Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1436ھ

ہ رسالہ

8 - 16
فتنے کے اسباب

حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے ایک بیان کی تسہیل
تسہیل: محترم سید عروہ عرفان

قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
انما امولکم و اولادکم فتنہ واللہ عندہ اجر عظیم ط فاتقوا اللہ مااستطعتم واسمعوا واطیعواللہ وانفقوا خیرا لانفسکم ومن یوق شح نفسہ فاُولٰئک ھم المفلحون ان تقرضوا للہ قرضاً حسناً یضا عفہ لکم ویغفرلکم واللہ شکور حلیم o عالم الغیب والشہادة العزیز الحکیم o
یعنی، تمہارے اموال اور اولاد بس تمھارے لیے ایک آزمائش کی چیز ہیں، اور اللہ کے پاس بڑا اجر ہے۔ تو جہاں تک تم سے ہوسکے، اللہ سے ڈرتے رہو اور سنو اور مانو اور خرچ کیا کرو، یہ تمارے لیے بہتر ہوگا۔اور جو شخص نفسانی حرص سے محفوظ رہا، ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں، اگر تم اللہ کو اچھی طرح قرض دوگے تو وہ اس کو تمہارے لیے بڑھاتا چلا جائے گا، اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اور اللہ بڑا قدر دان ہے، بڑا بردبار ہے، پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے، زبردست حکمت والا ہے۔

یہ چند آیات سورہ تغابن کی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ایمان والوں کو دو چیزوں کے نقصان کی خبر دی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نہایت شفقت ہے وہ اپنے بندوں کو ایسا چاہتے ہیں کہ جیسا ماں باپ اپنے بچوں کو چاہتے ہیں۔ حدیث میں ہے کہ ماں باپ کو بھی اپنے بچے سے اتنی محبت نہیں ہوتی، جتنی کہ حق تعالیٰ کو اپنے بندوں سے ہوتی ہے۔ کیوں کہ ماں باپ کو اولاد کے ساتھ جو محبت ہوتی ہے، وہ تو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہے، اور جب اللہ تعالیٰ نے کسی کو محبت عطا کی ہے تو خود اللہ تعالیٰ کے پاس کس قدر زیادہ محبت ہوگی کہ جب کوئی شخص ایک چیز بانٹتا ہے تو اس کے پاس تو سب سے زیادہ وہ چیز ہوتی ہے۔ اسی طرح، اگر یہ کوئی خوبی، کوئی صفت ہے تو وہ بھی بانٹنے والے کے پاس لینے والوں سے زیادہ ہی ہوگی۔ ۔ البتہ بانٹنے والا جب بانٹتا ہے تو اس کے پاس یہ چیز بانٹنے پر کچھ کم ہوجاتی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں کمی نہیں ہوتی، وہاں کم کا احتمال ہی نہیں ہے۔ کیوں کہ اللہ کے پاس ہر چیز کے غیر متناہی، لامحدود خزانے موجود ہیں۔ اب چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں ماں باپ کی محبت دی ہے تو اس سے خداکے ہاں یہ صفت کم نہیں ہوئی۔

دنیا میں بھی دیکھا جاتا ہے کہ بعض مرتبہ ایک شخص کے اخلاق کا دوسرے پر اثر ہوتاہے مثلاً شاگرد میں استاد کی خوبیوں کا اثر پہنچتا ہے، نیز اچھے اخلاق بھی صحبت کے باعث پیدا ہوتے ہیں، مگر اس سے استاد کی خوبیوں میں کمی نہیں ہوتی، حالانکہ استاد کی صفات لازمی نہیں کہ ہر استاد میں ہوں، اس کے باوجود ایک استاد کی خوبی دوسرے میں منتقل ہونے سے خود استاد کی کسی صفت میں کمی نہیں ہوتی اور حق تعالیٰ کی صفات تو ہمیشہ سے ہیں اور ان میں تمام صفات موجود ہیں تو بھلا اللہ تعالیٰ کے معاملے میں یہ خدشہ کیوں کر پیدا ہوسکتاہے کہ اگر وہ کسی کے اندر کوئی صفت پیداکریں تو ان میں کمی ہو۔

دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ہر چیز کے خزانے غیر متناہی اور لامحدودہیں۔ لہٰذا، اگر کسی درجے میں کمی کا احتمال ہوتا، تب بھی یہ کمی انتہائی معمولی ہوتی۔

