Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1436ھ

ہ رسالہ

10 - 16
فتنے کے اسباب

حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے ایک بیان کی تسہیل
تسہیل: محترم سید عروہ عرفان

اسی وجہ سے مولویوں کو برا کہا جاتا ہے، کیوں کہ مولوی فضول رسموں سے منع کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ تم نے ہماری روزی پر لات مار دی، حالاں کہ روزی دینے دلانے والا مولوی تو نہیں ہے۔ مولوی ثواب پہنچانے سے بھی نہیں روکتے، بس یہ کہتے ہیں کہ ایصالِ ثواب کے لیے جمعرا ت کو مخصوص نہ کرو؛ بلکہ بدھ کو بھی دو، تیجے دسویں کی تخصیص نہ کرو، جب ہمت ہو کھلادو۔ اب یہ لوگوں کا قصور ہے کہ انھوں نے تخصیص تو چھوڑ، ایصالِ ثواب ہی بند کردیا ہے۔

لوگوں کی نیت تو یہاں تک بگڑجاتی ہے کہ کیرانہ میں مردے کی چادر تکیہ دار کے سوا کسی دوسرے کو دینے لگے تو تکیہ دار نے کہا کہ یہ تو میرا حق ہے۔ لوگوں نے کہا، بھائی! حق تو تمھارا ہے، مگر اس بار تم انھیں لینے دو، تم تو ہمیشہ ہی لیتے ہو۔ وہ بے ساختہ کہنے لگا کہ واہ جی واہ، خدا خدا کرکے تو یہ دن آتاہے اور اس میں بھی دوسرے کو اپنا حق دے دوں۔ لوگوں نے اسے بُرا بھلا کہا کہ تو اس دن کی تمناکرتا رہتا ہے کہ کوئی مرے اور تجھے چادر ملے۔ وہ معذرتیں کرنے لگا، مگر اس کے دل میں جو بات تھی، وہ تو منھ سے نکل ہی گئی۔

میں کہتاہوں کہ اس میں اُس کی خطانہیں، بلکہ خطا ان لوگوں کی ہے جنھوں نے اسے لالچی بنایا ہے۔ لوگوں کو چاہیے کہ اماموں اور موذنوں کو معقول تنخواہیں دیا کریں ا ور انھیں عزت کے ساتھ رکھا کریں، تاکہ مُردوں کے کھانے اور کپڑے کا انھیں انتظار نہ رہے۔ مُردوں کے کھانے کپڑے کو تو کسی خاص جماعت (طبقے) کے لیے مخصوص نہیں کردینا چاہیے۔ جو غریب اتفاق سے سامنے آجائے، اسے دے دیا جائے۔ یوں کسی کو اس موقع کا انتظار نہیں رہے گا۔

افسوس یہ ہے کہ عوام نے علما کو بھی ملاؤں میں شامل کردیا ہے، لہٰذا وہ علمائے کرام کو بھی مسجدوں کے ملاؤں کی طرح پست ہمت اور لالچی سمجھتے ہیں۔

واللہ! آپ نے علماکو دیکھا ہی نہیں ہے، کیوں کہ آپ کو دین کی ضرورت ہی نہیں ہے اور نہ آپ کو دنیا کی ضرورت ہے۔ پھر عوام کی ملاقات علما سے کیسے ہو؟ بس آپ نے مسجدوں کے ملاؤں کو دیکھ لیا ہے۔ چند سیاح واعظوں کو دیکھ لیا ہے، جنھیں اپنی روٹیوں سے کام ہے۔ اور آپ نے انھی کو علما سمجھ لیا ہے اور حقیقی علما سمجھ بیٹھے ہیں۔ یاد رکھیے، سچا عالم تو کبھی آپ کی روٹیوں کے لیے نہیں آئے گا، بلکہ ویسے بھی بے بلائے نہیں آئے گا، البتہ تبلیغ اور اصلاح کے لیے بن بلائے بھی آسکتاہے۔ مگر وہ آپ سے روٹی نہیں مانگے گا۔

