Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1436ھ

ہ رسالہ

6 - 16
کرکٹ :اسلامی نقطہٴ نظر سے

مولانا مرغوب الرحمن سہارنپوری
	
اسلام ایک معتدل افراط و تفریط سے پاک و صاف مذہب ہے، نہ حدوں کو پار کرنے کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی بالکل روکھا سوکھا مذہب ہے، جیسا کہ بعض معاندین تعصب کی وجہ سے کہتے ہیں کہ دین اسلام تو صرف مصلی و تسبیح کا ہوکررہنے کو کہتا ہے، جب کہ مذہب اسلام اعتدال کو پسند کرتا ہے، میانہ روی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے (خیر الامور اوسٰطہا․ شعب الایمان 5/169) یہی وجہ ہے کہ اسلام میں کھیل کود، سیر و تفریح کی صرف اجازت ہی نہیں، بلکہ محسن انسانیت حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تفریحات کو اپنا یا بھی ہے، حق جل مجدہ قرآن شریف میں یوں فرماتا ہے:﴿مَا جَعَلَ عَلَیْْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ مِنْ حَرَج﴾ (سورہٴ حج:78 )(اللہ تعالیٰ شانہ نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی)۔

دوسری جگہ وہ ہم سے یوں گویا ہے:﴿ یُرِیْدُ اللّہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ﴾․ بقرہ :185 (اللہ تعالیٰ شانہ تم پر آسانی کرنا چاہتا ہے اور تم پر سختی کرنا نہیں چاہتا)۔ عید کے دن خوشی میں کچھ حبشی ڈھال اور نیزوں سے کھیل رہے تھے، انہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا توٹھٹک گئے، آپ صلی الله علیہ وسلمنے فرمایا ”خذوا یا بنی ارفدة، حتی تعلم الیہود والنصاری أن فی دیننا فسحة“ (جمع الجوامع :12181،فیض القدیر 3896) (اے حبشی بچو! کھیلتے رہو تاکہ یہود و نصاری کو پتہ چل جائے کہ ہمارے دین میں وسعت ہے) اور بعض روایات میں یہ الفاظ آئے ہیں : ”الہوا، والعبوا، فانی اکرہ ان یری فی دینکم غلظة․“ (فیض القدیر1582)(کھیلتے کودتے رہو، کیوں کہ میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ تمہارے دین میں سختی نظر آئے)۔

آپ سے بہت سے تفریحی کھیل ثابت ہیں، مثلاً نشانہ بازی ، گھوڑ سواری، تیراکی، دوڑ، اچھے شعر سننا، سنانا وغیرہ اور آپ نے دیگر حضرات صحابہ کو ترغیب بھی فرمائی، جیسے تیر اندازی، دوڑ، تیراکی وغیرہ وغیرہ۔

لیکن یہ بات یاد رہے وہ کھیل صرف ٹائم پاس کرنے کا ذریعہ نہ تھے، بلکہ کچھ دینی و دنیوی فوائد و ثمرات ان میں پنہا ہوتے تھے، ان کھیلوں سے یاد الٰہی سے غفلت، فرائض سے کوتاہی ، حقوق العباد کی ادائیگی سے تساہل، وقت کا ضیاع، معاشی فقدان اور تعلیمی بحران کا تو سوال ہی کہاں پیدا ہوتا تھا۔

حضرت امام بخاری نے فرمایا: ”کل لہو باطل اذا شغلہ عن طاعة الله ․“( کتاب الاستیذان، صحیح بخاری )

ہر لہو جب انسان کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے غافل کردے تو وہ باطل (گناہ) ہے۔

مغربی دنیا نے پوری زندگی کو کھیل کو د بنا ڈالا، جب کہ مذہب اسلام نے طبیعت میں فرحت نشاط اور بشاشت پیدا کرنے کے لیے کھیلوں کو اگرچہ زندگی کا ایک جز مانا ہے، لیکن آج کل بعض ایسے کھیلوں کو ہوا دے دی گئی جو بہت سے نقصانات کا مجموعہ ہوتے ہیں اور دائرہ عقل سے بھی خالی معلوم ہوتے ہیں، انہیں میں سے ایک کرکٹ ہے۔

