Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1436ھ

ہ رسالہ

3 - 16
صدقہ کی فضیلت

فقیہ ابواللیث سمرقندیؒ
	
افضل صدقہ
فقیہ ابواللیث سمر قندی اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو ذر غفاری نے فرمایا، نماز اسلام کا ستون ہے، جہاد عمل کی چوٹی ہے اور صدقہ ایک عجیب چیز ہے، صدقہ ایک عجیب چیز ہے، صدقہ ایک عجیب چیز ہے۔ ان سے روزہ کی متعلق سوال ہوا تو فرمایا کہ ہاں نیک عمل ہے، مگر فضیلت وہ نہیں، پوچھا گیا کون سا صدقہ افضل ہے فرمایا جو بہت ہو اور بہت ہو اور پھر یہ آیت پڑھی:﴿لَن تَنَالُواْ الْبِرَّ حَتَّی تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّون﴾․ (آل عمران، آیت:92)
ترجمہ:” یعنی تم خیر کامل کو کبھی حاصل نہ کر سکو گے جب تک اپنی محبوب چیز کو خرچ نہ کرو گے۔“

سوال ہوا جس کے پاس نہ ہو؟ فرمایا جو مال بھی بچے صدقہ کر دے۔ پوچھا جس کے پاس مال نہ ہو؟ فرمایا بچا ہوا کھانا ہی سہی۔ عرض کیا گیا جس کے پاس یہ بھی نہ ہو؟ فرمایا اپنی قوت سے کسی کا تعاون کر دے پوچھا گیا جو یہ بھی نہ کر سکے ؟فرمایا آگ سے بچے خواہ کھجور کا ٹکڑا دے کر ہی سہی۔ کہا گیا جویہ بھی نہ کرے؟ فرمایا وہ اپنے آپ پر ضبط رکھے، کسی پر ظلم نہ کرنے پائے۔ ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے یہ مضمون حضور صلی الله علیہ وسلم سے نقل کیا ہے ۔

بُخل کُفر کا شُعبہ ہے اور سخَاوت اِیمان کا شعبہ ہے
حضرت ابو دردا راوی ہیں کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب بھی سوج طلوع ہوتا ہے تو اس کے دونوں جانب دو فرشتے مقرر ہوتے ہیں، جو یہ آواز لگاتے ( جسیجنات اور انسانوں کے سوا تمام اہل زمین سنتے ہیں) اے لوگو! اپنے رب کی طرف لپکو، بے شک قلیل مال، جو کفایت کرے، اس کثیر مال سے بہتر ہے جو غفلت پیدا کرے اور دو فرشتے یہ آواز لگاتے ہیں اے الله !اپنا مال برمحل یعنی نیک کاموں میں خرچ کرنے والے کو جلدی اس کا نعم البدل عطا فرما۔ اور ایسے موقعہ پر بخل کرنے والے کے مال کو تباہ و برباد فرما۔

حضرت ابن عباس نقل کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے، جوکعبہ شریف کے پَردوں سے چمٹا ہوا یہ دعا کر رہا تھا کہ اس بیت کی عظمت حرمت کے صدقے میری مغفرت فرما۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے الله کے بندے! اپنی حُرمت کے واسطے دعا مانگ کہ الله تعالی کے ہاں مومن کی حرمت وعظمت اس بیت سے کہیں بڑھ کر ہے۔ وہ عرض کرنے لگا یا رسول الله! میں بہت ہی بڑا گنہگار ہوں۔ ارشاد فرمایا تیرا گناہ کیا ہے؟کہنے لگا میرے پاس مال کی بہتات ہے، چوپائے مویشی بھی بہت ہیں۔ اور گھوڑے بھی کثرت سے ہیں۔ لیکن جب کوئی آدمی ان میں سے کسی چیز کا سوال کرتا ہے تو میں یوں ہو جاتا ہوں، جیسا میرے منھ سے آگ کے شعلے نکلتے ہیں، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اوفاسق! چل دور ہو جا، کہیں اپنی آگ سے مجھے بھی نہ جلا دینا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میرے جان ہے !اگر تو ہزار برس تک روزے رکھے اور نمازیں پڑھتا رہے، پھر اس کمینگی کی حالت میں مر جائے تو یقینا الله تعالیٰ تجھے دوزخ میں اوندھا لٹکائیں گے، کیا تجھے معلوم نہیں کمینگی کفر کا شعبہ ہے اور کفر کا ٹھکانا دوزخ ہے اور سخاوت ایمان کا شعبہ ہے او رایمان کا ٹھکانا جنت ہے؟!

