Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1436ھ

ہ رسالہ

5 - 16
زندگی کی ترتیب کو بدلو!
حضرت جی مولانا محمدیوسف کاندھلوی کا ایک بیان

ضبط وترتیب :مولانا محمد یحییٰ مدنیؒ

حق تعالیٰ نے دنیا وآخرت کی کامیابی حاصل کرنے کیلیے اپنا علم عطا فرمایا، جو خالق اور مالک و قادر ہونے کے اعتبار سے الله تعالیٰ جانتے ہیں۔ جبکہ جو انسان جانتے ہیں، وہ جہالت ہے۔

جہالت کی دواقسام
جہالت کی دو قسمیں ہیں:
1..  نہ جاننا
2..غلط جاننا
اب یہ تاجر اپنی محنت سے مال ملنا ممکن سمجھتے ہیں، حالانکہ مال الله دیتے ہیں، الله کھیتی اُگاتے ہیں اور یہ کھیتی والے اپنی محنت سے کھیتی او رکھیتی سے پرورش جانتے ہیں، یہ جہالت ہے۔ اب زندگی جتنی جہالت پر ہو گی، اتنی ہی پریشانیوں کا سبب ہو گی۔

انسان کے اور خدا کے علم کی تفریق یہ ہے کہ انسان کام یابیاں چیزوں میں سمجھتے ہیں اور خدا تعالیٰ کام یابیاں اعمال میں بتا رہے ہیں۔ اس لیے علم حاصل کرو اور علم کے مطابق یقین اور عمل بناؤ، تب کامیابیاں ملیں گی۔

امام غزالی رحمہ الله کا واقعہ
امام غزالی رحمہ الله کا واقعہ سنا ہو گا کہ آٹھ دس سال تک علم پڑھا اور تقاریر لکھیں۔ واپسی پر ڈاکوؤں نے ڈاکا ڈالا، جس میں یہ لکھی ہوئی تقاریر تھیں، چوری ہوگئیں۔ امام غزالی رحمہ الله ڈاکوؤں کے سردار سے وہ تقاریر واپس مانگنے گئے۔ ڈاکوؤں کے سردار نے صندوق تو واپس کر دیا او رکہا کہ صاحب زادے، تم نے وہ علم حاصل کیا جو چوری ہو گیا؟ اس بات کا اُن پرایسا اثر ہوا کہ ساری کاپیاں پھاڑ ڈالیں اور کہا کہ اب وہ علم حاصل کروں گا، جو چوری نہ ہوسکے۔ پہاڑوں میں جاکر پڑگئے اور اعمال واخلاق کی محنت کی۔ پھر اُن کے اندر سے علوم نکلے او رانہوں نے ”احیاء العلوم“ لکھی جس میں انھوں نے اندرکی باتیں لکھیں کہ جھوٹ، زنا کے اندر کیا ہوتا ہے؟ اس زمانے کے علماء خلاف ہو گئے، یہاں تک کہ کفر تک کے فتوے لگ گئے۔ جب بہت لے دے ہونے لگی، امام غزالی ایک طرف اور تمام علماء دوسری طرف ہو گئے تو کسی نے خواب میں دیکھا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم اور سارے علماء بیٹھے ہیں۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”غزالی سچ کہتا ہے ۔“ اب یہ سارے علماء امام غزالی رحمہ الله کے قدموں میں آگئے۔

محنت کے دو راستے
دو راستے ہیں: ایک تو ہے کائنات سے فائدہ حاصل کرنا؛ رمضان کا مہینہ بونے کا ہے۔ یہ مہینے بدلتے نہیں۔ یہ تو کائنات کے اعتبار سے ہیں۔ دوسرا یہ کہ خدا بغیر کمائے، پالیں او ربغیر لڑائی کے فتح دے دیں۔ خدا کی یہ قدرت ہے کہ پتھر میں سے اونٹ اور زمین پھاڑ کر پانی نکال دیں۔ اب اگر خدا کی یہ قدرت ہے تو یہ خالی بول نہیں ہے، بلکہ اس پر چلنے کا راستہ ہے۔ بالکل تمہاری کھیتی، سونے چاندی کے مقابلے کا راستہ۔ چنانچہ جو چیزوں کیلیے محنت کرے گا، وہ تو تابع بن کر چلے گا۔