انگریز ہندوستان آئے تو کرکٹ بھی ساتھ لائے، یہ کھیل لیکن اپنی جگہ نہ بنا سکا، ایک تو یہ کھیل مہنگا تھا، دوسرے لمبا وقت چاہتا تھا، ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اس کھیل کو بڑھا وا دیا ،وہ دنیا بھر میں مصنوعات کا فروغ چاہتی تھیں، لہٰذا ان کو کوئی ایسی مشتہر چیز چاہیے تھی جو زیادہ سے زیادہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ وقت تک اپنی طرف متوجہ رکھ سکے، کرکٹ میں وہ تمام باتیں موجود تھیں، کیوں کہ یہ کئی کئی دن تک کھیلے جاتے ہیں، لہٰذا اس نے کرکٹ کو شہروں شہروں، گلیوں گلیوں اور گھروں گھروں تک پہنچانے کے لیے کرکٹ کے میدان بنوائے، لوگوں کی توجہ انعامی اسکیموں کے لالچ میں اس کھیل کی طرف مبذول کرائی، کرکٹ کے کھلاڑیوں کو ان کاہیرو بنا کر پیش کیا، ان پر مال و زر کے دروازے کھول دیے، ڈالروں میں ان کو نہلادیا، پھر کیا تھا؟ کرکٹ کا جنون ان پر مسلط ہوگیا اور ساتھ ہی ساتھ ٹیلی ویژن، ریڈیو اور اخبارات پر ان کی کوریج کا بندوبست کردیا، یوں دیکھتے دیکھتے ایک قلیل مدت میں کرکٹ عالمی کھیل بن گیا۔

کرکٹ کے مضر اثرات، ماحول و معاشرہ کو کس انداز سے بیکار کرتے ہیں اور ملک ووطن کے سرمایہ دارانہ نظام پر کتنا برا اثر ڈالتے ہیں، اس کی ایک سرسری رپورٹ پیش ہے۔

کرکٹ پراسی(80) ارب ڈالر سالانہ خرچ ہوتے ہیں، ٹی، وی، چینلز پر سال بھر میں بارہ لاکھ گھنٹے یہ کھیل دکھایا جاتا ہے، اس وقت دنیا کے سترہ کروڑ لوگ یہ کھیل کھیل رہے ہیں، دنیا میں کرکٹ انڈسٹری کی مالیت گندم کے بجٹ کے برابر ہے، ایک اندازے کے مطابق ایک ورلڈ کپ پر جتنی رقم خرچ کی جاتی ہے اگر وہ مریضوں پر خرچ کی جائے تو دنیا کے تمام مریضوں کو ڈاکٹر، نرس اور دوائیں مفت مل سکتی ہیں، ایک ورلڈ کپ کے خرچ سے پوری دنیا میں اسکول کھولے جاسکتے ہیں، صحرائے عرب کو کاشت کاری کے قابل بنایا جاسکتا ہے، چار ورلڈ کپ کے دوران جتنی رقم مشروبات ، برگروں اور ہوٹلوں پر خرچ کی جاتی ہے اس رقم سے چالیس کینسر کے اسپتال بنائے جاسکتے ہیں،دنیا کے ایک تہائی بھوکوں کو خوراک دی جاسکتی ہے ،پاکستان جیسے چار ملکوں کوقرضے سے پاک کیا جاسکتا ہے ،ورلڈ کپ میں جتنی بجلی خرچ ہوتی ہے وہ دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے چین جیسے ملک کی چھ ماہ کی برقی ضرورت پوری کرسکتی ہے ،ورلڈ کپ پر جتنا کچرا پیدا ہوتا ہے اتنا تیس ملک مل کر پورے سال پیدا نہیں کرتے، ورلڈ کپ کے موقع پر جتنی شراب پی جاتی ہے وہ پورا برطانیہ مل کر پورے سال نہیں پیتا، اس پر جتنا عام شہریوں کا وقت ضائع ہوتا ہے اگر آدھی دنیا پورا مہینہ چھٹی کرے تو بھی اتنا ضائع نہیں ہوگا۔یہ ہیں کرکٹ کے اخراجات اور اس کے مضر اثرات۔

