دعوت و تبلیغ کے آداب
مفتی محمد شفیع رحمة الله علیہ
”بُلا اپنے رب کی راہ پر پکی باتیں سمجھا کر اور نصیحت سنا کر بھلی کی طرح اور الزام دے ان کو جس طرح بہتر ہو۔تیر ارب ہی بہتر جانتا ہے ان کو جو بھول گیا اس کی راہ اور وہی بہتر جانتا ہے ان کو جو راہ پر ہیں اور اگر بدلہ لو تو بدلہ لواسی قدر جس قدر کہ تم کو تکلیف پہنچائی جائے اور اگر صبر ہو سکے اللہ ہی کی مدد سے اور ان پر غم نہ کھا اور تنگ مت ہو ان کے فریب سے، اللہ ساتھ ہے ان کے جو پرہیز گار ہیں اور جو نیکی کرتے ہیں“۔(القرآن)
خلاصہ تفسیر
ربط آیات:سابقہ آیات میں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و نبوت کے اثبات سے مقصود یہ تھا کہ امت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی تعمیل رسالت کے حقوق ادا کریں۔مذکورہ آیات میں خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ادائے رسالت کے حقوق و آداب کی تعلیم دی ہے، جس کے عموم میں تمام مومنین شریک ہیں، مختصر تفسیر یہ ہے۔
آپ اپنے رب کی راہ(یعنی دین اسلام)کی طرف(لوگوں کو) حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعہ بلائیے۔(حکمت سے وہ طریقہ دعوت مراد ہے جس میں مخاطب سے مراد یہ ہے کہ خیرخواہی ہمدردی کے جذبے سے بات کہی جائے اور اچھی نصیحت سے مراد یہ ہے کہ عنوان بھی نرم ہو،دل خراش توہین آمیر نہ ہو)اور ان کے ساتھ اچھے طریقہ سے بحث کیجیے۔(یعنی اگر مباحثہ کی نوبت آجائے تو وہ بھی شدت اور خشونت سے اور مخاطب پر الزام تراشی میں بے انصافی سے خالی ہونا چاہیے، بس اتنا کام آپ کا ہے، پھر اس تحقیق میں نہ پڑئیے کہ کس نے مانا، کس نے نہیں مانا، یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے، پس)آپ کا رب خوب جانتا ہے اس شخص کو بھی جو اس کے رستہ گم ہوگیا اور وہی راہ پر چلنے والوں کو بھی خوب جانتا ہے اور اگر کبھی مخاطب علمی بحث و مباحثہ کی حد سے آگے بڑھ کر عملی جدال اور ہاتھ یا زبان سے ایذا ،پہنچانیلگے اس میں آپ کو اور آپ کے متبعین کو بدلا لینا بھی جائز ہے اور صبر کرنا بھی)پس اگر پہلی صورت اختیار کرو، یعنی بدلا لینے لگو تو اتنا ہی بدلا لو جتنا تمہارے ساتھ برتاؤ کیا گیا ہے،اس سے زیادہ نہ کرو)اور اگر (دوسری صورت یعنی ایذاؤں پر)صبر کرو تو وہ(صبر کرنا)صبر کرنے والوں کے حق میں بہت ہی اچھی بات ہے (کہ مخالف پر بھی اچھا اثر پڑتا ہے اور دیکھنے والوں پر بھی اور آخرت میں موجب اجر عظیم ہے)اور(صبر کرنا اگرچہ سبھی کے لیے بہتر ہے، مگر آپ کی عظمت شان کے لحاظ سے آپ کو خصوصیت کے ساتھ حکم ہے کہ آپ انتقام کی صورت اختیار نہ کریں، بلکہ آپ صبر کیجیے اور آپ کا صبر کرنا خدا ہی کی توفیق خاص سے ہے۔(اس لیے آپ اطمینان رکھیں کہ صبر میں آپ کو دشواری نہ ہوگی)اور ان لوگوں کے( ایمان نہ لانے پر یا مسلمانوں کو ستانے پر)غم نہ کیجیے اور جو کچھ یہ تدبیریں کیا کرتے ہیں اس سے تنگ دل نہ ہو جائیے ( ان کی مخالف تدبیروں سے آپ کا کوئی ضرر نہ ہوگا۔کیوں کہ آپ کو احسان اور تقویٰ کی صفات حاصل ہیں اور)اور اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔(یعنی ان کا مددگار ہوتا ہے)جو پرہیز گار ہوتے ہیں اور نیک کردار ہوتے ہیں۔
