Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1436ھ

ہ رسالہ

6 - 16
حج کی فرضیت اوقات وآداب

استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ
	
ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)

﴿وَأَتِمُّواْ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلّہِ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْْسَرَ مِنَ الْہَدْیِ وَلاَ تَحْلِقُواْ رُؤُوسَکُمْ حَتَّی یَبْلُغَ الْہَدْیُ مَحِلَّہُ فَمَن کَانَ مِنکُم مَّرِیْضاً أَوْ بِہِ أَذًی مِّن رَّأْسِہِ فَفِدْیَةٌ مِّن صِیَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُکٍ فَإِذَا أَمِنتُمْ فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَی الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْْسَرَ مِنَ الْہَدْیِ فَمَن لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلاثَةِ أَیَّامٍ فِیْ الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ تِلْکَ عَشَرَةٌ کَامِلَةٌ ذَلِکَ لِمَن لَّمْ یَکُنْ أَہْلُہُ حَاضِرِیْ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَاتَّقُواْ اللّہَ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ شَدِیْدُ الْعِقَاب﴾․(سورہ بقرہ، آیت:196)
اور پورا کرو حج اور عمرہ اللہ کے واسطے، پھر اگر تم روک دیے جاؤ تو تم پر ہے جو کچھ کہ میسر ہو قربانی سے اور حجامت نہ کرو اپنے سروں کی جب تک پہنچ نہ چکے قربانی اپنے ٹھکانے پر ،پھر جو کوئی تم میں سے بیمارہو یا اس کو تکلیف ہو سر کی تو بدلہ دیوے روزے یا خیرات یا قربانی،پھر جب تمہاری خاطر جمع ہو تو جو کوئی فائدہ اٹھاوے عمرہ کو ملا کر حج کے ساتھ تو ا س پر ہے جو کچھ میسر ہو قربانی سے، پھر جس کو قربانی نہ ملے تو روزے رکھے تین حج کے دنوں میں اور سات روزے جب لوٹو، یہ دس روزے ہوئے پورے،یہ حکم اس کے لیے ہے جس کے گھر والے نہ رہتے ہوں مسجد الحرام کے پاس اور ڈرتے رہو اللہ سے اور جان لو کہ بے شک اللہ کا عذاب سخت ہے۔

ربطِ آیت: مختلف نیکیوں کے بعد اب حج اور اس کے افعال واعمال کا تذکرہ آرہاہے ، نیز قتال کے بعد حج کا تذکرہ کرکے بتایا جارہا ہے کہ قتال محافظ ہے ارکان اسلام کا۔

تفسیر:حج کی فرضیت
حج لغت میں ”ارادے“ کو کہتے ہیں ، اصطلاحِ شریعت میں بیت الله کی از راہِ تعظیم مخصوص ایام میں مخصوص اعمال کے ساتھ زیارت کرنے کے ”ارادے“ کا نام حج ہے۔

حج کب فرض ہوا؟ مفسرین کی آراء میں اختلاف ہے، علامہ قرطبی نے دو اقوال نقل کیے ہیں، ایک پانچ ہجری کا ،دوسرا نو ہجری کا، پھر نو ہجری میں فرض ہونے کوراجح قرار دیا ۔(الجامع لاحکام القران: البقرة ذیل آیت:96) لیکن اکثر اہل علم کے نزدیک چھے ہجری میں فرض ہوا، کیوں کہ یہ آیت چھے ہجری میں نازل ہوئی اور اسی کے ذریعے حج کی فرضیت عمل میں آئی۔ (معارف السنن:6/3)۔

جس عاقل بالغ، مسلمان کے پاس اتنی مالی وسعت آجائے کہ وہ حج کے لیے آمدورفت کا خرچہ، توشہ سفر او رجن لوگوں کا نفقہ اس پر واجب ہے، کا انتظام کر سکتا ہو، اس پر حج کی ادائیگی واجب ہو جاتی ہے۔

جس شخص پر حج فرض ہو اس پر تو ادائیگی لازم ہے ہی، لیکن جس پر حج فرض نہ ہوا ہو اگر وہ بھی حج یاعمرہ کی نیت سے احرام باندھ لے تو اس پر بھی اس حج یا عمرہ کو مکمل کرنا لازم ہو جاتا ہے۔لہٰذا فرماتے ہیں کہ اپنے حج اور عمرہ کو اللہ کے لیے خلوص نیت کے ساتھ شرائط وافعال کی پابندی کے ساتھ پورا کرو۔ لفظ ” أتِمُّوْا“ سے فقہاء نے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ نفلی حج وعمرہ شروع کرنے کے بعد اسے پورا کرنا واجب ہو جاتا ہے ۔ (احکام القرآن للجصّاص، البقرة ذیل آیت:196)

