سنت نبوی کی اہمیت و فضیلت
مولانا مسعود عظمت
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مقدسہ اپنی ظاہری و باطنی وسعتوں اور پنہائیوں کے لحاظ سے کوئی شخصی سیرت نہیں، بلکہ ایک عالم گیر اور بین الاقوامی سیرت ہے، جو کسی شخص واحدکا دستور زندگی نہیں، بلکہ جہانوں کے لیے ایک مکمل دستور حیات ہے، جوں جوں زمانہ ترقی کرتا جائے گا اسی حد تک انسانی زندگی کی استواری وہم واری کے لیے اس سیرت نبوی کی پیروی و اتباع شدید سے شدید تر ہوتی جائے گی۔
حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک زمانہ اور اس کا تمدن اپنی ارتقائی منازل کو طے کرتا ہوا کہاں سے کہاں تک پہنچ گیا اور کل تک نہ معلوم یہ ارتقائی منازل کو طے کرتے ہوئے کہاں تک جا پہنچے، لیکن وہ کہیں بھی پہنچے اور اس کی تمدنی اور تہذیبی زندگی کے گوشے کتنے بھی پھیل جائیں اور پھیل کر زمین و آسمان اور خفاء و خلاء سب ہی کو ڈھانپ لیں، پھر بھی یہ ارتقائی سیرت اور اس کے تدین کے گوشے اسی حد تک تمدنی گوشو ں کی تقویم و اصلاح کے لیے شاخ در شاخ ہو کر نمایاں ہوتے رہیں گے، جیسا کہ وہ اب تک زمانہ کی تہذیبی و تمدنی زندگی کے ساتھ نمایاں ہوتے رہے اور ان میں سکون واطمینان کی روح پھونکتے رہے۔
زمانہ نے کروٹیں لیں اور تہذیبی اور تمدنی ترقی کو عروج پر پہنچایا، لوگوں نے شوروواویلا مچایا کہ سنت و شریعت زمانہ کا ساتھ نہیں دی سکتی، لیکن سنت کے مخفی گوشے اورسنت کے اصلاحی پہلوؤں نے کوئی کمی نہ چھوڑی اور ان پکارنے والوں کو اپنے عملی طریقوں سے بہرہ مند کردیا۔
اتباع سنت کی اہمیت اور جامع فضیلت
زندگی میں کسی بھی چیز کی پیروی کرنے کے لیے ایک مکمل شخصیت کا نمونہ ہونا ضروری ہے، خواہ وہ معاشی فلسفہ ہو یا زندگی گزارنے کا مکمل طریقہ، آج تک جس شخص نے بھی کوئی نظریہ پیش کیا سب سے پہلے اسی کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کی، تب کہیں جا کر لوگوں نے اس کے افکار کو قبول کیا، انبیائے کرام علیہم السلام تو انسانوں کی ہدایت، فلاح و کام یابی کے لیے اس دنیا میں تشریف لائے ہیں، ان کی زندگی تمام کی تمام وحی کی تعلیمات کے مطابق ڈھلی ہوتی ہے ۔(فلسفہ سیرت حاتم الانبیاء ص 65تا 70)
ہم اگر قرآن مجید کی آیتوں کا مطالعہ کریں تو ہزاروں آیتیں در حقیقت سیرت مقدسہ کے علمی اور تعارفی اسلوب ہیں اور ادھر سیرت کے یہ ہزاروں گوشے قرآن کے عملی پہلو ہیں ۔قرآن مجید میں جو چیز قال ہے وہی ذات نبوی میں حال ہے اور جو قرآن میں نقوش ہیں وہی ذات اقدس میں سیرت ہیں۔
قرآن مجید کے مختلف مضامین جو قرآنی سورتوں میں پھیلے ہوئے ہیں ان سے اپنی اپنی نوعیت اور مناسبت کے مطابق سیرت کے مختلف الانواع پہلو ثابت ہوتے ہیں، قرآن حکیم میں ذات و صفات کی آیتیں آپ کے عقائد ہیں ، احکام کی آیتیں آپ کے اعمال ،تکوین کی آیتیں آپ کا استدلال،تشریع کی آیتیں آپ کا حال، قصص و امثال کی آیتیں آپ کی عزت،تذکیر کی آیتیں آپ کی نیابت،اخلاق کی آیتیں آپ کی عبدیت،کبریائے حق کی آیتیں آپ کا حسن معاشرت،توجہ الی اللہ کی آیتیں آپ کی خلوت ہیں، اس طرح تربیت خلق اللہ کی آیتیں آپ کی جلوت، قہرو غلبہ کی آیتیں آپ کا جلال اور مہرو رحمت کی آیتیں آپ کا جمال، رحمت کی آیتیں آپ کی رجاء،عذاب کی آیتیں آپ کا خوف،انعام کی آیتیں آپ کا سکون و انس ہے۔ غرض ہم کسی بھی نوع کی آیت کا مطالعہ کریں، تفسیر دیکھیں تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی نہ کسی پیغمبرانہ سیرت اور کسی نہ کسی مقام نبوت کی تعبیر ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اس کی تفسیر ہے ۔(نقش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمبر130 ۔326)