کیا تم یوں سمجھتے ہو کہ پبلک تابع ہے؟ نہیں، حکومت زیادہ تابع ہے عوام کے۔ بہت سی جگہ یوں انصاف نہیں کرتے کہ پبلک ہماری خفا ہو جائے گی اور ہماری حکومت جاتی رہے گی ۔ ( اس راستے میں چلنے والا گویا ایسا ہے کہ) کولہو کے بیل کی طرح صبح سے شام چلتا رہے گا اور آنکھ پر پٹی بندھی رہے گی اور یوں سمجھے گا کہ بمبئی پہنچ جانے والا ہوں۔ شام کو آنکھ کھولے گا تو پتا چلے گا کہ وہیں موجود تھا کہ جہاں سے چلا تھا۔ اس راستے میں محنت زیادہ کرنی پڑتی ہے او رملتا بہت تھوڑا ہے۔

ایک دوسرا نظام ہے، یعنی قدرت سے فائدہ حاصل کرنا۔ اس کیلیے روزانہ کی نماز رکھ دی۔ پہلا مقابلہ تو سورج سے رکھ دیا۔ کمائی یوں کہے گی کہ یہاں آجا اور سوج کہے گا کہ نماز کا وقت ہے، نماز پڑھ او رپھر ہاتھ پھیلا کر خدا سے مانگ۔

اب روزمرہ تو سورج سے مقابلہ کرا دیا۔ اب قدرت سے فائدہ جب ہوتا ہے کہ جب آدمی کائنات کا مقابلہ کرتا ہے۔ اب یہ بھی ضروری ہے کہ روزانہ کی ترتیب سے نماز میں اس طرح لگے کہ اس کا علم بھی سیکھا جائے۔ اس نماز میں تمہارا دھیان، خشوع وخضوع بڑھ رہا ہو ۔

نیز، ایمان دیکھنے کیلیے، اس کی مشق کیلیے کچھ وقت دو کہ چیزوں سے نہیں، بلکہ خدا کی قدرت سے ہوتا ہے ۔ محمد صلی الله علیہ وسلم کے اعمال کو اختیا رکرکے دعا مانگنے سے ہوتا ہے۔ کلمے کی باتیں روز کرو، جتنے بڑھیا بننا چاہتے ہو اتنی روزانہ تعلیم کر واور روز ذکرکرو۔ اب چاہے لوگ پارلیمان کے ممبر بننا دکھا رہے ہوں، لیکن تم تمام اعمال کو مسجد میں کرو۔ یہ بڑا مقابلہ ہو گا کبھی دوائی سے، کبھی ممبری سے وغیرہ۔

کوئی کچھ کہے، ہم تو بھئی خدا کی قدرت سے لینے کی فکر کے آدمی ہیں۔ روزانہ ان اعمال کو مسجد میں اتنا کرو جتنا تم حوادث عالم سے محفوظ رہنا چاہتے ہو۔ جتنا تمہارا باہر وقت کم لگے گا، مسجد میں زیادہ لگے گا، اتنا ہی زیادہ مال اور راحت وآرام پاؤ گے۔ مسجد کے اعمال میں جتنا تمہارا وقت زیادہ، اتنا ہی تم کام یاب ہو ۔ یہی حی علی الصلوٰة، علی الفلاح سے مراد ہے۔

