Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1436ھ

ہ رسالہ

4 - 16
وصیت اور روزے کے احکام

استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ
	
ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)

﴿کُتِبَ عَلَیْْکُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَکَ خَیْْراً الْوَصِیَّةُ لِلْوَالِدَیْْنِ وَالأقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوفِ حَقّاً عَلَی الْمُتَّقِیْن، فَمَن بَدَّلَہُ بَعْدَ مَا سَمِعَہُ فَإِنَّمَا إِثْمُہُ عَلَی الَّذِیْنَ یُبَدِّلُونَہُ إِنَّ اللّہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ، فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفاً أَوْ إِثْماً فَأَصْلَحَ بَیْْنَہُمْ فَلاَ إِثْمَ عَلَیْْہِ إِنَّ اللّہَ غَفُورٌ رَّحِیْم﴾․(سورہ بقرہ، آیت:182-180)
فرض کر دیا گیاتم پر جب حاضر ہو کسی کو تم میں موت، بشرطیکہ چھوڑے کچھ مال، وصیت کرنا ماں باپ کے واسطے اور رشتہ داروں کے لیے انصاف کے ساتھ، یہ حکم لازم ہے پرہیز گاروں پرپھر جو کوئی بدل ڈالے وصیت کو بعد اس کے جو سن چکا تو اس کا گناہ انہیں پر ہے جنہوں نے اس کو بدلا، بے شک الله سننے والا، جاننے والا ہےپھر جو کوئی خوف کرے وصیت کرنے والے سے طرف داری کا یا گناہ کا پھر ان میں باہم صلح کرادے تو اس پر کچھ گناہ نہیں، بے شک الله بڑا بخشنے والا ،نہایت مہربان ہے

تفسیر
قصاص کے بعد وصیت کا حکم مذکور ہے اور ابتدائے اسلام میں جب تمام ورثاء کے حصّے متعیّن نہیں تھے، کسی شخص کے مرنے کے بعد اس کا سارے مال میں اس کی اولاد کا حق سمجھا جاتا تھا، لیکن ابتدائے اسلام میں ہر شخص پر لازم کیا گیا کہ اپنے مرنے سے قبل دیگر ورثا کے لیے ایک تہائی مال میں سے وصیت کر جائے۔

اس آیت میں یہی حکم دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو اپنی موت نزدیک معلوم ہو اور اس کا کچھ مال بھی ہو تو اس پر فرض ہے کہ اپنے والدین اور رشتہ داروں کے لیے انصاف کے ساتھ یعنی ایک تہائی مال میں سے کچھ وصیت کر دے۔

پھر وصیت سننے والے کو چاہیے کہ اسے بغیر کسی ردّ وبدل کے ورثا تک پہنچا دے، لیکن اگر کوئی شخص وصیت سننے کے بعد اس کا مضمون تبدیل کرکے ورثا تک پہنچائے تو اس کا گناہ اسی شخص پر ہے جو تبدیل کرنے والا ہے اوراگر اس تبدیل شدہ مضمون وصیت کی بنا پر حَکَم فیصلہ کر دے اور کسی وارث کی حق تلفی ہو جائے تو اس حق تلفی کا گناہ بھی وصیت تبدیل کرنے والے پر ہو گا، حَکَم پر نہیں ،کیوں کہ الله تعالیٰ جانتا ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے ؟

لیکن اگر کوئی شخص اس چیز کا خوف کرکے کہ مرنے والے کی وصیت میں کسی خاص شخص کی طرف داری سے کسی کی حق تلفی ہو رہی ہے، تو اس شخص کے لیے جائز ہے کہ وصیت میں تبدیلی کر دے، اگرچہ یہ تبدیلی بظاہر وصیت کی خلاف ورزی ہے، لیکن اس شخص نے بغرض اصلاح حق تلفی کو روکا ہے، لہٰذا اس پر کوئی گناہ نہیں ۔

زندگی میں وصیت کرنے کا حکم منسوخ ہے
یہ آیت تین احکام پر مشتمل ہے۔
1...ایک حکم تو یہ ہے کہ میت کے ترکہ میں اس کی اولاد کے لیے کوئی خاص حصہ متعین نہیں ہے۔
2...دوسرا حکم یہ ہے کہ والدین اور دیگر رشتہ داروں کے حق میں وصیت کرنا مرنے سے پہلے لازم ہے۔
3...اور تیسرا حکم یہ ہے کہ وصیت ایک تہائی مال سے زیادہ میں جائز نہیں۔ ( تفسیر الکشاف، بالمعروف: بالعدل وہو ان لا یتجاوز الثلث، البقرة:180)