سنت کا مقام صاحب سنت کی نگاہوں میں
یہ معلوم اور ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ثواب اور عذاب، نیکی اور بدی، جھوٹ اور سچ،اچھا اور برا اور اس کا صحیح امتیاز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر کوئی نہیں بتا سکتا۔جس چیز کو آپ نے گناہ اور جرم قرار دیا ہو دنیا میں کوئی شخص اس کی خوبی ثابت نہیں کرسکتااور جس چیز کو نیکی قرار دیا دنیاکی کوئی طاقت اس کی برائی ثابت نہیں کرسکتی ۔تمام وہ اخلاق جو اقوام عالم اور نسل انسانی میں مستحسن اور پسندیدہ سمجھے جاتے ہیں وہ سب الہامات الہیہ اور تعلیمات انبیا خصوصاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نتیجہ ہے۔
(راہ سنت ص32/33ترجمان السنہ 1/230، حجة اللہ البالغہ1/ 330)
چمکتی ہے جو ریگ اکثر نشان ہے مہ جبنیوں کا
جسے ہم روندتے پھرتے ہیں وہ سب خاک انسان ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم عین فطرت انسانی کے موافق اور متوازی ہے اور انسانی فطرت کے دبے اور چھپے ہوئے جملہ تقاضوں کی راہ نمائی ہے اور اس کی خلاف ورزی فطرت سے بغاوت ہے۔اسلام کے تشریعی نظام کی تشکیل پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اکثر و بیشتر اہم ترین احکامات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی نافذ فرماتے تھے، ظاہر ہے یہ احکامات وحی الہٰی خفی کے ذریعہ ہی آپ نے جاری فرمائے تھے، لیکن قرآن مجید میں اس وقت تک ان کا ذکر نہیں ہوتا تھا، بعد میں کسی آیت کا نزول ہوتا اور اس حکم کی توثیق و تشریح ہوتی تھی۔ (اسلام میں سنت و حدیث کا تشریح مقام (اردو)جلد اول ص:62 تا90)
اس طرح کی کئی مثالیں قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں موجود ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے کسی بات کا حکم فرمایا، بعد میں اس حکم کی تصدیق و توثیق کے لیے آیت کا نزول ہوگیا، مثلاً عقیدہ توحید میں سب سے پہلی اہم عبادت نمازہے۔لیلة الاسرا سے پہلے دونمازیں ہوتی تھیں، اسرا کے بعد پانچ نمازیں فرض ہوگئیں ۔قرآ ن مجید میں نماز کا حکم تو موجود ہے، لیکن اس کی ہیئت و طریقہ کار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی امت کو معلوم ہوا”صلوا کمارأیتمونی أصلی“آپ کی قولی اور فعلی ہدایت پر معلو م ہوا۔(حجة اللہ البالغة،اردوجلد اول ص:234)
اس طرح نماز کے طہارت وغیرہ کے مسائل دیکھیں تو وہ بھی آپ کے بتائے ہوئے ہیں اور قرآن مجید میں طہارت کے مسائل اٹھارہ سال بعد سورہ مائدہ میں نازل ہوئے۔اسی طرح تحویل قبلہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ہوا۔دین اسلام ایک وسیع نظام حیات ہے، عقائد،عبادات، احکام، معاملات، آداب و اخلاق، معاشرت کے تمام شعبے،جہاد،وقتال ،صلح و جنگ، حکومت و سیاست وغیرہ انسانی معاشرت و معیشت کے تمام مسائل پر حاوی ہے اور ظاہر ہے تعلیمات نبوت اور احادیث نبویہ ان سب پر حاوی ہے۔اس میں تو ذرہ برابر شک نہیں کہ دین اسلام کا تفصیلی اور عملی نقشہ نہ انفاس قدسیہ یعنی احادیث نبویہ کے انضمام کے بغیر تیار ہوسکتا ہے اور نہ دین متین کی تکمیل و تشریح سنت نبویہ کے بغیر ممکن ہے۔اسلام کی دونوں مشعلیں قرآن و حدیث روشن اور واضح ہیں، یہ ہر قسم کے طوفانوں، آندھیوں اور جھکڑوں سے محفوظ ہیں۔(راہ سنت ص: 50/70)
