آہ، حضرت مولانانورمحمدتونسویؒ
محترم حمزہ احسانی
مناظر اسلام،محقق اہل سنت، وکیل احناف، ترجمان مسلک دیوبند، جامعہ عثمانیہ ترنڈہ محمد پناہ (ضلع رحیم یارخان )کے بانی ومہتمم، اتحاد اہل السنة والجماعة کے مرکزی سرپرست اعلیٰ، تیس سے زائد علمی وتحقیقی کتب کے مصنف، ہمارے ہردل عزیز مقتدا وراہ نماوپیشوا، قاطع شرک وبدعت، جامع المعقول والمنقول حضرت مولانا ابو احمد نور محمد تونسوی قادری رحمة اللہ علیہ موٴرخہ 15/جنوری 2015ء بمطابق 23ربیع الاول1436ھ بروز جمعرات دِن ایک بجے، 68/ سال کی عمر میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ إناللہ وإنا إلیہ راجعون
حُسنِ اتفاق سے بندہ ناچیز وفات کے وقت حضرت کے پاس ہی موجود تھا۔ دوتین دن سے حضرت رحمہ اللہ کی طبیعت شوگر کی بے حد کمی کی وجہ سے ناساز تھی، پانچ چھ گھنٹے مسلسل بے ہوشی بھی طاری رہی۔ علاج جاری تھا، ڈاکٹر صاحبان تسلی بھی دے چکے تھے۔جمعرات کوصبح بیٹوں نے بہاول پور ہسپتال میں رابطہ کرکے باری نمبر حاصل کرلیا۔ لیکن حضرت جانے کے لیے تیار نہ ہوئے، فرمایا: شام تک دیکھ لو! اگر طبیعت سنبھل گئی تو ٹھیک، ورنہ ہسپتال چلے جائیں گے۔ شوگر بہت کم تھی، کھانا پینا بھی تقریبا موقوف تھا۔دن کو چائے کے ساتھ رس تناول فرمائے۔ ایک بجے کے لگ بھگ اچانک بیٹے سے فرمایا: شوگر چیک کرو! شوگر چیک کی تو حیرت ناک، بلکہ خطرناک ترین حد تک بڑھ چکی تھی۔ 580 سے بھی زائد۔ فورا ڈاکٹر کو بلوایا گیا۔ حضرت نے فرمایا مجھے لٹادو! لیٹتے ہی بے ہوشی طاری ہوگئی۔ڈاکٹر صاحب کے تشریف لانے تک حضرت بے ہوش ہوچکے تھے اور شاید سانس بھی رک چکا تھا۔
اسی اثناء میں بندہ ناچیز کو بھی اندر بلوا لیا گیا۔ سانس بند ہوجانے کا علم ہوا۔ سر کی جانب صاحبزادہ مولانا احمد اللہ اور صاحب زادہ مولانا عبیداللہ اور ان کے قریب صاحب زادہ مولانا حامداللہ کھڑے تھے، پائنتی کی جانب بندہ ناچیز۔ بعض دیگر احباب بھی موجود تھے۔ ڈاکٹر صاحب ای سی جی مشین کا دریافت کررہے تھے۔ ایک اور ڈاکٹر صاحب سے رابطہ کرکے ای سی جی مشین سمیت آنے کی درخواست کی گئی۔ چند منٹ بعد وہ بھی تشریف لے آئے۔ انہوں نے دل کی دھڑکن چیک کی، پھر آنکھیں دیکھیں اور ”اناللہ“ کے ساتھ قیامت خیز حادثہ کی خبر دے دی۔
إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔اللہم لاتحرمنا أجرہ ولا تفتنا بعدہ․
إن للہ ما أخذ ولہ ما أعطی، وکل شيء عندہ بأجل مسمی․
