Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1436ھ

ہ رسالہ

9 - 16
امامت کا منصب اور امام

ضبط وترتیب :مفتی احمد خان
	
حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ کا یہ بیان فضلاء جامعہ فاروقیہ سے اس فکر کی عکاسی کرتا ہے جس کا اظہار اجتماعی وانفرادی مجالس میں حضرت ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں کہ ایک عالمِ دین کو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے نائب وخلیفہ ہونے کی حیثیت سے امت کے ساتھ کیا رویہ رکھنا چاہیے اور کس طرح معاملہ اختیار کرنا چاہیے… اسی فکر کی ایک کڑی مختلف علاقوں کی سطح پر جوڑ واجتماع کا انعقاد ہے … جن میں ایک طویل محنت اور دور دراز کے اسفار کے بعد… ساتھیوں میں یہ درد اور فکر بیدار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ استاد محترم نے یہ بیان اسی طرح ایک جوڑ کے موقع پر فرمایا…… جو اندرون سندھ کے شہرواڈکی، سانگھڑ میں منعقد ہوا… بیان بہت عمدہ اور مفید تھا… افادہٴ عام کی نیت سے قارئین کے سامنے پیش کیا جارہا ہے۔ (ادارہ)

دین کاایک اہم شعبہ مسجد ہے۔ خوب اچھی طرح یاد رکھیے کہ وہ حضرات جو امامت کے منصب پر فائز ہیں وہ بہت بڑی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ اسلیے سب سے پہلے تو دل اس حوالے سے صاف اور شفاف ہو کہ میں کوئی چھوٹا کام کررہا ہوں۔ اس میں کوئی ہلکی سی بھی آلودگی نہ ہو کہ مجھے کوئی کام نہیں ملا، میں ڈاکٹر نہیں بن سکا،میں انجینئر نہیں بن سکا،میں تاجر نہیں بن سکا،میں فلاں اور فلاں دنیا کے کام نہیں کر سکا تو اب مجبوری میں رہ گئی ہے مسجد، اس لیے میں مسجد کا امام ہوں۔ اگر خدا نہ خواستہ دل میں اس طرح کا کوئی خیال ہے تو آپ اپنے منصب کے ساتھ بہت بڑا ظلم کر رہے ہیں۔ یاد رکھیے، آپ صلی اللہ علیہ کا ایک بہت بڑا تعارف یہ ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم امام تھے۔ آپ صلى الله عليه وسلم نہ صرف یہ کہ امام تھے بلکہ آپ تو امام الانبیاء تھے،امام الرسل تھے۔ آپ نے وہ حدیث پڑھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے چلا نہیں جا رہا، صحابہ کرام آپ کو سہارا دے رہے ہیں اور آپ کے پیر زمین پر گھسٹ رہے ہیں۔ پھر بھی آپ نے امامت فرمائی۔ آپ نے یہ بھی پڑھا ہے تفصیل سے پڑھا ہے، اور اس میں علمی اختلاف ہیں کہ بیٹھ کر کوئی آدمی امامت کر سکتا ہے یا نہیں،یعنی اس کے مقتدی کھڑے ہوں اور امام بیٹھا ہوا ہو۔ تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ کیفیت بھی آئی کہ بیٹھ کر بھی امامت فرمائی ہے ۔

امامت کو معمولی نہ سمجھئے
امامت کوئی چھوٹا منصب نہیں ہے۔امامت تو بہت بڑا منصب ہے، بشرطیکہ ہم اس کی اہمیت سے واقف ہوں۔ یاد رکھیے، اگر آپ مسجد کے امام ہوں اور زندہ امام ہوں۔ بہت سے لوگ مردہ امام ہوتے ہیں۔ وہ محراب کے دروازے سے عین اقامت کے وقت آتے ہیں اور سلام پھیر کر پھر اسی محراب کے دروازے سے نکل جاتے ہیں۔ انھیں یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کے پیچھے نماز پڑھنے والا کون کون ہے۔ بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ شیطان انھیں بہکاتا ہے اور اس میں وہ اپنی شان سمجھتے ہیں کہ ہم تو بڑے آدمی ہیں۔ میرے دوستو، یہ بہت بڑا دھوکا ہے۔

