Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1436ھ

ہ رسالہ

5 - 16
”مشکاة شریف“ کے شارح اول علامہ طیبیؒ

مفتی عبدالغنی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف، جامعہ فاروقیہ کراچی

”شرح طیبی “کے مصادر
علامہ طیبی نے اس شرح کی ترتیب و تالیف میں جن کتابوں اور مصادر سے استفادہ کیا ہے ان کی فہرست شرح کے مقدمہ میں دے دی ہے اور جیسا کہ ابھی گذرا، ہر ایک کتاب کے لیے ایک مخصوص اشارہ مقرر کر دیا ہے۔ چناں چہ شرح کے اندر جہاں کہیں بھی ان میں سے کسی کتاب سے استفادہ کیا گیا اور اس کی عبارت نقل کی گئی تو وہاں اس کے مقرر رمزکو ذکر کر دیا گیا ، جس سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ عبارت فلاں کتاب کی ہے۔چناں چہ وہ فرماتے ہیں:

”معلماً لکل مصنف بعلامة مختصة بہ: فعلامة معالم السنن وأعلامہا: ”خط“، وشرح السنة: ”حس“، وشرح صحیح مسلم: ”مح“، والفائق للزمخشري: ”فا“، ومفردات الراغب: ”غب“، ونہایة الجزري: ”نہ“، والشیخ التورابشتي: ”تو“، والقاضي ناصر الدین: ”قض“، والمظہر: ”مظ“، والأشرف: ”شف“․“ (شرح الطیبي،مقدمة الموٴلف: 1/35)

یعنی ” میں نے ہر کتاب کی طرف اس کی مخصوص علامت سے اشارہ کر دیا ہے ، علامہ خطابی کی” معالم السنن و أعلامہا “ کی علامت : ”خط “ ، علامہ بغوی کی ”شرح السنہ “ کا اشارہ ” حس “ ، علامہ نووی  کی ”شرح مسلم“ کا رمز : ”مح “ ، علامہ زمخشری کی” الفائق فی غریب الحدیث “کی علامت : ”فا “ ، علامہ راغب اصفہانی کی ”مفردات القرآن “کا اشارہ : ”غب “ ، علامہ ابن الاثیر جزری  کی ”النہایہ فی غریب الحدیث و الاثر “ کا رمز ”نہ “ ، علامہ توراپشتی  کی ” کتاب المیسر فی شرح مصابیح السنہ “ کا اشارہ ” تو “ ، قاضی ناصر الدین بیضاوی  کی کتاب ” تحفة الابرار فی شرح مصابیح السنہ “ کی علامت ”قض “ علامہ مُظہرالدین زیدانی  کی شرح ” المفاتیح فی شرح المصابیح “ کا اشارہ ” مظ “ اور علامہ اشرف  کا رمز ” شف “ ہے ۔ “

مصادر کا مختصر تعارف
”شرح طیبی “کے مذکورہ مآخذ و مصادربہت ہی اہم و مقبول ہیں اور اہل علم کے ہاں معتبر و مستند شمار کیے جاتے ہیں۔ان کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر یہاں ان کامختصر تعارف ذکر کر دیا جاتا ہے۔

معالم السنن و اعلامہا
یہ سنن ابو داود کی شرح ہے، جو علامہ ابو سلیمان حمد بن محمد خطابی بستی  کی تالیف ہے۔ علامہ خطابی  کی تاریخ پیدائش 319 ہجری اور تاریخ وفات 388 ہجری ہے۔ یہ شرح علامہ خطابی  کی تقریباً سب سے پہلی تالیف ہے ،جو علما کے ہاں سب سے زیادہ معروف ہے اور جب بھی علامہ خطابی کا کوئی قول کسی کتاب کی طرف منسوب کیے بغیر ذکر کیا جائے توقاری اور سامع کا ذہن ” معالم السنن “ ہی کی طرف جاتا ہے ۔ اس شرح کا تذکرہ علامہ خطابی نے اپنی بخاری کی شرح ”أعلام الحدیث “ کے مقدمے میں بھی کیا ہے ۔( دیکھیے، اعلام الحدیث:1/28، جامعہ ام القری)، یہ کتاب المطبعة العلمیہ حلب اور مطبعہ انصار الامہ قاہرہ سے شیخ احمد محمد شاکر اورمحمد حامد الفقي کی تحقیق کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔

شرح السنہ للبغوی
یہ علامہ ابو محمد حسین بن مسعود بغوی  کی مایہ ناز تصنیف ہے ، جن کی پیدائش 433اور وفات 516 ہجری میں ہوئی ہے ۔ ”مشکاة شریف “کا اصل اور متن ”مصابیح السنہ “ بھی ان کی تالیف ہے ۔ ان کا لقب محیی السنہ ہے اور اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ علامہ بغوی  جب” شرح السنہ “کی تصنیف سے فارغ ہوئے تو ایک دن ان کو خواب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت نصیب ہوئی اور آپ نے ان کو مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ ”أحیاک اللہ کما أحییت سنتي ․“ ّٰیعنی ” اللہ تعالی تمہیں اسی طرح زندہ رکھے جیسا کہ تم نے میری سنت کو ( اپنی تصنیف کے ذریعے ) زندہ کیا ۔ “( اشعة اللمعات: 1/26، 27، معجم البلدان: 1/468)، اس کتاب میں ایمانیات ، عبادات و معاملات ،زہد و رقاق ، اخلاق و آداب اور فضائل و مناقب وغیرہ موضوعات، جن کی ایک مسلمان کو دین کے سلسلے میں ضرورت پڑ سکتی ہے ، سے متعلق آثار و سنن کو جمع کر کے حدیث و فقہ کی روشنی میں ان کی شرح کی گئی ہے۔یہ کتاب چار مکتبوں سے طبع ہوئی ہے ۔1۔ مجمع البحوث الاسلامیہ سے شیخ احمد صقر اور دکتور سید احمدی ابو النور کی تحقیق کے ساتھ ،2۔ مکتب الاسلامی سے شعیب ارنوٴوط اور زہیر شاویش کی تحقیق کے ساتھ ،3۔ دا رالفکر بیروت سے سعید محمد اللحام کی تحقیق کے ساتھ،4۔ جب کہ دار الکتب العلمیہ بیروت سے شیخ علی معوض اور شیخ عادل احمد عبدالموجود کی تحقیق کے ساتھ شائع ہوئی ہے ۔

شرح صحیح مسلم
صحیح مسلم کی اس شرح کا نام ” المنہاج شرح مسلم بن حجاج “ ہے اوریہ علامہ محیی الدین ابو زکریا یحییٰ بن شرف نووی شافعی  کی تالیف ہے ، جن کی تاریخ پیدائش محرم 631 ہجری اور تاریخ وفات 676 ہجری ہے ۔ یہ صحیح مسلم کی بہت مبارک ، سب سے عمدہ اور مقبول ترین شرح ہے اور وقت تالیف ہی سے علما و محدثین کا مرجع رہی ہے اور شارحین حدیث اس سے استفادہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ (تفصیلی تعارف کے لیے دیکھیے، شرح النووی، مقدمة المحقق: 1/99،111، دارالمعرفہ بیروت)

الفائق في غریب الحدیث
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ یہ کتاب احادیث کے مشکل اور نا مانوس ا لفاظ کے معانی کے سلسلے میں مرتب کی گئی ہے ۔ اس کے موٴلف نحو ، لغت اور بلاغت کے امام علامہ جاراللہ ابو القاسم محمود بن عمر زمخشری خوارزمی  ہیں۔ علامہ زمخشری اعتقاداً اگرچہ معتزلی تھے اور اپنے اس عقیدے کا برملا اظہار بھی کیا کرتے تھے، لیکن نحو ، لغت ، بلاغت اور مختلف علوم و فنون میں ان کی حیثیت مسلم اور ان کی بات سندکا درجہ رکھتی ہے۔ انہوں نے تفسیر ، حدیث ، نحو ، لغت اور ادب وبلاغت کے موضوع پرشاندار کتابیں تالیف کی ہیں اوراہل علم ان کی کتابوں سے استفادہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ علامہ زمخشری خوارزم کی ایک غیر معروف بستی ” زمخشر “ میں 467 ہجری میں پیدا ہوئے ،جو ان کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے مشہور ہو گئی اور583 ہجری” جرجانیہ خوارزم “میں انہوں نے وفات پائی۔ حجاز میں اقامت اختیارکرنے اور بیت اللہ کے پڑوس میں رہنے کی وجہ سے اپنا لقب ”جاراللہ“ رکھا اور اسی لقب سے مشہور ہوئے۔ (تعارف کے لیے دیکھئے، الفائق فی غریب الحدیث، مقدمة المحقق: 1/5۔10، دار المعرفہ، بیروت)