بڑی سیدھی سادی بات کہتا ہوں کہ علم ایک کمال ہے اور ہر کمال کی خوبی یہ ہے کہ اس سے غیرت اور استغنا (بے نیازی) پیدا ہوتی ہے۔ چناں چہ بڑھئی اور معمار تک کو اگرچہ ایک حقیر سی مہارت مل جائے تو ان میں بھی ایک قسم کی غیرت اور استغنا پیدا ہوجاتاہے۔ مثلاً، وہ کبھی خیرات کا مال نہیں لیں گے اور نہ کبھی مُردوں کی چادر اور جائے نماز پر نظر رکھیں گے۔ ان کی غیرت یہ کبھی گوارا نہیں کرے گی۔ تو بھلا سب سے زیادہ کمال علمی (دینی علم) رکھنے والے میں ذرا برابر بھی غیرت نہ ہوگی؟ ضرور ہوگی، بلکہ سب سے زیادہ ہوگی۔ اس لیے خوب سمجھ لیجیے کہ جس میں علمی کمال ہوگا، وہ ایسے ذلیل کام کبھی نہ کرے گا۔ اس کی حالت تویہ ہوگی کہ اگر وہ ضرورت مند بھی ہوگا، تب بھی سوال پر اپنی غیرت وعزت کو ترجیح دے گا اور ہرگز کسی کے سامنے اپنی ضرورت ظاہر نہ کرے گا۔

اہل کمال فقر و فاقہ میں بھی مستغنی رہتے ہیں۔چناں چہ کسی زمانے میں ایران کا ایک شہزادہ کسی پریشانی میں مبتلا ہوکر ہندوستان آگیا۔ اتفاق سے لکھنو آیا۔ وہاں اتفاق سے علاقہ پنجاب کے ایک نواب بھی آئے ہوئے تھے۔ شہزادے نے ان کی دعوت کی۔ نواب صاحب نے ان سے کہا کہ آپ کبھی میری طرف ضرور تشریف لائیں۔ اتفاق سے شہزادہ کا گزر اسی ریاست کی طرف ہوا، مگر حالت یہ تھی کہ پاس کچھ نہ تھا۔ خستہ حالت میں ٹٹو پر سوار وہاں پہنچا۔ نواب صاحب نے شہزادے کو اس حالت میں دیکھا تو افسوس کرتے ہوئے یہ شعر پڑھا:
        آنکہ شیراں را کند روبہ مزاج
        احتیاج ست احتیاج است احتیاج
یعنی جو چیز شیروں کو لومڑی بنادیتی ہے، وہ احتیاج (ضرورت) ہے۔ شاہزادہ یہ سن کر بہت غصے میں آیا اور فی البدیہہ جواب دیا:
        شیر نر کے میشود روبہ مزاج
        می زند بر کفش خود صد احتیاج
یعنی بہادر شیر کب لومڑی کے مزاج کا ہوسکتاہے؛ وہ تو سیکڑوں ضرورتوں کو اپنی جوتی کی نوک پر رکھتا ہے۔ شہزادے نے یہ کہا اور الٹے پاؤں لوٹ گیا۔ رئیس نے اگرچہ معذرت کی، مگر وہ ہرگز نہ ٹھہرا اور اس سے کہا کہ تم اس قابل ہی نہیں کہ کوئی شریف تمھارے ہاں آئے۔

غیرت وہ چیز ہے کہ شریف آدمی مرنا گوارا کرتا ہے، مگر اپنی احتیاج، اپنی ضرورت کسی کے سامنے پیش نہیں کرتا۔ اس واقعے میں شہزادے میں صرف خاندانی شرافت کا کمال تھا، جس کا اثر یہ تھا کہ اس میں حد درجہ غیرت تھی۔ اب جن لوگوں میں علمی کمال ہوگا، ان میں کتنی زیادہ غیرت ہوگی، سمجھ لینا چاہیے۔ لہٰذا، مسلمانوں کا علما کو ملاؤں سے ملانا مناسب نہیں۔