سب سے پہلی بات تو یہ کہ امامت کے منصب کو ہم سمجھیں کہ امامت کا منصب کوئی معمولی منصب نہیں، بہت بڑا منصب ہے۔ وہ منصب ہے جو سرورکائنات جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار فرمایا۔ حضرت ِصدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیا گیا، آپ نے اختیار فرمایا۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو شہیدِ محراب ہیں۔ آپ کی شہادت کا واقعہ کہاں پیش آیا؟ امامت کرتے ہوئے ،نماز پڑھاتے ہوئے۔ اس لیے امامت کو معمولی نہ سمجھئے۔

برِصغیر میں چونکہ انگریز حاکم اور قابض رہا ہے، اس نے ایک سازش کے تحت، اس پورے خطے میں امام کے منصب کو ایک بہت گھٹیا منصب کے طور پر مسلمانوں کے سامنے پیش کیا۔ آپ حیران ہوں گے کہ باقا عدہ سرکاری کھاتوں اور کاغذات میں جہاں مختلف ذاتوں کا، مختلف منصبوں کا ذکر ہے انھی میں، اس انگریز نے امام کو امامت کو” کمیوں“ کے منصب میں شامل کیا ہے۔ (اللہ تعالیٰ ہمیں معاف فرمائیں کہ یہ الفاظ نقل کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔) یہ باقاعدہ ایک سازش ہے۔ چنانچہ عوام میں اس بات کو پھیلا یا گیا۔ مسجد بھی نہیں کہتے، ”میت“ کہہ دیتے ہیں۔ امام کو بھی اس طرح سے پیش کیا جاتا اور معاملہ کیا جاتا ہے جیسے کہ وہ ہم میں سے نہیں ہیں بلکہ بہت نچلے درجے کے لوگ ہیں۔

جب کہ آپ کو یہ معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ بھی امام تھے اور ایسے امام کہ آپ بیماری کے آخری مرحلے میں ہیں، تب بھی امامت فرمارہے ہیں۔ پھرحضرت ِصدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ امامت نے فرمائی۔حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے امامت فرمائی۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ذوالنورین نے امامت فرمائی۔ حضرت علی کر م اللہ وجہہ ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امامت فرمائی۔

اس لیے امامت کا منصب بہت بڑا منصب ہے۔ یہ عظمت اور اہمیت پہلے ہمارے دل میںآ ئے، ہم تردد اور شک کی کیفیت سے اپنے آپ کو نکالیں کہ کاش میں ڈاکٹر ہوتا، کاش میں انجینئر ہوتا، کاش میں تاجر ہوتا، کاش میں زمیندار ہوتا۔ اگر خدا نہ خواستہ ،خدا نہ خواستہ اس کیفیت کے ساتھ کوئی امامت کررہا ہے تو وہ امامت کے نہایت مبارک منصب پر ایک بہت بد نما داغ اور دھبا ہے۔ اسے امامت نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن اگر امام واقعی اپنے آپ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وارث سمجھ کر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب سمجھ کر اس جگہ کھڑا ہوتا ہے تو پھر اس کا مقام بہت بلند ہے۔

مُردہ امام - زندہ امام
مردہ امام تو وہ ہے جس بیچارے کو اپنے نمازیوں کا پتا ہی نہ ہو اور میں نے عرض کیا کہ شیطان وہاں پر دھوکا دیتا ہے۔ لیکن، امام جو ”زندہ امام“ ہے اس کی شان تو یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے مسجد میں آئے، مسجد میں آنے والا سب سے پہلا آدمی کون ہونا چاہیے؟ امام ہونا چاہیے۔ زندہ امام وہ ہے جو مسجد سے سب سے آخر میں نکلے۔