رسول کی پیروی اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب ہم قرآن وحدیث دونوں کو ساتھ ملائیں﴿کیفتکفرون وانتم تتلی علیکم آیات اللہ وفیکم رسولہ﴾․(آل عمران)تم کس طرح کفر اختیار کرسکتے ہو دراں حال کہ اللہ تعالیٰ کی آیتیں تمہیں برابر پڑھ کر سنائی جارہی ہیں اور تم میں اللہ کا رسول بھی موجود ہے؟(حجة اللہ البالغہ1/235)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا وجوب آپ کی زندگی میں
عرب کے ریگ زاروں میں جب توحیدکی رم جم برسنے لگی تو گناہوں میں لتھڑے ہوئے اور بے چین انسانوں کو سکون محسوس ہونے لگا۔اسلام کی سادہ تعلیمات کو قبول کرتے اور پرانے عقائد و تو ہمات سے کنارہ کش ہوجاتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو سن کر وہ آپ ہی کی پیروی کرنے لگتے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں صحابہ کرام قرآن حکیم کی جو آیات آپ علیہ السلام سے سیکھتے ان سے شرعی احکام کا استفادہ کرتے تھے۔اکثر و بیشتر قرآن مجید کی آیات مجمل نازل ہوتیں ،جن کی کوئی تفصیل نہ ہوتی، یا مطلق ہوتیں ،جن کے ساتھ کوئی قید نہ ہوتی، مثلاً نماز ،زکوٰة وغیرہ کی آیات۔
چناں چہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں رسول کی ذمہ داری یہی بتلائی کہ وہ قرآن کی تفصیل بتانے والے اور اس کی آیات کے معانی ومصادیق کی وضاحت کرنے والے ہیں۔ ارشاد ربانی ہے:﴿وَأَنزَلْنَا إِلَیْْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُون﴾(النحل 44)
اور ہم نے یہ ذکر (قرآن)آپ پر اس لیے اُتارا ہے کہ آپ لوگوں کو وضاحت کے ساتھ اس چیز کو بتلائیں جو ان کی طرف اتاری گئی، تا کہ وہ اس میں غورو فکر کریں۔(المصنفات فی الحدیث، ص:50)
اس طرح جب لوگوں کے درمیان اختلاف ہوتو آپ حق کی وضاحت کریں :﴿وَمَا أَنزَلْنَا عَلَیْْکَ الْکِتَابَ إِلاَّ لِتُبَیِّنَ لَہُمُ الَّذِیْ اخْتَلَفُواْ فِیْہِ وَہُدًی وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ یُؤْمِنُون﴾(النحل 64)اور ہم نے آپ پر یہ کتاب صرف ا س لیے اتاری ہے کہ جن امور میں لوگ اختلاف کر رہے ہیں آپ لوگوں پر ان کی وضاحت کر لیں اور ایمان لانے والوں کی راہ نمائی اور رحمت کی غرض سے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر کوئی اختلاف نہیں کرسکتا اور نہ خلاف ورزی کر سکتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو فیصلہ فرمادیں وہی نافذ ہوگا، کسی کو چوں چرا کرنے کی اجازت نہیں ہے اور امت کو آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہر فیصلہ پر سر تسلیم خم کرنا لازم وضروری قرار دیا ،ارشاد ربانی ہے:﴿فَلاَ وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُونَ حَتَّیَ یُحَکِّمُوکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْْنَہُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُواْ فِیْ أَنفُسِہِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَیْْتَ وَیُسَلِّمُواْ تَسْلِیْماً﴾․(النساء65)۔ (راہ سنت)
تو (یوں ہی)نہیں ،قسم ہے تمھارے رب کی! یہ لوگ ایمان دار نہ ہوں گے جب تک یہ آپس میں واقع ہونے والے ہر جھگڑے میں تم سے تصفیہ نہ کرائیں، پھر تمہارے فیصلے سے یہ لوگ اپنے دلوں میں کوئی تنگی بھی محسوس نہ کریں اور پورے طور پر اس کو تسلیم نہ کرلیں۔