معارف ومسائل
اس آیت میں دعوت و تبلیغ کا مکمل نصاب، اس کے اصول اور آداب کی پوری تفصیل چند کلمات میں سموئی ہوئی ہے۔ تفسیر قرطبی میں ہے کہ حضرت حرم ابن حبان کی موت کا وقت آیا تو عزیزوں نے درخواست کی کہ ہمیں کچھ وصیت فرمائیے تو فرمایا کہ وصیت تو لوگ اموال کی کیا کرتے ہیں۔ وہ میرے پاس ہے نہیں ۔لیکن میں تم کو اللہ کی آیات خصوصاً سورہ نحل کی آخری آیتوں کی وصیت کرتا ہوں کہ ان پر مضبوطی سے قائم رہیں۔یہ آیات وہی ہیں جو اوپر مذکور ہوئیں۔
دعوت کے لفظی معنی بلانے کے ہیں۔انبیاء علیہم السلام کا پہلا فرض منصبی لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا ہے، پھر تمام تعلیمات نبوت و رسالت اس دعوت کی تشریحات ہیں، قرآن میں رسول اللہ کی خاص صفت داعی الی اللہ ہونا ہے۔
﴿وداعیاًالی الله باذنہ و سراجاً منیرا﴾(احزاب:46)
﴿ویاقومنا اجیبواداعی اللہ﴾(احقاف:31)
اُمت پر بھی آپ کے نقشِ قدم پر دعوت الی اللہ کو فرض کیا گیا ہے۔ سورہ آل عمرانِ میں ارشاد ہے:
﴿ولتکن منکم اُمة یدعون الی الخیر یامرون بالمعروف وینہون عن المنکر﴾(104)
تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونا چاہیے جو لوگوں کو خیر کی طرف دعوت (یعنی)نیک کاموں کا حکم کریں اور برے کاموں سے روکیں۔
اور ایک آیت میں ارشاد ہے۔
﴿ومن احسن قولاممن دعا الی اللہ﴾․
گفتار کے اعتبار سے اس شخص سے اچھا کون ہوسکتا ہے جس نے لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا؟
تعبیر میں کبھی اس لفظ کو دعوت الی اللہ کا عنوان دیا جاتا ہے اور کبھی دعوت الی الخیر کا اور کبھی دعوت الی سبیل اللہ کا۔حاصل سب کا ایک ہے، کیوں کہ اللہ کی طرف بلانے سے اس کے دین اور صراطِ مستقیم ہی کی طرف بلانا مقصود ہے۔ الی سبیل ربک اس میں اللہ جل شانہ کی خاص صفت ”رب“اور پھر اس کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اضافت میں اشارہ ہے کہ”دعوت“کا کام صفت ربوبیت اور تربیت سے تعلق رکھتا ہے ۔جس طرح حق تعالیٰ جل شانہ نے آپ کی تربیت فرمائی، آپ کو بھی تربیت کے انداز سے دعوت دینا چاہیے۔ جس میں مخاطب کے حالات کی رعایت کر کے وہ طرز اختیار کیا جائے کہ مخاطب پر بارنہ ہو اور اس کی تاثیر زیادہ سے زیادہ ہو۔خود لفظ دعوت بھی اس مفہوم کو ادا کرتا ہے کہ پیغمبر کا کا م صرف اللہ کے احکام پہنچا دینا اور سنا دینا نہیں، بلکہ لوگوں کو ان کی تعمیل کی طرف دعوت دینا ہے اورظاہر ہے کہ کسی کو دعوت دینے والا اس کے ساتھ ایسا خطاب نہیں کیا کرتا جس سے مخاطب کو وحشت ونفرت ہو۔یا جس میں اس کے ساتھ استہزاوتمسخر کیا گیا ہو۔