ان تینوں احکام میں سے پہلا حکم تو آیت میراث، یعنی ﴿یُوْصِیْکُمْ اللهُ فِی اَوْلَادکُمْ﴾ کے ذریعے منسوخ ہے، کیوں کہ مذکورہ آیت میں تمام رشتہ داروں کے حصص شرعیہ متعین کر دیے گئے ہیں۔ ( تفسیر الکشاف، البقرة180،1/222) اور دوسرا حکم بالاجماع حدیث ”لَاَوَصِیَّةَ لِوَارِثٍ“ (جامع الترمذی، رقم الحدیث:2121) کے ذریعے سے منسوخ ہے، یعنی وارث کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں ، ہاں! غیر وارث کے لیے وصیت اب بھی مشروع ہے۔ مذکورہ حدیث چوں کہ حکماً متواتر ہے، لہٰذا س سے آیت کے منسوخ ہونے پر کوئی اشکال وارد نہیں ہوتا۔

اور تیسرا حکم اب بھی باقی ہے کہ اگر کوئی شخص مرنے سے پہلے اپنے ایک تہائی مال میں وصیت کرنا چاہیے تو کر سکتا ہے او راگر تمام ورثا بالغ ہوں او راجازت بھی دے دیں تب ایک تہائی مال سے زیادہ، بلکہ کل مال کی بھی وصیت کر سکتا ہے۔

وصیت سے متعلق چند احکام
مسئلہ: وصیت کا واجب ہونا صرف رشتہ دار کے حق میں منسوخ ہے، لیکن اگر کسی شخص پر دوسروں کے حقوق مالیہ وغیرہ واجب الادا ہوں تب اس شخص پر واجب ہے کہ مرنے سے پہلے ان کے بارے میں قضائے حقوق کی وصیت کرے۔ (البنایة شرح الھدایة،13/388، کتاب الوصایا، دارالکتب العلمیہ، بیروت)

مسئلہ:جس طرح ایک تہائی مال میں وصیت کرنا جائز ہے، اسی طرح موت سے پہلے وصیت میں تبدیلی وغیرہ بھی جائز ہے ۔(ایضاً)

مسئلہ: اگر تمام ورثاء راضی ہوں ( اور سب کے سب بالغ بھی ہوں) تو وارث کے حق میں بھی وصیت کرنا جائز ہے ۔( المبسوط للسرخسی، کتاب الوصایا، باب الوصیة للوارث، 27/179، دارالکتب العلمیہ)

مسئلہ: بعض وصیتوں پر عمل کرنا واجب ہے، مثلاً ادائے زکوٰة اور کفارے کی وصیت کرنا اور بعض مستحب کا درجہ رکھتی ہیں، مثلاً کسی کار خیر کے لیے وصیت کرنا، بعض صرف مباح ہوتی ہیں، جیسے مباح امور کے لیے وصیت کرنا اور بعض وصیتوں پر عمل کرنا ممنوع ہوتا ہے، جیسے کسی ناجائز کام کی وصیت کر جانا۔

﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ،أَیَّاماً مَّعْدُودَاتٍ فَمَن کَانَ مِنکُم مَّرِیْضاً أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُونَہُ فِدْیَةٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ فَمَن تَطَوَّعَ خَیْْراً فَہُوَ خَیْْرٌ لَّہُ وَأَن تَصُومُواْ خَیْْرٌ لَّکُمْ إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ﴾․(سورہ، بقرہ، آیت:184-183)
اے ایمان والو! فرض کیا گیا تم پر روزہ، جیسے فرض کیا گیا تھا تم سے اگلوں پر، تاکہ تم پرہیز گار ہو جاؤ چند روز ہیں گنتی کے، پھر جو کوئی تم میں سے بیمار ہو یا مسافر تو اس پر ان کی گنتی ہے اور دنوں سے۔ او رجن کو طاقت ہے روزے کی ان کے ذمہ بدلا ہے ایک فقیر کا کھانا، پھر جو کوئی خوشی سے کرے نیکی تو اچھا ہے اس کے واسطے اور روزہ رکھو تو بہتر ہے تمہارے لیے اگر تم سمجھ رکھتے ہو

روزے کی فرضیت
روزے کو پہلی امتوں کی طرح فرض قرار دیا ہے ۔ یہ تشبیہ محض فرضیت میں ہے۔ ہر امت کے روزوں کی تعداد، ایّام، تعیین اور کیفیت مختلف رہی ہے۔ اہل کتاب کا روزہ عموماً رات کو سو جانے کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا تھا ،اس لیے نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ہمارے او راہل کتاب کے درمیان فرق سحری کے چند لقموں کا ہے۔(مشکوٰة المصابیح کتاب الصوم رقم الحدیث:1983) یہود کی مذہبی کتابوں میں اب بھی چھے روزوں کی تفصیل ملتی ہے، عبرانی کیلنڈر کے حساب سے اس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔
 
  اس دن روزہ فجر سے پہلے شروع ہوتا ہے۔ 	تاریخ17 	مہینہ تموز 	1
  اس دن روزہ ایک شام پہلے سے سورج غروب ہونے کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ 	 تاریخ9 	مہینہ ایو 	2
  اس دن روزہ فجر سے پہلے شروع ہو تا ہے۔ 	 تاریخ3 	مہینہ تیشتری 	3
  اس کو یوم کپور بھی کہتے ہیں، اس کا روزہ ایک شام پہلے سے سورج غروب ہونےکے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ 	 تاریخ10 	مہینہ تیشتری 	4
  اس دن روزہ فجر سے پہلے شروع ہوتا ہے۔ 	 تاریخ10 	مہینہ ٹیویٹ 	5
  اس دن روزہ فجر سے پہلے شروع ہوتا ہے ۔ 	 تاریخ13 	مہینہ اڈار 	6

سابقہ امتوں کی طرح مسلمانوں پر سن2ھ میں رمضان شریف کے مہینے میں روزے فرض کیے گئے۔ابتدائے اسلام میں مسلمانوں کو روزہ کا خوگر بنانے کے لیے یہ اختیار تھا کہ چاہیں تو روزہ رکھ لیں یا مسکین کو روزے کے بدلے کھانا کھلا دیں، بعد میں یہ رخصت ختم کر دی گئی اور آیت:﴿مَنْ شہِدَ مِنْکُم الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہ﴾ ( یعنی جوتم میں سے رمضان پائے روزہ رکھے) نازل فرما کر ہر شخص پر روزہ فرض کر دیا گیا، لیکن مریض اور مسافر کے حق میں یہ رخصت برقرارہے۔

روزے کی لغوی اور اصطلاحی تعریف
”صوم“ لغت میں ”امساک“ یعنی ”روکنے“ کو کہا جاتا ہے۔ (بدائع الصنائع، کتاب الصوم، 2/549) اوراصطلاح شرع میں اپنے نفس کو صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے،پینے او رجماع سے روکے رکھنے کو صوم کہا جاتا ہے۔ (ایضاً)

ابتدائے اسلام میں روزہ کے بارے میں تین تبدیلیاں واقع ہوئیں۔

ایک تو یہ کہ پہلے اختیار تھا کہ روزہ رکھ لیں یا اس کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں۔ آیت میں اسی حکم کا ذکرہے۔ پھر آیت :﴿ َمَن شَہِدَ مِنکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہ﴾ ( جو تم میں سے ماہ رمضان پائے روزہ رکھے) نازل فرماکر یہ اختیار ختم کر دیا گیا ،لیکن بہت بوڑھے آدمی کے حق میں یہ اختیار اب بھی برقرار ہے۔ (بیان القرآن، البقرة:184)دوسری یہ کہ پہلے رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہر قمری مہینے کی تیرہویں، چودہویں، پندرہویں تاریخ میں روزے رکھا کرتے او رایک دس محرم ” یوم عاشورا“ کا روزہ رکھا کرتے تھے، پھر رمضان کی فرضیت نازل ہوئی اور فرض روزے صرف رمضان کے ساتھ مخصوص ہوئے۔ (روح المعانی، البقرة:183)اور تیسری تبدیلی یہ ہوئی کہ پہلے بوقت غروب افطار کے بعد اگلا روزہ اسی وقت شروع ہو جاتا تھا، بعد میں ابتدائے صوم کا وقت صبح صادق قرار دیا گیا۔ ( اس کی تفصیل آگے آرہی ہے)

اور صوم کی حکمت میں حصول تقوی جو بتایا گیا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ روزہ کی حکمت تقوی ہی میں منحصر ہے، بلکہ اس کے علاہ بھی بہت سی حکمتیں ہیں جو ہمارے ادراک سے ماورا ہیں، تقویٰ کا ذکر مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر کیا گیا ہے اور حصول تقویٰ کی عقلی وجہ یہ ہے کہ تقویٰ نام ہے الله کی رضا کے لیے اپنے نفس کو خواہشات ومرغوبات سے روکے رکھنے کا اورروزے میں نفس کو بہترین مرغوب چیزیں کھانے، پینے او رجماع سے روک کر طاعات پر عمل کرانے کی مشق کرائی جاتی ہے، ظاہر ہے کہ یہ طریقہ پرہیز گاری کے لیے مؤیدّ ہے۔

احکام رمضان
مسئلہ: ماہ رمضان کے روزے رکھنا ہر مسلمان مرد وعورت اور عاقل، بالغ پر فرض ہے۔

مسئلہ: مریض کے لیے رخصت صرف اس صورت میں ہے کہ جب روزہ رکھنے سے شدید تکلیف یا مرض بڑھنے کا اندیشہ ہو۔ ہر طرح کے مرض سے روزہ چھوڑنا درست نہیں ہے۔

مسئلہ: مسافر کے لیے یہ شرط ہے کہ سفر کم از کم اڑتالیس میل (جو کم وبیش77 کلو میٹر بنتا ہے) یا اس سے زیادہ کا ہو ، اگر مسافر دوران سفر کسی بستی میں پندرہ روز سے کم قیام کرے تب بھی شرعاً مسافر ہی ہے۔

مسئلہ: فدیہ آدھا صاع گندم یا اس کی قیمت ہے جو ہمارے زمانے کے مروّج اوزان کے اعتبار سے پونے دو سیر گندم ہے، جو کلو کے اعتبار سے ایک کلو چھ سو اکانوے گرام بنتا ہے۔ ( بدائع الصنائع ، کتاب الصوم:2/97، دارالکتاب العربی بیروت)

مسئلہ: ایک ہی دن ایک مسکین کو دو یا اس سے زیادہ دنوں کا فدیہ دینا درست نہیں۔ ( رد المحتار علی الدرالمختار، کتاب الصوم، رشیدیہ)

﴿شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیَ أُنزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْہُدَی وَالْفُرْقَانِ فَمَن شَہِدَ مِنکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ وَمَن کَانَ مَرِیْضاً أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ یُرِیْدُ اللّہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ وَلِتُکْمِلُواْ الْعِدَّةَ وَلِتُکَبِّرُواْ اللّہَ عَلَی مَا ہَدَاکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ ، وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَإِنِّیْ قَرِیْبٌ أُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُواْ لِیْ وَلْیُؤْمِنُواْ بِیْ لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُونَ ، أُحِلَّ لَکُمْ لَیْْلَةَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ إِلَی نِسَآئِکُمْ ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّ عَلِمَ اللّہُ أَنَّکُمْ کُنتُمْ تَخْتانُونَ أَنفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْْکُمْ وَعَفَا عَنکُمْ فَالآنَ بَاشِرُوہُنَّ وَابْتَغُواْ مَا کَتَبَ اللّہُ لَکُمْ وَکُلُواْ وَاشْرَبُواْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْْطُ الأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّواْ الصِّیَامَ إِلَی الَّلیْْلِ وَلاَ تُبَاشِرُوہُنَّ وَأَنتُمْ عَاکِفُونَ فِیْ الْمَسَاجِدِ تِلْکَ حُدُودُ اللّہِ فَلاَ تَقْرَبُوہَا کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللّہُ آیَاتِہِ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَّقُون﴾․ (سورہ بقرہ، آیت:187-185)
مہینہ رمضان کا ہے جس میں نازل ہوا قرآن، ہدایت ہے واسطے لوگوں کے اور دلیلیں روشن راہ پانے کی اور حق کو باطل سے جدا کرنے کی، سو جو کوئی پائے تم میں سے، اس مہینہ کو تو ضرور روزے رکھے اس کے اور جو کوئی ہو بیمار یا مسافر تو اس کو گنتی پوری کرنی چاہیے اور دنوں سے۔ الله چاہتا ہے تم پر آسانی اور نہیں چاہتا تم پر دشواری اور اس واسطے کہ تم پوری کرو گنتی او رتاکہ بڑائی کرو الله کی، اسی بات پر کہ تم کو ہدایت کی او رتاکہ تم احسان مانواور جب تجھ سے پوچھیں میرے بندے مجھ کو، سو میں تو قریب ہوں، قبول کرتا ہوں دعا مانگنے والے کی دعا کو جب مجھ سے دعا مانگے تو چاہیے کہ حکم مانیں میرا اور یقین لائیں مجھ پر، تاکہ نیک راہ پر آئیں حلال ہوا تم پر روزہ کی رات میں بے حجاب ہونا اپنی عورتوں سے، وہ پوشاک ہیں تمہاری اور تم پوشاک ہو ان کی، الله کو معلوم ہے کہ تم خیانت کرتے تھے اپنی جانوں سے ، سو معاف کیا تم کو اور درگزر کی تم سے ، پھر ملو اپنی عورتوں سے اور طلب کرو اس کو جو لکھ دیا ہے الله نے تمہارے لیے اور کھاؤ اور پیو جب تک کہ صاف نظر آئے تم کو دھاری سفید صبح کی جدا، دھاری سیاہ سے ،پھر پورا کر و روزہ کو رات تک اور نہ ملو عورتوں سے جب تک کہ تم اعتکاف کرو مسجدوں میں ، یہ حدیں باندھی ہوئی ہیں الله کی، سوان کے نزدیک نہ جاؤ، اسی طرح بیان فرماتا ہے الله اپنی آیتیں لوگوں کے واسطے، تاکہ وہ بچتے رہیں

ربط آیات:گزشتہ آیات میں روزوں کی فرضیت کا ذکر تھا اب روزں کے دنوں کی تعیین فرماتے ہیں۔

تفسیر: رمضان نزولِ قرآن کا مہینہ
قرآن کریم کے نزول کا زمانہ ”23“ سال تک پھیلا ہوا ہے، کیوں کہ قرآن کریم بہ تدریج نازل ہوا، البتہ اس نزول کی ابتدا اسلامی قمری کیلنڈر کے اعتبار سے نویں مہینے رمضان المبارک میں ہوئی ۔ ( بیضاوی، البقرہ ذیل آیت:185) بعض مفسرین فرماتے ہیں قرآن کریم مکمل طو رپر اس مہینے آسمان دنیا پر نازل ہوا ، پھر وہاں سے بہ تدریج آپ عليه السلام پر نازل ہوتا رہا، قرآن لغت میں اس چیز کو کہتے ہیں جو پڑھی جائے، لیکن اصطلاح شریعت میں اس کا اطلاق کتاب الله پر ہوتا ہے، جو آپ عليه السلام پر نازل ہوئی، کتاب الله کی چند صفات یہ ہیں، لوگوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ، واضح دلائل رکھنے والی ، حق وباطل میں امتیاز کرنے والی۔اس کی برکتوں کا اندازہ لگائیں کہ رمضان جیسے مبارک مہینے میں نازل ہوئی ہے۔

علامہ آلوسی فرماتے ہیں:
” صحف ابراہیم رمضان کی پہلی شب اور تورات چھٹی شب اور انجیل تیرہویں شب میں نازل کی گئی، جب کہ قرآن مجید رمضان کی چوبیسویں شب میں نازل کیا گیا “۔ ( روح المعانی، البقرة، ذیل آیت185)