ان آیات سے ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام فیصلے بھی سنت کا مصداق اورحجت شرعیہ ہیں اور ان سے امت کا فرار ممکن نہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو جو تعلیمات دیں ان میں بھی بڑے واضح انداز میں اپنی پیروی کو امت کے لیے لازم قرار دیا، حضرت عرباض بن ساریہ(المتوفیٰ 75)کی روایت میں تصریح ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
”فعلیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین المھدیین، عضوا علیھا بالنواجذ، وایاکم ومحدثات الامور، فاِن کل محدثة بدعة“․(مستدرک حاکم، ص: 96 بحوالہ راہ سنت)
تمہارے اوپر لازم ہے کہ تم میری سنت کو اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو معمول بناؤ اور اپنی ڈاڑھوں کے ساتھ مضبوطی سے اس کو پکڑو، تم نت نئی باتوں سے پرہیز کرو، کیوں کہ ہر نئی چیز بدعت ہے۔(راہ سنت، ص: 24)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور تعمیل حکم ہر اس چیزمیں فرض کی گئی ہے جس کا آپ صلی الله علیہ وسلم حکم دیں :﴿مااتاکم الرسول فخذوہ ومانھاکم عنہ فانتھوا واتقوا اللہ﴾(الحشر)پھر دوسری آیت میں رسول کی اطاعت کو اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت قراردیا﴿وَأَطِیْعُواْ اللّہَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُون﴾․(آل عمران 132)
اللہ تعالیٰ نے سورة نساء میں رسول کی اطاعت کو اپنی اطاعت اور رسول کی پیروی کو اپنی محبت کا سبب قرار دیا :﴿من یطع الرسول فقد اطاع اللہ﴾․(النساء)
”جب اللہ تعالیٰ نے اس بات کو بھی ایمان کے لوازم میں سے قرار دیا ہے کہ جب اہل ایمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی کام میں شریک ہوں تو بغیر آپ سے اجازت لیے کہیں نہ جائیں تو یہ بات بدرجہ اولیٰ ایمان کے لوازم میں سے ہونی چاہیے کہ وہ کوئی بھی قول ، علم ،مسلک آپ کی اجازت کے بغیر اختیار نہ کریں اور آپ کی اجازت کا علم انہی احادیث کے ذریعہ ہوسکتا ہے جو آپ سے مروی ہیں کہ آپ نے اجازت دی ہے (یا نہیں؟)(جامع بیان العلم 1/281)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد وجوب عمل بالسنة کے دلائل
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا وجوب جس طرح آپ علیہ السلام کی زندگی میں لازم و ضروری تھا ،اس طرح آپ علیہ السلام کی وفات کے بعد بھی امت کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے، اگر کوئی علم و دانش کا دعوی کرنے والا صرف قرآن مجید سے استدال کرنا چاہے اور کہے کہ میں صرف قرآن مجید سے راہ نجات حاصل کروں گا تو یہ اس کی خام خیالی اور عقل کا فتور ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جس طرح قرآن مجید نے صراحت کی کہ آپ علیہ السلام کی پیروی لازم ہے، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بھی لازم ہے۔(المصنفات فی الحدیث ص:30 تا40)
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو حدیثوں میں امت مسلمہ کو متنبہ فرمایا:اور وہ دونوں روایتیں معنوی اعتبار سے تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں ۔حاکم اور ابن عبدالبر نے عبداللہ بن عمربن عوف عن ابیہ عن جدہ کی سند سے نقل کیا ہے ”ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال:”ترکت فیکم أمرین لن تضلوا ماتمسکتم بھما: کتاب اللہ وسنتی“!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”میں نے تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑی ہیں، جب تک تم ان دونوں کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہوگے ہرگز گم راہ نہ ہوگے، ایک اللہ کی کتاب ،دوسرے میری سنت۔