بالحکمة:لفظ حکمت قرآن کریم میں بہت سے معانی کے لیے استعمال ہوا ہے۔اس جگہ بعض ائمہ تفسیر نے حکمت سے قرآن، بعض نے قرآن و سنت، ،بعض نے حجة قطعیہ قرار دیا ہے اور روح المعانی نے بحوالہ بحر محیط حکمت کی تفسیر یہ کی ہے ۔
انہا الکلام الصواب الواقع من النفس اجمل موقع․(روح)
یعنی حکمت اس درست کلام کا نام ہے جو انسان کے دل میں اتر جائے۔
اس تفسیرمیں تمام اقوال جمع ہوجاتے ہیں اور صاحبِ روح البیان نے بھی تقریباً یہی مطلب ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ”حکمت سے مراد وہ بصیرت ہے جس کے ذریعہ انسان مقتضیات احوال کو معلوم کر کے اس کے مناسب کلام کرے، وقت اور موقع ایسا تلاش کرے کہ مخاطب پر بار نہ ہو۔نرمی کی جگہ نرمی اور سختی کی جگہ سختی اختیار کرے اور جہاں یہ سمجھے کہ صراحةً کہنے میں مخاطب کو شرمندگی ہوگی،وہاں اشارے سے کلام کرے۔یا کوئی ایسا عنوان اختیار کرے کہ مخاطب کو نہ شرمندگی ہو اور نہ اس کے دل میں اپنے خیال پر جمنے کا تعصب پیدا ہو۔
الموعظة:موعظت اور وعظ کے لغوی معنی یہ ہیں کہ کسی خیر خواہی کی بات کو ایسی طرح کہا جائے کہ اس سے مخاطب کا دل قبولیت کے لیے نرم ہوجائے۔مثلا اس کے ساتھ قبول کرنے کے ثواب و فوائد اور نہ کرنے کے عذاب و مفاسد ذکر کیے جائیں ۔(قاموس و مفردات راغب)
الحسنة:کے معنی یہ ہیں کہ بیان اور عنوان بھی ایسا ہو جس سے مخاطب کا قلب مطمئن ہو، اس کے شکوک و شبہات دور ہوں اور مخاطب یہ محسوس کرلے کہ آپ کی اس میں کوئی غرض نہیں ۔صرف اس کی خیر خواہی کے لیے کہہ رہے ہیں ۔
موعظت کے لفظ سے خیر خواہی کی بات موثر انداز میں کہناتو واضح ہو گیا تھا، مگر خیر خواہی کی بات بعض اوقات دلخراش عنوان سے یا اس طرح بھی کہی جاتی ہے جس سے مخاطب اپنی اہانت محسوس کرے۔ (روح المعانی)اس طریقہ کو چھوڑنے کے لیے لفظ حسنہ کا اضافہ کردیا گیا۔
وجادلھم باللتی ہی احسن لفظ جادل سے مشتق ہے ۔اس جگہ مجادلہ سے مرادبحث و مناظرہ ہے اور باللتی ہی احسن سے مراد یہ ہے کہ اگر دعوت میں کہیں بحث و مناظرہ کی ضرورت پیش آجائے تو وہ مباحثہ بھی اچھے طریقے سے ہونا چاہیے۔روح المعانی میں ہے کہ اچھے طریقہ سے یہ مراد ہے کہ گفتگو میں لطف اور نرمی اختیار کی جائے ۔دلائل ایسے پیش کیے جائیں جو مشہور معروف ہوں ،تا کہ مخاطب کے شکوک دور ہوں اور وہ ہٹ دھرمی کے راستہ پر نہ پڑ جائے اور قرآن کریم کی دوسری آیات اس پر شاہد ہیں کہ یہ احسان فی المجادلہ صرف مسلمانوں کے ساتھ مخصوص نہیں ۔اہل کتاب کے بارے میں تو خصوصیت کے ساتھ قرآن کا ارشاد ہے ۔ولا تجادلوا اہل الکتاب الا باللتی ہی احسن اور دوسری آیات میں حضرت موسیٰ و ہارون علیہم السلام کو قولالہ قولالیناکی ہدایت دے کر یہ بھی بتلا دیا فرعون سے سرکش کافر کے ساتھ بھی یہی معاملہ کرنا ہے۔
دعوت کے اصول و آداب