نماز کی درستگی کا دھیان
نماز کی طرف بلانے کا مطلب یہ ہے کہ نماز سے متعلق جتنی چیزیں بھی ہیں ان سب کی طرف بلایا ہے۔ یہ نہیں کہ مؤذن کی آواز سن کر مسجد کی طرف بھاگا اور راستے میں ہوا سرکتی جارہی ہے، پھر بغیر وضو کے نیت باندھ لی تو بھئی، تمہاری نماز نہ ہو گی۔ بغیر وضو کے نماز نہیں ہوتی۔ نماز کی طرف بلایا گیا ہے تو خالی رکوع، سجدہ یا قعدہ کرنے کیلیے نہیں بلایا۔ اب خالی نماز نہیں، بلکہ اس میں نماز کیلیے طہارت، جسم اور کپڑے پاک کرنا، وضو کرنا اور دل میں پاکیزگی و تقویٰ کا پیدا ہونا، الله کا دھیان پیدا ہونا اور خشوع وخضوع کا پیدا ہونا، سب کچھ داخل ہے۔ ان تمام چیزوں کے اہتمام سے نماز ہوگی اور خدا پھر تمہارے لیے امداد کے دروازے کھولے گا۔ جس طرح حضرت موسی علیہ السلام کے لیے دریا میں سے راستہ اور نوح علیہ السلام کے لیے اقلیت میں کام یابی کا دروازہ کھلا۔ اسی طرح، قیامت تک کے انسانوں کیلیے کام یابی کے دروازے کھلیں گے۔

دجال اور یاجوج ماجوج کا فتنہ
دجال آئے گا، ابھی تو وسائط سے کام یابی حاصل کرنے کی سعی ہے، مصنوعی بارش کرتے ہیں، اگر سارے سائنس دانوں کو جمع کرکے یوں کہو کہ اپنے حکم سے بارش کرکے دکھاؤ تو یہ نہ کر سکیں گے۔ دجال اپنے حکم سے بارش کرکے دکھلائے گا اور زمین میں سے غلہ اور سونا نکال کر دکھائے گا۔ وہ ایک بستی والوں سے پوچھے گا کہ تم مجھ کو خدا مانتے ہو ؟وہ کہیں گے نہیں۔ تو ساری کھیتیاں خشک ہو کر کانٹا ہو جائیں گی اور دوسرے بستی والے کہیں گے کہ ہاں، تو ہی تو خدا ہے، تو ساری خشک کھیتیاں ہر ی بھری ہو جائیں گی۔ ابھی تو کفر کی طاقت یہاں تک پہنچی ہے، لیکن دجال جیسی طاقت رکھنے والا امام مہدی رحمہ الله کو دیکھ کر پگھلتا چلا جائے گا او ربالکل ختم ہو جائے گا۔ امام مہدی رحمہ الله قرآن کے مطابق احکام دیں گے۔ وہ دجال مکہ میں غیبی فرشتوں کے نظام کی وجہ سے اندر نہ داخل ہو سکے گا۔ مدینہ میں بھی نہ گھس سکے گا۔ پھر زلزلہ آئے گا او رکچھ ایمان والے مکہ مدینہ سے باہر نکل کر دجال سے مل جائیں گے۔ پھر خدا کی قدرت سے یہ دجال ختم ہو گا۔

اس کے بعد یاجوج ماجوج نکلیں گے اور یہ لوگوں کو کچے کھا جائیں گے، جیسے تم امرود کھا جاتے ہو۔ ا س کا ایک چلہ گزرے گا۔ حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی امت پہاڑوں میں کلمہ سوئم پڑھ کر پیٹ بھرے گی، سارے مشرکین کو وہ کھا جائیں گے۔ پھر الله تعالیٰ ایک بیماری بھیجیں گے اور یہ سب ختم ہو جائیں گے اور ان سے بدبو اٹھے گی اور پھر الله بارش لا کر ساری زمینوں کو صاف کردیں گے۔ پھر ایمان والے، جن کی نمازوں اور تسبیح پر یہ قوم بھی ختم ہو جائے گی، آکر پہاڑوں سے پھر دنیا میں بس جائیں گے۔ قدرت سے چمکنا تو قیامت تک ہو گا۔ کمزوروں کا تو یوں چمکنا ہو گا، یہ قیامت تک ہوگا۔ اب ہمارے پاس محنت کرکے قدرت سے فائدہ حاصل کرنے کا وقت ہے۔