سخاوت کی جڑ اور بخل کی جڑ
حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سخاوت درخت ہے، جس کی جڑ جنت میں ہے او راس کی شاخیں دنیا میں لٹک رہی ہیں، جو شخص بھی اس کی کسی شاخ سے چمٹ گیا وہ اسے جنت کی طرف کھینچ لے گا اور بخل ایک درخت ہے جس کی جڑ دوزخ میں ہے اور شاخیں دنیا میں لٹک رہی ہیں، جو کوئی اس کی شاخ سے لگ جائے گا وہ اسے دوزخ کی طرف کھینچ لے گا، ایک حدیث میں ارشاد مبارک ہے بخیل الله سے دور جنت سے دور، لوگوں سے دور اور دوزخ کے قریب ہے اور سخی الله کے قریب جنت کے قریب، لوگوں کے قریب اور دوزخ سے دور ہے۔

ایک حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے، اپنے مالوں کو زکوٰة کے ذریعہ محفوظ کرو او راپنے بیماروں کا صدقہ کے ذریعہ علاج کرو اور قسم قسم کی آفات کا دعاؤں سے مقابلہ کرو۔

حضرت عبدالرحمن سلمانی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی نقل کرتے ہیں کہ کسی سائل کو بات ختم کرنے سے پہلے نہ ٹوکو۔ پھر یا تو نرمی اور وقار کے ساتھ اسے کچھ دے دو یا احسن طریق سے جواب دے دو کہ بسا اوقات تمہارے پاس ایسے سائل بھی آتے ہیں جو جن ہوتے ہیں نہ انسان اور یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ الله کی عطا کردہ نعمتوں میں تمہارا کیا معاملہ ہے ؟ سعید بن مسعود  کندی راوی ہیں کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص بھی دن یا رات میں صدقہ کرتا ہے اور زہریلے جانور کے ڈسنے سے دیوار یا چھت وغیرہ تلے دبنے سے تواچانک موت سے محفوظ رہتا ہے ۔ حضرت ابوہریرہ یہ حدیث نقل کرتے ہیں کہ صدقہ کرنے سے مال کبھی کم نہیں ہوتا اور جو شخص کسی ظلم کو معاف کرتا ہے الله تعالیٰ اس کی عزت افزائی فرماتے ہیں او رجو شخص الله کے لیے تواضع کرتا ہے الله تعالیٰ اسے اونچا کرتے ہیں۔

دو چیزیں شیطان اور رحمان کی طرف سے
حضرت ابن عباس  کا ارشاد ہے کہ دو چیزیں شیطان کی طرف سے ہیں اور دو الله تعالیٰ کی طرف سے پھر آپ نے یہ آیت پڑھی:﴿الشَّیْْطَانُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ وَیَأْمُرُکُم بِالْفَحْشَاء وَاللّہُ یَعِدُکُم مَّغْفِرَةً مِّنْہُ وَفَضْلاً وَاللّہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ﴾․(سورہ بقرہ، آیت:268)
ترجمہ:” شیطان تم کو محتاجی سے ڈراتا ہے او رتم کو بری بات کا مشورہ دیتا ہے ۔ اور الله تعالیٰ تم سے وعدہ کرتا ہے اپنی طرف سے گناہ معاف کر دینے کا اورزیادہ دینے کا اور الله تعالیٰ وسعت والے اور خوب جاننے والے ہیں۔“

یعنی الله تعالیٰ تمہیں صدقہ اور اطاعت کا حکم دیتے ہیں، تاکہ تم اس کی مغفرت اور فضل کو پا سکو اور الله تعالیٰ وسیع فضل والے ہیں ۔ صدقہ کرنے والے کے ثواب سے واقف ہیں۔

حضرت بریدہ حضور صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد مبارک نقل کرتے ہیں، جب کوئی قوم بد عہدی کرتی ہے الله تعالیٰ انہیں قتل وخون میں مبتلا کر دیتے ہیں اورجب کسی قوم میں بے حیائی پھیل جائے تو الله تعالیٰ ان پر موت مسلط کر دیتے ہیں او رکوئی قوم جب زکوٰة روک لیتی ہے تو الله تعالیٰ اس سے بارش روک لیتے ہیں۔

تین سطریں ،پانچ چیزیں
حضرت ضحاک نزال بن سُبرہ سے روایت کرتے ہیں کہ جنت کے دروازے پر تین سطریں لکھی ہوئی ہیں۔

پہلی سطر یہ ہے:”لااِلٰہَ اِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ․“