یاد رکھیے گا، امام کی حیثیت سے سب سے پہلے مسجد میں آنے کا اہتمام فرمائیں؛ سب سے آخر میں مسجد سے جانے کا اہتمام فرمائیں۔ مسجد میں جب تک آپ موجود ہیں، بیٹھے ہوئے یا کھڑے ہوئے یا چلتے ہوئے، اگر آپ سے کوئی ملے تو آپ بہت خندہ پیشانی سے ملیں۔ آپ اپنے چہرے کو بہت خندہ پیشانی کے ساتھ، مسکراتے رہنے کا اہتمام کریں تاکہ اسے ہمت ہو،اور وہ آپ سے اگر کوئی بات کرنا چاہے تو کر سکے۔ اگر آپ نے اپنا چہرہ کوسُتا ہوا، کھچا ہوا بنایا ہوا ہے تو وہ سائل بے چارا ڈر جائے گا کہ پتانہیں، مولانا سے میں کوئی بات کرسکتا ہوں یا نہیں۔ اس لیے زندہ امام کی حیثیت سے بشاشت اور خوش روئی کے ساتھ آپ ملاقات کریں۔ یہی سنت ہے۔ بشاشت،خوش روئی،اور مسکراہٹ کے ساتھ ملنا ہی سنت ہے۔

وہ آپ سے ہاتھ ملائے تو سنت یہ ہے کہ وہ چونکہ آپ کا مقتدی ہے، آپ اس وقت تک اپنا ہاتھ نہ چھڑائیں جب تک کہ وہ مقتدی ہاتھ نہ چھڑالے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مصافحہ کرنے کے بعد اپنا ہاتھ سے اس وقت تک نہ چھڑاتے تھے، جب تک کہ وہ اپنا ہاتھ خود نہ ہٹالے۔ یہ سنت ہے۔ وہ اپنا ہاتھ اگر چھڑانا چاہے تو چھڑالے، آپ نہ چھڑائیں۔ اس کے بعد آپ کا مسجد میں حجرہ ہے، آپ اسے دعوت دیں کہ آیئے میرے ساتھ کمرے میں تشریف لائیں۔ ہاتھ پکڑے پکڑے لے جائیے۔خوش روئی کے ساتھ ملیے۔ مصافحے میں ہاتھ نہیں چھڑایا اورپھر ساتھ ہی اسے اپنے حجرے میں آنے کی دعوت دی، پھر وہاں جا کر، پانی یا جو بھی میسر ہے، خود اسے پیش کیا۔

اگر آپ بہت چھوٹے پسماندہ گاؤں میں ہیں،آپ کی مسجد چھوٹی سی ہے، آپ کے پاس وسائل نہیں ہیں تو بھی کوئی فکر کی بات نہیں۔ آپ ایک گھڑایاایک صراحی تو کمرے میں رکھ سکتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کمرے میں کیا فریج رکھا تھا؟ تو پھر کیا تھا؟ گھڑا تھا۔ اس گھڑے سے آپ خود پانی لے کرکٹورے، گلاس میں اس ساتھی کو پیش کریں۔ آپ یقین کیجیے کہ آپ نے اگر ایسا کرلیا تو اپنے مقتدی کو آپ نے فتح کر لیا۔ اگر آپ کے پاس چھوہارے ہیں،کھجوریں ہیں، کچھ ٹوٹے ہوئے بسکٹ ہیں، چنے ہیں․․․کوئی ضروری نہیں کہ وہاں قورمہ اور بریانی ہو․․․یہ تھوڑی سی چیزیں اپنے پاس رکھیں، تھوڑے سے چنے پیش کر دیں، ٹوٹا ہوا بسکٹ پیش کردیا، کھجور پیش کردی، آپ اس آدمی کے فاتح ہیں،آپ نے اسے فتح کرلیا۔ اب اس نے آپ سے کوئی مسئلہ پوچھا، آپ نے مسئلہ بتا دیا۔