ہاں، جن لوگوں کا یہ پیشہ ہے، وہ اسی طرح کے ہیں۔ مگر میں کہتا ہوں کہ ان میں بھی ان کی خطا اتنی نہیں ہے، بلکہ قوم کی خطا ہے۔ مثلاً، امام کا اصل رتبہ یہ ہے کہ وہ سب نمازیوں کی طرف سے باری تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض معروض کرنے کے لیے تمام مقتدیوں کا نائب ہے۔ چناں چہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کام کے لیے کسی ایسے شخص کومنتخب کرتے جو علم و فضل میں سب سے بڑھا ہوا ہو اور اس کی تعظیم و تکریم سب سے زیادہ کی جاتی۔ مگر اب اس خدمت کے لیے ایسے فردکو تجویز کیا جاتا ہے جو اندھا ہو، اپاہج ہو اور پھر اسے اتنی بھی تنخواہ نہیں دی جاتی کہ ایک آدمی کا بہ قدر گزارہ ہوسکے۔ نیز، امام کے ذمے امامت کے علاوہ اور بھی دوسرے کام لگادیے جاتے ہیں کہ مسجد کی ہر چیز کی حفاظت کرے، صفائی کرے، روشنی کرے۔ اور اگر کوئی مرجائے تو تین رات تک مردے کی قبر پر سویا کرے۔ قرآن پڑھ کر بخشا کرے۔ محلے والوں کا گوشت سبزی لادیا کرے۔ گھڑے بھی بھردیا کرے غرض سارے کام امام صاحب ہی کے ذمے ہوتے ہیں۔

میں تو آپ کو یہ بتانا چاہ رہا ہوں کہ جن اماموں کو آپ تنخواہ پر مقرر کرتے ہیں، ان کی کیا گت بناتے ہیں۔ افسوس، اگر انگریزی کا ماسٹر رکھا جائے تو اس کے لیے تو کم از کم پچاس روپے تجویز کیے جاتے ہیں اور قرآن پڑھانے کے لیے کسی کو رکھا جائے تو اس کے لیے روپیہ آٹھ آنہ ماہوار ہی تجویز ہوتا ہے۔ خیر، یہ معلم ہوتے ہی آٹھ آنے کے ہیں۔ چناں چہ ایسے ہی ایک میاں جی من الجنة والناس کو من الجنات والنس پڑھتے تھے۔ قرآن غلط پڑھنے پر سخت وعید ہے، مگر میرا مطلب یہ نہیں کہ اس خوف سے قرآن ہی پڑھنا چھوڑدو۔ بلکہ کسی مجوِّد اور ماہر قاری سے قرآن پڑھنا چاہیے۔ اور ایسا شخص رقم خرچ کرنے ہی سے ملے گا۔ اور جو لوگ انگریزی ماسٹروں کو معقول تنخواہ دے سکتے ہیں، وہ ماہر قاری کو بھی ضرور تنخواہ دے سکتے ہیں۔ اس لیے استطاعت نہ ہونے کا عذر ہر جگہ نہیں چل سکتا۔

مگر آج کل دین سے بے پروائی ہے کہ امام ہمیشہ ایسا ڈھونڈا جاتا ہے جو سستا ہو، خواہ وہ سب کی نمازیں غارت کرتا ہو۔ کیوں کہ یہ جاہل میاں جی بعض جگہ ایسی غلطیاں کرجاتے ہیں کہ جن سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔ بعض دفعہ تجوید کی غلطیاں ایسی ہوتی ہیں کہ ان سے عربیت جاتی رہتی ہے اور جب لفظ عربیت سے ہی نکل گیا تو قرآن ہی نہ رہا۔ جب نماز میں قرآن نہ پڑھا گیا تو نمازکیسے صحیح ہوگی؟ دراصل، جس طرح کسی لفظ کے فارسی یا اردو ہونے کے لیے تلفظ کی صحت شرط ہے، اسی طرح لفظ کے عربی ہونے کے لیے بھی تلفظ کا صحیح ہونا شرط ہے۔ اگر عربی کا تلفظ درست نہ ہوگا تو اس سے لفظ کا معنی ہی بدل جائیں گے۔

میں تو کہتا ہوں کہ تجوید کا سیکھنا فرض ہے، کیوں کہ قرآن عربی زبان میں ہے، جس کا عربی میں پڑھنا فرض ہے اور عربیت کے مطابق صحیح تلفظ تجوید سیکھے بغیر نہیں آسکتا۔ اس لیے تجوید سیکھنا فرض ہوا۔

آپ اپنی کم ہمتی کی وجہ سے اس جانب متوجہ نہ ہوں، مگر اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ افسوس، بہ ظاہر اس میں دنیا کا نفع نہ ہونے کی وجہ سے مسلمان اس پر توجہ نہیں کرتے۔ اگر آج اعلان ہوجائے کہ ملازمت اسی کو دی جائے گی، جس کا قرآن درست ہوگا تو سارے بی اے، ایم اے قاری ہوجائیں گے۔ دنیا کے لیے لوگ سب کچھ کرتے ہیں۔

