Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1436ھ

ہ رسالہ

15 - 16
نیک بنو اور نیکی پھلاؤ

محمد عادل بن علی خان طالب علم جامعہ فاروقیہ کراچی
	
الله تعالیٰ کا بہت بڑا احسان وفضل ہے کہ اس نے ہمیں مسلمان پیدا کیا اور آپ علیہ السلام کاا مّتی بنایا۔ لہٰذا ہمیں فخر کرنا چاہیے کہ ہم مسلمان ہیں اورایک خدا پر ایمان رکھتے ہیں ۔ جب ہم اہل ایمان ہیں تو ہمیں ایمان کے تقاضوں کو سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہونا پڑے گا او رایک مومن کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ خود اس دین اسلام پر خلوص کے ساتھ عمل کرے، اس کے تقاضوں کو پورا کرے اور جب وہ مسلمان بنا ہے تو مخلص اور کامل مسلمان بن کر خدا کی بندگی کا حق ادا کر تا رہے۔

دوسری ذمہ داری اس پر یہ عائد ہوتی ہے کہ وہ خدا کے دوسرے بندوں تک اسلام کی دعوت پہنچائے اور اسلام کا نمائندہ بن کر اس طرح زندگی گزارے کہ اس کے قول وعمل سے لوگ سمجھیں اور سیکھیں، تحریر وتقریر، گفت گو سے بھی وہ اسلام کی نمائندگی کرے اور اپنی خانگی، سماجی ، شہری زندگی اور اعمال واخلاق سے بھی وہ اسلام کی نمائندگی کا حق ادا کرے۔

اصل میں اسلام مسلمانوں سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ان میں ایک ایسی جماعت رہنی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے، اچھے کاموں پر لگائے اور انہیں برائی سے روکے اور ظاہر ہے جماعت تو افراد سے ہی تشکیل پاتی ہے، اس لیے بنیادی طور پر امر بالمعروف او رنہی عن المنکر کا فریضہ فرد پر ہی عائد ہوتا ہے، چوں کہ تخلیق کائنات کے بعد ابتدائے آفرینش سے اس دنیا میں مختلف قوموں کو بھیجا گیا او ران کی راہ بری وراہ نمائی کے لیے حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کا انتخاب وقتاً فوقتاً ہوتا رہا اور ان تمام انبیائے کرام کا وظیفہ دعوت توحید اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر تھا ،پھر یہ سلسلہ جناب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی بعثت کے بعد ختم کر دیا گیا، کیوں کہ آپ علیہ السلام خاتم الانبیاء ہیں، آپ کے بعد کسی نبی نے آنا نہیں۔ لہٰذا اس انبیائے کرام کے مبارک وظیفہ کو امّت محمدیہ کا وظیفہ قرار دے کر انہیں خیر الامم قرار دے دیا گیا چناں چہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿کُنتُمْ خَیْْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّہ﴾․ (سورہ آل عمران، آیت:110)
ترجمہ:” تم ایسی بہترین امت ہوجسے لوگوں کی ( ہدایت) کے لیے پیدا کیا گیا ہے کہ تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور الله پر ایمان رکھتے ہو ۔“

اس آیت مبارک میں امت محمدیہ کی فضیلت کو بیان کیا گیا ہے اوراس فضیلت کا مدار امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب تک یہ امت امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرتی رہے گی اس وقت تک یہ امت بہترین امت کہلائے گی او رجب اس امت نے اپنا یہ وظیفہ بھلا دیا تو مختلف فتنوں، آفتوں سے دو چار ہونے کے لیے تیار رہے ۔ آج ہمارے معاشرے، سوسائٹی میں طرح طرح کی گم راہیوں وضلالتوں نے جنم لے لیا ہے، جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے عام مسلمانوں کو علم کی روشنیوں میں لانا آخر ہماری ہی تو ذمہ داری ہے۔ یقینا اسلام کی اشاعت وتبلیغ کا کام ہم نے مسلمانوں میں بھی کرنا ہے ان کے عقائد واعمال کی اصلاح ان کی خانگی اور معاشرتی زندگی کی اصلاح، ان کی نجی وسماجی زندگیوں سے برائیوں کو دور کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ ہمارا اصل کام یہ ہے کہ ہم ان لوگوں تک قول وعمل سے اسلام کی دعوت پہنچائیں جو اس سے ناواقف ہیں، جو اس کو اپنا دین نہیں مانتے او رانہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ الله تعالیٰ نے ان کو بھی اسی دین پر ایمان لانے او راس کے مطابق زندگی گزارنے کا حکم دیا ہے۔

یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اس تربیت واصلاح کا نقطہٴ آغاز فرد کی اپنی ذات ہے، وہ اصلاح وتربیت کی تمام کوششوں وکاوشوں کااوّلین نشانہ اپنی ذات کو بنائے اور فلاح آخرت کو اپنا قطعی ذاتی مسئلہ سمجھ کر سنجیدگی اور اخلاص کے ساتھ اس کے لیے کوشاں رہے ۔ کیوں کہ قرآن وسنت مبارکہ کا خطاب اصلاً فرد سے ہے اور فرد کی صلاح وفلاح اور اس کی نجات ہی اصل موضوع ہے، ایک صالح اجتماعیت اور ہمہ گیر اسلامی انقلاب کا مقصود بھی یہی ہے کہ فرد کا صحیح ارتقا ہو سکے اور ساز گار فضا میں کسی روک ٹوک کے بغیر وہ خود کو آخرت کی فلاح ونجات کے لائق بنا سکے۔

دوسری بات یہ ہے کہ فرد او رجماعت کی تمام کوششوں کا محور ومرکز اور منتہائے مقصود صرف خدا کی رضا اور آخرت کی فلاح ہو۔ اس کے سوا کوئی اور مقصود ذہن وقلب کے کسی گوشے میں ہر گز نہ ہو۔ خدا کی رضا اور آخرت کی فلاح کو یکسوئی، اخلاص اور صحیح فہم کے ساتھ مقصود بنا کر جو زندگی گزاری جاتی وہی کام یابی او رمطلوب زندگی ہے خواہ وہ آرام وآسائش اور خوش حالی میں گزرے یا مصائب وآلام اور غربت وافلاس میں محکومی اور مظلومی میں گزرے یا اقتدار وآزادی میں ، آزمائش وتعذیب میں گزرے یا دنیا کے وسائل وذرائع پر قابض ومنصرف ہو کر، دیکھنا یہ نہیں کہ زندگی کس طرح گزری؟ دیکھنا یہ ہے کہ کس چیز کو مقصود بنا کر گزری اور یہ بات بھی ذہن میں مستحضر رہنی چاہیے کہ آخرت کی زندگی کو تاب ناک وکام یاب بنانے کے لیے ہمارے پاس صرف ایک ہی موقع او رایک ہی پونجی ہے اور وہ یہی دنیا کی حیات مستعار ہے ، جو صرف ایک ہی بار ملتی ہے جو اگر ضائع ہو گئی تو پھر کبھی دوبارہ نہ ملے گی ۔ لہٰذا عقل مندی کا تقاضا یہ ہے، کہ ہم پہلے خود شرائع اسلام کے جملہ احکام اپنے آپ پر لا گو کریں اور اس پر عمل پیرا ہوں، اس کے بعد اپنے گھرانے میں اور گھر کے تمام افراد کو دین کی طرف راغب کریں، پھر اپنے رفقا واقربا ومحلہ کے تمام لوگوں میں علوم ومعرفت کے چراغ روشن کریں، انہیں نماز سکھائیں اور انہیں مسجد کی راہ دکھائیں اور آخرت کی تیاری کے لیے ہم انہیں فکر مند کردیں۔ پھر تدریجاً اپنی ”امر بالمعروف ونہی عن المنکر“ کی اہم ذمہ داری کا دائرہ وسیع کرتے جائیں اور دنیا بھر کے لیے ”داعی الی الله“ بن جائیں اور یہی کامل مؤمن کی پہچان ہے۔