چیزوں کا یقین توڑ کر قدرت سے حاصل کرنے کا یقین
اب مسجد کی آواز ہے، چیزوں سے ہونے کا یقین توڑ اور یہاں آ۔ قدرت سے فائدہ حاصل کرنے کا یقین بنا اور اپنے اعمال محمد صلی الله علیہ وسلم کے طریقے والے بنا کر، ہاتھ اٹھا کر، خدا سے مانگ۔ پھر جوتو مانگے گا، خدا اپنی قدرت سے وہ کریں گے۔ اب روزانہ کا مشاہدہ تو یہ ہے کہ تاجر کا اپنی دکان اورگھر سے ہے، کھیتی والے کا زمین، بھینس ، بیل وغیرہ سے ہے۔ اس کے مقابل مسجد کی آواز ہے کہ اپنی کھیتی اور دکان کی محنت کو چھوڑ، چیزوں سے کیا ہوتا ہے ؟ کیا تونے فرعون اور قارون کا حال نہ پڑھا؟ مال سے قارون کا کیا بنا؟ تو محنت کرکے اپنے اعمال ٹھیک کرلے۔

اب محنت تو کرے شیطان بننے کی اور کام اٹکے تو کسی بزرگ سے دعا کرانے چلے۔ ارے تجھے تو خدا نے خود بزرگ بننے کیلیے بنایا ہے، تو کیوں شیطان بننے کی محنت کر رہا ہے؟ اب ولیوں کے تو ڈھول پیٹے اور اگر تیرا اپنا لڑکا ولی بننے کی محنت کرے تو تو جان کو آجائے کہ تو کیوں ولی بننے کے پیچھے پڑ گیا کہ سارا خاندان تو شیطان بننے کی محنت کر رہا ہے، پھر تو زور باندھ کر کیوں فقیر یا ولی بننے کی محنت کرنے لگا؟ لیکن، سن لو کہ خدا نے تمھارے لیے ولی ہونے کا دروازہ بند نہیں کیا۔

الله تعالیٰ جنتی کو پکاریں گے کہ اے الله کے ولی! اگر ولی نہ بنا تو تُو جنت میں نہ جائے گا۔ جنت شیطانوں کی جگہ نہیں ہے۔ وہ جنگل میں پڑے تو دنیا آج تک ان کے دستر خوان پر کھا رہی ہے او راگر تو ولی بننے کی سعی کرے تو کیا تیرے ایک گھر کی بھی زندگی نہ بنے گی؟ یہ جتنے پہلے ولی بنے ہیں، اپنے گھر سے نہیں، بلکہ خدا کی غلامی اور حضور صلی الله علیہ وسلم کے طریقوں سے ولی بنے ہیں۔ دیکھو، اگر ولی بننے کی محنت ابھی کر لی تو کرلی، ورنہ پھر آئندہ پر بات چلی جائے گی۔ اب اگر تو ان چار ماہ میں محنت کر لے تو تو ولی بن جائے گا، ورنہ تو شیطان رہ جائے گا اور جنت شیطانوں کیلیے نہیں، ولیوں کیلیے ہے۔

اب تو محنت کرکے کائنات کے راستے سے قدرت کی طرف آجا کہ میں نے تو محنت کرکے اپنی محنت کی ترتیب بدلنی ہے۔ اعمال ٹھیک کرکے خدا کی قدرت سے فائدہ حاصل کروں گا۔ میں قارون اور فرعون کا نائب نہیں بنوں گا۔ قارون کا نائب وہ ہے جو مال جمع کرنے کے چکر میں ہیں۔ جو حکومتوں کے چکر میں ہیں۔ وہ فرعونوں کے نائب ہیں۔ او رانبیاء کے نائب وہ ہیں جو دَر دَر خاک چھانیں اور لوگوں کو یہ کہتے پھریں کہ محنت کرکے اپنی نماز کو ٹھیک کرکے دعا مانگیں گے تو خدا ہمیں کام یاب کریں گے۔

