Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1436ھ

ہ رسالہ

7 - 16
سڑکوں کا ناجائز استعمال

مفتی محمد تقی عثمانی
	
دھیان نہ ہو تو انسان یہ جانے بغیر غلطیاں کرتا چلا جاتا ہے کہ اس سے کوئی غلط کام سر زد ہوتا رہا ہے ۔ کسی دوسرے کی چیز کا ایسا استعمال جواس کی خوش دلانہ مرضی کے خلاف ہو ، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق حرام ہے۔

جو چیزیں کسی شخص کی ذاتی ملکیت میں ہوتی ہیں ان کے بارے میں تو تھوڑا بہت احساس لوگوں کو بھی ہو جاتا ہے ، لیکن جو چیزیں ” سرکاری املاک“ کہلاتی ہیں ان کے بارے میں واقعی ” مال مفت دل بے رحم“ کی مثل صادق آتی ہے ۔ ان پر قبضہ کر لینا، ان کو خلاف قانون استعمال کرنا یا بے دردی سے استعمال کرنا ایسی عام بات ہو گئی ہے جس پر انگلیاں بھی نہیں، اٹھتیں، حالاں کہ سرکاری اشیاء برسر اقتدار افراد کی ملکیت نہیں ہوتیں، پوری قوم کی ملکیت ہوتی ہیں اور ان کا ناجائز استعمال صرف کسی ایک شخص کی نہیں، سارے عوام کی حق تلفی ہے اور یہ حقوق العباد کا اتنا خطرناک شعبہ ہے کہ اس میں اگر کوئی حق تلفی ہو جائے تو اس گناہ کی معافی انتہائی مشکل ہے، اس لیے کہ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں حقوق العباد کے گناہ صرف توبہ واستغفار سے معاف نہیں ہوتے ، بلکہ اان کی معافی کے لیے اس شخص کا معاف کرنا ضروری ہے جس کا حق پامال کیا گیا، اب گروہ شخص ایک ہواو رمعلوم ہو تو اس سے معافی مانگی جاسکتی ہے ، لیکن سرکاری املاک کے حق دار چوں کہ سارے عوام ہیں اس لیے اگر کبھی ندامت اور توبہ کی توفیق ہو تو آدمی کس کس سے معافی مانگتا پھرے گا؟ یہ بات مدنظر رکھتے ہوئے ان چند تصرفات پر غور فرمائیے جو ہمارے معاشرے میں بری طرح پھیلے ہوئے ہیں۔

۱۔ سرکاری زمینوں پر تجاوزات اسی قسم کی غاصبانہ کاروائی ہے، جس کاتعلق حقوق العباد کے اس سنگین شعبے سے ہے، ہمارے علماء نے فقہ کی کتابوں میں اس مسئلے پر بحث کی ہے کہ جس شخص کا مکان سڑک کے کنارے واقع ہو، وہ اپنی کھڑکی پر سائبان لگا سکتا ہے یا نہیں ؟ اور اگر لگا سکتا ہے تو زیادہ سے زیادہ کتنا لمبا چوڑا؟حالاں کہ سائبان لگانے سے زمین کے کسی حصے پر قبضہ نہیں ہوتا، بلکہ فضا کا بہت تھوڑا سا حصہ استعمال ہوتا ہے ، نیز یہ مسئلہ بھی فقہاء کے یہاں زیر بحث آیا ہے کہ جس شخص نے عام لوگوں کی گزر گاہ پر راستہ روک کر دکان لگالی ہو اس سے کوئی چیز خریدنا جائز ہے یا نہیں ؟ بعض فقہاء کہتے ہیں کہ اس شخص نے چوں کہ عوام کا حق غصب کر رکھاہے ، لہٰذا اس سے سودا خریدنا اس کی غاصبانہ کارروائی میں تعاون ہے، اس لیے اس سے کوئی چیز خریدنا جائز نہیں، بعض دوسرے فقہاء اگرچہ اس حد تک نہیں گئے، لیکن انہوں نے یہ کہا ہے کہ اگر یہ امید ہو کہ سودا نہ خریدنے سے اس کو اپنی غلطی کا احساس ہو گا اور وہ اپنی اس حرکت سے باز آجائے گا تو اس سے واقعی سودا نہ خریدنا چاہیے، اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلامی قانون تجاوزات کے بارے میں کتنا حساس ہے؟

