمد بن علی کنانی…انہوں نے دوران طواف 12 ہزار دفعہ قرآن کریم کی تلاوت کی۔ (ایضا 1/539)
٭.. ابوبکر بن عباس …جب ان کی وفات کا وقت قریب ہوا تو ان کی بہن رونے لگی، آپ نے ان کی جانب دیکھ کر فرمایا کیوں روتی ہو؟ دیکھو گھر کے اس حصے کو !جس میں تمہارے بھائی نے اٹھارہ ہزار دفعہ قرآن کریم کی تلاوت کی ہے۔ (صفة 2/96) اسی طرح ابو بکر نے اپنے فرزند کو تسلی دی کہ اللہ تعالیٰ تمہارے باپ کو ضائع نہیں کرے گا، جس نے چالیس سال سے ہر رات قرآن ختم کیاہے۔(ایضا) (البدایہ 10/243) چالیس سال تک پشت کو زمین سے نہیں لگایا،60 سال تک روزانہ ایک ختم کرتے،80 رمضان کے روزے رکھے، وفات 96سال میں ہوئی۔
٭..عبد اللہ بن ا دریس…ان کی وفات کے موقعہ پر ان کی لڑکی رونے لگی، انہوں نے تسلی دی کہ مت رو ، تمہارا والد اس گھر میں چار ہزار دفعہ قرآن مجید کی تلاوت کر چکا ہے۔(صفة 2/98) (البدایہ والنہایہ 10/226)
٭.. محمد بن یوسف البناء…یہ فتوی دینے پر اجرت لیتے تھے اور صرف ایک درہم اپنے لیے خرچ کرتے، بقیہ صدقہ کردیتے، ہر دن ایک دفعہ قرآن مجید ختم فرماتے۔ (صفة الصفوة 2/287)
٭.. عبد العزیز المقدسی…یہ ابدال میں سے ہیں، انہوں نے بلوغ سے ہی گناہوں سے بچنے کی بڑی فکر کی اور اس کا اہتمام کرتے رہے، ان کا بیان ہے کہ بلوغ سے لے کر اخیر عمر تک ان کی لغزشیں(36) رہیں، نیز انہوں نے ان میں سے ہر غلطی پر ایک لاکھ دفعہ استغفار کیا اور ہر غلطی کے لیے ایک ہزار رکعت نماز ادا کی، ہر غلطی کی جانب سے ایک دفعہ قرآن ختم کیا ہے، اس کے باوجود بھی میں اللہ کے غصہ سے مامون نہیں کہ وہ میری پکڑ فرمادے اور میں توبہ کی قبولیت کی امیدپر ہوں۔(صفة 2/395)
قرآن کریم کی تلاوت کوئی مقرر نہیں اپنے نشاط وقوت پر موقوف ہے، نیز حضرت عثمان سے مروی ہے کہ وہ ہر رات ایک قرآن ختم فرماتے، نیز یہی عمل سلف کی ایک جماعت سے منقول ہے، اسی لیے چالیس دن سے تاخیرمیں ایک ختم میں کرنا بلا عذر مکروہ ہے۔ (غذاء الالباب 2/153)
٭.. شیخ علی بن الحسن شافعی…حالتِ احرام میں سفر حج کے دوران ان کا انتقال ہوا، بہت زیادہ اونچی ہمت والے تھے، کئی مرتبہ حج کیے، ایک ہزار سے زائد دفعہ عمرہ کیے، چار ہزار سے زائد دفعہ تلاوت کے ذریعہ قرآن کو ختم کیا، ہر رات ستر مرتبہ کعبة اللہ کاطواف کرتے۔ (مرآة الجنان2/252)
٭.. ولید بن عبد الملک…یہ اپنے ظلم فسق وفجور میں مشہور تھا، اس کے باوجود قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت کرتا تھا، تین دن میں ایک قرآن ختم کرتا اور رمضان میں سترہ دفعہ قرآن ختم کردیتا (مرآة الجنان1/91)
٭.. مامون الرشید…یہ عباسی خلفاء کا بہترین شخص تھا ،اس میں کئی خوبیاں جمع تھیں، لیکن یہ خلقِ قرآن کے فتنہ سے متاثر ہوا، اس کی بناء پر کئی علماء پر ظلم بھی کیا، اس کے بارے میں منقول ہے کہ بعض دفعہ رمضان میں 33 دفعہ قرآن حکیم ختم کرتا۔(تاریخ الخلفاء1/126)
٭.. محمد بن علی بن محمد ابو جعفر…یہ ہمدان کے رہنے والے ہیں، کئی دفعہ انہوں نے حج کیا،قرآن کریم بہت عمدہ آواز میں تلاوت فرماتے، مسجد نبوی میں ہر سال ایک رات میں روضہ کے پاس کھڑے ہو کر قرآن کریم ختم فرماتے۔ (المنتظم 5/100)