اور اگر کوئی حاجی یا مُعتمر (عمرہ کرنے والا) احرام باندھنے کے بعد کسی دشمن کی طرف سے ادائیگی حج یا عمرہ سے روک دیا جائے یا پھر کسی بیماری کی وجہ سے ادائیگی پر قادر نہ ہو،تو احرام اور ا س کے التزامات سے چھوٹ حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ کسی کے ذریعے کوئی بھی قربانی کے لائق میسر جانور حرم میں بھجوا کر ذبح کروادیا جائے اور اس ذبح کے بعد اپنا سر مونڈ کر حلال ہو جائے،لیکن اگر کوئی شخص کسی بیماری یا سر کی کسی تکلیف وغیرہ کی وجہ سے جانور ذبح ہونے سے قبل ہی اپنا سر منڈوا کر حلال ہونا چاہے تو اس پر تین چیزوں میں سے ایک چیز لازم ہے یا تو سر منڈا کر تین روزے رکھے یا پھر چھے مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقہ فطر کے برابر فدیہ دے ،یا ایک جانور کی قربانی کرے۔ (اعلاء السنن:1/421)

اور یہ احکام ان کے بارے میں تھے جنہیں احرام باندھنے کے بعد حج و عمرہ میں دشمن کی طرف سے رکاوٹ پیش آجائے اور وہ حرم تک نہ پہنچ سکیں۔

لیکن جو شخص امن کی حالت میں ہو یا حج میں رکاوٹ ختم ہو گئی ہو تو اس پر صرف اسی صورت میں قربانی لازم ہے جب حج کے ساتھ عمرہ ملا کر اس کا بھی فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہو۔اور اگر یہ لوگ ناداری کی وجہ سے قربانی کی استطاعت نہ رکھتے ہوں تو ان پر دس روزے لازم ہیں، تین روزے ایام حج میں یوم نحر(ذی الحجہ کی دسویں تاریخ)سے قبل اورسات روزے حج ختم کرنے کے بعد۔

اور یہ حج کے ساتھ عمرہ کرنے کی سہولت صرف ایسے شخص کے لیے ہے جو حدود میقات سے باہررہتا ہے، جس کی رہائش میقات کی حدود کے اندر ہو اس کے لیے صرف انفرادی حج ہی ہے۔ حج کے ساتھ عمرہ ملانے کی اجازت نہیں ہے۔

”فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَی الْحَج“روح المعانی میں اس کی لفظی توجیہہ یہ ذکر کی گئی ہے”والمعنی فمن اِسْتَمْتَعَ وَاْنَتَفَعْ بالتقرب الی اللہ تعالیٰ بالعمرة الیٰ وقت الحج ای قبل الانتفاع بالحج فی اشھرہ“۔ (روح المعانی،البقرة:196) یعنی اس کے معنی یہ ہیں کہ جو شخص حج کے مہینوں میں حج سے پہلے عمرہ کے ذریعے حصول قربت الٰہی کی دولت و نفع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔حج کے مہینے شوال، ذوالقعدہ اور یکم تادس ذوالحجہ ہیں۔ ان کو حج کا مہینہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان ہی دنوں میں حج کا احرام بلا کراہت باندھا جاسکتا ہے۔

اقسام احکام
حج تین طرح کا ہوتا ہے، ایک تویہ کہ ایّام حج میں احرام صرف حج کی نیت سے باندھاجائے، اسے حج افراد کہا جاتا ہے،دوسرا یہ کہ ایام حج میں ایک ہی احرام سے حج و عمرہ دونوں کی ادائیگی کی نیت کرلی جائے ، اسے ”حج قِران“ کہا جاتا ہے، اور تیسرا یہ کہ ایام حج میں احرام تو عمرہ کی نیت سے باندھا جائے لیکن عمرہ کے بعد احرام سے حلال ہو کر حج کے لیے پھر سے احرام باندھنے کی نیت ہویعنی حج اور عمرہ دونوں کے لیے احرام الگ الگ باندھے جائیں، اسے ”حج تمتع “کہتے ہیں۔(البحر الرائق،کتاب الحج، باب القران،7/59،دارالفکر)

”حجِ قران“ میں حاجی پر ایک جانور حد حرم میں ایام قربانی کے اندر ذبح کرنا لازم ہے۔اور اگر وہ اس قربانی پر قادر نہ ہو تو اس کے ذمہ دس روزے ہیں، تین روزے ذی الحجہ کی دسویں تاریخ سے قبل اور سات روزے حج سے لوٹنے کے بعد اور اگر یہ شخص یوم نحر(ذی الحجہ کی دسویں تاریخ)سے قبل تین روزے نہ رکھ سکا تو اس پر قربانی ہی واجب ہے۔(البحر الرائق،کتاب الحج، باب القران،7/70۔76،دارالفکر)