آئیے! اب کرکٹ کے انفرادی ، دنیوی اور دینی نقصانات کا ایک جائزہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کیا جائے۔

کومینٹری سننے میں بھی بہت سے نقصانات ہیں
میچ دیکھنے کی مستی میں بعض نماز ترک کردیتے ہیں، جب کہ اللہ تعالیٰ شانہ قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ فرمارہا ہے کہ نمازوں کی حفاظت کرو ﴿حافظوا علی الصلوٰت﴾ (سورہٴ بقرہ:238) دوسری طرف اللہ کا پیغمبرفرمارہا ہے من ترک الصلوة متعمداً فقد کفر․(الترغیب و الترہیب بحوالہ طبرانی فی الاوسط)(جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑ دی وہ کفر کے قریب جا پہنچا۔)گویامسلمان اور کافر کے درمیان فرق کرنے والی نماز ہے، ادھر موذن صاحب حی علی الصلوة (آؤ نماز کی طرف) حی علی الفلاح (آوٴ کام یابی و کام رانی کی طرف) کہتے ہیں۔ ادھر ہم کھیل میں مستغرق رہتے ہیں: ﴿واذا نادیتم الی الصلوة اتخذوہا ہزوا ولعبا﴾․ (سورہ مائدہ آیت:58)
اور جب تم نماز کی طرف پکارتے ہو تو وہ اسے ہنسی اور کھیل بناتے ہیں۔

جماعت کی نماز چھوڑ دیتے ہیں، ترک جماعت کے متعلق آقائے نام دار حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پڑھیے اور غور کیجیے: ”قسم اس ذات کی جس کے قبضہٴ قدرت میں میری جان ہے، میں نے ارادہ کیا تھا کہ کسی سے کہوں کہ لکڑیاں جمع کرے، جب وہ اکٹھی ہوجائیں پھر کسی کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے اور میں ان لوگوں کے پاس جاؤں جو جماعت میں شامل نہیں ہوتے، اچانک ان کے گھروں کو آگ لگادوں، تاکہ وہ بھی گھروں کے ساتھ جل جائیں“۔ (بخاری و مسلم)

لغو کام میں مشغول ہونا

وقت کی ناقدری ہوتی ہے، کیوں کہ یہ محض وقت گذاری ہوتی ہے ، مذہب اسلام نے خاص طور سے وقت کو برباد اور ضائع کرنے کی پر زور مذمت کی ہے اور اس کو کارآمد بنانے واچھے کاموں میں خرچ کرنے کے لیے بڑے اچھے اور مؤثر اسلوب میں ترغیب دلائی ہے، حق جل مجدہ اپنی کتاب عظیم قرآن کریم میں وقت کی قسم کھاکر وقت کی قدر و قیمت کو ہمارے قلوب میں راسخ کرنا چاہتا ہے۔ (سورہ العصر:1، الضحی: 2-1، اللیل:2-1 الشمس:4-3)

دوسری جگہ کام یاب مومن کی صفات شمار کراتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿والذین ہم عن اللغو معرضون․﴾ (سورة مومنون آیت:3) (اور یہ وہ لو گ ہیں جوفضول باتوں سے اعراض کرتے ہیں) ۔

حدیث پاک میں اسلام کی خوبی کو یوں اجاگر کیا گیا ہے: ”من حسن اسلام المرء ترکہ ما لا یعنیہ․“ (ابن ماجہ، ترمذی، شعب الایمان،جمع الجوامع)

(آدمی کے اچھے اسلام کی علامت یہ ہے کہ وہ لا یعنی امور ترک کردے۔) حضرت علامہ جلال الدین سیوطی نے جمع الجوامع میں یہ حدیث شریف نقل فرمائی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” ہر روز صبح کو جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو اس وقت دن یہ اعلان کرتا ہے کہ آج اگر کوئی بھلائی کرسکتا ہے تو کرلے، آج کے بعد میں پھر کبھی واپسی نہ آؤں گا۔ ”من استطاع ان یعمل خیرا فلیعملہ فانی غیر مکرر علیکم ابداً“۔ (بحوالہ شعب الایمان )