مناظرانہ طبیعت، فرق باطلہ کے خلاف محققانہ وماہرانہ صلاحیت اورمسلک سے والہانہ، مگر عالمانہ عقیدت کے باوجود دعوت وتبلیغ کے ساتھ خصوصی شغف رکھتے تھے اوراسے دین ومسلک کی اشاعت و حفاظت اور عوام الناس کے ایمان وعمل کی سلامتی وبقا کا اہم ذریعہ سمجھتے تھے۔ تیس(30) سال سے زائد عرصہ تو آپ ترنڈہ محمد پناہ کی جامع مسجد میں خطابت کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ اس کے علاوہ ملک بھر کے دینی اجتماعات میں بالعموم اور اپنے علاقہ کی دینی محافل میں بالخصوص آپ بیانات فرماتے رہے۔ علاوہ ازیں تبلیغی جماعت کے دفاع اور اس پر اعتراضات کے جواب میں مختلف کتب بھی آپ نے تصنیف فرمائیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مشہور مبلغ مولانامحمدطارق جمیل مدظلہم بھی آپ سے زیارت وملاقات کے لیے خود حاضر ہوئے۔
دعوت وتبلیغ کے ساتھ درس وتدریس اور تحقیق و تصنیف بھی آپ کا عمر بھر کا مشغلہ رہا، مسلک حق کی اشاعت وحفاظت تو گویا آپ کا اوڑھنا اور بچھونا تھا۔ نجی محافل ہوں یا اجتماعی مجالس، جمعہ کا خطاب ہو یا دینی جلسہ، ماہانہ رسالے کے لیے مضمون ہو یا باقاعدہ کتابچہ، مفصل مدلل تصنیف ہو یا مسئلہ کے جملہ پہلووٴں کا احاطہ کرنے والی محققانہ تالیف… ہر مقام، ہر میدان اور ہر محاذ پر آپ نے مسلک کی ترجمانی اور دفاع کا فریضہ ڈنکے کی چوٹ سرانجام دیا۔ آپ کے مضامین کی وقعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکیم العصر، شیخ الحدیث حضرت مولاناعبدالمجید لدھیانوی رحمہم الله سابق (امیر:عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت)جیسی بلند پایہ علمی شخصیت نے ایک موقع پر فرمایا:
” مولانانورمحمد صاحب کے مضامین ماہنامہ الخیر اور دوسرے رسائل میں بہت شوق سے پڑھتا ہوں۔ “
اور تصانیف کی جامعیت ونافعیت کا اندازہ اس واقعہ سے لگائیے کہ شہید ناموس رسالت، ہمارے محبوب حضرت مولاناسعیداحمد جلال پوری شہید رحمہ اللہ ، حضرت مولانانورمحمد صاحب رحمہ اللہ کی خدمت میں باقاعدہ تشریف لائے اور فرمایا: ”ہمارے حضرت شہید اسلام حضرت مولانامحمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ اگر حیات ہوتے تو آپ کی تالیف ”قبر کی زندگی“ پر آپ کو ضرور انعام سے نوازتے۔ لیکن اب وہ نہیں تو بندہ کی طرف سے انعام قبول فرمائیں۔“ پھر نقد رقم پیش کی۔ اور فرمایا:” اس عنوان (حیات النبی) پر جو کچھ آپ کے سینے میں ہے، اسے کاغذ پر منتقل کردیں اور مسلسل لکھتے رہیں۔ صرف اسی پر اکتفاء نہ کریں۔ ورنہ آپ قبر میں چلے جائیں گے اور سب کچھ ساتھ لے جائیں گے۔“ عقیدہ حیات النبی اور اس کے متعلقات کے حوالے سے تو اپنے وقت میں پاکستان بھر کے سب سے بڑے ماہر، محقق اور جامع سمجھے جاتے تھے۔