”حجِ افراد“ ہر شخص کے لیے جائز ہے، لیکن تمتع اور قران صرف ان لوگوں کے لیے جائز ہے جن کے اہل خانہ میقات سے باہر رہتے ہوں۔اور میقات ان حدود کا نام ہے جو مختلف ملکوں سے حرم کی طرف آنے والوں کے لیے متعین کی گئی ہیں، ان حدود سے احرام باندھ کر ہی آگے بڑھا جاتا ہے۔پس جولوگ میقات کی حدود میں رہتے ہوں انھیں مسجد حرام کے پاس رہنے والا شمار کیا گیا ہے، ان کے لیے” تمتع“ اور”قران“ کی اجازت نہیں۔(ایضاً)

اختلاف ائمہ رحمھم الله تعالیٰ
آیت کے ابتدائی الفاظ”وَأَتِمُّواْ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلّہ“․(اور پورا کرو حج اور عمرہ اللہ کے لیے)سے امام شافعی رحمہ اللہ نے عمرہ کے فرض ہونے پر استدلال فرمایا ہے۔جب کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک آیت صرف اسی بات پر دلالت کرتی ہے کہ حج اور عمرہ شروع کرنے کے بعد پورا کرنا واجب ہے ،البتہ عمرہ کا مسنون ہونا دیگر دلائل سے ثابت ہے، تفصیل کے لیے کتب فقہ ملاحظہ فرمائیں۔(دیکھئے بدائع الصنائع،کتاب الحج ،باب العمرة،5/299)

اسی طرح امام شافعی اور امام مالک رحمہما اللہ کے نزدیک ”فإن اُحْصِرتُمْ“(اگر تم روک دیے جاؤ)صرف دشمن کے روکنے کے بارے میں ہے، مرض کی وجہ سے رک جانے کے بارے میں نہیں۔اس کا قرینہ یہ ہے کہ رکاوٹ ختم ہونے کو”فَاذا أمِنْتُمْْ“(جب تم امن میں ہو جاؤ)کے الفاظ سے ذکر کیا گیا ہے۔اور اور امن لغةً خوف کے مقابلے میں ہی استعمال ہوتا ہے۔

جب کہ حنفیہ کے نزدیک اس آیت کے مفہوم میں دشمن یا مرض دونوں کی طرف سے روکا جانا شامل ہے، کیوں کہ”احصار“لغةً دونوں معنوں میں مستعمل ہوتا ہے اور اسی طرح امن صرف خوف کے مقابلے میں ہی نہیں، بلکہ مرض سے بری ہونے کے لیے بھی امن کا لفظ محاورات عرب میں مستعمل ہے۔

احادیث و آثار سے بھی اس کی تائید ملتی ہے کہ آیت مریض کو بھی شامل ہے۔تفصیلی بحث کے لیے روح المعانی ملاحظہ فرمائیں۔(روح المعانی، البقرة:196)

اسی طرح”حَتَّی یَبْلُغَ الْہَدْیُ مَحِلَّہ“میں حنفیہ کے نزدیک محل کامصداق مکان ذبح ”حرم“ ہے، جب کہ شافعیہ کے نزدیک اس کا مصداق وقت ذبح ہے، لہٰذا ان کے نزدیک ہدی کو خاص حرم میں ذبح کرنا لازم نہیں، بلکہ کہیں بھی ذبح کر لیا جائے ۔