ہمارے معاشرے میں تجاوزات کوئی قابل ذکر عیب ہی نہیں رہے، جس کا جی چاہتا ہے وہ اپنے مکان یا دکان کے گرد پوری کی پوری سرکاری زمین پر قبضہ جما کر بیٹھ جاتا ہے ، بلکہ ہمارے گردوپیش میں جس طرح تجاوزات پھیلے ہوئے ہیں ان میں ایک نہیں، کئی کئی گناہ بیک وقت جمع ہیں اول تو عوامی زمین پر ناجائز قبضہ ہی بڑا سنگین گناہ ۔

دوسرے عموماً ان تجاوزات سے راستہ چلنے والوں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے اور راہ گیروں کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرنا ایک مستقل گنا ہ ہے، جس پر حدیث میں سخت وعید آئی ہے۔

تیسرے ہمارے ماحول میں یہ تجاوزات رشوت خوری کے فروغ کا بہت بڑا ذریعہ بنی ہوئی ہیں، کیوں کہ باقی رکھنے کے لیے متعلقہ اہلکار کو ”بھتہ“ دنیا پڑتا ہے اور بھتہ ایک مرتبہ دینا کافی نہیں ہوتا، بلکہ ہفتہ وار یا ماہانہ تنخواہ کی طرح اس کی ادائیگی ضروری ہوتی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس قسم کے اہلکار دل سے یہی چاہتے ہیں اور اس کی پوری کوشش بھی کرتے ہیں کہ یہ تجاوزات ختم نہ ہوں، تاکہ ان کی ”آمدنی“ کا یہ ذریعہ بند نہ ہونے پائے، لہٰذا ان کو اپنے فرائض سے غافل کرنے، بلکہ فرائض کے برعکس کام کرنے کا گناہ بھی اس میں شامل ہو تو بعید نہیں۔

اسی طرح ہمارے ملک میں یہ بھی عام رواج ہو گیا ہے کہ جلسوں اور تقریبات کے لیے چلتی ہوتی سڑک روک کر شامیانے اور قناتیں لگالی جاتی ہیں اور اس کے نتیجے میں آنے جانے والی گاڑیوں کو مشکلات کا سامنا کرناپڑتا ہے او رٹریفک کے نظام میں بعض واقات شدید خلل واقع ہو جاتا ہے ۔ یہ بات ہر مسلمان جانتا ہے کہ اگر کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہو تو اس کے سامنے سے گزرنا جائز نہیں اور احادیث میں اس بات کی سخت تاکید کی گئی ہے کہ کوئی شخص کسی نمازی کے سامنے سے نہ گزرے، لیکن ساتھ ہی شریعت نے نماز پڑھنے والے کو یہ بھی ہدایت کی ہے کہ وہ ایسی جگہ نماز پڑھنا شروع نہ کرے جہاں لوگوں کو گزرنے میں دشواری ہو ، مثلاًمسجد کا صحن اگر کھلا ہوا ہے توصحن کے بیچوں بیچ یا اس کے آخری سرے پر نماز کے لیے کھڑے ہو جانا اس صورت میں جائز نہیں جب سامنے لوگوں کے گزرنے کی جگہ ہوا ور نماز شروع کرنے کی وجہ سے انہیں لمبا چکر کاٹ کر جانا پڑتا ہو ، لہٰذا حکم یہ دیا گیا ہے کہ ایسی جگہ نماز پڑھو جہاں یا تو سامنے کوئی ستون وغیرہ ہو، جس کے پیچھے سے لوگ گزر سکیں یا سامنے نماز ہی کی صفیں ہوں ۔ اگر کوئی شخص اس ہدایت کا خیال نہ رکھے اور صحن کے بیچوں بیچ نماز پڑھنیکھڑا ہو جائے تو یہاں تک کہا گیا کہ ایسی صورت میں کوئی شخص نمازی کے سامنے سے گزرنے پر مجبور ہو جائے تو اس کے گزرنے کا گناہ نماز پڑھنے والے پر ہو گا، سامنے سے گزرنے والے پر نہیں۔