یاد الٰہی اور آخرت سے وہ شخص غافل ہوجاتا ہے، طاعت الٰہی سے غفلت اور یوم الحساب کو بھول بیٹھنے کی وجہ سے انسان اچھے کاموں کی طرف نہیں لپکتا اور برے کاموں سے پاؤں نہیں کھینچتا، جس کو قرآن کریم اس طرح بیان کرتا ہے:﴿وَمَا الْحَیَاةُ الدُّنْیَا إِلاَّ لَعِبٌ وَلَہْوٌ وَلَلدَّارُ الآخِرَةُ خَیْْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُونَ أَفَلاَ تَعْقِلُون﴾․(سورہ انعام آیت 32) (اور نہیں ہے زندگانی دنیا کی مگر کھیل اور جی بہلانے کی اور آخرت کا گھر بہتر ہے پرہیزگاروں کے لیے، کیا تم نہیں سمجھتے؟)

ہر وہ شے جو اللہ کے ذکر اور نماز سے غافل کردے وہ جوا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال زریں میں سے ذکر سے غافل شخص کے لیے ایک زریں قول مزید ملاحظہ فرمائیں الشیطان جاثم علی قلب ابن آدم، فاذ اذکر اللہ جلس واذا غفل وسوس (شیطان انسان کے دل سے چپکا رہتا ہے جب وہ دل سے اللہ کو یاد کرتا ہے تو شیطان پیچھے ہٹ جاتا ہے اور جب وہ ذکر اللہ سے غافل ہوتا ہے تو شیطان اس کے دل میں وسوسے ڈالتا رہتا ہے۔)

بہت سے ضروری دینی و دنیوی کاموں کا نقصان ہوتا ہے ۔

نتیجہ برآمد ہونے پر لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں،کیوں کہ ہر آدمی کی سوچ الگ الگ ہوتی ہے، کوئی کسی ٹیم کا حامی ہوتا ہے تو کوئی دوسری ٹیم کا فین ہوتا ہے، قرآن کریم اس کی منظر کشی یوں کرتا ہے اور آپس میں نہ جھگڑو ورنہ بزدل اور کم ہمت ہوجاؤ گے تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور رعب ودبدبہ جاتا رہے گا:﴿ ولا تنازعوا فتفشلوا وتذہب ریحکم﴾․ (سورہ انفال آیت:46)

پٹاخے پھوڑے جاتے ہیں جو سراسر اسراف ہے، فضول خرچی اور اسراف کرنے والے کو قرآن کریم میں شیطان کے بھائی کے ساتھ ملقب کیا ہے:﴿ ان المبذرین کانوا اخوان الشیٰطین﴾ (سورہ بنی اسرائیل آیت:27) (بے شک بے موقع اڑانے والے شیطانوں کے بھائی بند ہیں۔) دیگر جگہوں میں اللہ تعالیٰ شانہ نے مبذر سے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ہے:﴿ولاتسرفوا إنہ لا یحب المسرفین﴾ (سورہ انعام آیت141، اعراف آیت:31)۔

محسن انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بے جا مال اڑانے اور لٹانے سے احتراز کرنے کو فرمایا ہے:” نہی رسول الله صلی الله علیہ وسلم عن اضاعة المال․“ (بخاری ، مسلم ، نسائی ، ابو داؤد)

اگر کومنٹری سننے کا آلہ اپنا ہو تو مزید ایک گناہ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ٹی، وی پر میچ دیکھنا بھی خطرات سے خالی نہیں، بہت سی خرابیوں کو ذکر کیا جاتا ہے۔

(1)قصداً تصاویر دیکھنا، یہ بات بھی ذہن نشین رہے ، ٹی وی پر بہت سی تصویریں ہوتی ہیں، ہر ایک تصویر دیکھنے کا الگ گناہ ہوتا ہے ۔