آپ یقین کریں کہ یہ آدمی اب یہاں سے جائے گا اور جہاں جہاں جائے گا، جس جس کے پاس جائے گا، آپ کا تذکرہ کرے گا۔ کیا بات ہے ہمارے امام صاحب کی! اتنے با اخلاق ہیں، اس طرح ملے، ایسے مصافحہ کیا، ایسے ہاتھ پکڑکر کمرے میں لے گئے، اپنے ہاتھ سے مجھے پانی پلایا، اپنے ہاتھ سے مجھے چنے کھلائے، میں نے مسئلہ پوچھا، انہوں نے مجھے پوری توجہ کے ساتھ میرا مسئلہ مجھے بتا یا۔ اب یہ دولوگوں کو بتائے گا، چار کو بتائے گا، آٹھ کوبتائے گا،گھروں میں بتائے گا ،دکانوں میں بتائے گا،ہر جگہ بتا ئے گا۔ اور سب کے ساتھ چونکہ آپ کو ایساہی کرنا ہے تو یہ سب آپ کے ساتھ عقیدت کے تعلق میں جڑتے چلے جائیں گے۔

خوب یاد رکھیئے، اگر آپ کی مسجد خواہ وہ چھوٹے سے گاؤں میں ہو،چاہے وہ قصبہ میں ہو، چاہے وہ شہر میں ہو، کہیں پر بھی ہو،اگر آپ نے امامت کو امامت کے انداز میں اختیار کیا تو یہ سارے کے سارے آپ کے نمازی،یہ آپ کے پیچھے نماز پڑھنے والے، گاوٴں اور محلے کے لوگ، یہ سب آپ کے معتقد ہو جائیں گے۔اور یہ تعلق اور یہ محبت ،اور یہ عقیدت ،یہ آہستہ آہستہ بڑھے گی۔ اور امامت کا انداز و ہی چلے گا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا۔

دین عقیدت سے آتا ہے
خوب یاد رکھیے کہ دین عقیدت کے راستے سے آئے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ کوجس نے بھی ایمان کی حالت میں ایک مرتبہ دیکھ لیا، وہ صحابی ہو گیا۔ صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے عقیدت مند تھے کہ قیامت تک اُن کی عقیدت کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔وہ عقیدت پیدا ہونی چاہیے ،وہ محبت پیدا ہونی چاہیے ،وہ تعلق پیدا ہونا چاہیے۔ چنانچہ اس کا نتیجہ کیا تھا؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا پانی زمین پر گر پاتا تھا؟ کیا آپ کے منھ کا تھوک یا لعاب زمین پہ گر پاتا تھا؟ نہیں!آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اشاروں پر یہ صحابہ کرام اپنی گردنیں کٹوانے کیلیے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ یہ سب کیا ہے؟

یہ سب سبق ہے اس کا کہ آپ کے محلے یا گاؤں میں، کہیں فوتگی ہوجائے تو سب سے پہلے آپ وہاں کھڑے ہوں۔ سارا نتظام آپ کراکر دیں۔ کہیں خوشی ہو، سب سے پہلے آپ کھڑے ہو ں۔ کہیں کوئی بیمار ہو، سب سے پہلے عیادت کرنے والے اور اس کی تیمارداری کرنے والے آپ ہوں۔ چنانچہ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب یہ عقیدت پیدا ہو جاتی ہے تو وہ آدمی امام صاحب سے اپنی عقیدت کے باعث بچی کا رشتہ کرنے کیلیے مشورہ امام سے کرتا ہے، حالانکہ اما م کا اس رشتے سے کیا تعلق ہے، نہ امام اِس خاندان کا، نہ اُس خاندان کا، لیکن وہ مر د بھی کہتے ہیں کہ امام صاحب سے مشورہ کریں گے، گھر کی عورتیں بھی کہتی ہیں کہ جاؤ جا کر مولانا سے پوچھ لو، وہ جب تک نہیں کہہ دیں گے، ہم قدم نہیں اٹھائیں گے۔

یہ کیا ہے؟
یہ وہ عقیدت ہے کہ بازار میں، دکان میں بھی․․․ آپ کا دکان سے کیا تعلق، آپ کا تجارت سے کیا تعلق، لیکن وہ آئے گا امام صاحب کے پاس۔امام صاحب مجھے آپ سے دکان کے بارے میں پوچھنا ہے۔فلاں دکان ہے، میں لوں یا نہ لوں،یہ معاملات ہیں، بتائیے کیا کروں۔ وجہ کیا ہے؟ وہ یہ جانتے ہیں کہ یہ امام ہمیں جو مشورہ دے گا، سو فیصد ہمارے ہی فائدے کا ہوگا۔