٭.. عبد الملک بن الحسن بن احمد…حدیث کے رواة میں سے ہیں، ان کا شمار بڑے زاہدوں میں ہے ہر رات ایک قرآن کریم ختم فرماتے، کثرت سے روزے رکھتے۔ (المنتظم 4/483) (البدایہ 12/147)
٭.. صالح بن محمد ابو الفضل شیرازی… یہ قاری قرآن تھے، یہ فرماتے تھے کہ میں نے چار ہزاردفعہ قرآن ختم کئے ہیں۔(المنتظم 4/22)
٭..ابو بکر بن احمد بن عمر البغدادی…یہ بڑے عبادت گذار اور صاحب ورع وتقوی ہیں، یہ ایک سال مکہ مکرمہ میں قیام کیے ہوئے رہے، جس میں انہوں نے ایک ہزار دفعہ قرآن کریم ختم کیا۔ (الدارس فی تاریخ المدارس 1/414)
٭..ابو الحسن سلمی…ابن الحاجب کہتے ہیں کہ ان کا شمار بڑے علماء میں ہے، یہ فقیہ تھے، دن ورات میں ایک دفعہ قرآن کریم ختم فرماتے، (الدارس فی تاریخ المدارس1/79)
٭..ابو علی عبد الرحیم بن القاضی الاشرف ابی المجد…یہ صاحب ثروت تھے، بہت زیادہ صدقہ وخیرات کا اہتمام فرماتے، عبادت وریاضت قابل رشک تھی، ہر دن ورات میں ایک دفعہ مکمل قرآن کریم ختم کرنے کی پابندی فرماتے۔ (البدایہ 13/31)
٭..شیخ ابو الفرج ابن الجوزی… معروف عالم دین ہیں ،بے شمار کتابوں کے مصنف ہیں، ان کے وعظ میں کئی کئی لوگ تائب ہوجاتے، تقریبا اسی (80) سال عمر ہوئی، ہر دن ورات میں ایک دفعہ قرآن ختم فرماتے۔ (البدایہ 13/13)
٭..سعید بن جبیر…حضرت ابن عباس کے عظیم شاگرد وں میں سے ہیں، تفسیر فقہ اور دیگر علوم کے امام ہیں، صحابہ کرام کی ایک جماعت سے ان کی ملاقات ہے، مغرب اور عشاء کے درمیان نمازمیں ایک قرآن کریم روزانہ تھوڑا تھوڑا کر کے ختم فرماتے، پھر کعبة اللہ میں بیٹھ کر تلاوت کرتے ہوئے ختم فرماتے، بعض دفعہ کعبة اللہ میں ایک ہی رکعت میں ختم فرماتے، ان کے سلسلہ میں مروی ہے کہ ایک مرتبہ رات میں کعبة اللہ میں نماز میں ڈھائی قرآن تلاوت فرمائی۔ (البدایہ 9/116)
٭..امام ابو حنیفہ…امام ابو یوسف فرماتے ہیں کہ امام صاحب ہر دن ورات میں ایک قرآن ختم فرماتے، جب رمضان کا مہینہ ہوتا تو عید الفطر ولیلة الفطر کو ملا کر62 قرآن ختم فرماتے۔ (اخبار ابی حنیفہ1/41)
خارجہ کہتے ہیں کہ ایک رکعت میں قرآن کریم ختم کرنا چار ائمہ کے سلسلہ میں ہے، عثمان بن عفان، تمیم داری ،سعید بن جبیر اور امام ابو حنیفہ ، نیز یحییٰ بن نضیر کے سلسلہ میں بھی ہے۔ (مغانی الاخیار5/161)
٭..امام شافعی…امام شافعی رمضان کے مہینہ میں ساٹھ(60) دفعہ قرآن کریم ختم کرتے۔ (نداء الریان 1/198)
٭..اسود بن یزید…اسود رمضان میں ہر دو راتوں میں ایک قرآن ختم فرماتے، رمضان کے علاوہ نو(9) راتوں میں ہمیشہ ختم فرماتے۔ (نداء الریان 1/197)
٭..قتادة…سات دن میں ایک دفعہ ہمیشہ قرآن ختم فرماتے، رمضان میں تین دن میں ایک دفعہ ختم فرماتے، جب عشرہٴ اخیر آتا ہر رات میں ایک دفعہ ختم فرماتے۔ (نداء الریان1/198)
٭..نخعی…عشرہٴ اخیر میں ہر رات میں ایک ختم فرماتے اور بقیہ مہینہ میں تین دن میں ایک دفعہ ختم فرماتے۔ (نداء الریان1/198)
٭..سعدبن ابراہیم…یہ ہر دن ایک قرآن ختم فرماتے۔ (نداء الریان1/198)
٭..امام زہری… جب رمضان آتاتو کہتے کہ یہ تلاوتِ قرآن اور کھانا کھلانے کا مہینہ ہے۔ (نداء الریان1/199)س
٭..سفیان ثوری…رمضان آتا تو دیگر عبادات چھوڑ کر قرآن کی تلاوت کی طرف متوجہ ہوتے۔