بہت سے لوگ تو قرآن پڑھانے ہی کو فضول سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ معنی نہ سمجھے تو محض الفاظ پڑھنے سے کیا فائد؟۔ میں کہتا ہوں کہ بہت سے لوگ اقلیدس (انجینئرنگ) کا امتحان دیتے ہیں، حالاں کہ وہ امتحان دینے کے لیے بس الفاظ رٹ لیتے ہیں اور ان الفاظ کو نہیں سمجھتے اور پرچے پر صحیح لکھ کر پاس ہوجاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہواکہ بعض دفعہ محض الفاظ کا یاد ہونا بھی کام آجاتاہے، جیسے یہاں اقلیدس کے الفاظ رٹ لینے سے امتحان میں کام یاب ہوگئے۔ اسی طرح، ہم کہتے ہیں کہ قرآن کے الفاظ یاد کرلینے سے جنت کے درجے بلند ہوتے ہیں تو محض قرآنی الفاظ کا پڑھ لینا بے کار کیوں ہوا؟ مگر اصل بات یہ ہے کہ دنیا کی اہمیت ہے اس لیے اقلیدس کے الفاظ کو رٹ لینے کو فضول نہیں سمجھا جاتا، مگر دین کی اہمیت نہیں، تو اس کا اثر یہ ہے کہ معلموں اور موذنوں کی تنخواہیں بھی کم مقرر کی جاتی ہیں۔ مگر یاد رکھیے، وہ آپ کو قرآن کا علم بھی ایسا ہی دیں گے، جیسی تنخواہ آپ انھیں دیں گے۔

یہ نہ سمجھ لیجیے گا کہ زیادہ تنخواہ دے دینے سے آپ قرآن کے دام دیں گے۔ نہیں، یہ قرآن کے دام نہیں ہوں گے، بلکہ یہ تو ان معلموں کے دام ہیں۔ قرآن کی شان تو یہ ہے کہ #
        قیمت خود ہر دو عالم گفتہ
        نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز
کہ اپنی قیمت دونوں جہاں بتلائی ہے، نرخ بڑھاؤ ابھی ارزانی ہے۔ لہٰذا، قرآن کی قیمت تو دو جہان بھی نہیں ہوسکتے۔ اور کیوں نہ ہو کہ قرآن تو بندوں کو اللہ تعالیٰ کا جمال دکھانے والا ہے۔

یہ تو الفاظ کا رتبہ ہے اور معانی کا رتبہ یہ ہے کہ جب کوئی مسلمان قرآن کی تلاوت کرتا ہے توخداوند تعالیٰ اس کی طرف خود متوجہ ہوتے ہیں اور یہ بھی خداوند عالم کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ دنیا میں اتناہی ہوسکتاہے، کیوں کہ اس سے زیادہ انسان برداشت نہیں کرسکتا۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے سورج پر نظر کرنے سے نظر چکاچوند ہوجاتی ہے، مگر اس کی شعاعوں کو دیکھ سکتا ہے۔ اسی طرح، اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہم اپنی کمزوری کی وجہ سے نہیں دیکھ سکتے۔ ہاں، اس کی طرف متوجہ ہوکر اس کے انوار و تجلیات کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔

قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر ہے، جس کی تلاوت سے اللہ کے انوار و تجلیات کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ دنیا میں حق تعالیٰ غائب ہیں اور وہ خود نظر نہیں آسکتے۔ ان کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں، رکاوٹ ہماری طرف سے ہے کہ ہم ہی میں انھیں دیکھنے کی قوت نہیں ہے۔ اسی لیے موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ﴿لن ترانی﴾ کہ تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتے۔ یہ نہیں فرمایا کہ لن اُریٰ کہ میں ہر گز نہیں دیکھاجاتا۔ چناں چہ جتنے مشاہدے کی قوت ہم میں یہاں ہے، وہ قرآن ہی سے ہوسکتا ہے۔ چناں چہ یہ تو قرآن کی شان ہے اور قرآن کے معلموں کو جو کچھ دیا جاتا ہے، وہ قرآن کی قیمت نہیں ہے، وہ خود اُن کی محنت کی قیمت ہے۔