چنانچہ جب ماں باپ کی محبت کا یہ حال ہے جو دن رات ہمارے مشاہدے میں آتا ہے جو خدا کی دی ہوئی ہے، تو خود اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے کتنی زیادہ محبت ہوگی، اس کا تواندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔

اسی محبت کا تقاضا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہر قسم کے نفع و نقصان سے خبر دار کردیا۔چنانچہ مذکورہ بالا آیت میں دو باتوں کا ذکر ہے جو انسان کو پیاری ہوتی ہیں اور ان میں انسان کا نقصان بھی ہے، مگر نقصان کے ساتھ ان میں کچھ فائدہ بھی ہے۔ اس لیے یہاں ایسا لفظ استعمال فرمایا جو لغوی اعتبار سے نفع کیلیے بھی بولا جاسکتا ہے اور نقصان کیلیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یوں کہا جاسکتاہے کہ یہاں دو محبوب چیزوں کے نفع اور نقصان سے مطلع کیا گیا ہے۔

محبوب چیز کے نقصان سے خبردار کرنے کی ضرورت زیادہ ہے، کیوں کہ جو چیز ناگوار ہو، اس کے نقصانات سے تو آدمی خود ہی بچا کرتاہے۔ مگر محبوب چیزوں میں نقصان زیادہ ہوسکتا ہے۔ اس لیے معالج بھی اپنے مریض کو ایسی چیزوں سے زیادہ روکتا ہے کہ جو اسے مرغوب ہیں اور ان میں مریض کا نقصان ہے۔

نقصان دہ دو چیزیں
وہ نقصان دہ دو چیزیں کیا ہیں؟ ایک مال اور دوسرے اولاد۔
ان دونوں چیزوں میں رغبت بھی ظاہر ہے اور ان کیلیے انسان کیا کچھ نہیں کرتا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ دنیا میں جتنے بھی محبوب مشاغل اور دھندے ہیں، بس انھی دو کیلیے ہیں۔ خاص کر ماں کی محبت کے ساتھ کچھ نادانی ہوتی ہے جس سے اولاد کے اخلاق بگڑجاتے ہیں، اگرچہ باپ کو اولاد سے ایک حد تک محبت ہوتی ہے جس سے عموماً کوئی برا نتیجہ مرتب نہیں ہوتا بلکہ اس سے اولادکی اصلاح ہوتی رہتی ہے۔ یہاں محبت ان تکلفات کا سبب ہے جس سے اولاد بگڑجائے اور اس محبت میں نادانی بھی ہے۔

اس قسم کی محبت محفلوں مجلسوں میں اس وقت خرابی پیدا کرتی ہے کہ جب لوگ زیب و زینت کا زیادہ اہتمام کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں اہتمام کرنے والے الگ سے جماعت کرانے لگتے ہیں۔ آپ صحابہ کی زندگیوں کے دیکھئے کہ وہاں کتنی سادگی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی معاشرت کی کیفیت یہ تھی کہ وضع میں، لباس میں، مکان میں، نشست میں، غرض ہر معاملے میں سادگی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بات سے یہ نہیں معلوم ہوتا تھا کہ ان میں بزرگ اور سردار کون ہے، حتیٰ کہ اجنبی آدمی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آکر یہ پوچھنا پڑتا تھا من محمد فیکم یعنی تم میں سے محمدصلى الله عليه وسلم کون ہیں؟ کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر کوئی بڑا عمامہ نہ ہوتا تھا، نہ لباس دوسروں سے مختلف تھا نہ کوئی بڑا تخت تھا جس پر آپ بیٹھتے ہوں۔ سب کی نشست اور انداز ایک سا ہوتا تھا۔

البتہ، وعظ کیلیے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھتے تو منبر پر بیٹھتے اور وہ بھی دینی مصلحت کی وجہ سے، کیوں کہ زمین پر بیٹھ کر تقریر کرنے سے بڑے مجمع تک آواز دور تک نہیں پہنچ سکتی۔ نیز، کھڑے ہو کر تقریر کرنا بعض اوقات مشکل اور مشقت کا باعث ہوتا ہے، خصوصاً جب دیر تک وعظ کرنا ہو تو․․․ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھتے تھے۔ اس کے سوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم عام مجالس میں سب کے ساتھ ملے جلے رہتے تھے کہ کسی انداز سے یہ پتا نہیں چلتا تھا۔ اس لیے لوگ آکر پوچھتے تھے کہ تم میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں؟ جس کے جواب میں کہا جاتا ھذا المتکی الابیض یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ گورے چٹے جو ہاتھ یا دیوار کا سہارا لگائے بیٹھے ہیں۔