(2)نامحرم عورتوں کو دیکھنا ، یہ بھی کرکٹ کی وجہ سے حاصل ہوجاتا ہے، معاشرہ کو برباد اور مفلوج کردینے والی قبیح اور شنیع شے زنا ہے اور یہ اس کا پیش خیمہ ہے۔ قرآن و احادیث میں اس سے بچنے کے لیے بہتر اور احسن طریقے و نسخے تجویز ہیں ، فرقان حمیدمیں حفظ ماتقدم کے طور پر فرمایا: ﴿قُل لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوجَہُمْ ذَلِکَ أَزْکَی﴾ (سورة نور آیت 30)( آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لیے زیادہ صفائی کی بات ہے۔) اسی طرح کی رہبری وراہ نمائی مومن عورتوں کی ہے۔ دیکھیں سورة نور آیت:31۔ اسی سلسلہ میں نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال انتہائی فائدوں کے حامل ہیں: ”لتغضن ابصارکم، ولتحفظن فروجکم، اولیکسفن الله وجوہکم․“ (الترغیب و والترہیب بحوالہ طبرانی)(اپنی نظریں نیچی رکھو اور شرم گاہوں کی حفاظت کرو، ورنہ اللہ تعالیٰ شانہ تمہارے چہروں کو بے نور کردے گا)اور فرمایا: ”ماترکت بعدی علی امتی فتنة اضر علی الرجال من النساء․“ (بخاری شریف، مسلم شریف) (میں نے اپنے بعد اپنی امت کے مردوں کے لیے عورتوں سے بڑا نقصان دہ کوئی اور فتنہ نہیں چھوڑا) حضرت حسن بصری مرسلاً آپ کا یہ قول نقل فرماتے ہیں: ”لعن الله الناظر والمنظور الیہ․“ (بیہقی فی شعب الایمان )اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے اس شخص پر جو قصداً (بلا کسی عذر شرعی کے ستر یا اجنبی عورت کو) دیکھنے والا ہو اور اس پر جس کو (بلا عذر شرعی) دیکھا جائے۔) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ شیطان آدمی کو بہکانے سے کبھی مایوس نہیں ہوتا، یہاں تک کہ وہ عورتوں کے ذریعہ اس کے پاس آتا ہے کہ میرے نزدیک عورتوں (کے فتنہ) سے زیادہ خطرناک کوئی چیز نہیں ہے۔

(3) جماعت کی نماز کا چھوڑ دینا اور جیسا کہ اوپر مذکور ہوا۔ بعض حضرات بالکل نماز پڑھتے ہی نہیں ۔(4)قیمتی وقت کا ضائع کرنا۔(5) عبث کا م میں لگنا ۔(6) بہت سی ضروریات دینی و دنیوی کے چھوڑنے میں معاون ہوتا ہے۔ (7) ٹی، وی سے محبت ، لگاؤ اور انسیت پیدا ہوتی ہے۔ (8) بہت سے گناہ وجود میں آتے ہیں۔ (9) گناہ کی نحوست سے رزق کی برکت جاتی رہتی ہے۔ (10) ٹی ، وی سے دلچسپی رکھنے والا بھلائی کے کاموں سے محروم رہتا ہے۔ (11) کھیل ختم ہونے پر ہار جانے والی ٹیم کے چاہنے والوں کا جھلاجانا اور جیتنے والی ٹیم کے چاہنے والوں کا خوشی میں جھومنا، لڑائی مول لینے کا سبب ہے۔ (12) اللہ تعالیٰ شانہ اور آخرت کی یاد سے دور ہونا۔ (13) اگر ٹی، وی اپنا ہو تو مزید ایک اور گناہ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

جب کہ مفتیان عظام نے تحریر فرمایا ہے کہ غفلت میں ڈالنے والے سامان و آلات کا گھر میں رکھنا مکروہ تحریمی ہے ،جب کہ یہ تو اس کو خود بھی استعمال کررہا ہے اور جو دوسرے حضرات اس کے ٹی ، وی سے مستفیض ہو رہے ہیں ان کا گناہ بھی اپنے سر لیتا ہے ۔(14) آتش بازی کی جاتی ہے۔