نبیوں کی طرح کا انسان
اس لیے، اب تم کائنات کی چیزوں کی محنت پر تو لات مارو، اور عبادات کو ٹھیک کرکے دعا مانگ کر اپنے مسائل کو ٹھیک کر اکر ․․․ نبی تو نہیں بن سکتے․․․ لیکن نبی کی قسم کے آدمی بن جاؤ۔ جو نبیوں کی طرح کا بنے گا تو ان کی دعائیں نبیوں کی طرح قبول ہوں گی۔ الله تعالیٰ نے حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے ذریعے نبیوں کی قسم کے آدمیوں کے بننے کا دروازہ کھول دیا ہے۔ صرف اپنی نماز بنانا یہ تو اولیاء کی قسم ہے، باہر نکل گئے اور جنگلوں میں پڑ کر اپنا یقین او رنماز بنائی۔ پھر اِن کے یقین سے دوسروں میں یقین آتا ہے۔ جبکہ نبیوں والی قسم یہ ہے کہ نمازی بنانے کی محنت کی جائے۔ آواز لگاؤ۔ مجمع میں کود پڑو اور راکٹ سے لے کر چاند تک سے ہونے کی تردید کرو۔ مجمع میں گھس جاؤامریکا سے لے کر روس تک،پاکستان سے لے کر ترکی تک جتنے نقشے انسان بنا رہے ہیں، ان سب کے سوا صرف اللہ سے ہونے کی تصدیق کرو۔ یہ جتنے ظاہری نقشے ہیں، اگر اللہ چاہے تو سب تہس نہس ہوجائیں۔ اصل یہ ہے کہ جس نے محنت کرکے اپنا یقین قدرت والا بنا لیا او راعمال محمد صلی الله علیہ وسلم جیسے بنالیے وہی باقی رہے گا۔

اگر چار چھے گھنٹے کیلیے خدا نے جھٹکا دیا پوری زمین کو جس طرح جامن میں نمک ملا کر گھلا دیں تو صرف ایمان والے کا جھونپڑا باقی رہے گا اور باقی سب ختم۔ دنیا والے تو اس طرح بھاگیں گے جس طرح چوہا بلی کو دیکھ کر بھاگتا ہے اور یہ غریب ایمان والا نماز میں لگے گا اور دعا مانگے گا کہ اے الله! میرا جھونپڑا بچا دے۔ میں نے آج ہی کے دن کیلیے تو ایمان بنایا تھا۔

اگر تم یقین پر محنت کر لو تو یہ چیزیں جو میں کہہ رہا ہوں، الله کرکے دکھلائیں گے اور لوگ انہیں دیکھ دیکھ کر ہدایت کی طرف پلٹیں گے۔ یہ راستہ بہت پُرانا اور تجربہ شدہ ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ کھیتی کریں گے، غلہ ملے گا او رغلے سے پیٹ بھرے گا اور دوسرا یہ ہے کہ محنت کریں گے، عمل ٹھیک کرکے دعا مانگیں گے تو خدا اپنی قدرت سے زندگی بنائیں گے ۔ اس کیلیے چار ماہ ہیں۔

غیبی نصرت کے چند چشم دید واقعات
ایک مسافر راستہ بھولا ہوا، پیاس کے مارے بے ہوش ہو کر گرا۔ جب اٹھا تو گدھا کھڑا ہوا تھا۔اس پر پانی او رکھانا تھا۔ پانی پیا، کھانا کھایا، ساتھیوں کو پانی پلایا اور کھانا کھلایا۔ اب کہا راستہ بھو ل گئے، کچھ معلوم نہیں۔ اتنے میں گدھا چل پڑا اور یہ اس کے پیچھے چل دیے تو گدھے نے ایک راستہ پر انھیں ڈال دیا او رپھر خود ایک چھلانگ مار کر غائب ہو گیا۔