یہ تو نشست و برخاست کی کیفیت تھی۔ چلنے پھرنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت یہ تھی کہ نہ سب سے آگے چلتے تھے اور نہ سب کے پیچھے چلتے تھے بلکہ ملے جلے چلتے تھے۔ پھر کبھی دائیں تو کبھی بائیں ہوجاتے تھے۔ غرض، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ سادگی تھی۔حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان یہ ہے کہ #
        بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
یہ بزرگی ہی تو تھی کہ اہل کمال کو تصنع اور بناوٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ تصنع تو وہ کرتا ہے کہ جس میں ذاتی کمال نہ ہو۔ اور جس میں ذاتی کمال ہوتا ہے، وہ تصنع نہیں کرتا وہ اسباب کمال سے مستغنی ہوتا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی کمال اللہ کی معرفت اور محبت ہے․․․ اور یہ کمال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے بحمداللہ ہر مسلمان کو حاصل ہے۔ چنانچہ جسے اس کی عظمت پتا چل جائے تو وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح ان چیزوں سے مستغنی ہوجاتا ہے۔ ایک کابلی کہا کرتا تھا کہ ہم امیر ہیں او رہم سے بڑھ کر دولت کسی کے پاس نہیں کیوں کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی دولت ہے۔

مگر ہم نے اس دولت کی حقیقت نہیں سمجھی، اس کا اثر نہیں دیکھا، اس کی قدر نہیں جانی، اس لیے ہم تکلف اور تصنع میں مبتلا ہیں۔ واللہ، یہ وہ دولت ہے کہ جس کے پاس ہے اسے کسی دوسرے سامان کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر ہماری حالت اس شخص کی سی ہے کہ جس کے سر پر روٹیوں کاٹوکرا رکھا ہے اور وہ روٹی کے ٹکڑے کیلیے بھیک مانگتا پھر رہا ہے۔ تم دوسری قوموں کے طرز اور طریقے اختیار کرکے دولت حاصل کرنا چاہتے ہو، حالانکہ تمہارے پاس اتنی بڑی دولت ہے کہ جس کی قیمت تمام دنیا بھی نہیں ہوسکتی۔ ہمارے پاس واللہ سب کچھ ہے لیکن اس کی خبر نہیں ہے۔

اسی بے خبری کا نتیجہ ہے کہ اگر کوئی ہم سے اس دولت (لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ) کو چھیننا چاہے تو بعض نادان اسے گنوا دیتے ہیں؛ دنیا کے چار ٹھیکروں کے بدلے اس سے یہ دولت لے لے تو گوارا کرلیتے ہیں، مگر کوئی ان سے چار پیسے چھین لے تو لڑنے مرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی مثال اس نادان بچے کی سی ہے کہ اگر کوئی شخص اس سے ایک لڈوکے بدلے جیب میں پڑے پچاس روپے ہتھیالے تو اس پر نہ لڑے گا، مگر کوئی اس سے مٹی کا کھلونا لینے لگے تو اس سے لڑنا شروع کردے گا حالانکہ کھلونے کی کیا حیثیت۔

اس کا راز کیا ہے؟
اس کا راز یہ ہے کہ اس نادان کو پچاس روپے کی قدر و حقیقت نہیں معلوم اور مٹی کے کھلونے کی ظاہری بھڑک اسے محبوب ہے۔ یہی حال آج کے مسلمانوں کا ہے کہ انھیں ایمان کی قدر نہیں، اس لیے ان کاموں سے باک نہیں جو ایمان کو ضائع یا ضعیف کرنے والے ہیں۔ ہاں، روپے پیسے کی قدر ہے اس لیے مال میں نقصان سے ڈرتے ہیں۔ اگر انھیں ایمان کی دولت کی قدر معلوم ہوجاے تو پھر ان کا بھی وہی حال ہوگا جو اس کابلی کا تھا جوخود کو سب سے امیر سمجھتا تھا۔

غرض، ہر مسلمان حقیقتاً صاحب کمال ہے اور کمال کیلیے بے تکلفی اور سادگی لازم ہے۔ بناوٹ تو وہ کرے جس میں عیب ہو۔ اس وجہ سے گنجا اپنا سر چھپاتا ہے، کبھی اپنا سرکھولنا پسند نہیں کرتا۔ کبھی عمدہ ٹوپی پہنتا ہے تو کبھی بھڑک دار عمامہ باندھتا ہے۔ صلاحیت والا آدمی زیادہ زیب و زینت نہیں کرتا۔ ہاں، جس میں خود کوئی کمال، کوئی صلاحیت نہ ہو تو وہ اپنا عیب چھپایا کرتاہے۔ اسی لیے آپ علمائے محققین کو ہمیشہ سادہ لباس میں دیکھیں گے۔ ہاں، ناقص علماکو جبہ و دستار کے اہتمام میں مشغول پائیں گے کہ چونکہ ان میں خود کوئی کمال نہیں ہوتا، وہ لباس پہن کر بڑا بننا چاہتے ہیں۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ میلے کچیلے رہا کرو۔ سادگی سے میرا یہ مطلب نہیں ہے۔ میں صفائی ستھرائی سے منع نہیں کرتا بلکہ تکلف اور تصنع (بناوٹ) سے منع کرتا ہوں۔ ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔

نظافت اور چیز ہے اور بناوٹ اور چیز ہے۔ نظافت تو شریعت میں مطلوب ہے اور اس کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا اہتمام فرمایا ہے کہ ارشاد فرماتے تھے کہ اپنے گھروں کے سامنے کا میدان بھی صاف رکھا کرو اور یہود کی مشابہت اختیار نہ کرو کیوں کہ یہود صفائی نہیں رکھتے تھے۔ جب گھر کے سامنے کی جگہ کی صفائی کا بھی حکم ہے تو خود گھر کی صفائی کا کتنا حکم ہوگا۔ پھر لباس اور بدن کی صفائی کا کس درجہ حکم ہوگا۔ اور جب ظاہر کی صفائی مطلوب ہے تو دل کی صفائی تو کہیں زیادہ مطلوب ہوگی۔

صفائی تو بڑی اچھی چیز ہے۔ حضور صلى الله عليه وسلم اس کا بہت اہتمام فرماتے تھے۔ آپ صلى الله عليه وسلم بہت صاف رہتے تھے اور مسلمانوں کو بھی صفائی کی تاکید کرتے تھے۔ چنانچہ ارشاد ہے کہ جمعہ کے دن کپڑے بدل کرآیا کرو۔ مگر اس نظافت کے ساتھ آپ کا ارشاد یہ بھی ہے کہ سادگی ایمان میں سے ہے۔ (البذاذةُ من الایمان)

اس سے معلوم ہوا کہ سادگی اور نظافت دونوں جمع ہوسکتے ہیں۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ تصنع اور تکلف ایمانی شان کے خلاف ہے۔ مگر آج کل دونوں میں افراط و تفریط سے کام لیا جارہا ہے۔ بعض لوگ صفائی پسندہیں تو وہ حد تکلف تک پہنچ جاتے ہیں کہ ہر وقت بناؤ سنگھار ہی میں لگے رہتے ہیں۔ کپڑا بھی ان کیلیے قیمتی اور بھڑکیلا ہونا چاہیے۔ سرمہ اور کنگھی میں بھی ناغہ نہیں ہونا چاہیے۔ جبکہ جو سادگی پسندہیں وہ میلے کچیلے رہتے ہیں۔ دونوں میں اعتدال نہیں ہے۔

سادگی اور صفائی یہ ہے کہ لباس چاہے گھٹیا ہی ہو، مگر داغ دھبے سے صاف ہو۔ اگر دھبا لگ جائے تو فوراً اسے صاف کردیا جائے۔ اگر کپڑا میلا ہوجائے تو اسے صابن سے دھولیا جائے، کلف اور استری کے انتظار میں نہ رہا جائے۔ اس کا انتظار تکلف ہے۔ اسی طرح، قیمتی بھڑکیلا کپڑا پہننا بھی تکلف ہے، اور کپڑے پر داغ دھبا لگا رہنے دینا یا میلا کچیلا رہنے دینا بھی براہے کہ یہ صفائی اور نظافت کے خلاف ہے۔

اس سے آپ کو معلوم ہوگیا ہوگا کہ سادگی اور صفائی کس طرح جمع ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا، سادگی کے ساتھ صفائی کا اہتمام کرنا بھی اعتدال ہے۔ ہمارے بزرگانِ دین نے کبھی کسی قسم کا تکلف نہیں کیا۔ ہمیشہ سادگی اور اعتدال کو ملحوظ خاطر رکھا ہے۔ ہمیں بھی اپنی معاشرت ایسی ہی سادہ رکھنی چاہیے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تو مسجد میں بھی تکلف برداشت نہ تھا۔ چنانچہ نقش و نگار سے منع فرمایا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد کی بنیاد کے وقت اس کے معمار سے فرمایا تھا کہ لوگوں کو گرمی سردی سے بچاؤ، سرخ اور زرد رنگ کرنے سے بچو، لوگوں کو اس کے فتنے میں نہ ڈالو!

مسجد میں نقش و نگار کی ممانعت اس لیے ہے کہ یہ فتنہ ہیں۔ اس تکلف اور بناوٹ سے آدمی اصل کام سے رہ جاتا ہے اور انھی کے دیکھنے میں لگ جاتا ہے۔نماز میں یکسوئی نصیب ہی نہیں ہوتی۔ اسی لیے ہمارے فقہا نے مساجد میں ایسے نقش و نگار اور ظاہری بھڑک کو مکروہ قرار دیا ہے جس سے نمازیوں کا دل ہٹنے لگے۔ حدیث میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایک وہ وقت آئے گاکہ لوگ مسجد بنانے پر ایک دوسرے سے فخر کریں گے۔ ایک اپنی مسجد کو اچھا کہے گا تو دوسرا اس سے اچھی مسجد بنانے کی کوشش کرے گا۔ اور آج کل یہی ہورہا ہے کہ مسجدیں اسی لیے بنائی جاتی ہیں۔ حتیٰ کہ جب کوئی مسجد بناتا ہے تو نئی بناتا ہے کہ پرانی مسجد میں رقم لگانے سے نام نہ ہوگا، کیوں کہ پرانی مسجد میں رقم لگانے سے تو پرانی مسجد کے اصل بانی کا نام ہوجائے گا، پھر ہم رقم کیوں لگائیں۔ مگر خوب سمجھ لیجیے کہ شہرت کی خواہش سے شہرت نہیں ہوتی۔ شہرت تو خود کو مٹانے سے ہوتی ہے۔
        اگر شہرت ہوس داری اسیر دام عزلت شو
        کہ در پرواز دارد گوشہ گیری نام عنقا را
یعنی اگر شہرت کی ہوس ہے تو گوشہ نشینی اختیار کرو، گوشہ گیری سے عنقا کا نام مشہور ہے۔ اب دیکھئے کہ عنقا (ایک پرندے کا نام) پوشیدہ ہوگیا تو اس کا کس قدر نام ہوگیا کہ ہر شخص اسے جانتا ہے۔ اسی طرح اہل اللہ کو دیکھئے کہ وہ اپنے کو مٹاتے ہیں تو ان کا کتنا نام ہوتا ہے، حتیٰ کہ مرنے کے بعد ان کی جوتیاں تک تبرکات میں رکھی جاتی ہیں جبکہ بادشاہوں کے عمدہ عمدہ تختوں کی بھی لوگوں کو خبر نہیں ہوتی۔

افسوس، لوگوں نے موت کو بھی فخر کا موقع بنا رکھا ہے۔ چنانچہ کہیں تیجہ ہوتا ہے تو کہیں چالیسواں۔ ان تقاریب میں بڑا تکلف کیا جاتا ہے۔ اس میں یہ مسئلہ تو الگ رہا کہ یہ رسوم سنت کے خلاف ہیں، یہاں میں ایک اور اہم پہلو کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ حدیث میں ہے انما الاعمال بالنیات وانما لکل امری ما نویٰ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اعمال کا اعتبار نیت سے ہے اور ہر آدمی کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی ہے۔