اسٹیڈیم میں بیٹھ کر نظارہ کرنا بھی بہت سی قباحتیں اپنے ساتھ لیے ہوتاہے، مثال کے طور پر
1..نامحرم عورتوں کا نظارہ کرنا۔
2..مرد و زن کا اختلاط ۔

محسن انسانیت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم لمحہ بھر کے لیے مردوزن کے اختلاط کو گوارا نہیں فرماتے تھے اور یہاں اختلاط گھنٹوں کے حساب سے نہیں، بلکہ دنوں کے حساب سے ہوتا ہے ،حدیث شریف میں موجود ہے کہ” ایک مرتبہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم مسجد سے نکل رہے تھے، دیکھا کہ مرد اور عورتیں ایک ہی ساتھ راستہ میں چل رہی ہیں تو آپ نے عورتوں کو مخاطب کر کے فرمایا :پیچھے ہٹ جاوٴ! تم راستہ کے کناروں کو لازم پکڑ لو“۔

3..نماز باجماعت یا بالکل نماز ترک کردینا ۔
4..دنیا کی سب سے قیمتی شے وقت کو برباد کرنا۔
5..لایعنی کام میں لگنا ۔
6..دینی و دنیوی بہت سی ضروریات کو پس پشت ڈال دینا۔
7..اسراف کرنا۔
8..آخرت اور آخرت میں حساب لینے والے کی یاد سے بے بہرہ رہنا ۔
9..فریقین کے محبین کا لڑنا جھگڑنا، ان تینوں قسموں سے جو طبی خسارہ اور گھاٹا ہوتا ہے وہ تو رہا فری فنڈ میں۔ عقلاً بھی یہ معیوب ہے کہ چند آدمی کھیلتے رہیں اور بہت سے لوگ ٹکٹکی باندھے انہیں دیکھتے رہیں، کھلاڑیوں کا مقصد اپنے ملک کا نام روشن کرنا، شہرت حاصل کرنا، پیسہ کمانا، واہ واہی لوٹنا اور اچھی کارکردگی پر انعام حاصل کرنا وغیرہ۔

ایک مرتبہ جرمنی و فرانس کے مابین کرکٹ میچ ہوا تو جرمنی کے سربراہ ہٹلر کو بھی میچ دیکھنے کے لیے مدعو کیا گیا۔ ہٹلر میچ دیکھنے اسٹیڈیم پہنچا ،میچ شروع ہوا اور چلتا رہا، یہاں تک کہ شام ہوگئی، ہٹلر اکتا گیا اور چلا گیا، ٹیم کے ریفری سے دریافت کیا میچ کون جیتا؟ ریفری نے کہا سر! میچ ابھی جاری ہے، ہارجیت کا فیصلہ چار دن کے بعد آئے گا۔ ہٹلر غصہ میں جھلا گیا اور کہنے لگا یہ کوئی کھیل ہے!!! دیکھنے والے پورے دن کے لیے بے کار ہوجاتے ہیں اور نتیجہ پھر بھی ہاتھ نہیں آتا اور چار چار دن کاانتظار کرنا پڑتا ہے۔ بند کرو اس کھیل کو، ہٹلر نے کرکٹ پر پابندی عائد کردی، جرمنی کا وہ دن اور آج کا دن جرمنی نے قومی ٹیم بنانے کی غلطی نہیں کی، جب کہ اس وقت جرمنی کی ٹیم یورپ کی نمبر ون ٹیم تھی۔

سپرپاور امریکہ کا بھی یہی حال ہے کہ امریکہ کے صدر روزویلٹ نے کہا کرکٹ لمبا اور سست کھیل ہے، اس سے وقت ضائع ہوتا ہے، دیکھنے والوں کو بری طرح متاثر کرتا ہے اور لوگ اس کے ہوکر رہ جاتے ہیں، اگر امریکہ کو ترقی کرنی ہے تو ایسے کھیلوں سے دور رہنا ہوگا، اس کے بعد امریکہ میں پابندی لگادی اور آج بھی کرکٹ امریکہ کا غیر سرکاری کھیل ہے۔ ایسے ہی بہت سے ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ ممالک ہیں جن کی کوئی کرکٹ ٹیم نہیں ہے۔

Flag Counter