﴿الْحَجُّ أَشْہُرٌ مَّعْلُومَاتٌ فَمَن فَرَضَ فِیْہِنَّ الْحَجَّ فَلاَ رَفَثَ وَلاَ فُسُوقَ وَلاَ جِدَالَ فِیْ الْحَجِّ وَمَا تَفْعَلُواْ مِنْ خَیْْرٍ یَعْلَمْہُ اللّہُ وَتَزَوَّدُواْ فَإِنَّ خَیْْرَ الزَّادِ التَّقْوَی وَاتَّقُونِ یَا أُوْلِیْ الأَلْبَابِ، لَیْْسَ عَلَیْْکُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُواْ فَضْلاً مِّن رَّبِّکُمْ فَإِذَا أَفَضْتُم مِّنْ عَرَفَاتٍ فَاذْکُرُواْ اللّہَ عِندَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاذْکُرُوہُ کَمَا ہَدَاکُمْ وَإِن کُنتُم مِّن قَبْلِہِ لَمِنَ الضَّآلِّیْنَ، ثُمَّ أَفِیْضُواْ مِنْ حَیْْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُواْ اللّہَ إِنَّ اللّہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ، فَإِذَا قَضَیْْتُم مَّنَاسِکَکُمْ فَاذْکُرُواْ اللّہَ کَذِکْرِکُمْ آبَاء کُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِکْراً فَمِنَ النَّاسِ مَن یَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِیْ الدُّنْیَا وَمَا لَہُ فِیْ الآخِرَةِ مِنْ خَلاَقٍ، وِمِنْہُم مَّن یَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَةً وَفِیْ الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ، أُولَئِکَ لَہُمْ نَصِیْبٌ مِّمَّا کَسَبُواْ وَاللّہُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ، وَاذْکُرُواْ اللّہَ فِیْ أَیَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ فَمَن تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْْنِ فَلاَ إِثْمَ عَلَیْْہِ وَمَن تَأَخَّرَ فَلا إِثْمَ عَلَیْْہِ لِمَنِ اتَّقَی وَاتَّقُواْ اللّہَ وَاعْلَمُوا أَنَّکُمْ إِلَیْْہِ تُحْشَرُون﴾․(سورہ بقرہ، آیت:203-197)
حج کے چند مہینے ہیں معلوم، پھر جس شخص نے لازم کر لیا ان میں حج تو بے حجاب ہونا جائز نہیں عورت سے اور نہ گناہ کرنا اور نہ جھگڑا کرنا حج کے زمانے میں اور جو کچھ تم کرتے ہو نیکی اللہ اس کو جانتا ہے۔اور زاد راہ لے لیا کروکہ بے شک بہتر فائدہ زاد راہ کا، بچنا ہے سوال سے اور مجھ سے ڈرتے رہو اے عقل مندوکچھ گناہ نہیں تم پر کہ تلاش کرو فضل اپنے رب کا، پھر جب طواف کے لیے لوٹو عرفات سے تو یاد کرو اللہ کو نزدیک مشعر الحرام کے اور اس کو یاد کرو، جس طرح کہ تم کو سکھلایااور بے شک تم تھے اس سے پہلے ناواقف پھر طواف کے لیے پھرو جہاں سے سب لوگ پھریں اور مغفرت چاہو اللہ سے، بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے والا ہے، مہربان پھر جب پورے کر چکو،اپنے حج کے کام کو تو یاد کرو اللہ کو جیسے تم یاد کرتے تھے اپنے باپ دادوں کو، بلکہ اس سے بھی زیادہ یاد کرو،پھر کوئی آدمی توکہتا ہے اے رب ہمارے!” دے ہم کو دنیا میں“ اور اس کے لیے آخرت میں کچھ حصہ نہیں اور کوئی اُن میں کہتا ہے اے ربّ ہمارے!” دے ہم کو دنیا میں خوبی اور آخرت میں خوبی اور بچا ہم کو دوزخ کے عذاب سےانہی لوگوں کے واسطے حصہ ہے اپنی کمائی سے اور اللہ جلد حساب لینے والا ہے“اور یاد کرو اللہ کو گنتی کے چند دنوں میں، پھر جو کوئی جلدی چلا گیا دوہی دن میں تو اس پر گناہ نہیں اور جو کوئی رہ گیا تو اس پر بھی کچھ گناہ نہیں،جو کہ ڈرتا ہے اور ڈرتے رہو اللہ سے اور جان لو! بے شک تم سب اسی کے پاس جمع ہوگے

تفسیر:حج کے اوقات وآداب
الحج اشہر معلومات:یعنی عمرہ تو پورے سال میں کسی بھی وقت ادا کیا جاسکتا ہے، لیکن حج کے چند مہینے متعین ہیں، جو شوال ، ذی القعدہ اور ذی الحجہ کے ابتدائی دس ایام ہیں، یعنی حج کی نیت سے ان مہینوں میں کوئی احرام باندھ لے تو اس پر حج کی ادائیگی لازم ہو جاتی ہے،لہٰذا فرماتے ہیں کہ جو شخص ان ایام میں خود پر حج فرض کرلے تو بے حیائی، فسق اور ہر قسم کے جھگڑے سے پرہیز کرے،”رفث“ سے شہوانی عمل مراد ہے ، خواہ زبان سے ہو، جیسے فحش مذاق، یا ہاتھ اور اعضاء سے ہو، جیسے: بوس وکنار یا ہم بستری۔ (احکام القرآن لابن العربی1/132) ہم بستری سے توحج ہی فاسد ہو جاتا ہے اور دیگر افعال بھی نہایت مکروہ ہیں ”وَلاَفَسَقَ“ میں ہرطرح کا گناہ داخل ہے، خواہ اس کا تعلق حقوق الله سے ہو یا حقوق العباد سے۔ ” وَلاَجِدَال“ چوں کہ پوری دنیا سے مختلف مزاج وطبیعت کے لوگ جمع ہوتے ہیں، موافق طبیعت ماحول نہ ہونے کی وجہ سے صبر وتحمل کی شدید ضرورت ہوتی ہے، اس لیے فرمایا گیا جھگڑا مت کرو۔ یہ تینوں چیزیں عام حالات میں بھی ناجائز ہیں، لیکن احرام میں ان کی شناعت اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے،البتہ بے حیائی کی باتیں اور جو افعال اپنی بیوی کے ساتھ جائز ہیں احرام میں وہ بھی ناجائزہو جاتے ہیں۔اسلام نے کتنا پاکیزہ تصور عبادت دیا ہے، اس کے مقابلے میں مشرک قوموں کے میلے، ٹھیلے، تہوار، تیرتھ، جاترا سب فحش کاری اور شہوت انگیزی کے دم سے قائم ہیں، یہی حال نصاریٰ کا ہے، صرف برائیوں سے بچنے پر اکتفا نہ کرو، بلکہ نیکی کے کاموں میں مصروف رہو۔