اب ذرا غور کیجیے کہ تیجے، دسویں اور چالیسویں کے کرنے میں کیا نیت ہوتی ہے۔ اس کا انداشہ اس طرح ہوسکتا ہے کہ اگر کسی نے اپنی ماں کے ایصالِ ثواب کیلیے پچاس روپے رکھے ہوں اور اس سے پلاؤ پکوا کر مسجد یا غریب کے گھر بھیجنا چاہتا ہو تو ہم یا آپ اسے مشورہ دیں گے کہ اس رقم کا پلاؤ نہ بنواؤ، کسی وقتی ضرورت میں خرچ کردو کیوں کہ وقتی ضرورت زیادہ اہم ہے، اور وقتی ضرورت میں خرچ کرنا غیر وقتی ضرورت میں خرچ کرنے سے زیادہ ثواب رکھتا ہے۔ یا فلاں آدمی کو چپکے سے دے دو تاکہ اس کی آبرو بھی محفوظ رہے اور یوں اس سے جو ثواب ہو وہ اپنی ماں کو بخش دو․․․ تو اس شخص کے دل میں فوراً یہ بات آئے گی کہ واہ، میرا اتنا روپیہ پیسہ خرچ ہوجائے اور کچھ نام بھی نہ ہوگا۔ اس سے صاف معلوم ہوا کہ تیجہ، دسواں، چالیسواں کرنا مقصد نہیں ہے، بلکہ محض فخر کرنا ہے۔ کیرانہ میں ایک گوجر بیمار ہوگیا تو اس کا بیٹا حکیم صاحب کے پاس آیا اور بولا کہ حکیم جی، اب کی دفعہ تو کسی طرح میرے باپ کو اچھا کرہی دو، کیوں کہ چاول بہت مہنگاہے، اگر میرا باپ ان دنوں مرگیا تو برادری کو تیجہ دسواں کھلانا پڑے گا جس کی ہمت مجھ میں نہیں ہے۔ اس غریب بے چارے کو باپ کے مرنے کا غم اس قدر نہ تھا جتنا کہ اس بات کی فکر کہ اس کے مرنے پر بہت خرچہ ہوگا۔

یہ تو کیرانہ کا قصہ ہے، خود ہمارے قصبے میں بھی ایک قصہ ہوا کہ ایک دن کوئی بڑھیا عورت ہمارے گھر آئی اور کہنے لگی کہ میں فلانی کے گھر گئی تھی، اس کی ساس مرگئی ہے۔ وہ بہت رو رہی ہے اور یوں کہتی تھی کہ مجھے اس کے کفن دفن کا تو زیادہ فکر نہیں، مجھے تو یہ غم کھائے جارہا ہے کہ اس وقت گھر میں کچھ بھی نہیں اور مرنے کی خبر سن کر ساری برادری جمع ہوجائے گی، انھیں کھلانے پلانے کا سامان کہاں سے کروں گی۔ کہیں سے آٹھ آنے ہی ہوجاتے تو میں ان کے لیے پان چھالیا منگالیتی تاکہ ان کے سامنے رکھ سکوں۔ کفن دفن تو ہو ہی جائے گا۔ یہ سن کر میں نے اپنے گھر پر کہا کہ یہ کام تمہارے کرنے کا ہے، یہ وعظ کہاں تک اثر کرے گا، تم اس رسم کو توڑو اور عورتوں کو سمجھاؤ کہ میت کے گھر جاکر کھانا پینا بہت بری بات ہے۔ ایک تو غریبوں پر موت کا صدمہ ہوا ہے اور دوسرا صدمہ ان پر یہ ڈالا جائے کہ وہ آنے والیوں کے کھانے پینے کا انتظام کریں۔ بہت شرم کی بات ہے۔

میرے گھر والے اس سے پہلے کسی شادی غمی میں نہیں جاتے تھے کیوں کہ اکثر منکرات ہوتے ہیں مگر میں نے اس ضرورت کے تحت اس غمی کے موقع پر انھیں جانے کی اجازت دے دی اور یہ کہا کہ یہ دین کا کام ہے، اس لیے تمہیں شرکت کرنی چاہیے۔ چنانچہ انھوں نے ایسا ہی شروع کیا اور عورتوں کو میت کے گھر جاکر کھانے پینے حتیٰ کہ پان کھانے سے بھی روکا۔ اس پر خود بھی عمل کیا تو اس کا اثر زیادہ ہوا۔ اس پر اگرچہ بہتوں نے ناک منھ چڑھایا کہ کیا ہم ایسے گرے پڑے ہیں کہ آنے والیوں کو پان چھالیا بھی نہ کھلاسکیں؟ لیکن تھوڑے ہی عرصے میں سب مستورات نے اس پر عمل شروع کردیا اور اب کوئی عورت کسی میت کے گھر پر پان تک نہیں کھاتی۔

Flag Counter