مطالعہ اہمیت اور آداب
احتشام الحسن، متعلم جامعہ فاروقیہ کراچی
”علم و مطالعہ اور فکرو اجتہاد کی لذتوں کے مقابلہ میں دوشیزاؤں کے قرب اور مال کی لذتیں ہیچ ہیں“۔یہ عمدہ اور خوب صورت جملہ امام اعظم ابو حنیفہ کے مایہ ناز شاگرد حضرت محمدرحمہ اللہ کا ہے۔مطالعہ عربی زبان کا لفظ ہے۔جس کے معنی ”غور، توجہ،دھیان سے کسی چیز کو اس سے واقفیت پیدا کرنے کی غرض سے دیکھنا“ اس کے دوسرے معنی”کتب بینی“کے ہیں۔عام طور پر کتاب پڑھنے کو مطالعہ کہا جاتا ہے ۔کتب بینی میں انسان کتاب کو خوب غور و فکر اور دھیان و توجہ سے پڑھتا ہے، تا کہ کتاب سے اچھی طرح واقفیت اور انس ہوجائے اور کتاب کا ہرہر لفظ ،ہرہر جملہ،ہرہر پیرا گراف اور ہرہر صفحہ اور ورق صحیح طور پر سمجھ میں آجائے ،اسی وجہ سے کتاب بینی کو مطالعہ کہا جاتا ہے۔
علم انسان کا امتیازی نہیں، بلکہ اس کی بنیادی ضرورت بھی ہے، جس کی تکمیل کا واحد ذریعہ مطالعہ ہے ،ایک پڑھے لکھے شخص کے لیے معاشرہ کی تعمیر و ترقی کا فریضہ بھی اہم ہے، اس لیے مطالعہ ہماری سماجی ضرورت بھی ہے۔مطالعہ استعداد کی کنجی اور صلاحیتوں کو بیدار کرنے کا بہترین آلہ ہے۔یہ مطالعہ ہی کا کرشمہ ہے کہ انسان ہر لمحہ اپنی معلومات میں وسعت پیدا کرتا ہے اور زاویہ فکر و نظر کو وسیع سے وسیع تر کرتا ہے ۔مطالعہ سے انسان حصولِ علم کی طرف مائل ہوتا ہے،اپنی ذات سے روشناس ہوتا ہے ، وہ معاشرہ اور اس میں بسنے والوں کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے اور انسان کو ایک نئی فکر دیتا ہے۔ مطالعہ سے اچھائی اور برائی میں پہچان ہوتی ہے، مطالعہ سے انسان نے کائنات میں پوشیدہ رازوں کو دریافت کیا ہے ۔مطالعہ ہی سے انسان اکمل ،مکمل اور افضل بنتا ہے ۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا:
انسان کو بناتا ہے اکمل مطالعہ
ہے چشم دل کے واسطے کاجل مطالعہ
دنیا کے ہر ہنر سے ہے افضل مطالعہ
کرتا ہے آدمی کو مکمل مطالعہ
دنیا میں جتنے بھی عالم، فاضل ،فلسفی ،بلند پایا محقق،عظیم سائنس دان یا مصنف و موجد اور جتنے بھی اصحابِ قلم و سیف گزرے ہیں مطالعہ ان کی زندگی کا اہم اور لازمی جز تھا ۔مطالعہ ایک ایسی دوربین ہے جس کے ذریعہ انسان دنیاکے گوشہ گوشہ دیکھتا رہتا ہے۔مطالعہ ایک طیارے کی مانند ہے، جس پر سوار ہو کر ایک مطالعہ کرنے والا دنیاکے چپہ چپہ کی سیر کرتا رہتا ہے اور وہاں کی تعلیمی ، تہذیبی ،سیاسی اور اقتصادی احوال سے واقفیت حاصل کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے :
بیٹھ کر سیر دو جہاں کرنا
یہ تماشا ہم نے کتاب میں دیکھا