اسلام حقیقت میں ” نیک بنو اور نیکی پھیلاؤ“ کا علم بردار ہے۔ اس لیے کوئی شخص اس وقت تک سچا مؤمن نہیں کہلا یا جاسکتا جب تک وہ اُن چار صفات کاحامل نہ ہو جو الله تعالیٰ نے دنیا وآخرت میں انسان کی کام یابی کے لیے ضروری قرار دی ہیں اور وہ چار صفات یہ ہیں ایمان ، اعمال صالحہ، دوسروں کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرنا۔ قرآن کریم کی سورة العصر میں الله تعالیٰ نے زمانے کی قسم کھا کرفرمایاہے کہ ان صفات سے تہی دامن شخص ہمیشہ خسارے میں رہے گا۔ خسارہ فلاح کی ضد ہے۔ اس لیے فرمان الہٰی کا صاف مطلب یہ ہے کہ ایسا انسان جس میں مذکورہ چار اوصاف حمیدہ نہ پائی جائیں وہ دنیا اور آخرت میں ناکام ونامراد ہو گا۔ اگر ان صفات پر الگ الگ غور کریں تو معلوم ہو گا کہ یہ اسلامی معاشرے کے ہر فرد کے پہلو کے داخلی نگران اور خارجی معیار ہیں، خلوت ہو یا جلوت، گھر ہو یا میدان ، تجارت ہو یا سیاست، امن ہو یا جنگ، تنگ دستی ہو یا آسودہ حالی، سفر ہو یا قیام ،ہر حالت میں یہ صفات انسان کو راہِ راست پرکھیں گی اور حق بات کی نصیحت کرتے رہنے سے دعوت وارشاد کی ذمہ داری بھی ادا ہوتی جائے گی، سب سے پہلی صفت ایمان ذکر کی گئی ہے۔ ایمان لانے کا مطلب ہے الله وحدہ لاشریک لہ، اس کے پیغمبروں، ملائکہ، کتب الہیٰہ اور آخرت کا ماننا یہ ایمان ہی ہے جو اخلاق اور سیرت وکردار کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے، جس پرایک پاکیزہ زندگی کی عمارت قائم ہو سکتی ہے۔ ورنہ جہاں سرے سے ایمان ہی نہ ہو وہاں انسان کی زندگی بظاہر کتنی ہی حسین وخوش نما کیوں نہ ہو، اس کی حیثیت ایک ایسے جہاز کی ہے جس کا کوئی لنگر نہ ہو اور جو موجوں کے تھپیڑوں کے ساتھ بہتا چلا جائے۔ یوم آخرت پر عقیدہ دل میں الله کا خوف پیدا کرتا ہے، یہی ایمان کی روح ہے۔

دوسری صفت جو بیان کی گئی وہ اعمال صالحہ پر عمل پیرا ہونا ہے، نیک کاموں کی تعریف یہ ہے کہ الله اور رسول صلی الله علیہ وسلم نے جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا ہے وہ کیے جائیں او رجن کا موں سے منع کیا ہے ان سے باز رہا جائے۔ اعمال صالحہ ونیک کاموں میں مختلف کام ہیں، مثلاً سچ بولنا، عہد کو پورا کرنا، پڑوسیوں سے اچھا برتاؤ کرنا، نرمی سے بات کرنا، خندہ پیشانی سے ملنا، عفوو درگزر کرنا، الله کی راہ میں خرچ کرنا، والدین کی اطاعت اور ان کی خدمت کرنا، صلہ رحمی کرنا، مہمان نوازی، امانت داری، تواضع، انکساری، بڑوں کا ادب، چھوٹوں پر شفقت، سچی گواہی دینا، عدل کرنا، رحم وکرم کرنا، اخلاص کے ساتھ عبادت کرنا، مخلوقِ خدا کی بے غرض خدمت کرنا، امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرنا یہ سب اعمال صالحہ کی فہرست میں داخل ہیں او رایک داعی الی الله کے لیے ان اعمال سے مزین ہونا نہایت ضروری ہے۔

تیسری اور چوتھی صفتیں قرآن نے یہ بتائی ہیں کہ ایمان لانے اور نیک عمل کرنے والے لوگ ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کریں، اس کا مطلب یہ ہے کہ اول تو اہل ایمان او رنیک اعمال کرنے والوں کو فرد فرد بن کر نہیں رہنا چاہیے، بلکہ ان کے باہمی ربط وضبط سے ایک صالح معاشرہ وجود میں آنا چاہیے ،دوسرے یہ کہ اس معاشرے اور سوسائٹی کے ہر فرد پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اسے بگڑنے سے بچائے اور اس کے تمام افراد ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کریں، حق کی نصیحت کا مطلب یہ ہے کہ اگر کہیں حق کے خلاف کام کیے جارہے ہوں اور خلاف شرع ہوں تو خاموشی کے ساتھ اس کا تماشہ نہ دیکھیں، بلکہ حق کی قوت کے ساتھ غیرت ایمانی سے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کریں او رجہاں تک ممکن ہو سکے اس طرح کے باطل اعمال سے انہیں روکیں اور اس کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں، خواہ ہاتھ سے روکیں، ورنہ زبان سے منع کر دیں، بصورت دیگر دل میں تو منکرات کی قباحت رہنی چاہیے اور یہ عزم ہونا چاہیے کہ جب بھی موقع ملاہم ان منکرات سے ان کو روک لیں گے۔ اسی کا درس ہمیں جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس طرح دیا ہے۔ ”من راٰی منکم منکراً فلیغیرہ بیدہ، فإن لم یستطع فبلسانہ، فان لم یستطع فبقلبہ، وذالک أضعف الإیمان․“
ترجمہ:” تم میں سے اگر کوئی شخص برائی دیکھے تو اپنے ہاتھ سے وہ اسے (برائی کو) روکے، اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو اپنے دل میں اسے بُرا جانے اور یہ سب سے ضعیف ایمان ہے۔“ (رواہ الترمذی)

اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ برائی کو برائی تو کم از کم سمجھنا چاہیے اور اسے اضعف الایمان کہا گیا، لہٰذا اگر کوئی شخص برائی کو دل میں برائی ہی نہ سمجھے تو یہ اس کے ایمان کے لیے نہایت مہلک اور خطرناک بات ہے۔ اسی لیے اہل ایمان کا ہر ہر فرد نہ صرف یہ کہ خود حق کے تقاضے پورے کرے، بلکہ دوسروں کو بھی اس طرز عمل کی تلقین کرے، تاکہ بڑھتے ہوئے اخلاقی انحطاط سے بچاؤ ممکن ہوسکے اور معاشرے میں حق کی سربلندی اور نیکی کی ترویج ہو سکے او ربرائیوں اور فسادات وشر انگیزی کا خاتمہ وقلع قمع ہو جائے۔ پھر سے امن وامان کی صورت حال قائم ہو جائے۔ کیوں کہ انتشار وبدامنی کا بنیادی سبب حق بات کی عدم معرفت ہے ۔ جب لوگوں میں حق بات اور سچ بات کی تلقین کی جائے گی تو ان میں جہالت کا سدباب ہو گا اور وہ علم وعرفان کے سایہ تلے زندگی بسر کرنے لگیں گے اور آپس کے حقوق کی مکمل رعایت رکھتے ہوئے اخوّت وبھائی چارگی کی فضا قائم کریں گے۔

آج لوگ امن وسلامتی کا فارمولا پوری دنیا میں ڈھونڈتے پھر رہے ہیں او راس کے لیے مختلف حربے استعمال کر رہے ہیں او راس کے حصول کے لیے کافی توانائی صرف کی جارہی ہے، لیکن امن نام کی گم شدہ چیز ہاتھ لگنے کا نام نہیں لے رہی او رامن ہاتھ لگے بھی کیسے؟ ہم نے قرآن وسنت کے بتلائے ہوئے امن وسلامتی کے حصول کے طریقوں کو جو پس پشت ڈال رکھا ہے! حقیقی امن تو قرآن وسنت سے ہی ہمیں مل سکے گا، جسے حاصل کرنے کے لیے ہم تیار نہیں، جب کہ اس فتنہ وفساد کے دور میں ہمیں خصوصاً احیائے سنتِ نبی صلی الله علیہ وسلم کا فارمولہ سکھایا گیا ہے، جناب نبی صلی الله علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے۔”من تمسک بسنتي عند فساد أمتي فلہ أجر مائة شہید․“
ترجمہ: ”جس شخص نے میری امت کے فساد کے زمانے میں میری سنت کو لازم پکڑا (مضبوطی سے پکڑا) اس کے لیے سو شہیدوں کا اجر وثواب ہے۔“ (رواہ احمد)

