مومن یا منافق
مولانا سید محمدیوسف بنوریؒ
کون نہیں جانتا کہ اسلام میں غیبت گناہِ کبیرہ ہے اور یہ ایسا گنا ہ ہے جس کا ذکر قرآنِ کریم نے کیا ہے اورایک عجیب وغریب مثال سے اس کی قباحت وشناعت واضح فرمائی ہے ۔ ظاہر ہے کہ غیبت میں کوئی خلاف واقعہ بات نہیں ہوتی ہے ، بلکہ جو کمزوری کسی انسان میں ہو، اس کا ذکر اس کی غیر موجودگی میں کرنا غیبت کہلاتا ہے، وہ بھی اتنا بڑا گناہ ہے کہ خود حق تعالیٰ قرآن کریم میں اس کا ذکر فرماتا ہے او رمسلمانوں کو اس سے منع فرماتا ہے ۔ کون نہیں جانتا کہ جھوٹ گناہِ کبیرہ ہے اور جھوٹی بات کہنا منافقت کی علامت بتلائی گئی ہے۔
منافق وہ شخص ہے جس کی زبان پر اسلام کا دعویٰ ہو اور دل میں کفر چھپا ہوا ہو، کون نہیں جانتا کہ ” افترا“ یعنی کسی پر جھوٹی بات لگانا جھوٹا الزام لگا دینا گناہ کبیرہ ہے اور یہی افترا اگر حد سے بڑھ جائے کہ لوگ سن کر مبہوت ہو جائیں تو ” بہتان“ کہلاتا ہے اور وہ گناہ کبیرہ ہے ۔ غرض غیبت، کذب، افترا، بہتان، تمام کے تمام معاصی کبیرہ ہیں او ران کے مرتکب کے لیے جہنم کی وعید ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے کہ اسلام نے مسلمانوں میں عالم گیر اُخوت قائم کی ہے:﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ﴾․ (الحجرات:10)
”مسلمان تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔“
او راسلامی اُخوت کے بارے میں احادیثِ نبویہ میں عجیب عجیب حقائق بیان فرمائے گئے ہیں، ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر کیا حقوق ہیں ؟ فرمایا ہے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے کہ:
” مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پرظلم کرے، نہ اسے دشمن کے حوالے کرے، بوقتِ حاجت اس کی امداد کرے، اگر کوئی گناہ کرے تو اس کی پردہ پوشی کرے اور جو مسلمان، مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کرے گا حق تعالیٰ شانہ، دنیا وآخرت دونوں میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ “ (الصحیح لمسلم، کتاب البر والصلة والآداب، باب تحریم الظلم، ج2، ص:320، قدیمی)
اور فرمایا کہ :” مسلمان کی مثال ہم دردی وغم خواری میں ایک جسد کے اعضا کی طرح ہے، اگر ایک عضور درد میں مبتلا ہو تو تمام بدنِ انسانی بے چین رہتا ہے ۔“ ( صحیح البخاری، کتاب الآداب، باب رحمة الناس والبھائم، ج2 ص:889، قدیمی)
اور فرمایا کہ:” مسلمان تب مسلمان ہو گا کہ جو چیز خود اپنے لیے پسند کرے وہی مسلمان بھائی کے لیے پسند کرے۔“ ( صحیح البخاری، کتاب الایمان، باب من الایمان انیحب لاخیہ ما یحب لنفسہ، ج1، ص:6، قدیمی)
کہاں تک بیان کیا جائے ، مسلمان جب مسلمان سے ملے تو ”السلام علیکم“ کہے۔ اور مسلمان کو چھینک آئے تو فوراً ’یرحمک الله“ کہے کہ الله تعالیٰ کی آپ پر رحمت ہو۔ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے۔ غرض قرآن، احادیث نبویہ میں اتنی تفصیلات ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔
یہ ہیں دینِ اسلام کی وہ امتیازی خصوصیات کہ کوئی دین ان کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ مسلمان کا اکرام واعزاز کرنا اسلام کے بنیادی حقوق میں سے ہے ۔ مسلمان کی خیر خواہی، اس کی نصرت، اس کیہم دردی، اس پر نیک گمان کرنا وغیرہ وغیرہ یہ دینِ اسلام کی وہ باتیں ہیں کہ تہذیب کی مدعی قومیں اس کی مثال پیش کرنے سے عاجز ہیں۔
جدید تہذیب کی برکات
افسوس کہ آج کل بالخصوص پارلیمانی انتخابات کا اعلان ہوتے ہی اسلامی اخوت او رمسلمانی کی وہ دھجیاں بکھیری جارہی ہیں کہ سن کر عقل حیران ہے۔ جھوٹ، غیبت، بہتان طرازی، افترا پر دازی کون ساوہ گناہ ہے جو برسر بازار بڑے بڑے عظیم الشان اجتماعات میں نہیں کیا جاتا ۔ ایک طوفان بدتمیزی ہر محفل میں برپا ہے، نہ کسی کی آبرو محفوظ ہے ، نہ کسی کی جان محفوظ، مال ودولت کو بری طرح سے بہایا جا رہا ہے، بھائی بھائی کا دشمن بنا ہوا ہے۔ غرض کون سی بد تہذیبی ہے جس کا مظاہرہ نہ ہو رہا ہو؟!
یہ ہے یورپ کی تہذیب، یہ ہے مغرب کا تحفہ ، یہ ہیں مغرب زدگی کے کارنامے۔ پھر ہر شخص، ہر فریق کی زبان پر یہ دعویٰ کہ ہماری جماعت کی کام یابی سے اسلام کا یہ فائدہ ہو گا، مسلمانوں کو یہ نفع پہنچے گا، آئندہ ہم اگر کام یاب ہوئے تو یہ کریں گے اور وہ کریں گے ، حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آَمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ،کَبُرَ مَقْتاً عِندَ اللَّہِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُون﴾․( الصف:3-2)
” اے ایمان والو! ایسی بات تم کیوں کہتے ہو جو نہیں کرتے ؟ حق تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینے والی ہے یہ بات کہ جو کہتے ہو کرتے نہیں۔“
یہ ہے تہذیب جدید کی پیدا وار اور اس قسم کے انتخابات سے یورپ کی جمہوریت جنم لیتی ہے، جس کا حشر ملک67 بر س سے دیکھ رہا ہے کہ ان دعوے داروں نے اسلام کی کیا خدمت انجام دی اور کسی خدمت کی ابتدا کی بھی تو انجام کی خدا کو خبر۔ کیا اس ملک میں ایسا قانون بنا جس سے انسان کی شرافت محفوظ ہو ، آبرو محفوظ ہو، مال محفوظ ہو، جان محفوظ ہو؟ کیا الله تعالیٰ کا قانونِ عدل نافذ کیا؟ کیا شراب کو بند کیا گیا؟ کیا زناپر اسلامی سزا جاری کی گئی؟ کیا چور کے ہاتھ کاٹے گئے؟ کیا چکلے بند کر دیے گئے؟ کیا شراب خانے ختم کر دیے گئے؟ کیا قصاص جاری کیا گیا؟ نہیں ! بلکہ بے حیائی، شراب خوری، آبروریزی کو دورِ حاضر کے ہر ذریعے سے اتنااچھالا گیا کہ عقل دنگ رہ گئی۔
کیا مسلمانوں کی املاک محفوظ ہیں؟ کیا کارخانے محفوظ ہیں؟ کیا انڈسٹری محفوظ ہے؟ کیا 22 سو فیکٹریاں قومیائی نہیں گئیں؟ جن کی کم از کم تین ارب کی کمائی سے قوم محروم ہو گئیاور نااہلوں کے سپرد کرکے معیشت تباہ ہو گئی، خسارے میں چل رہی ہیں، یاد کھلایا جارہا ہے کہ خسارہ ہے، تاکہ حکومت کے خزانے میں ٹیکس نہ ادا کرنا پڑے، حکومت کا خزانہ بھی خالی ہو گیا ، قوم بھی فقر وفاقے میں مبتلا ہو گئی۔
یہ داستان نہ ہمارا موضوع ہے ، نہ ہمارا مزاج ، ورنہ بتلاتے کہ ان دعوے داروں نے اس ملک اور ذرائع آمدنی کی کیا گت بنائی ہے ۔ غرض نہ دین کی ترقی، نہ دنیا کا سکون﴿خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَةَ ذَلِکَ ہُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ﴾(الحج:11)
دنیا تباہ، دین تباہ، اخلاق تباہ، انسانیت ختم، حیا کا جنازہ نکالا گیا۔ یہ ہیں جدید تہذیب کی برکات، یہ ہیں جمہوریت کے ثمرات اور یہ ہے خدا فراموشی کی سزا، إنالله وإنا الیہ راجعون، حق تعالیٰ اس ملک خداداد پر رحم فرمائے اور صالح ہاتھوں میں حکومت آئے، تاکہ الله تعالیٰ بھی راضی ہو اور قوم بھی خوش ہو ، دل کو بھی سکون ملے، جان بھی محفوظ ہو۔
اللھم لا تسلط علینا من لا یرحمنا، اللھم ولِّ أمورنا خیارنا، ولاتول أمورنا شرارنا، واغفرلنا وارحمنا، وأنت خیر الرحمین، آمین یا رب العالمین!