”مگر دور حاظر میں گردش روز و شب کی الٹ پلٹ نے ہمتوں کو پست اور قویٰ کو کمزور بنا دیا ہے۔انحطاط پذیری کی اس فضا میں پختہ کاری کے جوہر لاغر ہوتے جارہے ہیں ۔قوت استدلال ،نکتہ شناسی اور نکتہ آفر ینی کے سمندر میں مطالعہ و تحقیق کے موتی کم یاب، بلکہ نایاب ہوتے جارہے ہیں۔ طلبہٴ دینیہ کے حلقہ ،تحقیق و جستجو، عرق ریزی و دل سوزی اور باریک بینی جیسے عنوانات سے نا آشنا و نامانوس ہوچکے ہیں اور ہوتے جارہے ہیں “۔
یہ ایک ادیب کی رائے ہے اہل نظر بھی یوں کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ”آج صرف طالبانِ علوم نبوت سے یہ شکوہ نہیں کہ ان میں شوقِ مطالعہ کا فقدان ہے، بلکہ کچھ ہوائیں ہی ایس چل پڑی ہیں ،ایک وہ وقت تھا جب ساری ساری رات دکان داروں کی دکانوں کے دروازوں سے چراغوں کی روشنی کے دھاروں کو غنیمت سمجھ کر مطالعہ و استفادہ یا تحریر و تسوید میں گزر جاتی تھی۔ایک ایک کتاب کے لیے طلبہ ترستے تھے،اربابِ ذوق پگھلتے تھے،دور راز علاقوں کا سفر کرتے تھے اور آج کتب خانوں کی کثرت ہے،چھاپہ خانوں کی بہتات، طباعت ایسی کہ آنکھیں خیرہ ہوں،کاغذ ایسا کہ صحیفہ ریشم معلوم ہو،کتاب اتنی صاف اور ایسی عمدہ کہ عقل دنگ رہ جائے ،اب وہ کونسی کتاب ہے جو منصہ شہود پر نہیں آئی، مگر استفادہ کون کرے،پڑھے کون،؟شوقِ مطالعہ اور کتب بینی کے اشتیاق کا نام رہ گیا ہے ،کیفیت الٹ گئی ہے “۔
آج سائنس و ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ ہر انسان مصروف نظر آتا ہے، ٹی وی ،کمپیوٹر،موبائل ،نیٹ ،فیس بک، گیم، فلم، ڈرامہ، شو اور مختلف پروگراموں میں لوگ اتنا کھو گئے ہیں کہ مطالعہ بھول ،بلکہ اپنے آپ کو بھی بھول چکے ہیں ۔اگر مسلمان اپنی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو بڑی بڑی شخصیات سے لے کر چھوٹی شخصیت تک مطالعہ میں غرقاں نظر آئے گی،مطالعہ کا شوقین اور فدائی نظر آئے گا،اما م مسلم کے بارے میں آتا ہے کہ وہ مطالعہ اتنے غرق تھے کہ پاس پڑی کھجوروں کی ایک ٹوکری کھا گئے، پتا ہی نہیں چلا، تاریخ کی کتب میں درج ہے کہ آپ کی موت بھی اسی سے واقع ہوئی۔
امام محمد جن کی سیرت کا مطالعہ کر کے ایک انگریز نے کہا تھا کہ ” مسلمانوں کے چھوٹے محمد کا یہ حال ہے تو بڑے محمد کا کیا حال ہوگا؟“۔ان کے مطالعہ کا عالم یہ تھاکہ پوری پوری رات جاتے گزر جاتی ،جب لوگ آپ کی اس کم خوابی و زحمت کشی کی وجہ دریافت کرتے تو فرماتے :”میں کیسے سو سکتا ہوں ،جب کہ عام مسلمان ہم پر اعتماد اور یہ خیال کر کے سوجاتے ہیں کہ جب ہمارے سامنے کوئی معاملہ یا نیا مسئلہ پیش آئے گا تو ان (امام محمد )کے پاس لے جائیں گے،وہ اس کو واضح کردیں گے اور اگر میں سورہاہوں تو یہ دین کا ضائع کرنا ہوگا اور اس سے دنیا کا نقصان ہوگا۔“