آج ہمارے پاس کتاب الله اور سرور کونین صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ کا سبق ان کے اسوہٴ حسنہ کی شکل میں موجود ہے، جسے جب بھی جس نے اپنایا وہ عظمتوں کے آسمان کو چھونے لگا اور جنہوں نے اسے بھلایا وہ آج کی قوم کی طرح ظلمتوں میں ڈوبے جارہے ہیں۔ ان کے دل ودماغ پر غفلت او رمعصیت کے پردے چڑھتے جارہے ہیں جس کی وجہ سے انہیں کچھ نظر نہیں آرہا ہے، ا ن کی اکثریت اس حد کو بڑھ گئی ہے کہ مٹھی بھر نیک نام لوگ ہو کر رہ گئے ہیں۔

ویسے اگر سوچا جائے جہاں تک حضور صلی الله علیہ وسلم سے محبت کا تعلق ہے تو مسلمانوں سے بڑھ کر کس ملت وقوم نے اپنے نبی کو چاہا ہو گا؟ مگر افسوس یہ ہے کہ اب یہ محبت خالی ڈھانچہ بن کر رہ گئی ہے، جس میں روح وصداقت نام کو نہیں رہی، جو لوگ ان پڑھ ہونے کے باعث دین کا مطالعہ نہیں کرسکتے یا پھر حالات نے انہیں دینی تعلیمات سے اتنا دور رکھا ہوتا ہے کہ ان سے دین کی روح اور اصل مقصدیت کو سمجھنے کی توقع ہی نہیں کی جاسکتی۔ وہ تو رہے ایک طرف، لیکن وہ جو اچھے خاصے پڑھے لکھے اور بظاہر معتقد اور دین کو احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں وہ بھی اس حقیقت سے نا آشنا ہوتے ہیں کہ محبت کا پہلا تقاضا کیا ہے؟ وہ بھی اپنے عمل کے وقت اطاعت کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے تو گم راہیوں کے گہرے گڑھوں میں نہیں گریں گے تو اور کون سی منزلوں پر پہنچیں گے؟ لیکن اگر بندہ گنہگار چاہتا ہے کہ وہ گم راہی سے نجا ت پائے اور الله تعالیٰ اس سے محبت فرمائیں تو اس کو چاہیے کہ سنت رسول صلی الله علیہ وسلم کو اپنی فطرت ومحور بنا لے او رزندگی کے ہر ہر شعبہ میں ہر کام میں سنت کی اتباع کا التزام کر لے، یہی مضمون قرآن کریم کی اس آیت میں موجود ہے﴿قُلْ إِن کُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّہَ فَاتَّبِعُونِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّہ﴾․ (سورہ آل عمران، آیت:31)

قابل احترام ساتھیو!
آئیے! پختہ عزم کریں کہ ہم نے نبی علیہ السلام کی ہر ہر سنت کو زندہ کرنا ہے اور پورے عالم میں سنتوں کی دعوت دینی ہے، اپنی امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی اہم ذمہ داری کو انجام دینا ہے، کیوں کہ انبیاء والا یہ عظیم کام ہمارے آخری نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی ختم نبوت کی برکت سے ہر ہر امتی کے ذمہ لگایا گیا ہے ، چناں چہ اس لیے اب یہ ہماری بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ خود بھی صراط مستقیم پر چلیں اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دیں اور بے شک امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی ذمہ داری کو پورا کرنے میں ہی ہماری فوز وفلاح وکام یابی مضمر ہے، الله ہمیں اپنی ذمہ داریاں سمجھنے او راسے احسن طریقے سے پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین !

Flag Counter