اور سفر حج مین اپنے ساتھ توشہ سفر لے کر نکلا کرو،کیوں کہ توشہ سفر (خرچ وغیرہ)کا بہترین فائدہ یہ ہے کہ سفر میں کسی سے سوال وغیرہ کرنے کی نوبت نہیں آتی،زمانہ جاہلیت میں کچھ لوگ بغیر توشہ سفر لیے حج کو نکل پڑتے اور اسے توکّل کا نام دیا کرتے ، لیکن جب راہ میں زیادہ تنگی آپڑتی تو دوسروں سے سوال کرتے اور بھیک مانگتے۔ تو کّل یہ ہے کہ اسباب اختیار کرکے الله پر اعتماد رکھا جائے۔ ہندومت اور بدھ مت کے پیشوا اب بھی کھانے پینے کے سامان ساتھ لے کر چلنے کو روحانیت کے خلاف سمجھتے ہیں۔ اسلام ایسی نامعقول روحانیت کا قائل نہیں، آیت کریمہ میں ایسے پیشہ ورانہ توکّل سے منع فرمایا گیا۔

بعض چیزیں اصلاً جائز ہوتی ہیں، لیکن احرام میں حرام ہو جاتی ہیں، ان میں اول عورت کے ساتھ مباشرت اوراس کے تمام متعلقات، یہاں تک کہ کھلی بے حیائی کی گفتگو بھی،دوسرے برّی جانوروں کا شکار ،خود کرنا یاشکاری کو بتلانا،تیسرے با ل یا ناخن کٹوانا ،چو تھے خوش بوکا استعمال۔ یہ چار چیزیں تو مردو عورت دونوں کے لیے حالت احرام میں ناجائز ہیں، باقی دو چیزیں مردوں کے ساتھ خاص ہیں ،یعنی سلے ہوئے کپڑے پہننا اور سر اور چہرے کو ڈھانپنا،امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ و مالک رحمہ اللہ کے نزدیک چہرہ کو ڈھانپنا حالت احرام میں عورت کے لیے بھی ناجائز ہے ۔(ماخوذا ز معارف القرآن،البقرة:197)

سفرِ حج میں تجارت کرنا
لَیْْسَ عَلَیْْکُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُوا…جاہلیت کے زمانے میں جس طرح دیگر عبادات کی حقیقت مسخ کرکے ان کو بگاڑ دیا گیا تھا ،اسی طرح سے حج کی بھی اصل روحانیت کو مسخ کر کے اسے صرف تجارتی میلہ یا تجارت گاہ بنا دیا گیا تھا، چناں چہ موسم حج میں منیٰ کے مقام پر بڑے بڑے بازار لگتے تھے، جہاں لوگ تجارت وغیرہ کرتے، اس طرح سے حج کی حیثیت عبادت سے نکل کر ایک تجارتی سیزن کی ہو کر رہ گئی تھی۔(تفسیر السمرقندی،البقرة:198)

چناں چہ جب اسلام آیا تو اس نے تمام رسومات جاہلیت کو مٹا ڈالا اور حج کی اصل حیثیت عبادت کو بحال کیا۔بعضو ں کو یہ گمان ہونے لگا کہ تجارت وغیرہ بالکل ہی ناجائز ہے ،چاں چہ اس کی تردید بہت ہی خوب صورت اسلوب کے ساتھ کی گئی کہ” تم پر کوئی حرج نہیں کہ اپنے رب کا کچھ فضل تلاش کرو“۔”لَیْْسَ عَلَیْْکُمْ جُنَاحٌ“ سے اسی طرف اشارہ کیاگیا کہ سفر حج کا اصل مقصد عبادت اور رضائے الٰہی کی جستجو ہونا چاہیے نہ کہ تجارت ، اگر تھوڑی بہت تجارت یا محنت و مزدوری ضرورت پوری کرنے کے لیے کی جائے تو صحیح ہے اور ”فَضْلاً مِّن رَّبِّکُمْ“سے اس طرف اشارہ ہو گیا کہ جو بھی آمدنی ہواسے خالص اپنے رب کا فضل سمجھو تا کہ اس پر اپنے مالک کی شکر گزاری کی توفیق ہو۔

لیکن بہتر اب بھی یہی ہے کہ ایام حج میں حج کرنے والا بلا ضرورت ان کاموں میں مشغول نہ ہو، بلکہ یکسوئی کے ساتھ عبادت میں مشغول رہے۔