عن ابی ھریرة رضی اللہ عنہ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال:کل امتی یدخلون الجنة الامن ابی․ قالوا: یارسول اللہ ومن یأبی؟ قال: من اطاعنی دخل الجنة، ومن عصانی فقد أبی․(البیھقی)
ایک دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح انداز میں فرمایا کہ جو سنت اور قرآن کو مضبوطی سے پکڑے گا وہ کبھی گم راہ نہ ہوگا۔
اخرج ابو عبداللہ الحاکم عن ابن عباس ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال فی خطبة الوداع: ان الشیطان قدیئس ان یعبد بارضکم، ولکنہ رضی ان یطاع فیما سوی ذلک مما تحقرون من اعمالکم فاحذروا،انی قد ترکت فیکم ما ان اعتصمتم بہ، فلن تضلوا أبداً: کتاب اللہ وسنة نبیہ․(السنة ومکانتھا فی التشریع الاسلامی ص: 64وشمائل کبریٰ جلد اول ص:33)
ان احادیث کے ذریعے امت کو ہدایت دی گئی کہ اگر دنیا اور آخرت کی فلاح و کام یابی حاصل کرنا چاہتے ہو تو رسول کی اطاعت ضروری واجب ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مبارک انسان کے لیے انفرادی واجتماعی ،خانگی وملی،معاشرتی و اخلاقی ،ہر شعبہ، ہر پہلو، ہر گوشہ میں شمع ہدایت ہے اور جو شخص اس زندگی کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالے گا وہ دنیا و آخرت میں سرخ رو ہوگا۔
ابوبکر داوٴ دنے اطاعت کے بارے میں فرمایا #
ودع عنک آراء الرجال وقولھم
وقول رسول اللہ ازکیٰ واشرح
(فلسفہ سیرت خاتم الانبیا ،ص:82)
سنت کے معنی و مفہوم اور اس کی تعریف
سنت کے لغوی معنی طریقہ کار اور طرز عمل ہے، خواہ اچھا ہو یا برا، محدثین کی اصطلاح میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو بھی آپ کا قول ،فعل یا بیان سکوتی، نیز آپ کی کوئی بھی جسمانی صفت یا اخلاقی کیفیت یا سیرت وخصلت خواہ آپ کی بعثت سے پہلے کی ہو یا بعد کی نقل کی گئی، اس کوسنت کہتے ہیں ۔(اسلام میں سنت و حدیث کا تشریعی مقام ص: 65تا 70)
علمائے اصول کے نزدیک سنت کی تعریف
ہر اس قول و فعل یا بیان سکوتی کو سنت کہتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کی طرف منسوب کر کے نقل کیا گیا ہو اور اس سے کوئی حکم شرعی ثابت ہوتا ہو۔پھر آگے علماء نے حدیث کی دو قسمیں ذکر کی ہیں، ایک قولی ،دوسری فعلی ۔حدیث قولی کہتے ہیں احکام شرعیہ کے معاملہ میں مختلف اوقات میں مختلف مواقع پر جو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہ سب سنت قولی میں داخل ہیں ”انما الاعمال بالنیات․“(متفق علیہ)
اور حدیث فعلی عبادات وغیرہ کی کیفیات سے متعلق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ تمام افعال و اعمال جو صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر کے بیان کیے ہیں سنت فعلی کہلاتے ہیں، جیسے نماز، روزہ کی کیفیت وغیرہ۔(المصنفات فی الحدیث ص:40تا50)
فقہاء کی اصطلاح میں سنت کے معنی ہر وہ حکم ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو، لیکن نہ فرض ہو، نہ واجب۔ سنت کا لفظ اس معنی کے اعتبار سے احکام فقہیہ خمسہ میں سے فرض اور واجب کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔فقہائے امت نے حدیث اور سنت کی تعریف ایک ہی طرح کی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ہر عمل امت مسلمہ کے لیے سنت کا درجہ رکھتا ہے، پھر بعض احکام تو فرض اور واجب کا درجہ رکھتے ہیں اور بعض سنت ومستحب کا درجہ رکھتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی اسوہ حسنہ ہے، ایک مکمل شخصیت اسی وقت وجود میں آتی ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی جائے۔ حافظ شرف الدین مصلح سعدی شیرازی نے ایک خوب صورت شعر کے اندازمیں یہ بات کہی ہے۔(ارکان اربعہ ص: 30)