دوسری ہے:”اُمَّةٌ مُذْنِبَةٌ وَرَبٌّ غَفُوْرٌ․“
ترجمہ:” لوگ گنہگار اور پرورد گار مغفرت والا ہے۔“

تیسری سطر یہ ہے:”وَجَدْنَا مَا عَمِلْنَا، رَبِحْنَا مَا قَدَّمْنَا، خَسِرْنَا مَا خَلَّفْنَا․“
ترجمہ:” ہم نے اپنے اعمال کو پالیا اور جو آگے بھیجا وہ نفع میں رہا، جو پیچھے چھوڑا وہ خسارا اٹھایا۔“

کہتے ہیں کہ جو شخص پانچ چیزیں روکتا ہے الله تعالیٰ اس سے پانچ چیزیں روک لیتے ہیں۔
1..جو زکوٰة رو ک لیتا ہے، الله تعالیٰ اس کے مال کی حفاظت روک دیتے ہیں۔2..جو صدقہ روکتا ہے الله تعالیٰ اس سے عافیت روک لیتے ہیں۔3.. جو عُشر روکتا ہے الله تعالیٰ اس کی زمین کی برکتوں کو روک دیتے ہیں۔4.. جو دُعا روکتا ہے ،الله تعالیٰ قبولیت روک لیتے ہیں۔5.. اور جو شخص نماز میں سستی کرتا ہے، الله تعالیٰ موت کے وقت اس سے”لااِلٰہَ اِلَّا اللهُ“ روک دیتے ہیں۔

ابن مسعود فرماتے ہیں ایک شخص اپنی صحت اور ضرورت کی حالت میں جو ایک درہم خرچ کرتا ہے وہ ان سودرہموں سے بڑھ کر ہے جن کی مرتے وقت وہ وصیت کرتا ہے۔

عابد اور بخیل کا قصہ
فقیہ فرماتے ہیں، میں نے اپنے بزرگوں سے سُنا وہ فرماتے تھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ایک شخص اپنے بخل کی وجہ سیملعون کے نام سے مشہو رتھا۔ اس کے پاس ایک دن ایک شخص آیا ،جو جہاد کا ارادہ رکھتا تھا۔ کہنے لگا اے ملعون! مجھے کچھ ہتھیار دے دے۔ جو جہاد میں میرے کام آئیں گے اور تیرے لیے دوزخ سے رہائی کا سامان ہو گا اس نے منھ پھیر لیا اور کچھ نہ دیا ۔ وہ آدمی واپس چل دیا، ملعون کو ندامت ہوئی ،اسے آواز دے کر بلایا او راپنی تلوار دے دی، وہ آدمی تلوار لے کر واپس لوٹا ،راستے میں عیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، ان کے ساتھ ایک عابد بھی تھا، جو ستر برس سے عبادت میں مصروف تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس شخص سے پوچھا کہ تلوار کہاں سے لائے ہو؟ وہ شخص بولا ملعون نے دی ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ملعون کے اس صدقہ سے بہت خوش ہوئے۔ ادھر ملعون اپنے دروازہ پر بیٹھا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے عابد ساتھی کے چہرہ کو ایک نظر دیکھ لوں، یہ اٹھ کر دیکھنے لگا تو عابد نے کہا کہ میں تو اس ملعون سے بھاگتا ہوں، کہیں اپنی آگ میں مجھے بھی نہ جلا دے۔ الله تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی کہ میرے بندے کو بتاؤ کہ اس گنہگار کو اس کے صدقہ کی بدولت او رتمہاری محبت کی وجہ سے میں نے بخش دیا ہے اور اسے یہ بھی بتاؤ کہ وہ جنت میں تیرا ساتھی ہو گا۔ عابد کہنے لگا بخدا! مجھے تو اس کے ساتھ جنت میں جانا گوارا نہیں اور نہ ہی مجھے ایسا ساتھی پسند ہے۔ اس پر الله تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ عليه السلام کو وحی بھیجی کہ میرے اس بندے کو کہو کہ تجھے میرا فیصلہ پسند نہ آیا اور میرے ایک بندہ کوتونے حقیر جانا۔ لہٰذا ہم نے تجھے ملعون اور دوزخی بنا دیا ہے اور تیرے جنت کے محلات کا اس کے دوزخ والے مقامات کے ساتھ تبادلہ کر دیا ہے۔ اب میں نے تیرے جنت والے درجات اپنے اس بندے کے لیے اور اس کا دوزخ والا ٹھکانہ تیرے لیے طے کر دیا ہے۔

Flag Counter