مزدلفہ میں قیام
فَإِذَا أَفَضْتُم مِّنْ عَرَفَاتٍیعنی جب تم عرفات سے واپس آؤ تو مشعر حرام کے پاس اللہ کا ذکر کیا کرو مشعر الحرام ایک پہاڑی کو کہا گیا ہے، اس کے ارد گرد کے علاقہ کانام مزدلفہ ہے۔(تفسیر الجلالین ،البقرة:198،وکذا فی التفسیر لابن الکثیر)اور اللہ کا ذکر اسی طریقے سے کرو جس کی راہ نمائی اس نے کی ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے ذکرکرنے کے لیے بھی وہی طریقہ اختیار کرنا چاہیے جو شریعت کی طرف سے مقرر کردہ ہے۔

عرفات میں حاضری
ثُمَّ أَفِیْضُواْ مِنْ حَیْْثُ أَفَاضَ النَّاسُ حج کے افعال میں سے ایک فعل یہ بھی ہے کہ تمام لوگ مزدلفہ سے عرفات جاکر وہاں سے حرم کی طرف لوٹتے ہیں، لیکن کفار قریش اس زعم میں مبتلا تھے کہ ہم لوگ بیت اللہ کے مجاور اور محافظ ہیں،لہٰذا ہمارے لیے حرم سے باہر جانا درست نہیں۔ پس یہ لوگ مزدلفہ ہی میں ٹھہرے رہتے اور عرفات نہیں جاتے تھے ،کیوں کہ عرفات حرم سے باہر ہے۔لہٰذا آیت میں قریش کو خاص تنبیہ کی گئی کہ تم بھی مزدلفہ سے عرفات جا کر وہاں سے حرم کو لوٹو، جیسا کہ دوسرے لوگ کرتے ہیں ۔(صحیح بخاری ، رقم الحدیث:4520)

حج کے بعد
﴿فَإِذَا قَضَیْْتُم مَّنَاسِکَکُمْ…﴾منجملہ بری رسومات جاہلیت ایک یہ بھی تھی کہ جب لوگ حج کے تمام افعال سے فارغ ہوجاتے تو منیٰ میں بڑے بڑے اجتماعات منعقد کرتے تھے، جس میں لوگ بطور تفاخر اپنا حسب نسب اور اپنے آباء و اجداد کی جرأت و بہادری اور شرافت وغیرہ کے گن گایا کرتے تھے،آیت مین تنبیہ کی گئی کہ افعال حج سے فراغت کے بعد اپنے آباء و اجداد کا فضول تذکرہ چھوڑ کر اتنے ہی شوق سے اللہ کا ذکر کیا کرو، بلکہ اللہ کا ذکر تو اس سے بھی زیادہ کرو۔

پھر ان ذکر کرنے والوں کی اقسام بیان فرماتے ہیں کہ بعض لوگ تو محض طالب دنیا ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب !ہمیں جو کچھ دینا ہے اسی دنیا میں دے دے، انہیں آخرت کی بھلائی سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا، پس ایسے لوگوں کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں، بعض مفسرین نے اس کا مصداق مشرکین عرب کو ٹھہرایا ہے، جو وجود باری تعالیٰ کے قائل ہونے کے باوجود آخرت، سز اوجزا، حشر ونشر کے منکر تھے، اس لیے ان کی دعاؤں میں فقط دنیا بسی رہتی تھی۔ (احکام القرآن للقرطبی، البقرہ ذیل آیت:200) اس کے برعکس مسلمانوں کی شان یہ ہے کہ وہ اپنی دعا میں رب کو پکارتے ہوئے کہتے ہیں کہ” اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطافرما اور آخرت میں بھی بھلائی نصیب فرمااور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا“ تو یہی لوگ ہیں جنہیں آخرت میں ان کے نیک اعمال کی آمدنی کا حصہ ملے گا۔

یہاں بعض لوگ اس شبہہ میں گرفتار ہو جاتے ہیں کہ آیت میں طلب دنیا کی تعریف کی گئی ہے، لہٰذا یہ بھی مقصود ہوا۔حالاں کہ ایسا نہیں ہے، کیوں کہ ”اتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَةً“ میں خالص طلب دنیا نہیں،بلکہ دنیوی بھلائی یعنی وسعت رزق، حفاظت مال و اولاد وغیرہ کے ساتھ ساتھ دین کی بھلائی یعنی ہدایت کا نصیب ہونا،نیک کاموں کی توفیق ہونا اور اس پر مستقیم رہنا اور خاتمہ بالایمان کا ہونا وغیرہ بھی شامل ہے۔پس یہ ایک ایسی جامع دعا ہے ،جوالله تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کو تعلیماً ہدایت کی گئی ہے۔