ابھی ایک ماہ کا واقعہ ہے کہ ایک جماعت مدینہ منورہ کے راستے میں پیدل چلی۔ پانی ختم ہو گیا۔ تیمم کرکے صلوٰة الحاجت پڑھی۔ پھر جماعت کا ایک آدمی ایک طرف گیا او رپتھر لے کر کھودا تو ایسی زمین سے جہاں اسّی اسّی ہاتھ پانی نیچے تھا، خدا نے تھوڑی دیر کھودنے پر میٹھا پانی نکال دیا۔ اب علاقے والوں نے کہا کہ یہاں اسّی نوے ہاتھ سے کم نیچے تو پانی نکلتا ہی نہیں ہے اورمیٹھا پانی تو اس علاقے میں کہیں ہے ہی نہیں، خدا نے تمہای دعا پر یہاں سے پانی نکال دیا۔ اسی طرح، اگر تم نے اپنے یقین و اعمال بنانے میں محنت کی تو تمہاری دعاؤں پر ترتیب عالم بدل سکتی ہے۔

اب اگر تم اول نمبر پر آنا چاہو تو ہر سال چار ماہ رمضان المبارک سے ذوالحجہ تک لگا دیا کرو، دوسرے درجے کا بنناچاہو تو ایک چلہ رمضان کا اورایک چلہ ذوالحجہ کا دے دیا کرو۔ درمیان میں کچھ گھر ہو آیا کرو۔ اب یہ نکلنا مقابلے کے ساتھ ہو گا تو خدا تمہارا یقین بنادے گا۔ اب تمہارا نقد نکلنا اس طرح ہو جائے کہ تمہارے نقد نکلنے اور چیزوں کے مقابلے میں نکلنے کی وجہ سے اورتمہاری محنت وقربانی کی وجہ سے خدا تمہیں یہ کہہ دیں گے کہ یہ ہمارا کام کرنے والا ہے، پھر خدا تمہاری سنیں گے۔

اپنا وزیر داخلہ وخارجہ، گھر کی عورتوں کوبنا رکھا ہے
اب یہ محنت کرنے کی ایک ترتیب تو یہودیوں کی سی ہے کہ خدا نے ان کے امتحان کیلیے منع کر دیا تھا کہ اس دن میں مچھلی نہ پکڑنا تواُس دن یہ گھڑے کھود آتے کہ مچھلیاں وہاں آکر جمع ہو جائیں اور دوسرے دن جاکر اٹھا لیتے کہ مچھلیاں بھی زیادہ آتیں اور خدا کا حکم بھی رہ جاتا، حالانکہ شکار تو انھوں نے کل ہی کیا تھا۔

اس انداز سے تو محنت والے نہ بنو گے۔ اب ایک تو ترتیب یہ ہے کہ منشی جی مولوی عبدالله جہاں چاہے، مجھے بھیج دو۔ اب ہر ایک کے پاس دس بارہ آدمی ہیں تو بھئی ہر نوں کی ڈار کی طرح تمہاری جماعتیں پورے ڈویژن میں پھریں گی۔ دوسری ترتیب یہ ہے کہ ہمیں وہاں بھیج دو جہاں آج تک جماعت نہ گئی ہو او رجہاں جماعت میں جانے کی ضرورت ہو۔ میری گزارش ہے کہ ان چار ماہ میں تو اسی طرح کر لو۔

میں تو یہ جانوں کہ تم نے وزیرداخلہ وخارجہ اپنی اپنی بیویوں کو بنا رکھا ہے۔ اب چاہے پورا قرآن سنا دو، زمین وآسمان کا بدلنا سنا دو، یہ کہہ دیں گے کہ نہیں بھئی۔ گھر والی نے ذرا ہنستے ہوئے یہ کہہ دیا کہ دیکھ، کسی کی باتوں میں نہ آجائیو اور بیس یوم میں آجائیو۔ اب یہ درمیان میں واپس جانے کی فکر میں ہیں اور پوچھو تو کہیں گے کہ گھر والی نے دس روپے دیے ہیں۔