آپ کی مطبوعہ تصانیف کی تعداد تیس (30)سے زائد ہے۔ جن میں :(1)…الحیات بعد الوفات، یعنی قبر کی زندگی،(2)…تبلیغی جماعت کا شرعی مقام، (3)…حقیقی نظریات صحابہ، (4)…سیدنا علی اور سیدنا امیر معاویہ کی آپس میں محبت وعقیدت، (5)…شان ابی حنیفہ در احادیث شریفہ، (6)…روح کی آڑ میں مسلمہ حقائق کا انکار، (7)…مولاناطیب پنج پیری سے ایک سو چار(104) سوالات، (8)…مزید تین سو پینتیس(335) سوالات،(9)…ایک ریٹائرڈ فوجی کے سات سوالات کے جوابات، (10)…مجموعہ سوالات، (11)…اسلام کے نام پر ہویٰ پرستی(کیپٹن مسعودعثمانی کے نظریات کا مکمل، مدلل، تحقیقی وعلمی محاسبہ)، (12)…عذاب قبر کی صحیح صورت کے منکر کا شرعی حکم، (13)…تبلیغی اعمال کی شرعی حیثیت، (14)…سوال گندم جواب چنا، (15)…عقیدہ حیات قبر اور علمائے اسلام، (16)…جہادِ نفس، (17)…تبلیغی جماعت اور مشائخ عرب،(18)…تبلیغی جماعت اور عرب علماء، (19)…عقیدہ حیات قبر اور علم وفہم میت کی حدیث، (20)… مقالات تونسوی، (21)…معیارِ صداقت،(22)…غیرمقلدین عوام، غیر مقلدین علماء کی نظر میں، (23)…مسنون نمازِ تراویح، (24)…منکرین حیات کی خوفناک چالیں، (25)…عتیق الرحمن کی قلابازیاں، (26)…نماز جنازہ میں مسنون دعا،(27)… شان سیدنا ابی سفیان، (28)…زبدة التحقیقات فی إثبات الدعاء بعد المکتوبات، (29)…ھوالکذاب، (30)…تحقیق المسئلتین․وغیرہ شامل ہیں۔ مختلف رسائل وجرائد میں طبع ہونے والے سیکڑوں مضامین اس کے علاوہ ہیں۔
بلندپایہ علمی شان کے باوجودسادگی، عاجزی، للہیت، اخلاص وتقویٰ کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے، دیانت داری کا بہت زیادہ اہتمام تھا۔ کبھی بھی حق قبول کرنے یا غلطی سے رجوع میں پس وپیش سے کام نہیں لیا۔ مخالف کی طرف سے سخت طعن وتشنیع کے باوجود انتہائی تحمل وبردباری کا مظاہرہ فرماتے تھے۔ ایسے ہی ایک موقع پر فرمایا: ”جو کچھ آپ نے بندہ عاجز کے بارے میں لکھا، بندہ اُس سے بھی کم تر بلکہ بدتر ہے۔اللہ پاک کی شان کریمی نے پردہ ڈال رکھا ہے۔“ بڑوں کا ادب کبھی بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ اور چھوٹوں پر شفقت کا تو کیا ہی پوچھنا تھا۔ اکابر کا احترام اور اصاغر کی حوصلہ افزائی اور ان کے لیے شب وروز دعائیں آپ کا معمول تھا۔
جامعہ عبداللہ بن مسعود خان پور کے استاذالحدیث حضرت مولانا مفتی عبدالستار صاحب مدظلہم، حضرت مولانا حاجی احمد گمانوی مدظلہم کے حوالے سے فرمارہے تھے کہ: شدید علالت اور نقاہت کے عالم میں بھی حضرت رحمہ اللہ کو مسلک کی فکر لاحق تھی، چناں چہ ان سے فرمایا: مسلک دیوبند اور علمائے کرام پر بہت سے لوگوں نے اعتراضات کیے، جن کا جواب ابھی باقی ہے، اللہ پاک مجھے صحت سے نوازیں تو یہ قرض چکا دوں۔
اور چند دن قبل ہی کی بات ہے، بندہ نے دارالافتاء میں حضرت رحمہ اللہ کے لیٹر پیڈ پر لکھا ہواسوال (استفتا) دیکھا تو شوق کے ہاتھوں مجبور ہوکر اٹھالیا، حضرت رحمہ اللہ نے عقائد ہی کی بابت ایک استفتا بھیج رکھا تھاکہ: عقائد کی دوقسموں (قطعی اورظنی) کاثبوت کہاں ہے؟ کیا واقعی بعض عقائد ”ضروریاتِ اسلام“ اور بعض ”ضروریاتِ اہلِ سنت“ سے ہیں؟ اس کی دلیل کیا ہے؟ مآخذ کیا ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ بندہ نے سرسری نگاہ سے دیکھاتھا، اس لیے مزید کچھ یاد نہیں۔… اور دارالعلوم مدنیہ بہاول پور کے نوجوان فاضل ومتخصص حضرت مولانا مفتی عمر فاروقی صاحب مدظلہ (مدیر: جامعہ بحر العلوم، ترنڈہ محمد پناہ) نے بتایا کہ: وفات سے ایک ہفتہ قبل حضرت رحمہ اللہ ایک مسئلہ دریافت کرنے کے لیے بذات خود ہمارے ادارے میں تشریف لائے۔ اتفاق سے بندہ موجود نہیں تھا۔ تو استفتا دے کر چلے گئے۔… ماہنامہ ”صفدر“ کے مدیر اعلیٰ حضرت مولانا جمیل الرحمن عباسی مدظلہم نے بھی بتایا کہ: حضرت رحمہ اللہ کا ایک استفتا ہمارے پاس آیا ہوا ہے کہ: آیا عقیدہ حیات النبی ضروریاتِ دین میں سے ہے یا ضروریاتِ اہل سنت میں سے؟ اور اس کی دلیل کیا ہے؟ … اللہ اکبر!!کیاشان ہے ہمارے اکابر کی کہ ہروقت اور ہر لمحہ مسلک ومشرب اور امت کو فتنوں سے بچانے اور اُن کے ایمان کی سلامتی کی فکر ہے۔
ایک مرتبہ بندہ حاضر خدمت ہو اتو مسلکی تشویش ناک حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمانے لگے: ”اب توصحیح مسلک پر چلنے والے کم ہی رہ گئے ہیں اور ان کی مثال بھی اُس بادشاہ اور وزیر کی سی ہے جنہیں اُن کی قوم نے پاگل سمجھ کر قید کرڈالا تھا۔ پھر حکایت سنائی کہ: ”ایک ملک کے نجومیوں نے بادشاہ کو خبر دی کہ فلاں دن یہاں ایک ہوا چلے گی، جو پورے ملک میں پھیلے گی۔ وہ ہوا اتنی خطرناک ہے کہ جسے وہ لگ گئی، وہ اپنا ذہنی توازن کھوبیٹھے گا اور پاگل ہوجائے گا۔ بادشاہ نے اپنے وزیر کو بلاکر مشورہ طلب کیا، وزیر نے کافی سوچ بچار کے بعد کہاکہ: دوکام کرنے ہوں گے:
ایک تو ہم اعلان کردیں کہ سب لوگ اپنے بچاوٴکا انتظام کرلیں اور احتیاطی تدابیر بھی سب کو بتادی جائیں۔
دوسرا ہم اپنے لیے بھی کوئی ایسی جگہ بنالیں جہاں وہ ہوا نہ پہنچ سکے اور ہم وہ وقت اس مخصوص جگہ میں گزار لیں۔ چناں چہ اعلان کردیاگیا کہ ایک خطرناک اور مہلک قسم کی ہوا چلنے والی ہے۔ سب لوگ اپنی اپنی حفاظت کا انتظام کرلیں۔ حفاظتی تدابیر بھی بتادی گئیں۔ لیکن کسی نے اُن کی بات پر توجہ نہ دی۔ بادشاہ اور اس کے وزیر نے ایک خاص جگہ کا انتظام کرلیا۔ اور ہوا چلنے کے وقت اس میں بند رہے۔ جب وہ مہلک ہوا ختم ہوگئی اور بادشاہ و وزیر اپنی مخصوص عمارت یا تہہ خانے سے باہر آئے تو سب لوگ ذہنی توازن کھوچکے تھے۔