ایام تشریق اور تکبیرات تشریق
وَاذْکُرُواْ اللّہَ فِیْ أَیَّامٍ مَّعْدُودَات یعنی منیٰ میں گنتی کے چند دنوں ،جوکہ ایام تشریق ہیں، جن میں نمازوں کے بعد تکبیر تشریق پڑھی جاتی ہے، مفسرین کے نزدیک ان دنوں سے یہی ایام تشریق مراد ہیں۔(تفسیر مظہری، البقرہ، ذیل آیت:203)

ایام جاہلیت میں اس پر کافی جھگڑا رہتا تھا، کچھ لوگ دو ہی دن منی میں ٹھہرنا ضروری سمجھتے تھے اور تیسرے دن تک ٹھہرنے کو غلط کہتے تھے، جب کہ کچھ لوگ تیسرے دن تک ٹھہرنا لازم سمجھتے تھے اور دوسرے دن لوٹ جانے کو غلط شمار کرتے تھے۔(روح المعانی، البقرہ:203)لہٰذا اس میں لڑائی جھگڑے کو بند کر کے اختیار دے دیا گیا۔البتہ اب بھی افضل یہی ہے کہ تیسرے دن تک منیٰ میں ٹھہرا جائے۔(بدائع الصنائع :کتاب الحج :4/425)ہاں! اگر کوئی شخص دوسرے دن کے غروب آفتاب تک ٹھہرا رہے تو اس پر تیسرے دن کی رمی جمار لازم ہو جائے گی اور رمی سے پہلے منیٰ سے جانا ناجائز ہوگا۔(بدائع الصنائع: کتاب الحج ،حوالہ بالا)اور تیسرے دن کی رمی میں یہ سہولت ہے کہ زوال آفتاب سے پہلے بھی جائز ہے۔(بدائع الصنائع ،کتاب الحج :4/428)

﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن یُعْجِبُکَ قَوْلُہُ فِیْ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَیُشْہِدُ اللّہَ عَلَی مَا فِیْ قَلْبِہِ وَہُوَ أَلَدُّ الْخِصَام، وَإِذَا تَوَلَّی سَعَی فِیْ الأَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیِہَا وَیُہْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللّہُ لاَ یُحِبُّ الفَسَادَ، وَإِذَا قِیْلَ لَہُ اتَّقِ اللّہَ أَخَذَتْہُ الْعِزَّةُ بِالإِثْمِ فَحَسْبُہُ جَہَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِہَاد﴾․(سورہ بقرہ، آیت:206-204)
اور بعضا آدمی وہ ہے کہ پسند آتی ہے تجھ کو اس کی بات دنیا کی زندگانی کے کاموں میں اور گواہ کرتا ہے الله کو اپنے دل کی بات پر اور وہ سخت جھگڑا لو ہے او رجب پھرے تیرے پاس سے تو دوڑتا پھرے ملک میں، تاکہ اس میں خرابی ڈالے او رتباہ کرے کھیتیاں اور جانیں اور الله ناپسند کرتا ہے فساد کو او رجب اس سے کہا جائے کہ الله سے ڈر! تو آمادہ کرے اس کو غرور گناہ پر ، سو کافی ہے اس کو دوزخ اور وہ بے شک برا ٹھکانا ہے

ربطِ آیات:حج کے بیان کے آخری حصّے میں دو قسموں کے لوگوں کا تذکرہ تھا، ایک گروہ وہ ہے جو ان ایام مقدّسہ اور مقامات مقدسہ میں صرف دنیا کے طلب گار ہوتے او راسی کی دعائیں مانگتے تھے، وہ مشرکین تھے جو الله تعالیٰ پر ایمان رکھنے کے باوجود آخرت کے جزا وسزا کے تصور کے منکر تھے۔ اس لیے ان کی دعاؤں کا محور صرف دنیا ہوتی تھی ۔ دوسرا گروہ اہل ایمان کا ہے ،جو ان مقامات مقدسہ میں آہ وزاری کرکے دنیا اور آخرت کی بھلائی مانگتے ہیں، اب ان آیات میں ایمان کے دعوے دار دو گروہوں کا تذکرہ ہے۔ ایک اہل نفاق کہ جو زبان پر اسلام اور دل میں کفر رکھتے ہیں، دوسرا اہل اخلاص جن کا ظاہر او رباطن دونوں ایمان وتصدیق کی دولت سے مالا مال رہتا ہے۔