ارے کم عقل، کمائے تو، گھر والی کون ہے پیسے دینے والی؟ بھینس کیلیے تو وہ کنی سونا نکال کر دے دے اور تبلیغ میں جاؤ تو صرف بیس دے؟ یہ وزیرداخلہ اس طرح کا ہے کہ گھر کا سارا نظام عورتوں کے ہاتھ میں ہے۔ شادی پر ذرا تم نے رسوم کے بارے میں کہاتو اس نے منھ بنا کر کہہ دیا کہ تم نے تو سدا مولوی ملاّ ہی کی مانی ہے۔ اب یہ کہے گا کہ نہیں، میں تیری ہی مانوں گا، چاہے تو مجھے جہنم میں ڈلوا دے۔

پیسے کی حرص ولا لچ نے عالَم میں اسلام کو پھیلنے سے روکے رکھا ہے
اب میوات اور یوپی والوں کی عورتوں کا یہ معیار ہے۔ یہ حیثیت ہے۔ ایک میو نے کہا کہ دس لایا ہوں اور ہم نے نکلوائے تو سوکا نوٹ تھا۔ ہم نے کہا، کلکتہ چلاجا۔ اب وہ مان کر نہ دیا کہ گھر والی نے دس کا نوٹ مجھے دیا ہے۔ اب اگر سو خرچ کر دیے تو وہ لڑے گی، لہٰذا مان کر نہ دیا۔ اب ایک او رترکیب آئی۔ ان کی گھر والی نے کہہ دیا کہ دیکھ، مراد آباد جائے گا تو بڑے بڑے گلاس لے آئیو، یہ الگ جیب میں روپے رکھ لے، اور دس تبلیغ کیلیے رکھ لے۔ اب گھنٹہ ( گھڑی) برات میں دینے کیلیے، تو گھنٹہ خریدنے بھی آئیں گے۔ اور کیا ترکیب کریں کہ پوری جماعت میں کسی کے پاس سو، کسی کے پاس پچاس او رکسی کے پاس بیس ہیں۔ اب منشی جی نے پوچھا تو سو والا چپ رہتا ہے اور بیس والا بولتا ہے۔ منشی جی چاہے ہماری تلاشی لے لو، بیس ہیں اور سو والا ماشاء الله جھوٹ بھی نہیں بولتا اور چپ بیٹھا ہے۔ چنانچہ بیس والی جماعت میں تشکیل ہو گئی تو یہ اب کہتا ہے کہ اتنے میرے پاس اور ہیں۔ ہمیں یہ پتہ جب چلا کہ جب ایک کے سو روپے جیب کٹنے سے چوری ہو گئے، جب کہ رات کو اس نے بہت پوچھنے پر بیس بتایا تھا۔ اب ہمارے پیسہ دبا کر رکھنے کی محبت نے سارے ملک میں پھر کر محنت کرنے کو روک رکھا ہے۔

دعوت، نماز اور اخلاق کے بدلنے سے
اب یہ چار مہینے ترتیب کے بدلنے کا دورانیہ ہے۔ اس سے لوگوں کے دل ایمان، اعمالِ صالحہ اور اخلاق کی طرف پلٹیں گے۔ اب باہر نکل کر اپنے چوبیس گھنٹے دعوت، نماز، اخلاق، خدمت میں گزار کر ہاتھ اٹھا کر دعائیں مانگو۔ اس پر خدا ترتیب عالم بدلیں گے، جن کوچمکانا ہو گا ان کوہدایت کی طرف موڑ کر چمکائیں گے اور جنھیں برباد کرنا چاہیں گے انھیں برباد کردیں گے۔

Flag Counter