پس رمضان کے مہینے کو چوں کہ لوگوں کی ہدایت کے ساتھ خصوصی نسبت ہے لہٰذا یہ حکم ہے کہ جو بھی اس مہینے کو پالے وہ پورے مہینے کے روزے رکھے۔ ( لہٰذاتن درست وتوانا شخص کے لیے روزے کے بدلے فدیہ دینے کی رخصت ختم ہوئی) اب تمام لوگوں پر روزے رکھنا فرض ہوا، لیکن مسافر اور مریض کے لیے یہ رخصت اب بھی ہے ،رمضان کے روزے چھوڑ دیں اور جتنے ایام ،مرض اور سفر میں کٹ جائیں ان کو شمار کرکے رکھیں او رمرض وسفر ختم ہونے کے بعد اتنے ہی دن کے روزے، خواہ بالترتیب یا بلا ترتیب، قضا کریں۔

ان تمام احکام کا منشا یہ ہے کہ الله تعالیٰ تم پر آسانی کرنا چاہتا ہے۔ اسی سے فقہا کرام نے دفع حرج کا قاعدہ اخذ کیا ہے۔ (احکام القرآن للجصاص، البقرہ، ذیل آیت:185)

احکام
مسئلہ:مریض او رمسافر رمضان میں جتنے ایام کے روزے چھوڑ دیں ان سب کو شمار کرکے سفر اور مرض ختم ہونے کے بعد قضا کریں، اگرسفر یا مرض رمضان ہی میں ختم ہو جائے تو پہلے بقیہ رمضان کے روزے رکھیں، پھر رمضان ختم ہونے کے بعد ان روزوں کی قضا کریں۔

مسئلہ: قضا روزوں میں ترتیب ضرور ی نہیں کہ اگر دس روزے چھوڑ ے ہیں تو لگاتار اسی ترتیب کے ساتھ دس روزوں کی قضا کرنا ضروری نہیں، بلکہ جس روزے کی جب چاہیں قضا کر لیں ۔(الھدایة مع فتح القدیر، کتاب الصوم،2/360، رشیدیہ)

وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّی
ربط:گزشتہ آیات میں الله تعالیٰ کی طرف سے بندوں پر الطاف وعنایات اور آسانیوں کا تذکرہ تھا، آگے بھی اسی سلسلے کا مضمون ہے، لہٰذا مقام کی مناسبت سے قرب و اجابت کا مضمون ارشاد فرماتے ہیں ۔ نیز ایک دیہاتی نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا ہمارا رب قریب ہے یا دور؟ اگر قریب ہے تو اس سے سر گوشی کریں اوراگردور ہے تو اسے زور سے پکاریں؟مذکورہ آیت اسی سوال کے جواب میں اتری۔

تفسیر: قربِ الہٰی
اس آیت میں بندے کی تسلی کا بڑا سامان ہے کہ الله کا قرب اور رضا کو حاصل کرنے کے لیے کہیں دور دراز نہیں جانا بلکہ وہ انتہائی قریب ہے ہماری مناجات کو سنتا ہے۔

شاہ رفیع الدین تفسیر رفیعی میں فرماتے ہیں کہ قرب خدا وندی کی کئی صورتیں ہیں: خدا تعالیٰ ذات کے اعتبار سے قریب ہے ،جس کا مطلب یہ ہے کہ تمام موجودات میں کوئی ایک ذرہ بھی ایسا نہیں جس کا قیام وبقا خدا کے وجود کے بغیر حاصل ہو ۔ خدا تعالیٰ کی صفت قیومیت کی وجہ سے ہر چیز کو وجود حاصل ہوتا ہے ، لہٰذا الله تعالیٰ وجود اور ذات کے اعتبار سے قریب ہے۔ الله تعالیٰ علم اور قدرت کے لحاظ سے بھی قریب ہے، کیوں کہ اس کے علم وقدرت کے بغیر کوئی شے حاصل نہیں ہوتی۔اسی طرح الله تعالیٰ محبت ، حمایت اور تجلی کے اعتبار سے بھی قریب تر ہے کہ ادھر انسان دل میں اپنے رب کو یاد کرتا ہے او رادھر سے تجلی پڑتی ہے۔ ( تفسیر رفیعی از شاہ رفیع الدین، سورة البقرة، الایہ186 بحوالہ معالم العرفان)

الله تعالیٰ کے احکام پر کامل طریقے سے عمل پیرا ہونے پر قرب الہٰی کی دولت حاصل ہوتی ہے اور لذات وشہوات نفسانیہ میں غرق ہونے سے قرب الہٰی سے محرومی نصیب ہوتی ہے۔

قبولیت دعا کی شرائط اور مفہوم
دعا کی قبولیت کے ضمن میں پہلی بات تو یہ ہے کہ دعا کی قبولیت رزق حلال کے ساتھ مشروط ہے ،دوسری بات یہ ہے کہ دعا دل کی پوری توجہ کے ساتھ ہونی چاہیے، ترمذی شریف میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا الله تعالیٰ غافل وبے پروا دل کی دعا قبول نہیں کرتا۔( سنن الترمذی، رقم3454، 5/179، دارالفکر، بیروت)جب دعاپورے یقین کے ساتھ کی جائے گی تو الله تعالیٰ ضرور قبول فرمائیں گے۔

حدیث شریف میں آتا ہے کہ الله تعالیٰ کو حیا آتی ہے جب ا س کا بندہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہے تو الله تعالیٰ اس بات کو ناپسند کرتا ہے کہ بندے کے ہاتھ خالی لوٹا دے، لہٰذا اس کی دعا ضرور قبول کر لیتا ہے۔ (سنن ابی داؤد ، باب الدعاء، رقم:1490،1/553، دارالکتاب العربی)

دعا کی قبولیت کا معنی بھی سمجھ لینا چاہیے ، قبولیت دعا صرف یہی نہیں کہ بندہ جو بولے وہ مل جائے، بلکہ مطلوبہ چیز کا ملنا یا نہ ملنا عین حکمت ِخداوندی کے مطابق ہوتا ہے، بعض اوقات انسان ایسی شے مانگتا ہے جو حکمت خداوندی کے مطابق اس کے لیے بہتر نہیں ہوتی ۔ لہٰذا الله تعالیٰ وہ چیز اس کے مقدر میں نہیں کرتا اورانسان سمجھتا ہے کہ اس کی دعا قبول نہیں ہوئی، حالاں کہ اس کے نہ ملنے میں اس کی بھلائی ہے۔

اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی ناسمجھ بچہ اصرار کرکے کہے کہ آگ کا انگارہ اس کے ہاتھ میں پکڑا دیا جائے ، مگر کون عقل مند ہو گا کہ بچے کی یہ خواہش پوری کرے گا؟!

رسول الله صلى الله عليه وسلم نے قبولیت دعا کی تین صورتیں بیان فرمائی ہیں۔
1..ایک صورت یہ ہے کہ جب دعا مصلحت خداوندی کے مطابق ہوتی ہے تو فوراً قبول ہو جاتی ہے اور بندہ کو اس کی مطلوبہ چیز دے دی جاتی ہے۔
2..ددسری صورت یہ ہوتی ہے کہ دعا کو آخرت میں ذخیرہ کر لیا جاتا ہے۔
3..تیسری صورت یہ ہے کہ اس دعا کے بقدر اس سے کوئی بلا ٹال دی جاتی ہے۔ ( سنن ابو داؤد، رقم الحدیث:1488)

أُحِلَّ لَکُمْ لَیْْلَةَ الصِّیَامِ الرَّفَث
تفسیر
ابتداً رمضان کے روزوں میں دن کی طرح رات کو بھی بیوی سے ہم بستری ممنوع تھی، جو مسلمانوں کو طبیعت پر شاق گزری، جب خواہش نفس کے متحرک جذبات پر قابو پانامشکل ہو گیا تو الله تعالیٰ نے اس کی اجازت دے دی ، جس کا بیان ان الفاظ میں ہوا ہے۔ ﴿قدعَلِمَ اللّہُ أَنَّکُمْ کُنتُمْ تَخْتانُونَ أَنفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْْکُمْ وَعَفَا عَنکُمْ﴾․

علامہ راغب اصفہانی فرماتے ہیں الله تعالی نے ”تَخْتانُونَ“ فرمایا ہے، جس کا معنی خیانت کا قصد کرنا، نہ کہ خیانت کرنا۔ اگر عمل خیانت کا اظہار مقصود ہوتا تو پھر ”تَخُوْنُوْنَ“ فرماتے۔خیانة اوراختیان میں یہی فرق ہے۔ ( مفردات القرآن:305)

تَابَ اورعَفَا کے لفظ سے گناہ کا صدور لازم نہیں آتا، بلکہ محض توسع کے لیے بھی ان الفاظ کو استعمال کیا جاتا ہے۔ ( احکام القرآن للقرطبی، البقرة، ذیل آیت:187)

میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے لباس کی مانند ہیں
میاں بیوی کوجو ایک دوسرے کا لباس کہا گیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ لباس اپنے پہننے والے ہی کے ساتھ خاص ہوتا ہے، اسی طرح میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ خاص ہوتے ہیں۔ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لباس انسان کے عیوب کوچھپاتا ہے ،اسی طرح میاں بیوی بھی ایک دوسرے کے عیوب چھپاتے ہیں، لباس زینت ہوتا ہے، میاں بیوی بھی ایک دوسرے کے لیے باعث زینت ہوتے ہیں۔

علا وہ ازیں مرد چوں کہ جنسی اعتبار سے عورت کا زیادہ محتاج ہوتا ہے او رمرد کے لیے عورتوں سے بچنا بھی مشکل ہوتا ہے، اس لیے آیت میں عورتوں کا ذکر ”ہُنَّ لِبَاسٌ“ مقدم کیا گیا ہے۔

نکاح کا مقصد، اولاد کا حصول
اور ﴿وَابْتَغُواْ مَا کَتَبَ اللّہِ﴾ سے یہ معلوم ہوا کہ میاں بیوی کے جماع کا مقصد محض شہوت رانی ہی نہیں ہونی چاہیے، بلکہ جماع سے مقصود تلذذ کے ساتھ ساتھ طلب اولاد بھی ہونا چاہیے ، اسی سے مانع حمل طریقے اختیار کرنے کی کراہت بھی واضح ہو گئی۔ اور مانع حمل طریقوں کو قلت آبادی کے غرض سے مقصد بنا کر قومی مہم شروع کرنا تو سرا سرناجائز ہے۔

”الْخَیْْطُ الأَبْیَضُ“اور ”الْخَیْْطِ الأَسْوَدِ“ یہ حقیقت میں کوئی دھاگے یا پٹیاں نہیں ہیں، بلکہ سیاہ دھاگا رات کی ظلمت سے کنایہ ہے اور سفید دھاگا صبح صادق کی روشنی سے کنایہ ہے ۔اور مطلب یہ ہے کہ کھاؤ پیو، یہاں تک کہ رات کے اندھیرے سے صبح کی روشنی ظاہر ہو جائے، مراد صبح صادق ہے ۔

روزوں سے متعلقہ چند احکام
مسئلہ: ماہ رمضان میں صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانا ، پینااور بیوی سے صحبت کرنا حرام ہے۔

مسئلہ: سحری کھانا سنت اور باعث فضیلت ہے، اس سے مسلمانوں اور نصاریٰ کے درمیان فرق ہوتا ہے، کیوں کہ نصاریٰ سحری نہیں کھاتے۔ ( دیکھیے حدیث مبارکہ، صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب فضل السحور، رقم الحدیث :1096)

مسئلہ: حالت اعتکاف میں بیوی سے جماع یا مباشرت ناجائز ہے، خواہ مسجد کے اندر ہو یا باہر ہو ۔ اس سے اعتکاف فاسد ہو جاتا ہے او راتنے ہی دن کا اعتکاف بمع روزوں کے بطور قضا رکھنا واجب ہے۔ (ھدایة مع فتح القدیر، کتاب الصوم، باب الاعتکاف،2/400، رشیدیہ)

مسئلہ: حالت اعتکاف میں بلا ضرورت شدیدہ مسجد سے باہر نکلنا درست نہیں ، اس سے بھی اعتکاف فاسد ہو جاتا ہے ۔ ( فتح القدیر مع الھدایة، کتاب الصوم، باب الاعتکاف،2/398، رشیدیہ)

مسئلہ : اعتکاف صرف ایسی مسجد میں جائز ہے جس میں پانچوں وقت کی نماز ہوتی ہو۔

مسئلہ: اگر عورت اعتکاف کرنا چاہے تو گھر میں جو جگہ اس کی نماز کے لیے ہوتی ہے اسی میں بیٹھنا اس کے لیے کافی ہے۔ ( ھدایة مع فتح القدیر، کتاب الصوم، باب الاعتکاف،2/400، رشیدیہ) (جاری)

Flag Counter