غور فرمائیے کہ مسجدیں عموماً بہت بڑی نہیں ہوتیں اور اگر کسی شخص کو چکر کاٹ کر نکلنا پڑے تو اس کے ایک دو منٹ سے زیادہ خرچ نہیں ہوتے ، لیکن شریعت نے اس ایک دو منٹ کی تکلیف یا تاخیر کو بھی گوارا نہیں کیا اورنمازی کو تاکید فرمائی ہے کہ وہ لوگوں کو اس معمولی تکلیف سے بھی بچائے، ورنہ گناہ گار وہ خود ہو گا۔

جب شریعت کو یہ بھی گوارہ نہیں کہ کوئی شخص ہماری وجہ سے اس معمولی تکلیف میں مبتلاہو تو سڑک کو بالکل بند کرکے لوگوں کو دور کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کرنا کس طرح جائز ہو سکتا ہے؟ بالخصوص آج کی مصروف زندگی میں اگر کسی شخص کو اپنی منزل مقصود تک پہنچنے میں چند منٹ کی تاخیر بھی ہو جائے تو بعض اوقات اس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ جاتا ہے، کسی بیمار کو ہسپتال پہنچانا ہو یا کسی بیمار کے لیے دوا لے جانی ہو یا کوئی مسافر ریلوے اسٹیشن یا ہوائی اڈے پہنچنا چاہتا ہو او رہمارے جلسے یا تقریب کی وجہ سے اسے پانچ یا دس منٹ کی تاخیر ہو جائے تو کہنے کو یہ تاخیر پانچ دس منٹ کی ہے ، لیکن اس تاخیر کے نتیجے میں بیمار رخصت بھی ہو سکتا ہے، مسافر اپنے سفر سے بالکلیہ محروم بھی ہوسکتا ہے اور جن جن لوگوں کو اس طرح کا نقصان پہنچا ہو ہمیں نہ ان کا نام معلوم ہے، نہ ان کا پتہ اور نہ نقصان کی نوعیت ، لہٰذا اگر اس گناہ کی تلافی کرنا بھی چاہیں تواس کا کوئی راستہ اختیار میں نہیں ۔ ذاتی طور پر مجھے تو ان جلوسوں کا شرعی جواز بھی مشکوک معلوم ہوتاہے ،جو گھنٹوں کے لیے آمدورفت کا نظام درہم برہم کرکے عام لوگوں کو ناقابل بیان اذیتوں میں مبتلا کر دیتے ہیں، کیوں کہ یہ ساری خرابیاں ان میں بھی بہ درجہ اتم موجود ہیں۔

یہ مناظر بھی بکثرت دیکھنے میں آتے ہیں کہ سڑکوں کو کرکٹ کا میدان بنا لیا جاتا ہے اور سڑک کے بیچوں بیچ وکٹ یا وکٹ نما کوئی چیز نصب کرکے باقاعدہ کھیل شروع ہو جاتا ہے، آس پاس کی ہر کھڑی یا چلتی ہوئی گاڑی بیٹسمین کے چوکوں کی زد میں ہوتی ہے او رگیند کے پیچھے دوڑتے ہوئے فیلڈر آنے جانے والی گاڑی کی زد میں ۔ یہ منظر گلیوں اور چھوٹی سڑکوں پر تو نظر آتا ہی رہتا ہے، لیکن کچھ عرصے پہلے دیکھا کہ ایک ایسے مین روڈ پر باقاعدہ میچ ہو رہا تھا جہاں عام طور سے گاڑیاں ساٹھ ستر کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑتی ہیں، یہ عوامی سڑک کا سرا سرا ناجائز استعمال تو ہے ہی، خود کھیلنے والوں کے لحاظ سے بھی اقدام خودکشی سے کم نہیں، گیند کے پیچھے دوڑنے والے کے تمام ترہوش وحواس گیند پر مرکوز ہوتے ہیں اور وہ یکا یک پیش آجانے والی کسی صورت حال کی وجہ سے اپنے جسم کو کنٹرول کرنے پر قادر نہیں ہوتا، لہٰذا اچانک کوئی گاڑی سامنے آجائے تو کوئی بھی حادثہ پیش آسکتا ہے اور اس قسم کے حادثات پیش آبھی چکے ہیں اور جب اس کھیل کے نتیجے میں جانیں تک چلی گئی ہیں تو گاڑیاں او ران کے شیشے بھی ٹوٹنے کا کیا شمار؟