آیت مذکورہ میں دعوت کے لیے تین چیزوں کا ذکر ہے، اول حکمت۔دوسرے موعظت حسنہ۔ تیسرا مجادلہ باللتی ہی احسن۔ بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ تین چیزیں مخاطبین کی تین قسموں کی بنا پر ہیں ۔دعوت بالحکمة اہل علم و فہم کے لیے۔دعوت بالموعظت عوام کے لیے۔مجادلہ ان لوگوں کے لیے جن کے دلوں میں شکو ک و شبہات ہوں۔یا جو عناد اور ہٹ دھری کے سبب بات ماننے سے منکر ہوں۔
سیدی حضرت حکیم الاُمت تھانوی نے بیان القرآن میں فرمایا کہ ان تین چیزوں کے مخاطب الگ الگ تین قسم کی جماعتیں ہونا سباق آیت کے لحاظ سے بعید معلوم ہوتا ہے ۔انتہی۔ ظاہر یہ ہے کہ یہ آداب دعوت ہر ایک کے لیے استعمال کرنا ہے کہ دعوت میں سب سے پہلے حکمت سے مخاطب کے حالات کا جائز ہ لے کر اس کے مناسب کلام تجویز کرنا ہے ۔پھر اس کلام میں خیر خواہی و ہمدردی کے جذبہ کے ساتھ ایسے شوابد اور دلائل سامنے لانا ہے جس سے مخاطب مطمئن ہو سکے اور طرز بیان و کلام ایسا مشفقانہ اور نرم رکھے کہ مخاطب کو اس کا یقین ہو جائے کہ یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں مجھے شرمندہ کرنا یا میری حیثیت کو مجروح کرنا ان کا مقصد نہیں۔
البتہ صاحب روح المعانی نے اس جگہ ایک نہایت لطیف نکتہ بیان فرمایا ہے کہ آیت کے نسق سے معلوم ہوتا ہے کہ اصولِ دعوت اصل میں دو ہی چیزیں ہیں ۔ حکمت اور موعظت ۔تیسری چیز اصول مجادلہ اصول دعوت میں داخل نہیں ۔ہاں! طریق دعوت میں کبھی اس کی بھی ضرورت پیش آجاتی ہے۔صاحب روح المعانی کا استد لال اس پر یہ ہے کہ اگر یہ تینوں چیزیں اصول دعوت ہوتیں تو مقتضائے مقام یہ تھا کہ تینوں چیزوں کو عطف کے ساتھ اس طرح بیان کیا جاتا بالحکمة و المواعظة الحسنہ والجدال الاحسن مگر قرآن کریم نے حکمت و موعظت کو تو عظف کے ساتھ ایک ہی نسق میں بیان فرمایا اور مجادلہ کے لیے الگ جملہ جادلہم باللتی ہی احسن اختیار کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مجادلہ فی العلم دراصل دعوت الی اللہ کا رکن یا شرط نہیں، بلکہ طریق دعوت میں لوگوں کی ایذاؤں پر صبر کرنا ناگزیر ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اصولِ دعوت دو چیزیں ہیں، حکمت اور موعظت، جن سے کوئی دعوت خالی نہیں ہونی چاہیے ،خواہ علماء و خواص کو ہو یا عوام الناس کو البتہ دعوت میں کسی وقت ایسے لوگوں سے بھی سابقہ پڑ جاتا ہے جو شکوک واوہام میں مبتلا اور داعی کے ساتھ بحث و مباحثہ پر آمادہ ہیں ۔تو ایسی حالت میں مجادلہ کی تعلیم دی گئی ،مگر اس کے ساتھ باللتی ہی احسن کی قید لگا کر بتلا دیا کہ جو مجادلہ اس شرط سے خالی ہو اس کی شریعت میں کوئی حیثیت نہیں۔
دعوت الی اللہ کے پیغمبر انہ آداب
دعوت الی اللہ دراصل انبیاء علیہم السلام کا منصب ہے ۔امت کے علماء اس منصب کو ان کا نائب ہونے کی حیثیت سے استعمال کرتے ہیں ۔تو لازم یہ ہے کہ اس کے آداب اور طریقے بھی انہیں سے سیکھیں، جو دعوت اُن طریقوں پر نہ رہے وہ دعوت کے بجائے عداوت اور جنگ و جدل کا موجب ہو جاتی ہے، دعوت پیغمبرانہ کے اصول میں جو ہدایت قرآن کریم میں حضرت موسیٰ و ہارون کے لیے نقل کی گئی ہے ۔﴿قولا لہ قولالینا لعلہ یتذکراو یخشی﴾ ۔یعنی فرعون سے نرم بات کرو، شاید وہ سمجھ لے یا ڈر جائے۔