٭..ابن عون…بکار السیرینی کہتے ہیں کہ ابن عون ایک دن روزہ رکھتے، ایک دن افطار کرتے، میں ان کے ساتھ ایک طویل عرصہ تک رہا، بہترین خوش بو استعمال کرتے، نرم کپڑا پہنتے، ہر ہفتہ ایک دفعہ قرآن ختم فرماتے۔ (تاریخ الاسلام للذہبی3/132)
٭..ابن عمار… ابن عمار ہر تین دن میں ایک ختم فرماتے۔ (تاریخ الاسلام للذہبی4/267)
٭..شیخ علی بن الحسین… بڑے پُر ہمت شافعی عالم دین ہیں، کئی مرتبہ حج کیے ہیں، ان کے سلسلہ میں مروی ہے کہ ایک ہزار سے زائد عمرہ ادا کیے تھے، چار ہزار دفعہ سے زیادہ قرآن کریم ختم کیے، ہر رات کئی کئی مرتبہ طواف فرماتے تھے، ان کا انتقال حج کے احرام کی حالت میں ہوا۔ (مرآة الجنان2/252)
٭..امام مالک…ابن عبد الحکیم کہتے ہیں کہ جب رمضان آجاتا امام مالک اہل علم کی مجالس ترک کردیتے اور حدیث کا پڑھنا پڑھانا موقوف کردیتے تلاوتِ قرآن کی جانب متوجہ ہوجاتے۔(لطائف 1/172)
٭..شیخ الحدیث زکریا…ماضی قریب کے وہ عظیم بزرگ ہیں جن کی اصلاحی وعلمی وحدیثی خدمات روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں، ان کے سلسلہ میں مذکور ہے کہ 38ھ میں ماہِ مبارک میں ایک قرآن روزانہ پڑھنے کا معمول شروع ہوا تھا، جو تقریبا 80ھ تک رہا، بلکہ اس کے بعد تک بھی جاری رہا۔ (آپ بیتی 2/67)
ایک حکیم صاحب حضرت شیخ الحدیث صاحب سے ملاقات کے لیے ماہِ رمضان میں آئے، لیکن شام تک وہ تلاوت میں اور اپنے اشغال ہی میں رہے، یہ دیکھ کر آخر کار وہ یہ جملہ کہہ کر گئے، رمضان اللہ کے فضل سے ہمارے یہاں بھی آتا ہے مگر یوں بخار کی طرح کہیں نہیں آتا۔ (ایضا 2/69)
نیز شیخ الحدیث نے اپنی دادی صاحبہ کے تعلق سے لکھا ہے کہ وہ حافظہ تھیں، خانگی مشاغل میں کھانا پکانے کے علاوہ روزانہ ایک منزل پڑھنے کا معمول تھا اور رمضان المبارک میں روز انہ چالیس پارے تلاوت کا معمول تھا۔(آپ بیتی 2/62)
ایسے ہی عاشقین قرآن کے سلسلہ میں وہیب بن ورد کا ایک اقتباس نقل کرنا مناسب ہے کہ ایک شخص نے وہیب سے سوال کیا کہ کیا آپ رات میں سوتے نہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ قرآنِ کریم کے عجائبات مجھے سونے سے روک د یتے ہیں۔ ایک شخص دوماہ تک آپ کے ساتھ رہا، انہیں سوتا ہوا نہیں دیکھا، اس نے سوال کیا کہ کیا ہوا آپ سوتے کیوں نہیں؟ انہوں نے جواب دیا قرآن کریم کا ایک اعجوبہ ختم نہیں ہوتاکہ دوسرا کھل جاتاہے، قرآن کریم یاد رکھ کر بھی سونے والے کے سلسلہ میں احمد ابی الحوار کہتے ہیں: میں قرآن کریم پڑھتاہوں، اس کی آیت کریمہ میں غوروفکر کرتاہوں تو میری عقل حیران رہ جاتی ہے، تعجب ہے ان حفاظ قرآن پر کہ کیسے انہیں نیند آتی ہے کیسے انہیں گنجائش ہوتی ہے اس بات کی کہ وہ دنیاوی مصروفیات میں مشغول رہیں، اس حال میں کہ وہ قرآن کریم پڑھتے ہوں، بہر حال اگر وہ تلاوت کردہ کو سمجھ لیتے اور اس کا حق جانتے تو اس میں لذت محسوس ہوتی تو ان کی نیندیں اڑ جاتیں۔(لطائف المعارف 1/173)
الغرض اکابر کا قرآن کریم سے عشق ہم سے تقاضا کررہا ہے کہ ہم بھی قرآن کریم سے اپنے لگاوٴ میں اضافہ کریں اور قرآن کریم کی تلاوت کو اپنی ذمہ داری سمجھیں، اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین!