Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1436ھ

ہ رسالہ

14 - 16
والدین کے ساتھ آپ صلی الله علیہ و سلم کارحیمانہ سلوک

مفتی محمد مجیب الرحمن دیودرگی
	
والدین در حقیقت انسان کے دنیا میں آنے کا ذریعہ ہوتے ہیں، انسان کا وجود والدین کے رہین منت ہوتا ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے بھی کئی مقامات پر والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا اور ان کے حقوق کے ادائیگی کی تلقین کی ہے، نیز جہاں شرک سے اجتناب کی تعلیم دی تو وہیں ساتھ میں والدین کے ساتھ صحیح روش اپنانے کی ترغیب دی، والدین کے تئیں آپ صلی الله علیہ و سلم کے فرامین بھی حسن سلوک کی تعلیم دے رہے ہیں، جس طرح والدین نے بچپن میں بچے پر رحم کیا، اس کی ضروریات کا لحاظ کیا، اس کے درد کو اپنا درد سمجھا، اس کی ضرورت کو اپنی ضرورت خیال کیا، اس کی تکلیف کے دفعیہ میں حتی الامکان سعی کی، اسی طرح اب بڑھاپے میں بچوں کو ضرورت ہوتی ہے کہ وہ والدین کو نعمت سمجھیں، ان کی خدمت اپنے لیے اعزاز قراردیں، اپنے گھر ان کا قیام اپنے لیے رحمت تصور کریں، آپ صلی الله علیہ و سلم نے اپنے اقوال وافعال سے اسی کی تعلیم دی۔

والدین کی نافرمانی کبیرہ گناہ
آپ صلی الله علیہ و سلم نے والدین کے ساتھ رحیمانہ معاملہ فرماتے ہوئے امت کو اس بات کی تعلیم دی کہ والدین کی اطاعت وفرمان برداری اپنے لیے لازم کرلو، بصورت دیگر والدین کی نافرمانی کو کبیرہ گناہ شمار کیا، کبیرہ گناہ وہ ہے جو بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتا، ایک موقعہ پر آپ صلی الله علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضي الله عنهم سے استفسار کرتے ہوئے فرمایا: کیا میں تم کو کبائر میں سے بڑے کبیرہ کی خبر دوں؟ صحابہ رضي الله عنهم نے عرض کیا، کیوں نہیں یارسول اللہ؟ ضرور ضرور خبردیں، آپ صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا: کبیرہ گناہ شرک اور والدین کی نافرمانی ہے۔ (بخاری:6675، باب الیمین الغموس) یہ آپ صلی الله علیہ و سلم کی رحمت کا اثر ہی ہے کہ والدین کی نافرمانی کو کبیرہ شمار کیا، یعنی کسی مسلمان سے کبیرہ گناہ کی توقع نہیں ہوسکتی؛ اس لیے کوئی بھی مسلمان کبیرہ کے تصور سے والدین کی نافرمانی سے دور رہے گا، ایک موقعہ آپ صلی الله علیہ و سلم نے پانچوں نمازوں کی ادائیگی کے اہتمام کرنے والے اور کبائر سے بچنے والے کو جنت کی بشارت دی اور کبائر سے والدین کی نافرمانی شمار کی۔ (السلسلة الصحیحة:1432) جن چیزوں کی وجہ سے جنت کا استحقاق ہوتا ہے انہیں میں سے ایک والدین کی نافرمانی سے احتراز بھی ہے، ایک موقعہ پر آپ صلی الله علیہ و سلم نے والدین کی اطاعت وفرمان برداری کی اہمیت اجا گر کرتے ہوئے فرمایا:روز محشر اللہ تعالیٰ تین آدمیوں پر نظر التفات نہ فرمائیں گے، انہیں میں سے ایک والدین کی نافرمانی بھی ہے، نیز فرمایا: تین لوگ جنت میں داخل نہ ہوں گے، انہیں میں ایک والدین کا نافرمان بھی ہے۔ (الترغیب والترھیب: 3774کتاب البر والصلة،حسن) اس حدیث میں آپ صلی الله علیہ و سلم نے جہاں نافرمان اولاد کو روز محشر رحمت الہیہ سے محروم قرار دیا، وہیں پر نافرمان اولاد سے جنت کا استحقاق بھی ختم کردیا، والدین کی نافرمانی ہی کو کبیرہ نہ شمار کیا؛ بلکہ وہ اسباب جو والدین کے لیے تکلیف دہی کا ذریعہ بن سکتے ہیں ، انہیں بھی کبائر میں شمار کیا، لہٰذا فرمایا: کبائر میں سے یہ ہے کہ انسان اپنے والدین کو گالی دے ، آپ صلی الله علیہ و سلم سے استفسار کیا گیا: کیا آدمی اپنے والدین کو بھی گالی دے سکتا ہے؟آپ صلی الله علیہ و سلم نے جواب دیا: کسی آدمی کے والدیا والدہ کو گالی دیتا ہے وہ اس کے والدہ یا والدہ کو گالی دیتا ہے۔(الترغیب والترھیب: 2783کتاب البر والصلة،صحیح)

ماں کا مقام
اولاد کی پیدائش کتنی پریشانیوں کتنی مشقتوں کتنی تکالیف سے ہوتی ہے اس کا احساس والدہ سے زیادہ کسی اور کو نہیں ہوسکتا، اسی لیے آپ صلی الله علیہ و سلم نے والدہ کا مقام والد سے زیادہ بیان کیا؛ چناں چہ ایک صحابی آپ صلی الله علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوکر سوال کرنے لگے کہ میرے سب سے زیادہ احسان کے کون مستحق ہیں؟ آپ صلی الله علیہ و سلم نے تین دفعہ ماں کا تذکرہ کیا، چوتھی دفعہ والد کا ذکر کیا۔ (بخاری: 5626، باب من احق الناس بحسن الصحبة؟) آپ صلی الله علیہ و سلم اکثر وبیشتر دونوں کے ساتھ حسن سلوک کا تذکرہ فرماتے، کبھی ایک کی ہی تخصیص فرماتے، ایک دفعہ دیہاتی آکر آپ صلی الله علیہ و سلم سے سوال کرنے لگے کہ کس کے ساتھ وہ حسن سلوک کریں؟ آپ صلی الله علیہ و سلم نے دودفعہ والدہ کا تذکرہ کیا، تیسری دفعہ والدکا ذکر فرمایا۔(بخاری: 5971، باب من أحق الناس بحسن الصحبة ؟) ایک صحابی حارثہ بن نعمان کے سلسلہ میں مشہور تھا کہ وہ والدہ کے بڑے مطیع وفرمان بردار ہیں، آپ صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا:میں جنت میں داخل ہوا تو وہاں پڑھنے کی آواز سنی تو میں نے پوچھا کون؟ انہوں نے جواب دیا حارثہ بن بن نعمان۔ میں نے کہا، حسنِ سلوک اسی طرح ہونا چاہیے۔ (للدولابی:1191 من کنیتہ أبوالنضرہ ،مسند الشہاب القضاعی 1/102) ایک موقعہ پر آپ صلی الله علیہ و سلم نے والدہ کی اہمیت بیان کی : جنت ماں کے قدموں تلے ہے ۔(الکنی والأسماء) جنت کی تلاش کا آسان راستہ والدہ کی خدمت سے طے ہوتا ہے، جو شخص جنت کا متلاشی ہو وہ فرائض وواجبات کی دائیگی کے ساتھ والدہ کی خدمت کو لازم پکڑے، ایک موقعہ پر آپ صلی الله علیہ و سلم سے ایک صحابی نے استفسار کیا کہ میں نے والدہ کی فلاں فلاں خدمت کی، کیا والدہ کا حق ادا ہوگیا؟ آپ صلی الله علیہ و سلم نے جواب دیا تمہاری پیدائش کے وقت والدہ نے تکلیف سے جو آواز نکالی تھی اس کا بھی حق ادا نہ ہوا۔

باپ کا مقام
ایک باپ جو صبح سے شام تک اولاد کی پرورش، ان کی تربیت کے سلسلہ میں بے چین رہتا ہے وہ اس خیال میں محو رہتا ہے کہ اخراجات کی تکمیل کیسے ہو؟ اس کا مقام بیان کرتے ہوئے آپ صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا: باپ جنت کے دروازوں میں بیچ کا دروازہ ہے، اگر تو چاہے تو اس دروازے کی حفاظت کر یا اس کو ضائع کردے۔(ترمذی: 1900، باب ما جاء من الفضل فی اخا الوالدین، صحیح) ایک موقعہ پر ایک صحابی رسول آکر آپ صلی الله علیہ و سلم کی خدمت میں شکایت کرنے لگے کہ میرے والد میرے مال سے خرچ کرنا چاہتے ہیں، ایسے موقع پر میں کیا کروں؟ آپ صلی الله علیہ و سلم نے جواب دیا، ”تو او رتیرا مال تیرے والدہی کے لیے ہے۔“(ابن ماجہ: 2291، باب ما للرجل من مال ولدہ، صحیح) یعنی آپ صلی الله علیہ و سلم نے والد کا مقام ومرتبہ بیان کرتے ہوئے اولاد کے مال میں والد کا استحقاق قرار دیا۔

والدین کی خوش نودی اللہ کی خوش نودی
انسان کی پیدائش کا مقصد ہی یہ ہے کہ اللہ کو راضی کرے، اس کو حاصل کرنے کا آسان طریقہ آپ صلی الله علیہ و سلم نے بیان فرمایا: بندے سے اللہ کا راضی ہونا بندے سے اللہ کا ناراض ہونا والدین کی رضا مندی وناراضگی کے ساتھ معلق ہے۔ (الجامع الصغیر: 5820، صحیح)

ایک اور حدیث میں آپ صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا:رب کی رضامندی والد کی رضا مندی میں ہے، رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔ (الجامع الصغیر: 5819، صحیح) والدین کی رضامندی کو آپ صلی الله علیہ و سلم نے کتنا اہم قرار دیا کہ ان کی رضامندی پر اپنی رضامندی موقوف کردی، والدین کو ناراض رکھ کر اللہ کو راضی کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

جنگ وہجرت پر خدمت کو ترجیح
جنگ کا موقع ہو یا ہجرت کا موقعہ، ایسے مواقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضي الله عنهم کو اس بات کی تلقین کرتے تھے کہ والدین کو راضی کیے بغیر ہجرت نہ کرو، نہ ہی والدین کو راضی کیے بغیر جنگ میں جاوٴ،چناں چہ ایک صحابی رسول نے آپ صلی الله علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر جہاد میں شرکت کے عزم کا اظہار کیا، اس سلسلے میں آپ صلی الله علیہ و سلم سے مشورہ طلب کیا، آپ صلی الله علیہ و سلم نے سوال کیا کہ کیا تمہاری والدہ ہیں؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا، آپ صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا: انہیں لازم پکڑے رہو، آپ صلی الله علیہ و سلم نے استفسار کیا کہ کیا تمہارے والدین ہیں؟ انہوں نے مثبت جواب دیا، آپ صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا: ان میں جہاد کرو۔ (بخاری: 3004، باب الجہاد باذن الوالدین) ایک صحابی جذبہٴ جہاد سے سرشار ہو کر یمن سے تشریف لائے، آپ صلی الله علیہ و سلم نے ان سے دریافت کیا کہ کیا یمن میں تمہارے کوئی رشتہ داربا حیات ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ والدین زندہ ہیں۔ آپ صلی الله علیہ و سلم نے ان سے اجازت کے بارے میں سوال کیا، صحابی رسول نے نفی میں جواب دیا، آپ صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا: جاوٴ! ان سے اجازت لو، اگر اجازت نہ ملے تو ایسی صورت میں ان کے ساتھ ہی حسنِ سلوک کرو۔(ابوداوٴ: 2530، باب فی الرجل یغزووابواہ کارھان، صحیح )

ایک صحابی حاضر ہو کر آپ صلی الله علیہ و سلم کے دست اقدس پر ہجرت پر بیعت کرنا چاہ رہے تھے، آپ صلی الله علیہ و سلم نے ان سے والدین کمی بابت دریافت کیا، انہوں نے جواب دیا کہ جب میں ہجرت کے ارادے سے نکل رہا تھا تو وہ رورہے تھے، آپ صلی الله علیہ و سلم نے انہیں یہ کہہ کر لوٹا دیا کہ جاوٴ! جیسے والدین کو رلا کر آئے ہو ویسے ہی انہیں اب خوش کر کے آوٴ، (الترغیب والترھیب: 3744، کتاب البر والصلة، صحیح)

یہ والدین کے ساتھ رحیمانہ کر یمانہ سلوک کی تلقین کے کچھ گوشے ہیں، آپ صلی الله علیہ و سلم نے امت کے افراد کو سختی سے اس بات کی تاکید کی کہ والدین کے ساتھ رحیمانہ طرز عمل اپناوٴ، انہیں اپنی ذات سے کوئی تکلیف وگزند نہ پہنچے ، چوں کہ بنفس نفیس آپ صلی الله علیہ و سلم کو اپنے والدین کی خدمت کا موقع نہ مل سکا، ورنہ عملی طور پر بھی آپ صلی الله علیہ و سلم امت کو اسوہ ونمونہ عطا فرماتے، لیکن اس کے باوجود روایات میں یہ بات منقول ہے کہ آپ صلی الله علیہ و سلم نے ایک موقعہ پر فرمایا: اے کاش !اگر میری والدہ زندہ ہوتی، اور میں عشاء کے بعد نوافل میں مشغول ہوتا اور میری والدہ مجھے آواز دیتی کہ اے محمد! تو میں نماز چھوڑ کر والدہ کے کام کی جانب متوجہ ہوتا ،ان کی ضرورت کی تکمیل کرتا،آپ صلی الله علیہ و سلم نے اپنی والدہ (جوکہ بچپن ہی میں انتقال کر گئی تھیں) کے تئیں یہ کلمات کہے ہیں؛ اگر فی الواقع والدہ موجود ہوتیں تو کیا سلوک فرماتے؟ اس کے بیان سے زبان وقلم عاجز ہے۔

ایک جانب آپ صلی الله علیہ و سلم کی والدین کے تئیں یہ تعلیمات ہیں ، دوسری جانب والدین کی ناقدری وبائی شکل اختیار کرتی جارہی ہے، والدین کی نافرمانی عام سی بات ہوگئی، والدین کے ساتھ بد سلوکی اس حد تک عام ہوگئی کہ والدین کو گھر سے باہر نکالا جارہا ہے، جس کے اثر سے اولڈ ہاؤس کی کثرت ہورہی ہے، الغرض آپ صلی الله علیہ و سلم نے جو علامات قیامت بیان کیے تھے کہ قرب قیامت والدین کی نافرمانی عام ہوگی، اس کی عملی تطبیق نظر آرہی ہے، الغرض ضرورت اس بات کی ہے کہ والدین کے ساتھ نرمی وخیر خواہی کے جس پہلو کی جانب آپ صلی الله علیہ وسلم نے امت کی توجہ مبذول فرمائی ہے، اسے اپنانے کی اور عملی جامہ پہنانے کی سخت ضرورت ہے، ان کی فروگذاشتوں سے صرفِ نظر کیا جائے، ان سے انتقامانہ کاروائی نہ کی جائے، ان کی کڑوی کسیلی باتوں کو بنظرِ محبت دیکھا جائے، اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین!

Flag Counter