حضرت مولانا انور شاہ کشمیری ،جن کو لوگ چلتا پھرتا کتب خانہ کہتے تھے ،وہ بیماری کی حالت میں بھی کتاب کا پیچھا نہیں چھوڑتے تھے، حتیٰ کہ آپ کے مایہ ناز تلامذہ آپ سے کہتے کہ آخر ایسی کیا علمی مجبوری پیش آگئی ہے کہ اس ضعف و بیماری کی حالت میں بھی مطالعہ کر رہے ہیں؟اگر کوئی ضرور ی بات تھی تو ہم شاگردوں کو حکم فرمادیتے ،ہم کتاب دیکھ کر عرض کردیتے ؟مگر وہ مسکرا کرفرماتے :”کیا کروں یہ مطالعہ بھی ایک روگ اوربیماری ہے، اس سے جان کیسے چھوٹے؟“۔مطالعہ کے شوق پر اکابرین کے ایسے واقعات ملتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہیں، آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں اور دماغ یقین کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔
امام غزالی فرماتے ہیں:”میری صحبت سے تنہائی اچھی ہے ،لیکن تنہائی سے پریشان ہوجانے کااندیشہ ہے،اس لیے اچھی کتابوں کے مطالعہ کی ضرورت ہے“۔
حکیم ابو نصر فارابی فرماتے ہیں:”تیل کے پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے میں رات کو چوکیداروں کی قندیلوں سے کھڑے کھڑے کتاب کا مطالعہ کرتا تھا“۔
علامہ اقبال کی رائے یہ ہے کہ:”مطالعہ اخلاق کا معیار ہے“۔مختلف عقلاء اور حکماء نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا ہے، کسی نے کہا”دماغ کے لیے مطالعہ اور جسم کے لیے ورزش ضروری ہے“۔کسی نے لکھا: ”دنیام میں ایک باعزت اور ذی علم قوم بننے کے لیے مطالعہ ضروری ہے“۔کسی نے رائے دی کہ کتابوں کا مطالعہ دماغ کو روشن کرتا ہے اور کسی کہنے والے نے کہا:”مطالعہ روح کی غذا ہے“۔
آج کے اس ترقی پذیر اور مسابقہ کے دور میں جہاں ذرائع ابلاغ و ترسیل کی بہتات ہے اور ہرطرح کے اخبارات اور رسائل اور کتابوں کی بھی فراوانیاں ہیں ۔ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ کن کا مطالعہ کیاجائے اور کن کو چھوڑ ا جائے؟اس کا سیدھا سا جواب ممکن نہیں ،انتہائی چھان بین کر کتا بوں کا انتخاب ہونا چاہیے ،یہ بات بھی انتہائی ضروری ہے کہ کتاب ایمان سوز اور اخلاق سوز نہ ہو۔اس لیے کہ مطالعہ کے غلط رخ نے عبدالماجد کو ارتداد کے گڑھے میں دھکیل دیا تھا ۔لیکن بعد میں اسی شخص کے مطالعہ کی سمت جب درست ہوئی تو عبدالماجد سے وہ مولانا عبد الماجد دریا آبادی ہوگئے اور مفسرِ قرآن بن کر افق سے ابھرے اور چھاگئے ۔مولانا ابو الحسن علی الندوی کی رائے یہ ہے کہ :”کتابوں کے مطالعہ کے لیے اپنے بڑوں اور اساتذہ سے مشورہ کریں، شرط یہ کہ وہ بھی صاحب ذوق ہوں“۔مطالعہ ایسی کتابوں کا ہو ،جو نگاہوں کو بلند و تیز،سخن کو دل نواز،حاں کو پرسوز،طبیعت میں نشاط اور ذہن و دماغ کو تازگی بخش دے۔
مطالعہ کے دوران چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے:٭…مطالعہ کا وقت و نصاب متعین ہو۔ ٭…مطالعہ کے بعد حاصل مطالعہ کو لکھ لیں تو فائدہ کو کئی گنا بڑھا دے گا۔ ٭…مطالعہ کے بعد جو کچھ آپ نے پڑھا اس کو اپنے آس پاس کے افراد ،اہل خانہ اور دوستوں کے سامنے بیاں کریں،اس سے آپ کو مطالعہ یاد بھی رہے گا اور دوسروں تک بات بھی پہنچ جائے گی۔٭…مطالعہ مثبت اور تعمیری فکر کے ساتھ ہو۔ ٭…کوشش کریں جو کتاب مطالعہ کرنی ہے اسے خرید لیں ،اس سے آپ کی اپنی لائبریری قائم ہوجائے گی۔ ٭…ایک مسلمان کو اپنے مطالعہ میں قرآن و حدیث،سیرت اور تاریخ اسلام کو ضرور شامل کرنا چاہیے۔ ٭…آپ جس پیشہ سے تعلق رکھتے ہیں اس سے وابستہ کتابوں کا مطالعہ آپ کے ملی اور مالی نفع کا باعث بنے گا۔
عام طور پر تین سوالات کیے جاتے ہیں 1..مطالعہ کتنا2..کس طرح اور3..کتنی دیر کیا جائے؟اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ1.. حسب ذوق و سعت ہو۔2..بڑوں سے پوچھ پوچھ کر مطالعہ کیا جائے اور3..عمربھر مطالعہ کیا جائے ۔صاحب مطالعہ آدمی ہمہ تن مطالعہ میں رہتا ہے، کیوں کہ وہ انسانوں ،فطرتوں اور سوچوں کامطالعہ کرتا ہے۔ایک صاحب مطالعہ لکھتے ہیں کہ:”میرے پیش نظر ایک اور کتاب رہی ہے، جس کے صرف دو ورق ہیں ،لیکن جس میں سب کچھ ہے اور یہ کتاب ” صحیفہ کائنات ہے آسمان اور زمین کے ان دو اوراق کے درمیان مہر و ماہ، کوا کب و سیارات،شفق،قوسِ قزح ،ابروباد،کوہ وصحرا،سمندر اور ریگستان نے ایسے ایسے خطوط کھینچے ہیں جن میں فکر کرنے والی نگاہ اپنے لیے بہت کچھ حاصل کر سکتی ہے۔
اصحاب علم و اہل رائے نے مطالعہ کے بہت سے آداب ذکر کیے ہیں،چند ایک کو آپ کی نظر کرتے ہیں :٭…مطالعہ سے پہلے تمام عوائق و علائق دنیوی و اخروی تفکرات سے ذہن خالی کیا جائے۔ ٭…مطالعہ باوضو ہو کر کیا جائے، وگرنہ علم سے محرومی کا سبب بن سکتا ہے، حضرت شمس الائمہ حلوانی فرماتے ہیں کہ:”مجھے علم صرف علم کی تعظیم سے حاصل ہوا، کیوں کہ میں سادے کاغذ کو بھی بغیر وضو کے نہیں چھوتا تھا۔٭… مطالعہ سے پہلے دوگانہ نفل پڑھ لیے جائیں۔٭… کتاب کو اچھی اور زمین سے بلند جگہ پر رکھا جائے۔ ٭…کتاب کا مطالعہ مودبانہ طریقے سے کیا جائے،لیٹ کر، نہ سہارا لے کر۔ ٭…بلا ضرورت درمیان میں بات نہ کی جائے ۔ ٭…کسی سے پوچھنے کو عار نہ سمجھا جائے۔ ٭…جتنا سمجھ آجائے اس پرشکر ادا کرے اور مصنف کے لیے دعا کرے ،جو نہ سمجھ میں آئے اللہ تعالی سے خوب دعا کرے۔ ٭…جو سمجھ میں آجائے اس کو اور دھیان سے دیکھے اور ذہن میں دہرائے، تاکہ پختہ ہوجائے ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس پرفتن دور میں مطالعہ کی اہمیت ہمارے دلوں میں بٹھائے اور مطالعہ کے ذوق وشوق میں جلا بخشے اور خوب آداب کے ساتھ مطالعہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!