تفسیر: منافقین خوش کن باتوں کے ذریعے اہل ایمان کا اعتماد حاصل کرتے ہیں
قبیلہ بنو ثقیف کا ایک شخص، جس کا نام اخنس بن شریق تھا، یہ بہ ظاہر مدّعی اسلام او ربہ باطن کفریہ عقائد پر قائم او رمسلمانوں کا دشمن تھا، ایک بار آپ عليه السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور اقتصادی ترقی کے اسباب اور دیگر دنیاوی معاملات پر متاثر کن گفتگو کی۔(بیضاوی، البقرة تحت آیة رقم:204) آپ عليه السلام اس کی عمدہ گفتگو اور شیریں بیانی سے بہت متاثر ہوئے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ (احکام القرآن للقرطبی، البقرة تحت آیة رقم:204) اور اس کے نفاق کی نشان دہی ہوئی۔ اس کے بعد معلوم ہوا یہ خوش نما الفاظ اور خوش کن تقریر، درحقیقت چرب زبانی او رمکاری ہے ۔ میٹھی میٹھی باتیں کرنا اور بات بات پر الله تعالیٰ کی قسمیں کھا کر وفاداری کا یقین دلانا، ایک طرح کا ڈھنگ ہے۔ چناں چہ جب یہ آپ کی مجلس سے اٹھ کر گیا تو مسلمانوں کے ایک قبیلے کی کھیتیاں جلا ڈالیں اور مویشی ہلاک کر دیے۔ (تفسیر بیضاوی ، البقرہ تحت آیة رقم:204) جسے الله تعالیٰ نے فساد فی الارض قرار دیا۔ شان نزول کی ا ن روایتوں سے یہ مطلب نہیں کہ آیت کا مصداق صرف یہی شخص ہے، بلکہ ایسی صفات رکھنے والا ہر شخص اس کا مصداق ہے۔ (تفسیر الکبیر، البقرہ تحت آیة رقم:204) نیز یہ ہر زمانے کے منافقین کی عمومی صفت ہے، انہیں مسلمانوں سے زیادہ کافروں سے محبت ہوتی ہے، اس لیے مسلمانوں کے لیے ”اپنے“ بن کر انہیں جانی ومالی نقصان پہنچانے میں کسی طرح کی کوئی رعایت نہیں رکھتے۔

﴿وَإِذَا تَوَلَّی سَعَی فِیْ الأَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیِہَا…﴾ تولیّ کے معنی پیٹھ پھیرنے کے ہوتے ہیں، یہاں آپ عليه السلام کی مجلس سے اٹھ کر جانا مراد ہے۔ چنانچہ اخنس بن شریق نامی منافق نے ایک طرف آپ کو اعتماد میں لیا اور دوسری طرف مجلس سے اٹھ کر واپس آیا تو مسلمانوں کی کھیتیاں او رمویشی تباہ کر دیے۔

الحرث والنسل: ازہری لغوی کے نزدیک ”الحرث“ سے عورتیں اور”والنسل“ سے بچے مراد ہیں، یعنی عورتوں او ربچوں کو قتل کیا ۔ حضرت جعفر صادق رحمہ الله تعالیٰ سے منقول ہے کہ ”الحرث“ سے دین مراد ہے۔ یعنی منافقین احکام شریعت کے متعلق شکوک وشبہات پیدا کرکے لوگوں کا دین برباد کرتے ہیں ۔ (روح المعانی، البقرہ تحت آیة رقم:205)

منافقین کو ان کی مصنوعی عزت گناہ پر ابھارتی ہے
وَإِذَا قِیْلَ لَہُ اتَّقِ اللّہَ… جب کوئی مخلص مسلمان منافق کو تقویٰ اختیار کرنے کا مشور دیتا ہے کہ ناحق مسلمانوں کی جان ومال برباد مت کرو، احکام شریعت کو لازم پکڑو تو منافق سنبھلنے کے بجائے مزید بگڑ جاتا ہے۔ خود بینی اور جاہلی حمیت اسے مزید اس گناہ پر ابھارتی ہے، یہاں ”العزة“ سے جاہلی حمیّت مراد ہے۔ (المفردات للراغب:باب، ع، ر،ہ) جیسے قومی فخر، اورانسانوں کے وضع کردہ قانونی حقوق، جسے مدارِ عزت بنا کر ناحق مسلمانوں پر امتیازی سلوک اور ظلم روا رکھا جاتا ہے، سب جاہلی حمیّت کے آثار ہیں، ایسے لوگوں کے لیے کہا گیا ہے کہ ان کے اعمال بد کی سزا آخرت میں جہنم ہی کافی ہے۔

فوائد
منافقین ہمیشہ خوش نما الفاظ پر فریب اصطلاحات او راقتصادی ترقی کے خواب دکھا کر مسلمانوں کا اعتماد حاصل کرتے ہیں، لیکن پس پردہ مسلمانوں کے جانی ومالی نقصان کے درپے رہتے ہیں۔

احکام شریعت کو نظر انداز کرنا فساد ہے اور احکام شریعت پر عمل پیرا ہونا، اسے رائج کرنا، اس کی دعوت دینا عین اصلاح ہے۔

منافقین خوف خدا اور احکام شریعت کے مقابلے میں اپنی جاہلی حمیّت کو مقدم رکھتے ہیں۔ (جاری)

Flag Counter