لیکن، ایک بات بہت اہم ہے کہ اگر ہمارے اندر دین کی عظمت واہمیت ہوتی تو ہم حاملانِ قرآن کی مشقت کی قیمت بھی بڑی تجویز کرتے۔ لیکن چوں کہ ہم نے دین کو بے وقعت سمجھ لیا ہے، اس لیے اس کے اساتذہ، اس کے موذنوں اور اماموں کی بھی بے قدری کر رکھی ہے۔ ان کی تنخواہیں بہت ہی مختصر مقرر کی جاتی ہیں اور مُردوں کے کھانے کپڑے سے ان کی مدد کرتے ہیں۔ ان کے لیے کفن کی چادر، جانماز اور تیجے دسویں کا کھانا مقرر کردیا گیا ہے۔

لہٰذا، ان کی بھی نیتیں بگڑ گئی ہیں اور لالچ پیدا ہوگئی ہے۔ وہ کسی کے اچھا ہونے سے اتنا خوش نہیں ہوتے جتنا کہ کسی کے مرنے سے انھیں خوشی ہوتی ہے۔ وہ ہوسکتاہے کہ زبان سے کسی کو نہ کوستے ہوں، مگر دل سے ضرور تمنا کرتے ہوں گے کہ کوئی مرے تو ہماری آمدنی ہو۔ اس لیے اس میں جتنا قصور ان لوگوں کا ہے، اتنا ہی قصور قوم کا بھی ہے کہ انھیں ایسے تنگ کیا کہ ان کی نیتیں ہی بگڑ گئیں۔ چناں چہ دیکھ لیجیے کہ ان رسموں سے دینے والوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے اور لینے والوں کو بھی نقصان ہوتا ہے۔ دونوں کو یہ نقصان اس لیے ہوا کہ یہ کام غیر شرعی تھا، محض فخر اور دکھاوے کے لیے۔

شریعت کے خلاف کاموں میں ظلمت اور گھاٹا ضرور ہوتا ہے۔ گناہ کے علاوہ ایسے کاموں سے دنیا کا بھی نقصان ہوتا ہے۔

غضب یہ ہے کہ بعض اوقات خود مرنے والا بھی فخر و مباہات کی وصیت کرتا ہے اور یہ فرمائش کرتاہے کہ ان کی قبر ایسی پختہ ہو جو کبھی خراب نہ ہو۔ شاید اس فرمائش کا مقصد یہ ہو کہ اس کی قبر قیامت تک محفوظ رہے اور وہ حساب کتاب سے بچا رہے۔ مگر․․․ قیامت میں تو پہاڑ بھی اڑ جائیں گے، یہ بے چاری قبر کی کیا حیثیت ہے؟ اس روز توہر شخص گھبرا کر خود ہی اپنی قبر سے نکل آئے گا۔

شیخ سعدی نے لکھا ہے کہ ایک رئیس زادے (امیر) اور غریب زادے (غریب) میں گفتگوہوئی۔ امیر نے کہا کہ دیکھو، ہمارے باپ کی قبر کیسی عمدہ اور مضبوط ہے ،جس پر شان و شوکت برستی ہے اور تمھارے باپ کی قبر کچی اور شکستہ ہے جس سے بے کسی برستی ہے۔ غریب زادے نے کہا، بے شک یہ فرق تو ہے، لیکن قیامت کے دن میرا باپ تو آسانی سے قبر سے نکل آئے گا اور تمھارا باپ پتھر ہی ہٹانے میں رہے گا۔ وہ پتھروں چٹانوں کو ہٹانے ہی میں لگا رہے گا اور میرا باپ اتنی دیر میں جنت جا پہنچے گا۔ اس گھمنڈ کا کیا ٹھکانہ کہ پختہ قبروں پر بھی فخر کیا جاتا ہے۔ اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿أَلْہَاکُمُ التَّکَاثُرُ،حَتَّی زُرْتُمُ الْمَقَابِر﴾کہ اے لوگو، تمھیں اس گھمنڈ نے غافل کردیا ہے، یہاں تک کہ تم قبروں میں پہنچ گئے۔ یعنی اور اس تفاخر کو دیکھنے قبروں میں پہنچ گئے۔

دورِ جاہلیت میں عرب کی عجیب حالت تھی۔ بعض دفعہ جب دو قبیلے ایک دوسرے سے فخر کرتے تو ایک کہتا کہ ہماری قوم زیادہ ہے، دوسرا کہتا کہ ہمارا گروہ زیادہ ہے۔ اس کے بعد مردم شماری کی جاتی اور ان میں سے کوئی قبیلہ گنتی میں کم ہوتا تو وہ کہتا کہ ہمارے آدمی لڑائی میں زیادہ مارے گئے ہیں، اس لیے ہم کم ہوگئے ہیں، ورنہ ہماری تعداد تم سے زیادہ تھی۔ دوسرا کہتا کہ یہ بھی غلط ہے، تمھارے مردے ہمارے مردوں سے زیادہ نہیں ہیں۔ پھر اس فیصلے کے لیے قبروں کی گنتی ہوتی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

یہ تو کفار کی حالت تھی، مگر افسوس اس وقت مسلمانوں کی یہ حالت ہوگئی ہے اور وہ اگرچہ قبروں کی گنتی تو نہیں کرتے ،مگر قبروں کی پختگی اور خوب صورتی پر گھمنڈ ضرور کرتے ہیں۔ اسی تفاخر کی وجہ سے قبروں پر یہ تمام تکلفات پیدا ہوگئے ہیں کہ کہیں روشنی کا زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے تو کہیں جھاڑ فانوس اور قندیل لٹکائے جاتے ہیں۔

مسلمانو، ان تکلفات کو چھوڑو اور اپنے سلف، اپنے بزرگوں کی طرح سادگی اختیار کرو۔ ہمارے سلف کی زندگی اتنی سادہ تھی کہ جبب حضرت عمر  بیت المقدس تشریف لے گئے تو پہلی سادگی تو یہ کہ کوئی لاؤ لشکر ساتھ نہ تھا۔ صرف ایک اونٹنی تھی اور ایک غلام۔ سواری کا طریقہ یہ تھاکہ کچھ دور تک آپ رضی اللہ عنہ اس اونٹنی پر سوار ہوتے اور غلام اونٹنی کی مہار پکڑ کر پیدل چلتا۔ پھر کچھ دور تک غلام سوار ہوتا اور خلیفہ اپنے ہاتھ سے مہار پکڑ کر پیدل چلتے تھے۔ کیا اس مساوات اور سادگی کی کوئی مثال کوئی قوم دکھا سکتی ہے؟

دوسری سادگی یہ تھی کہ جب آپ بیت المقدس کے قریب اس شان سے پہنچے تو حضرات صحابہ اور امرا آپ کے استقبال کے لیے حاضر ہوئے۔ سب نے مشورہ دیا کہ آپ غیر قوموں کے سامنے آنے والے ہیں، اس لیے مناسب ہوگا کہ سفر کا لباس اتار کر کوئی عمدہ لباس پہن لیا جائے، کیوں کہ جو لباس سفر میں پہنا تھا، اس میں جا بہ جا پیوند لگے ہوئے تھے۔ یہ بھی عرض کیا گیا کہ اس اونٹنی کے بجائے گھوڑے پر سوار ہونا مناسب ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اول ایسا کرنے سے انکار کیا اور فرمایا، نحن قوم اعزنا اللہ بالاسلام کہ ہم و ہ لوگ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسلام کے ذریعے عزت دی۔ ہماری عزت لباس یا سواری سے نہیں ہے۔

ہمیں اپنے خیالات کی اصلاح کرنی چاہیے کہ ہم نے عزت وشوکت کی حقیقت نہیں سمجھی۔ ہم لباس کے عمدہ ہونے اور سواری کے قیمتی ہونے کو عزت و شوکت سمجھتے ہیں، یہ بالکل غلط خیال ہے۔ اصل عزت کمال سے ہوتی ہے۔ یہ کیا ہے جو تھوڑی دیر میں اترجائے کہ جتنی دیر کپڑے بدن پر رہیں تو معزز ہیں اور جہاں کپڑے اتار دیے، ذلیل ہوگئے۔

عزت وہ ہے جو ہر دم انسان کے ساتھ رہے اور وہ کمال سے ہوتی ہے۔ اور مسلمان کا سب سے بڑا کمال ”اسلام“ ہے۔ آپ کامل اسلام (مکمل اسلام) اختیار کیجیے، اِن شاء اللہ تعالیٰ کسی سامان کے بغیر آپ معزز ہوجائیں گے۔

Flag Counter