مفردات الفاظ القرآن
اس کتاب میں قرآنی الفاظ کے معانی بیان کیے گئے ہیں ۔ یہ امام راغب اصفہانی  کی تالیف ہے ، جن کا نام راجح قول کے مطابق حسین بن محمد بن مفضل ہے۔ یہ لغت و ادب کے امام اور بلند مقام ومرتبہ کے مالک تھے۔ان کی وفات 465 ہجری کی حدود میں ہوئی ہے ۔” الراغب “ان کا لقب ہے اور اسی لقب سے زیادہ مشہور ہوئے۔(تفصیلی تعارف کے لیے دیکھیے، مفردات الفاظ القرآن، ص:7۔30، دارالقلم، دمشق، الدار الشامیة، بیروت)

النہایہ فی غریب الحدیث و الأثر
یہ کتاب بھی ا حادیث و آثار کے مشکل و نامانوس الفاظ کے معانی ومطالب کے بیان کرنے کے سلسلے میں لکھی گئی ہے ۔ اس کے مصنف امام مجدالدین ابو السعادات مبارک بن محمد شیبانی جزری شافعی ہیں ، ابن الاثیر جزری کے نام سے معروف ہیں ۔ کئی مایہ ناز کتابوں کے موٴلف ہیں اور ” جا مع الاصول فی احادیث الرسول“ بھی ان کی تالیف ہے ۔ جزیرہ ابن عمر میں 544ہجری میں پیدا ہوئے اور بروز جمعرات آخر ذو الحجہ 606 ہجری میں وفات پائی اور اپنی قائم کردہ خانقاہ میں مدفون ہوئے۔(دیکھیے، النہایة فی غریب الحدیث والاثر، مقدمة التحقیق:1/3۔16، دار احیاء التراث العربی)

کتاب المیسر فی شرح مصابیح السنہ
یہ علامہ بغوی  کی معروف کتاب اور مشکاة المصابیح کے متن ”مصابیح السنہ “ کی شرح ہے ،جو امام شہاب الدین ابو عبداللہ فضل اللہ بن حسن بن حسین تُورِبِشتی  کی تالیف ہے ۔” تُورِپِشت “ ( ”تاء“ کے ضمہ،” راء“ اور ”باء“ کے کسرہ کے ساتھ) ایران کے شہر شیراز کے مضافات میں واقع ایک بستی کا نام ہے اور اسی کی طرف ان کی نسبت کی جاتی ہے ۔علامہ تاج الدین سبکی نے ان کا تذکرہ ”طبقات شافعیہ “ (5/146) میں کیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شافعی المذہب تھے ، لیکن حاجی خلیفہ نے ”کشف الظنون“ ، اسماعیل باشا بغدادی نے ”ہدیة العارفین“ اور علامہ زرکلی نے ”الاعلام“ میں لکھا ہے کہ وہ حنفی المذہب تھے ۔ یہی راجح ہے اور حافظ ابن حجر اور علامہ انور شاہ کشمیری نے ”طبقات الشافعیہ“ میں ان کے ذکر کو علامہ سبکی کا وہم قرار دیا ہے۔ (الاسئلة الفائقة لابن حجر، ص:61، فیض الباری للکشمیری:2/3، 161)، عام کتب تراجم کے مطابق علامہ توربشتی  کی وفات 13 رمضان المبارک، بروز ہفتہ، 661 ہجری میں ہوئی اور یہی صحیح ہے۔علا مہ توربشتی کی یہ شرح مکتبہ نزار مصطفی الباز مکة المکرمہ سے دکتور عبدالحمید ھنداوی کی تحقیق کے ساتھ شائع ہوچکی ہے ۔

قاضی ناصرالدین بیضاوی 
ان کی کنیت ابو الخیر ، لقب ناصرالدین اور ایران کے شہر شیراز کی عملداری میں واقع ” بیضاء “ نامی بستی کی طرف نسبت ہے ، جب کہ شیراز کے عہدہ قضاء پر فائزہونے کی وجہ سے ان کو قاضی کہا جاتا ہے۔ان کا پورا نام قاضی ابو الخیر ناصرالدین عبد اللہ بن عمر بن محمد بن علی بیضاوی شیرازی ہے ۔ متعدد مایہ ناز تصانیف کے علاوہ علامہ بغوی  کی ”مصابیح السنہ “ پر ” تحفة الابرار فی شرح مصابیح السنہ “ کے نام سے ان کی شرح ہے ۔ علامہ طیبی  نے ا پنی شرح میں اسی سے استفادہ کیا ہے اور” شرح طیبی“ میں ” قض “کے رمز سے اس کا حوالہ دیا گیا ہے ۔ درس نظامی کے نصاب میں شامل مشہور و معروف تفسیر ” تفسیر بیضاوی “ بھی ان کی تالیف ہے ۔ ان کا انتقال 685 اورعلامہ سبکی  کے قول کے مطابق 691ہجری میں ہوا ہے ، جب کہ تفسیر بیضاوی کے شارح علامہ شہاب الدین خفاجی نے کہا ہے کہ یہی مشہور قول ہے، لیکن فارسی تاریخوں میں جس قول پر موٴرخین نے ا عتماد کیا ہے اور اس کو صحیح قرار دیا ہے وہ یہ ہے کہ ان کا انتقال 719 ہجری میں ہوا ہے اور یہی معتمد قو ل ہے ۔ ( دیکھیے ، حاشیة الشہاب علی تفسیر البیضاوی : 1/5 ، دار الکتب العلمیہ بیروت )

علامہ بیضاوی کی یہ شرح ادارة الثقافة الاسلامیہ سے نور الدین طالب کے اشراف و نگرانی میں محققین کی ایک ”لجنہ “کی تحقیق کے ساتھ تین جلدوں میں شائع ہوئی ہے۔

مظہرالدین زیدانی 
یہ علامہ حسین بن محمود بن حسن زیدانی ہیں۔” مظہرالدین“ ان کا لقب ہے اور ”زیدانی“ کوفہ میں واقع صحراء ” زیدان “ کی طرف نسبت ہے ۔ یہ محدث تھے اور متعدد تصانیف کے موٴلف ہیں ۔ ” مصابیح السنہ “ پر ” المفاتیح فی شرح المصابیح “ یا ”فی حل المصابیح “ کے نام سے ان کی شرح ہے ، یہ شرح انہوں نے دو جلدوں میں720 ہجری میں مکمل کی ہے اور 727 ہجری میں ان کا انتقال ہوا ہے ۔ (دیکھیے ، کشف الظنون : 1698/2،ہدیة العارفین : 314/1 ، الأعلام للزرکلی :259/2)

”مصابیح“ کی یہ شرح1433ھ بمطابق 2012ء نورالدین طالب کے اشراف میں محققین کی ایک ”لجنہ “کی تحقیق کے ساتھ ادارة الثقافة الاسلامیہ سے شائع ہو چکی ہے۔

جمال الدین الاشرف 
علامہ طیبی  نے ان کے نام کا رمز ” شف“ مقرر کیا ہے ، ان کا پورا نام ابو عبداللہ جمال الدین اسماعیل بن محمد بن اسماعیل بن عبدالملک بن عمر حموی حنفی ہے اوران کا لقب ”الاشرف الفُقاعی“ ہے۔ تاریخ وفات 715ھ ہے۔ یہ مصابیح کے شارح ہیں اور ” شرح المصابیح“ کے نام سے ان کی شرح ہے۔( دیکھیے، کشف الظنون: 2/1701، تاریخ الادب العربی: 6/236)، ہماری معلومات کی حد تک” مصابیح السُّنہ“ یہ شرح اب تک طبع نہیں ہوئی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

زیادہ استفادہ علامہ نووی کی ” شرح مسلم “سے کیا گیا ہے
علامہ طیبی  نے مذکورہ مصادر سے نقل کرنے میں اختصار سے کام لیا ہے اور ان میں سب سے زیادہ استفادہ علامہ نووی  کی” شرح مسلم“ سے کیا ہے۔شرح میں جہاں کہیں رمز اور اشارہ لکھا ہوا نہ ہو تو وہ علامہ طیبی  کا اپنا کلام ہوتا ہے ۔ چناں چہ علامہ طیبی ” شرح “ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:”سلکت في النقل منہا طریق الاختصار، وکان جلّ اعتمادي، وغایة اہتمامي، بشرح مسلم للإ مام المتقن محي الدین النواوي؛ لأنہ کان أجمعہا فوائد، وأکثرہا عوائد، وأضبطہا للشوارد والأوابد․ وما تری علیہ علامة، فأکثرہا من نتائج ساغ خاطري العلیل الکلیل، فإن تری فیہ خللاً فسدَّہ، جزاک اللّٰہ خیراً․“ (شرح الطیبي: 1/35، إدارة القرآن)

یعنی” میں نے ان کتابوں سے نقل کرنے میں اختصار سے کام لیا ہے اور میرا زیادہ تراعتماد اور زیادہ اہتمام ماہر و حاذق امام محي الدین نووی کی شرح کے ساتھ رہاہے ، جو فوائد کے اعتبار سے سب سے زیادہ جامع ،سب سے زیادہ منافع والی اورمنتشر و متفرق امور کو زیادہ جمع کرنے والی ہے ۔اور جس عبارت پر آپ کوئی علامت نہ دیکھیں تو وہ میری کمزور و علیل فکر کے نتائج ہیں، لہذا اگر آپ اس میں کوئی خرابی دیکھیں تو اس کو درست کر لیں۔اللہ تعالی آپ کو بہترین جزا عطا فرمائے۔“

اہل علم کے ہاں ”شرح طیبی “کی اہمیت وافادیت
جیسا کہ ابتدا میں گزرا کہ علامہ طیبی  صاحب مشکاة علامہ تبریزی  کے استاد ہیں اور ان کے مشورے سے ہی انہوں نے ”مشکاة شریف“ مرتب کی ہے ۔ پھر استاد نے اپنے شاگرد کی مرتب کردہ کتاب کی شرح لکھی ،جو استاد کے اخلاص و للہیت کی روشن دلیل ہے اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے” شرح طیبی“ کو جو قبولیت عطا فرمائی ہے وہ حدیث کی بہت کم شروحات کو نصیب ہوئی ہے اور شارحین حدیث نے اس سے خوب استفادہ کیا ہے ۔ چناں چہ” فتح الباری“، ” عمدة القاری“ ،” فتح الإلہ فی شرح المشکاة“ از ابن حجر الہیتمی ،” عقود الزبرجدفی شرح مسند الاما م احمد“ از علامہ سیوطی  ،” مرقاة المفاتیح“ ،” اشعة اللمعات “،”بذل المجہود“، ” فتح الملہم“،”اوجزالمسالک “،” تحفة الاحوذی“ ،” التعلیق الصبیح“، ”معارف السنن“ اوران کے علاوہ صحاح ستہ ،” مشکاة المصابیح“ بلکہ بعد میں آنے والے تقریبا ً تمام شارحین حدیث نے اس سے استفادہ کیا ہے ۔ مولانا ادریس کاندھلوی  نے مشکاة شریف کی شرح کے مقدمے میں لکھا ہے کہ انہوں نے زیادہ استفادہ علامہ توربشتی  اور علامہ طیبی  کی شرح سے کیا ہے ۔ شرح طیبی کے متعلق وہ لکھتے ہیں : ”وجلّ اعتمادي … علی شرح المشکوة المسمی ”الکاشف عن حقائق السنن المحمدیة“ علی صاحبہا ألف ألف صلاة وألف ألف تحیة، للمحدث الجلیل، أفضل العلماء في زمانہ، وأکمل الفضلاء في أوانہ، مفسر الکتاب، وشارح السنة، مبین الأحکام، وقامع البدعة، شرف الملة والدین، الحسین بن عبداللّٰہ بن محمد الطیبي الشافعي، طیب اللّٰہ ثراہ، وجعل الجنة مثواہ، ولعمري ما تری کتاباً أجمع تحقیقاً منہ في بیان حقائق السنة، ودقائقہا ، وإبراز لطائفہا ومعارفہا ، وکشف أسرارہا وغوامضہا ، فیا لہ من شرح عزیز المثال ، لم ینسج فیما أظن علی ہذا المنوال ․“(التعلیق الصبیح:1/5)

یعنی”میرا زیادہ تر اعتماد ( علامہ تورا بشتی  کی کتاب المیسر کے علاوہ) مشکاة شریف کی شرح بنام ” الکاشف عن حقائق السنن المحمدیہ “پر ہے ، جن کے صاحب پر کروڑوں صلاة و سلام ہوں، جو محدث جلیل اپنے دور کے علماء میں زیادہ فضیلت والے اور اپنے وقت کے فضلاء میں زیادہ کامل، کتاب اللہ کے مفسر اور سنت کے شارح ، احکام کو بیان کرنے والے اور بدعت کو مٹانے والے شرف الملة و الدین حسین بن عبداللہ بن محمد طیبی شافعی ( اللہ تعالی ان کی قبر کو پاکیزہ اور جنت کوان کا ٹھکانہ بنائے) کی ہے ۔بخدا ! آپ سنت کے حقائق و دقائق کو بیان کرنے، اس کے لطائف و معارف کو ظاہر کرنے اور اس کے اسرار و رموز کو کھولنے میں تحقیق کے اعتبار سے اس سے زیادہ جامع کتاب نہیں پائیں گے ۔ کیا ہی خوب شرح ہے جس کا مثل نہیں اور میرے خیال میں اس طرز پر شرح نہیں لکھی گئی ۔ “

حضرت مولانا محمد یوسف بنوری  نے بھی امام طیبی اور” شرح طیبی“ کی علامہ انور شاہ کشمیری کے حوالے سے تعریف بیان کی ہے اور بلاغت میں اسے حافظ ابن حجر  سے فائق قرار دیا ہے ۔ چناں چہ ترمذی کی شرح میں وہ فرماتے ہیں:

”الکتاب مخطوط بعد، وسماہ ”الکاشف عن حقائق السنن“، وصار کتابہ ہذا أصلاً ومداراً في مزایا البلاغة في الحدیث، وہو لیس بحافظ الحدیث غیر أنہ فاق الحافظ ابن حجر في بیان نکات البلاغة بکثیر، والحافظ مستفید من کتابہ، کذا أفادہ شیخنا إمام العصر․“ (معارف السنن:1/241)

یعنی ”علامہ طیبی کی شرح مشکاة اب تک مخطوط ہے(حضرت بنوری کے زمانے میں یہ کتاب طبع نہیں ہوئی تھی) اور اس کا نام انہوں ” الکاشف عن حقائق السنن“ رکھا ہے ، ان کی یہ کتاب حدیث کی بلاغی خصوصیات بیان کرنے میں اصل اور مدار بن گئی ہے ، اگرچہ وہ حافظ الحدیث نہیں ہیں،لیکن بلاغت کے نکات بیا ن کرنے میں حافظ ابن حجر سے بہت زیادہ فائق ہیں اور حافظ صاحب ان کی کتاب سے استفادہ کرتے ہیں، اسی طرح ہمارے شیخ امام العصر نے ہمیں بتایا ہے۔“

خود علامہ طیبی  نے اپنی شرح سے استفادہ کرنے والے قاری کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ”فإن نظرت بعین الإنصاف لم تر مصنفاً أجمع، ولا أوجز منہ، ولا أشد تحقیقاً في بیان حقائقہا، وسمیتہ ب”الکاشف عن حقائق السنن․“ یعنی ”اگر آپ بنظر انصاف دیکھیں گے تو اس سے زیادہ جامع، زیادہ مختصر اور سنت کے حقائق کو بیان کرنے میں زیادہ تحقیقی تصنیف نہیں پائیں گے اور میں نے اس کا نام ”الکاشف عن حقائق السنن “رکھا ہے۔ “(شرح الطیبی، مقدمة الموٴلف: 1/35،36) (جاری)

Flag Counter