اس لیے میری گزارش ہے، درخواست ہے کہ ہم زندہ امام بنیں۔ ہم چاہے چھوٹے سے گوٹھ، گاؤں، قصبے میں کام کرتے ہوں، ہم ہر گز یہ نہ سمجھیں کہ ہم تو صرف امام ہیں،ہماری تو چھوٹی سی مسجد ہے، ہم یہاں کیسے کام کریں گے۔ نہیں! آپ وہیں سے بڑے بڑے کام کریں گے اور آپ کا کام بڑھے گا۔ آپ کا کا م ترقی کرے گا۔ آپ کی وہ چھوٹی سی مسجد، اب چھوٹی سی نہیں رہے گی۔ آپ کا وہ چھوٹا سا مدرسہ، چھوٹا سا نہیں رہے گا۔ آپ کا فیض بہت دور دور تک پھیلے گا، بشر طیکہ آپ نے ان آداب کی رعایت کی ہو اور ان باتوں کا خیال رکھا ہو۔

دوسری چیز جو مسجد سے متعلق ہے، وہ مکتب ہے۔ آ ج اگر ہم کہیں مکتب میں پڑھاتے ہوں تو اپنا تعارف کراتے ہوئے شرم آتی ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ ہم نے خود ہی اس مکتب کو تسلیم نہیں کیا۔ مجبوری میں پڑھارہے ہیں۔ ہاں، اگرکہیں مرقاة، تیسیر المنطق یا اور کوئی کتاب پڑھاتے ہوں تو فخر سے بتاتے ہیں۔ میرے دوستو، یہ ہمارے اپنے ”اندر“ کا قصور ہے۔ہمارے تمام اکابر مکتب کے حوالے سے بہت خوب سوچتے تھے۔ حضرت میاں جی نور محمد نور الله مرقدہ کے حالات کا مطالعہ کیجیے۔ حضرت شیخ الہند رحمةاللہ علیہ کے آپ حالات پڑھئے۔ ان میں آپ کے سامنے بار بار یہ بات آئیگی ،حتیٰ کہ حضرت شیخ الہند رحمةاللہ علیہ نے تو اسارتِ مالٹا کے بعد جو ہندوستان کے علماء سے خطاب فرمایا ہے، اس میں بھی اس کو بہت تاکید کے ساتھ ذکر فرمایاہے کہ قرآنی مکاتب کا اہتمام کریں۔

یہ مکتب معمولی چیز نہیں ہے۔ آپ اسے ہر گز معمولی نہ سمجھیں۔ اس میں جو چھوٹے چھوٹے معصوم بچے اور بچیاں آتی ہیں، یہ خالی تختی ہیں۔ اس پر آپ جو لکھ دیں گے، وہ بچہ کبھی نہ بھولے گا۔ ساری زندگی وہی یاد رکھیں گے۔ میں اس طرح کے تقریباً ہر مذاکرے میں یہ بات کہا کرتا ہوں کہ میں نے مکتب میں پڑھا، میرے مکتب کے استاد نے جو دعائیں مجھے سکھائیں، اتنی طویل زندگی گزر گئی ہے، پتا نہیں کیا چیزیں پڑھی ہیں اور پڑھائی ہیں، لیکن میری عملی زندگی میں آج بھی وہی دعائیں ہیں جو میرے مکتب کے استاد نے مجھے سکھائی تھیں۔ مسجد میں داخل ہونے کی دعا، مسجد سے باہر نکلنے کی دعا، دودھ پینے کے بعد کی دعا، کھانا ختم کرنے کی دعا، بیت الخلاء جانے کی دعا، بیت الخلا ء سے باہر نکلنے کی دعا، آئینہ دیکھنے کی دعا۔ وہ ساری دعائیں یاد ہیں جو مکتب کے استاد نے سکھائی تھیں۔ لہٰذا، مکتب کے استاد کو معمولی نہ سمجھیں۔ مکتب پر بہت زیادہ توجہ دیجیے اور اس کا بہت اہتمام کیجیے۔