اب صورت حال یہ ہوئی کہ بادشاہ اوروزیر جو حکم جاری کرتے، لوگ اُسے غلط سمجھتے اور اپنی سوچ کو درست۔ جب مسلسل ایسا ہونے لگا تو لوگوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ ہمارے بادشاہ اور ا س کے وزیر کا ذہنی توازن برقرار نہیں رہا اور وہ مجنون ہوچکے ہیں۔ لہٰذا ان کو کرسیٴ اقتدار سے اتار کر قید کردیا جائے اور ان کا علاج کرایا جائے۔“
حکایت سنانے کے بعد ارشادفرمایا: اب یہی حال ہے کہ ہم نے لوگوں کو بہت سمجھایا کہ بے دینی، نفس پرستی اور اکابر بے زاری کی ہوا چل رہی ہے، اپنے افکار وایمان کی حفاظت کا انتظام کرلو! کسی نے توجہ نہیں دی۔ اب جب سب کو وہ ہوا لگ گئی ہے تو سب ہمیں ہی پاگل اور مجنون سمجھتے ہیں…!!
عموما ہم لوگ بزرگانِ دین کی حیات میں اُن سے استفادہ نہیں کرتے اور بعد از وفات اپنی بدنصیبی پر ماتم کرنے اور اُن کی قصیدہ گوئی میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ لیکن یہ محض اللہ پاک ہی کا فضل وکرم ہے کہ اُس نے اپنے ایک نیک بندے کی حیات دنیویہ میں ہی اُن سے ہمیں سچی عقیدت نصیب فرمائی اور استفادہ کا موقع بھی عطا کیا۔ دارالعلوم مدنیہ بہاول پورکے سات سالہ قیام کے دوران تقریبا ہر ماہ حاضری کی سعادت حاصل کرتا رہا۔ جب کراچی آگیا تو دوتین ماہ بعد ضرور حاضری دیتا اور دعائیں حاصل کرتاتھا۔ مجلہ صفدر سمیت اہم دینی ومسلکی امور میں اُن سے مشاورت رہتی تھی۔ مجلہ صفدر کے ”فتنہٴ غامدی نمبر“ کے لیے سب سے پہلے حضرت ہی کا مضمون موصول ہوا۔ اور بندہٴ ناچیز اِس بے پناہ شفقت پر اُن کا زبانی شکریہ اداکر چکا تھا اور تحریری طور پر خصوصی شکریہ کا عزم رکھتا تھا ،جو اَب خصوصی دعاوٴں کے عزم میں بدل گیا ہے۔ ”فتنہٴ غامدی نمبر“ میں ہم اُس مضمون سے مستفید ہوں گے۔ ان شاء اللہ
اللہ تبارک وتعالیٰ حضرت رحمہ اللہ کے درجات بلند سے بلند تر فرمائے، اُن کی اولادکو اُن کا صحیح جانشین بنائے اور اُن کے قائم کردہ ادارہ جامعہ عثمانیہ سمیت تمام باقیات صالحات کو تاقیام قیامت سلامت وآباد وشادرکھے۔ آمین۔ مجلہ صفدر اپنی روایت کے مطابق ان شاء اللہ حضرت رحمہ اللہ پر خصوصی اشاعت شائع کرنے کا عزم رکھتا ہے۔ تمام اہل علم وقلم سے حسب سابق بھرپور علمی وقلمی تعاون کی خصوصی درخواست ہے۔ اللہ پاک اپنے اس نیک بندے کے صدقے ہم سب کی بخشش فرمائے اور سب کو اکابر اہل سنت کے نقش قدم پر مضبوطی سے قائم ودائم رہنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین یارب العالمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم․