Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1436ھ

ہ رسالہ

1 - 16
اللہ کی معرفت

عبید اللہ خالد
ہر دَور میں کچھ نہ کچھ فتنے انسان کو بھٹکاتے رہے ہیں اور اس کا سلسلہ تخلیق انسانی سے جاری ہے۔ یوں کہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک جانب انسان کو تخلیق کیا تو دوسری جانب فتنہ بھی وجود میں آیا، اور یہ عین ارادئہ الٰہی کے مطابق تھا کیوں کہ اللہ تعالیٰ انسان کو آزمائش میں مبتلا کرنا چاہتے تھے، اس کا امتحان لینا چاہتے تھے۔

انسان کے مزاج اور عادت کے مطابق مختلف ادوار میں یہ فتنے بھی مختلف رہے ہیں۔ آج کا دور ”انفرمیشن ایج“ ہے تو اس دَور کے لحاظ سے آج کا فتنہ اگر میں ”آگاہی“ کو کہوں تو شاید غلط نہ ہوگا۔ یہآگاہی جو بہ زعم خود انسان نے گھڑ لی ہے اور اسے اپنی محدود عقل اور بے لگام خواہشات کی روشنی میں تخلیق کیا ہے۔ چونکہ اس نام نہاد آگاہی کی بنیاد صرف انسانی خواہشات ہیں، اس لیے اس آگاہی یا ہنر سے نکلنے والے افکار اور افعال بھی انسانی نسلوں کو ”آزادی“ اور ”حقوق شناسی“ پر لگاتے ہیں۔

یہ آزادی درحقیقت خدا کی غلامی سے نکل بھاگنے کا مزاج بندے میں پیدا کرتی ہے تو نفسانی خواہشات کی تکمیل کیلیے ہر ممکنہ طریقہ اختیار کرنے پر بھڑکاتی ہے، اور اس کے نتیجے میں انسان حلال و حرام، جائز ناجائز کی بحث کو فضول قرار دینے لگتا ہے۔

خدا کی غلامی کے ساتھ کائنات کا مطالعہ اگر انسان کو اللہ کے قریب کرتا اور اس کی عبدیت میں انسان کو لاتا ہے تو کائنات کو مطلق مظہر سمجھ کر اس پر غور و فکر انسان کو خدا شناسی اور اس کی ربوبیت سے محروم کردیتا ہے۔ اور․․․ آج اسی فکر کو پروان چڑھا کر پوری دنیا میں اسی بنیاد پر انسانی فکر کی پرداخت کی جارہی ہے۔

اس کا واضح نتیجہ ہے کہ انسان خود کو خدا سمجھ بیٹھا ہے۔ ایک دَور تھا کہ جب انسان کائنات اور کائناتی مظاہر کو خدا سمجھ کر اُن کی عبادت کرتا تھا تو اب حال یہ ہے کہ انسان خود ہی خدا بن بیٹھا ہے۔ وہ جو کچھ چاہتا ہے، اسے حاصل کرنے ہی کو ”حق“ سمجھتا ہے، اور چونکہ اسی کو حق سمجھتا ہے، اس لیے اس کیلیے سب کچھ کرنے کو تیار بھی رہتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اس فکر کے اختیار کرنے کے بعد اب وہ اخلاقی قدریں بھی بدلنے لگیں ہیں جو پہلے صدیوں سے جاری و ساری تھیں۔

اس کے بالمقابل، اسلام انسان کو جو فکر دینا چاہتا ہے،وہ یہ ہے کہ انسان اگرچہ آزادہے، مگر اس کی آزادی مطلق نہیں، بلکہ خدائی احکام کی پابند ہے۔ اسلام جس مزاج کی ترویج کرتا ہے، اس کے تحت انسان کے افکار وافعال عین خدائی افکار و افعال کا ”پرتو“ ہونے چاہئیں۔ انسان کیلیے ضروری ہے کہ وہ اس دنیا میں جب آیا ہے تو وہ خدا کا نائب بن کر رہے، نہ کہ کائنات کا حاکم۔ انسان سے اللہ یہ چاہتاہے کہ انسان اس دنیا میں رہتے ہوئے ضروریات اور خواہشات میں تمیز کرے؛ انسان سے اللہ یہ چاہتاہے کہ انسان اپنے ہر فعل کو اپنی خواہش کے تابع کرنے کے بجائے اللہ کی خواہش (حکم) کے تابع کردے؛ انسان سے اللہ یہ چاہتاہے کہ وہ دنیا میں فتنہ گر بن کر رہنے کے بجائے خدا کا پیغام بربن کر رہے؛ انسان سے اللہ یہ چاہتاہے کہ وہ دنیا کو اصل سمجھنے کے بجائے اسے سفر کا ایک مرحلہ اور امتحان کا ایک مقام سمجھے۔ انسان سے اللہ یہ چاہتاہے کہ وہ کائنات کے مظاہر کو کھوجنے کے بجائے ان مظاہر کے پیچھے موجود عظیم ترین صانع کو پہچانے۔ کائنات کی تسخیر یہ نہیں کہ انسان چاند یا مریخ پر پہنچ جائے، مگر خود سے ناواقف رہے؛ کائنات کی تسخیر درحقیقت اپنی یافت اور اپنے اندر پنہاں خدائی معرفت کی دریافت ہے۔ اور جب انسان یہ معرفت حاصل کرلیتا ہے تو وہ اس دنیا میں اپنے مقصد حقیقی سے بھی واقف ہوجاتا ہے۔

اور یہی تمام انبیا کا اور خاص کر امت محمدیہ کے وجود کا مقصدہے کہ وہ آج کے دَور کے طرح طرح کے فتنوں میں بھٹکے ہوئے انسانوں کو اِن سے نکال کر انھیں ان کے حقیقی مقصد زندگی یعنی اللہ کی معرفت کی طرف لائیں۔

Flag Counter