ہمارے ہاں عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ محلے یاکمیٹی والے تنخواہوں کی مد میں بہت بخیل ہوتے ہیں، خرچ نہیں کرتے۔ چنانچہ وہ باقاعدہ کوئی استاد رکھنے کی بجائے امام صاحب یا مؤذن صاحب یا خادم صاحب سے کہتے ہیں کہ بھئی، یہ ظہر کے بعد بچے آتے ہیں ذرا انھیں بھی دیکھ لینا۔ ہمیں اس پر غصہ آتا ہے اور کہتے ہیں کہ ہر مرض کا علاج ہمیں ہی بنالیا گیا ہے۔ چنانچہ ہم بھی بچوں کے ساتھ وہ ہی سلوک کرتے ہیں۔ اب بچے جمع ہو گئے تو ہم نے ایک لاٹھی اٹھائی اور وہ تپائی پر مار رہے ہیں، بچے بھاگ رہے ہیں، یہ کر رہے ہیں، وہ کر رہے ہیں۔ ایک گھنٹہ یا آدھا گھنٹہ گزر گیا اور پھر چھٹی ہو گئی، چلو!

ہم اللہ کے بندے ہیں
یاد رکھیے، ہم کسی کے ملازم نہیں ہیں۔ ہم تو اللہ کے بندے ہیں۔ ہمیں تو یہ کام پوری دیانت داری کے ساتھ کرنا ہے۔ ان میں سے ہر ہر بچے اور بچی پر محنت کرنی ہے اور ہمیں ان کو جیسے ا،ب،ت،ث،سکھانا ہے، اس کا تلفظ درس کرانا ہے اورا ن کے مخارج درست کرانے ہیں، ایسے ہی ایک بہت دین دار بچہ اور ایک بہت دین دار بچی بنانا ہے۔

مسجد اور مکتب پر محنت کا نتیجہ
میری یہ بات بھی یاد رکھیے گا کہ اگر آپ نے مسجدپر محنت کی تو مہینوں میں نہیں، دنوں میں آپ کی مسجد کی حاضری کہیں سے کہیں ہو جائے گی۔ نمازی دور دور سے آئیں گے، دوسری مسجد یں چھوڑ چھوڑ کر آپ کی مسجد میں آئیں گے۔ اسی طرح، آپ نے مکتب پر محنت کی اورواقعتہً آپ نے دیانت داری کے ساتھ محنت کی توآپ دیکھ لیجیے گا کہ آپ کا مکتب دیکھتے ہی دیکھتے تیزی کے ساتھ ترقی کرے گا۔ اس لیے کہ وہ خبریں گھروں میں جائیں گی،بچی جا کر سلام کرے گی، بچی جاکر ماں سے کہے گی کہ آئینہ دیکھنے کی دعا یہ ہے، بیت الخلا جانے کی دعا یہ ہے، تو کیا ماں پر اثر ہوگا یا نہیں ہوگا؟ ہوگا! پھر، ماں کے پاس پڑوسن آئے گی، وہ اِدھر کی اُدھر کی کہے گی اور یہ بھی بتائے گی کہ میری بچی تو مسجد جا رہی ہے، ماشاء اللہ قرآن بھی اتنا اچھا ہو رہا ہے، نماز بھی اتنی اچھی ہو رہی ہے،دعائیں بھی اتنی اچھی ہو رہی ہیں، وہ جو پڑوسنیں سنیں گی تو کیا کہیں گی؟ ہماری بچی بھی وہیں جانی چاہیے، پرانی جگہ سے ہٹاؤ، وہاں تو ایک سال ہوگیا کچھ بھی نہیں آیا۔ جو نئے مولانا صاحب آئے ہیں، یہاں کام ہوتا ہے، یہاں بھیجو۔ چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے ہی آپ کا مکتب ترقی کرے گا۔ آپ کی مسجد ترقی کرے گی۔

میری گزارش اور درخواست ہے کہ مکتب کو کبھی بھی معمولی نہ سمجھئے۔(جاری ہے)

Flag Counter