یہ ہر داعی حق کو ہر وقت سامنے رکھنا ضروری ہے کہ فرعون جیسا سرکش کا فر جس کی موت بھی علم الہٰی میں کفر ہی پر ہونے والی تھی، اس کی طرف بھی جب اللہ تعالیٰ اپنے داعی کو بھیجتے ہیں تو نرم گفتار کی ہدایت کے ساتھ بھیجتے ہیں ۔آج ہم جن لوگوں کو دعوت دیتے ہیں وہ فرعون سے زیادہ گم راہ نہیں اور ہم میں سے کوئی موسیٰ و ہارون علیہم السلام کے برابر ہادی و داعی نہیں تو جو حق اللہ نے اپنے دونوں پیغمبروں کو نہیں دیا کہ مخاطب سے سخت کلامی کریں، اس پر فقرے کسیں ،اس کی توہین کریں،وہ حق ہمیں کہاں سے حاصل ہوگیا؟
قرآن کریم انبیاء علیہم السلام کی دعوت و تبلیغ اور کفار کے مجادلات سے بھرا ہوا ہے، اس میں کہیں نظر نہیں آتا کہ کسی اللہ کے رسول نے حق کے خلاف ان پر طعنہ زنی کرنے والوں کے جواب میں کوئی ثقیل کلمہ بھی بولا ہو۔اس کی چند مثالیں دیکھیے۔
سورہٴ اعراف کے ساتویں رکوع میں آیات 59 سے 67 تک دو پیغمبر حضرت نوح اور حضرت ہود علیہم السلام کے ساتھ ان کی قوم کے مجادلہ اور سخت سست الزامات کے جواب میں ان بزرگو ں کے کلمات قابل ملاحظہ ہیں۔
حضرت نوح علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے وہ اولوالعزم پیغمبر ہیں جن کی طویل عمر دنیا میں مشہور ہے، ساڑھے نو سو برس تک اپنی قوم کو دعوت و تبلیغ، اصلاح وار شاد میں دن رات مشغول رہے ۔مگر اس بدبخت قوم میں سے معدودے چند کے علاوہ کسی نے ان کی بات نہ مانی اور تو اور خود ان کا ایک لڑکا اور بیوی کافروں کے ساتھ لگے رہے۔ان کی بات نہ مانی، ان کی جگہ آج کا کوئی مدعی دعوت و اصلاح ہوتا تو اس قوم کے ساتھ اس کا لب و لہجہ کیا ہوتا؟ اندازہ لگائیے، پھر دیکھیے کہ ان کی تمام ہم دردی و خیر خواہی و دعوت کے جواب میں قوم نے کہا:ہم تو آپ کو کھلی ہوئی گم راہی میں مبتلا پاتے ہیں ۔(اعراف)
ادھر سے اللہ کے پیغمبر بجائے، اس کے اس سرکش قوم کی گم راہیوں بدکاریوں کا پر دہ چاک کرتے، جواب میں کیا فرماتے ہیں۔
”میرے بھائیو!مجھ میں کوئی گم راہی نہیں ۔میں تو رب العالمین کا رسول اور قاصد ہوں (تمہارے فائدہ)کی باتیں بتلاتا ہوں“۔
ان کے بعد آنے والے دوسرے اللہ کے رسول حضرت ہود علیہ السلام کو ان کی قوم نے معجزات دیکھنے کے باوجود ازراہ عناد کہا کہ آپ نے اپنے دعوے پر کوئی دلیل پیش نہیں کی اور ہم آپ کے کہنے سے اپنے معبو دوں (بتوں)کو چھوڑنے والے نہیں ۔ہم تو یہی کہتے ہیں کہ تم نے جو ہمارے معبودوں کی شان میں بے ادبی کی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تم جنون میں مبتلا ہوگئے ہو۔حضرت ہود علیہ السلام نے یہ سب سن کر کیا جواب دیا ؟سنیے:
”میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ میں ان بتوں سے بری اور بیزار ہوں، جن کوتم اللہ کا شریک مانتے ہو“۔(سورہ ہود)
اور سورہٴ اعراف میں ہے کہ ان کی قوم نے ان کو کہا۔”ہم تو آپ کوبے وقوفی میں مبتلا سمجھتے ہیں اور ہمارا خیال یہ ہے کہ آپ جھوٹ بولنے والوں میں سے ہیں“۔
قوم کے اس دل آزار خطاب کے جواب میں اللہ کے رسول ہود علیہ السلام نہ ان پر کوئی فقرہ کستے ہیں اور نہ ان کی بے راہی اور کذب وافتراعلی اللہ کی کوئی بات کہتے ہیں، جواب کیا ہے ؟صرف یہ کہ:
”اے میری برادری کے لوگو،مجھ میں کوئی بے وقوفی یا کم عقلی نہیں، میں تو رب العالمین کا رسول ہوں“۔(اعراف)
حضرت شعیب علیہ السلام نے قوم کو حسب دستورِ انبیاء اللہ کی طرف دعوت دی اور ان میں جو بڑا عیب ناپ تول میں کمی کرنے کا تھا اس سے باز آنے کی ہدایت فرمائی تو ان کی قوم نے تمسخر کیا اور تو ہین آمیز خطاب کیا۔
”اے شعیب! کیا تمہاری نماز تمہیں یہ حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے باپ دادا کے معبودوں کو چھوڑ دیں اور یہ جن اموال کے ہم مالک ہیں ان میں اپنی مرضی کے موافق جو چاہیں کریں ؟واقعی آپ ہیں بڑے عقل منددین پر چلنے والے“۔(القرآن)
انہوں نے ایک تو یہ طعنہ دیا کہ تم جو نماز پڑھتے ہو یہی تمہیں بے وقوفی کے کام سکھاتی ہے۔دوسرے کہ مال ہمارے ہیں، ان کی خرید و فروخت کے معاملات میں تمہارا یا خدا کا کیا دخل ہے؟ہم جس طرح چاہیں ان میں تصرف کا حق رکھتے ہیں۔ تیسراجملہ تمسخر و استہزا کا یہ کہا کہ آپ ہیں بڑے عقل مند بہت دین پر چلنے والے ۔ معلوم ہوا کہ یہ لادینی معاشیات کے پجاری صرف آج نہیں پیدا ہوئے، ان کے بھی کچھ اسلاف ہیں، جن کا نظریہ وہی تھا جو آج کے بعض نام کے مسلمان کہہ رہے ہیں ، ہم مسلمان ہیں ،اسلام کو مانتے ہیں، مگر ہماری معاشیات سوشل ازم سے وابستہ ہے۔
بہر حال اس ظالم قوم کے اس مسخرے پن اور دل آزار گفتگو کا جواب اللہ کے رسول کیا دیتے ہیں،سنیے:
اے میری قوم! بھلا یہ تو بتلاؤ کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے دلیل پر قائم ہوں اور اس نے مجھ کو اپنی طرف سے عمدہ دولت، یعنی رسالت دی ہو تو پھر میں کیسے اس کی تبلیغ نہ کروں؟ اور میں تو صرف اصلاح چاہتا ہوں۔ جہاں تک میری قدرت میں ہے اور مجھ کو جو کچھ اصلاح اور عمل کی توفیق ہوجاتی ہے، وہ صرف اللہ ہی کی مدد سے ہے۔میں اسی پر بھروسہ رکھتا ہو ں اور تمام امور میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں ۔(ہود)
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کی طرف بھیجنے کے وقت جو نرم گفتار کی ہدایت منجانب اللہ دی گئی تھی، اس کی پوری تعمیل کرنے کے باوجود فرعون کا خطاب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ تھا۔
”فرعون کہنے لگا(اہا! تم ہو؟)کیا ہم نے تم کو بچپن میں پرورش نہیں کیا؟ اور تم اس عمر میں برسوں ہمارے پاس رہا سہا کیے اور تم نے اپنی وہ حرکت بھی کی تھی (یعنی قبطی کو قتل کیا تھا )اور بڑے ناشکرے ہو۔(سورة شعراء)