خلاف پیغمبر کسے را گزید
کہ ہرگز بمنزل نخواہد رسید
صحابہ کرام کا جذبہ اتباع
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ کے اندر توحید کی دعوت دی تو قریش کے روٴسا نے آپ کی مخالفت میں کمر کس لی، طرح طرح کی سزائیں دیتے اور جو لوگ راہ ہدایت ،راہ یاب ہوجاتے ان کے لیے ایذا رسانی کے مختلف ہتھکنڈے اپناتے، تاکہ وہ دین سے برگشتہ ہوجائیں اور واپس شرک وبت پرستی کے دامن میں پناہ پکڑیں، لیکن ایک مرتبہ جو دین اسلام کے اندر داخل ہوگیا مجال ہے دوبارہ وہ اسلام کو چھوڑے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے الگ ہو۔صحابہ کرام افراط و تفریط اور تکلف و مبالغہ آرائی سے محفوظ رہ کر دین کی گہرائیوں تک پہنچ گئے اور انہوں نے مقاصد شریعت، رموز کتاب اور اسرار احکام کے بیان اور تشریح میں وہی طریقہ اختیار کیا جو شریعت کو مطلوب تھا، جو اولین مسلمانوں کا شیوہ تھا اور جو براہ راست اس کے مخاطب تھے ۔یہ لوگ دین کی گہری بصیرت ،صحیح فہم ،عمیق علم،مکمل عمل،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم بقدم اتباع اور علم و عمل کے میدان میں جہد مسلسل کے جامع تھے ۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے ہدایت کے تمام راستے کھول دیے اور دشوار چیزوں کو آسان بنا دیا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْن﴾(العنکبوت: 69)(فلسفہ سیرت خاتم الانبیاء ص:65 تا 80،گلزار سنت ص:20)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا جذبہ تسلیم و رضا ایسا تھا جس میں سراسربندگی، رضاو تسلیم، خشوع و خضوع اور سجدہ تعظیم کا جذبہ تھا، یہ جذبہ تاریخ کے ہر دور میں انسانیت کے ہر طبقہ میں رفیق رہا اور وہ کبھی اس سے آزاد نہیں ہو سکتا، اپنے ابتدائی دور میں اور یہ ابتدائی دور دنیاکے بعض حصوں میں اب تک موجود ہے ، انسان پتھروں ،دریاؤں، درختوں کے سامنے اپنی پیشانی ٹیک کر اس جذبہ کی تسکین کرتا تھا ۔آگ ،سورج ،چاند، ستاروں کی عبادت کرتا تھا، فطرت کے مظاہر اور کائنات کی قوتوں ،کاہنوں ،راہبوں ،جنوں، روحوں کے سامنے سر تسلیم خم کرتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام لوگوں کو شر ک و بت پرستی کی آلائشوں سے نکال کر توحید کی پاکیزہ و پاک سیرت زندگی عطا کی اور وہی لوگ جو خود نہ تھے راہ پراور وں کے ہادی بن گئے ۔اور دین کے ایسے شیدائی بن گئے کہ لوگوں نے تپتی ریت پر لٹا کر کوڑے مارے ،نیزے سے بدن چھلنی کیے،تلوار کے گھاٹ اتارا،پھانسی کے گھاٹ پر چڑھایا، لیکن زبان مبارک سے ”احد احد“کا نعرہ ہی بلند ہوا اور کائنات کی کوئی ہستی ان کو دین سے برگشتہ نہ کر سکی۔(ارکان اربعہ ص:30)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی کام کرتے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کی اتباع کرتے۔ سفر ہو یا جنگ،دن ہو یا رات، و ہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ۔امام بخاری نے حضرت ابن عمر سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ایک مرتبہ سونے کی انگوٹھی بنوائی تو صحابہ کرام نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنوا لیں، اس کے بعد آپ علیہ السلام نے اس انگوٹھی کو اتار پھینکا اور فرمایا میں اب کبھی سونے کی انگوٹھی نہیں پہنوں گا تو صحابہ نے بھی اپنی انگوٹھیا ں اتار کر پھینک دیں ۔ابن سعد نے طبقات میں بیان کیا کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے ظہر کی رکعتیں پڑھائی تھیں (کہ نماز ہی میں )آپ کو مسجد حرام بیت اللہ کی طرف رخ کرلینے کا حکم ہوا تو آپ مسجد حرام کی طرف گھوم گئے تو صحابہ کرام بھی آپ کے ساتھ گھوم گئے۔ (سنت حبیب صلى الله عليه وسلم)
حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بے حد اتباع کرتے تھے، جس مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی تھی وہاں نماز پڑھتے ،ایک درخت کے نیچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آرام فرمایا آپ اس کی بڑی نگہداشت کرتے اور اسے پانی دیا کرتے تھے ،تا کہ وہ خشک نہ ہو جائے۔(گلزار سنت،شمائل کبریٰ 1/30)
اتبا ع سنت کی اہمیت پر حضرات سلف صالحین کے اقوال
جس طرح حضرات صحابہ کرام کے نزدیک اتباع سنت کی اہمیت وفضیلت مسلم تھی ،اس طرح امت کے سلف صالحین بھی اتباع سنت میں یکتائے روزگار تھے، اپنے قول و عمل کے ذریعہ انہوں نے ثابت کیا کہ وہ اس دین کی پیروی کرنے والے ہیں جس پر صحابہ کرام چلے، چناں چہ امام مالک نے اتباع سنت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:”ان السنة مثل سفینة نوح، من رکبھا نجی، ومن تخلف غرق․“سنت کی پیروی حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی طرح ہے، جو اس میں سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جو رہ گیا وہ غرق ہوگیا۔
حضرت فضیل بن عباس فرماتے ہیں:”لان العمل اذا کان خالصاً غیر صواب لم یقبل، وکذلک اذا کان صوابا غیر خالص“ یعنی جو عمل خالص ہو،مگر صواب (سنت کے مطابق)نہ ہوتو وہ مقبول نہیں ہوتا، عمل تو وہ قبول ہوتا ہے جو خالص ہو اور سنت کے مطابق ہو ۔(سنت حبیب 49)
حضرت سفیان ثوری فرماتے ہیں کہ”لایستقیم قول وعمل ونیة الابموافقة السنة“کوئی بھی قول اور عمل اور نیت ٹھیک نہیں جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق نہ ہو۔
امت مسلمہ کی نجات اتباع سنت پر موقف
ایک مسلمان کو جس طرح قرآن مجید کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ضروری ولازمی ہے، اسی طرح سنت کی اتباع بھی ضروری ہے، کسی شخص کے لیے اس سے مفر نہیں کہ وہ سنت کو چھوڑ کر صرف اور صرف قرآن مجید سے ہدایت حاصل کرے، برصغیر پاک و ہند میں جہاں دین کے خلاف اور بہت سارے فتنے وجود میں آئے وہاں انکار حدیث اور انکار سنت کا فتنہ بھی وجودمیں آیا اور اس کی بنیاد ان لوگوں نے رکھی جن کے نزدیک عقل ہی معیار زندگی ہے اور جو چیز عقل میں نہ آتی ہو اس کا انکار کردیتے، اس طرح ان لوگوں نے معجزات وغیر ہ کا بھی انکار کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا بھی انکار کیا، جس کی وجہ سے ایک بڑا طبقہ اس کی زد میں آیا اور حدیث رسول کا انکار کر بیٹھا۔(تدوین حدیث ص: 55تا 70)
قرآں مجید نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو فرائض منصبی بیان فرمائے ہیں ان میں تلاوت آیات کے ساتھ ساتھ تعلیم کتاب و حکمت کا بھی ذکر ہے ،اگر آپ کا مقصد بعثت تلاوت آیات ہی ہوتا، اس کی تعلیم و تشریح کی ذمہ داری نہ ہوتی تو قرآن کریم کتاب و حکمت کے الگ عنوان سے اس کا ذکر کبھی نہ کرتا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت ایک مطاع و متبوع،قرآن کے معلم و مبیِّن اور حاکم و حکم کی ہے #
سب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندہ موٴمن کا بے زری سے نہیں
یہ سحر جو کبھی فردا ہے کبھی ہے امروز
نہیں معلوم ہوتی ہے کہاں سے پیدا