اس صورت حال کی ذمے داری ان نو عمر کھیلنے والوں سے زیادہ ان کے والدین ، سرپرستوں اور ان سرکاری کارندوں پر عائد ہوتی ہے جو انہیں اس خطرناک کھیل میں مصروف دیکھتے ہیں اور اس سے باز رکھنے کی کوشش نہیں کرتے ، دوسری طرف بڑے شہروں میں کھیل کے میدانوں کی کمی بھی اس صورت حال کا سبب ہے، جس کی طرف حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔

سڑکوں پر بے جگہ گاڑیوں کی پارکنگ بھی ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں ہم انتہائی بے حسی کا شکار ہیں۔ چھوٹی گاڑیاں تو ایک طرف رہیں، بڑی بڑی ویگنیں اور بسیں بھی ایسی جگہ کھڑی کر دی جاتی ہیں کہ آنے جانے والوں کا راستہ بند ہو جاتا ہے یا گزرنے والوں کو سخت مشکلات کا سامناکرنا پڑتا ہے ۔ چوں کہ ہم نے دین کو صرف نماز روزے ہی کی حد تک محدود کر رکھا ہے ، اس لیے یہ عمل کرتے وقت کسی کو یہ دھیان نہیں آتا کہ وہ محض بے قاعدگی کا نہیں،بلکہ ایک ایسے بڑے گناہ کا مرتکب ہو رہا ہے جس کا تعلق حقوق العباد سے ہے، اول تو جس جگہ پارکنگ ممنوع ہے اس جگہ گاڑی کھڑی کر دینا اس عوامی جگہ کا ناجائز استعمال ہے، جوغصب کے گناہ میں داخل ہے ، دوسرے حاکم کے ایک جائز حکم کی خلاف ورزی ہے ، تیسرے اس بے قاعدگی کے نتیجے میں جس جس شخص کو تکلیف پہنچے گی ، اسے تکلیف پہنچانے کا گناہ الگ ہے۔ اس طرح یہ عمل جو غفلت اور بے دھیانی کے عالم میں روز مرہ ہوتا ہے، بیک وقت کئی گناہوں کا مجموعہ ہے، جن پر دنیا میں چالان ہو یا نہ ہو، آخرت میں ضرور باز پرس ہو گی۔

اسی طرح بعض جگہ پارکنگ قانوناً ممنوع نہیں ہوتی، لیکن گاڑی اس انداز سے کھڑی کر دی جاتی ہے کہ آگے پیچھے کی گاڑیاں سِرک نہیں سکتیں، یاگزرنے والوں کو کوئی اور تکلیف پیش آتی ہے، یہ عمل بھی دینی اعتبار سے سراسر ناجائز او رگناہ ہے۔

ہماری فقہ کی قدیم کتابیں اس زمانے میں لکھی گئی ہیں جب خود کار گاڑیوں (آٹھ موبائلز) کا رواج نہیں تھا اور سفر کے لیے عموماً جانور استعمال ہوتے تھے ،اس لیے ٹریفک کا نظام اتنا پیچیدہ نہیں تھا جتنا آج ہے، اس کے باوجود ہمارے فقہا کرام نے سڑکوں پر چلنے او رگاڑیوں کے ٹھہرنے کے بارے میں شرعی احکام کی تفصیل نہایت شرح وبسط کے ساتھ بیان کی ہے اور اس سے اسلامی تعلیمات کی ہمہ گیری کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور اس بات کا بھی کہ اسلام میں نظم وضبط او رحقوق العباد کی کتنی اہمیت ہے؟ اس کا تقاضہ یہ ہے کہ بحیثیت مسلمان ہمارا نظم وضبط اور ہماری تہذیب وشائستگی مثالی ہو، لیکن افسوس ہے کہ اپنی غفلت اور بے دھیانی کہ وجہ سے ہم اس قسم کے بے شمار گناہ روزانہ اپنے نامہٴ اعمال میں شامل کرکے اپنی آخرت بھی خراب کر رہے ہیں اور دنیا بھر کو پنے بارے میں وہ تاثر بھی دے رہے ہیں جو نہ صرف ہم سے نفرت کا باعث بنتا ہے، بلکہ اسلام کی چمکتی ہوئی تعلیمات پر ہمار ی بد عملی کا نقاب ڈال دیتا ہے، جس کی وجہ سے وہ دین کا صحیح حسن دیکھنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔

Flag Counter