اس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اپنا یہ احسان بھی جتلایا کہ بچپن میں ہم نے تجھے پالا؟ پھر یہ احسان بھی جتلایا کہ بڑے ہونے کے بعد بھی کافی عرصہ تم ہمارے پاس رہے۔پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ سے جو ایک قبطی بغیر ارادہٴ قتل کے مارا گیا تھا اس پر غصہ اور ناراضی کا اظہار کر کے یہ بھی کہا کہ تم کافروں میں سے ہوگئے۔یہاں کافروں میں سے ہونے کے لغوی معنی بھی ہوسکتے ہیں ۔یعنی ناشکری کرنے والے، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے تو تم پر احسانات کیے اور تم نے ہمارے ایک آدمی کو مار ڈالا جو احسان کی ناشکری تھی اور اصطلاحی معنی بھی ہو سکتے ہیں، کیوں فرعون خود خدائی کا دعوے دار تھا تو جو اس کی خدائی کا منکرہو وہ کافر ہوا۔
اب اس موقع پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جواب سنیے، جو پیغمبرانہ اخلاق کا شاہ کار ہے کہ اس میں سب سے پہلے اس کمزوری و کوتاہی کا اعتراف کرلیا جو ان سے سرزد ہوگئی تھی ۔یعنی اسرائیلی آدمی سے لڑنے والے قبطی کو ہٹانے کے لیے ایک مُکہ اس کے مارا تھا، جس سے وہ مرگیا تو گویہ قتل عمداً ارادہً نہیں تھا، اس لیے پہلے اعتراف فرمایا :
”یعنی میں نے یہ کام اس وقت کیا تھا جب میں ناواقف تھا“۔(القرآن)
مراد یہ ہے کہ یہ فعل عطائے نبوت سے پہلے سرزد ہوگیا تھا، جب کہ مجھے اس بارے میں اللہ کا حکم معلوم نہ تھا، اس کے بعد فرمایا:
”پھر مجھ کو ڈر لگا تو میں تمہارے یہاں سے مفرور ہوگیا، پھر مجھ کو میرے رب نے دانش مندی عطا فرمائی اور مجھ کو اپنے پیغمبروں میں شامل کرایا“۔(القرآن)
پھر اس کے احسان جتلانے کا جواب یہ دیا کہ تمہارا یہ احسان جتانا صحیح نہیں ،کیوں کہ میری پرورش کا معاملہ تمہارے ہی ظلم و عدوان کا نتیجہ تھا کہ تم نے اسرائیلی بچوں کو قتل کاحکم دے رکھا تھا ،اس لیے والدہ نے مجبور ہو کر مجھے دریا میں ڈالا اور تمہارے گھر تک پہنچنے کی نوبت آئی۔فرمایا:
(رہا احسان جتلانا پرورش کا)سو یہ وہ نعمت ہے جس کا تو مجھ پر احسان رکھتا ہے کہ تو نے بنی اسرائیل کو سخت ذلت میں ڈال رکھا تھا۔(القرآن)
اس کے بعد فرعون نے جب سوال کیا ﴿وما رب العٰلمین﴾ یعنی ﴿رب العالمین﴾ کو ن اور کیا ہے؟ تو جواب میں فرمایا کہ وہ رب ہے آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اس سب کا ۔اس پر فرعون نے بطور استہزا کے حاظر ین سے کہا ﴿الا تسمعون﴾ یعنی تم سن رہے ہو ،یہ کیسی بے عقلی کی باتیں کہہ رہے ہیں ۔اس پر موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا :﴿ربکم ورب آباءِ کم الاولین﴾ یعنی تمہارے اور تمہارے باپ دادوں کا بھی وہی رب پروردگار ہے۔اس پر فرعون نے جھلا کر کہا :﴿ان رسولکم الذی أرسل الیکم لمجنون﴾ یعنی یہ جو تمہاری طرف اللہ کے رسول ہونے کا مدعی ہے وہ دیوانہ ہے ۔مجنون دیوانہ کا خطاب د ینے پر بھی موسیٰ علیہ السلام بجائے اس کے کہ ان کا دیوانہ ہونا اور اپنا عاقل ہونا ثابت کرتے، اس طرف کوئی التفات ہی نہیں کیا، بلکہ اللہ رب العالمین کی ایک اور صفت بیان فرمادی۔
”وہ رب ہے مشرق و مغرب کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے۔اگر تم کو عقل ہو ۔“(شعرأء)
یہ ایک طویل مکالمہ ہے، جو فرعون کے دربار میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے درمیان ہو رہا ہے ،جو سورہ شعراء کے تین رکوع میں بیان ہوا ہے۔اللہ کے مقبول رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس مکالمہ کو اوّل سے آخر تک دیکھیے نہ کہیں جذبات کا اظہار ہے ،نہ اس کی بدگوئی کا جواب ہے،نہ اس کی سخت کلامی کے جواب میں کوئی سخت کلمہ ہے،بلکہ مسلسل اللہ جل شانہ کی صفات کمال کا بیان اور تبلیغ کا سلسلہ جاری ہے۔
یہ مختصر سا نمونہ ہے انبیاء علیہم السلام کے مجادلات کا، جو اپنی معاند اور ضدی قوم کے مقابلہ میں کیے گئے ہیں اور مجادلہ باللتی ہی احسن جو قرآن کی تعلیم ہے اس کی عملی تشریح ہے، مجادلات کے علاوہ دعوت و تبلیغ میں ہر مخاطب اور ہر موقع کے مناسب کلام کرنے میں حکیمانہ اصول اور عنوان و تعبیر میں حکمت و مصلحت کی رعائتیں بھی جو انبیاء علیہم السلام نے اختیار فرمائیں اور دعوت الی اللہ کو مقبول و موثر اور پائیدار بنانے کے لیے جو طرز عمل اختیار فرمایا ہے وہی در اصل دعوت کی روح ہے، اس کی تفصیلات توتمام تعلیمات نبوی علیہ السلام میں پھیلی ہوئی ہیں۔نمونہ کے طور پر چند چیزیں دیکھیے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت و تبلیغ اور وعظ و نصیحت میں اس کا بڑا لحاظ رہتا تھا کہ مخاطب پر بار نہ ہونے پائے۔
صحابہ کرام جیسے عشاق رسول، جن سے کسی وقت بھی اس کا احتمال نہ تھا کہ وہ آپ کی باتیں سننے سے اکتا جائیں گے ،ان کے لیے بھی آپ علیہ السلام کی عادت یہ تھی کہ وعظ و نصیحت روزانہ نہیں بلکہ ہفتہ کے بعض دنوں میں فرماتے تھے، تا کہ لوگوں کے کاروبار کا حرج اور ان کی طبیعت پر بار نہ ہو۔صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہفتہ کے بعض ایام ہی میں وعظ فرماتے تھے تاکہ ہم اکتا نہ جائیں اور دوسروں کو بھی آپ کی طرف سے یہی ہدایت تھی۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لوگوں پر آسانی کرو، دشواری نہ پیدا کرو اور ان کو اللہ کی رحمت کی خوش خبری سناؤ ،مایوس یا متنفر نہ کرو۔(بخاری)
حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ تمہیں چاہیے کہ ربانی، حکماء،علماء،فقہاء بنو۔صحیح بخاری میں یہ قول نقل کر کے لفظ ربانی کی یہ تفسیر فرمائی کہ جوشخص دعوت و تبلیغ اور تعلیم میں تربیت کے اصول کو ملحوظ رکھ کر پہلے آسان آسان باتیں بتلائے، جب لوگ اس کے عادی ہوجائیں تو اس وقت دوسرے احکام بتلائے، جو ابتدائی مرحلے میں مشکل ہوئے۔