استغفار کی ضرورت و اہمیت
ابوعکاشہ مفتی ثناء اللہ ڈیروی
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی
آپ صلی الله علیہ وسلم کا ہر اُمتی کے لیے ہر نماز میں استغفار کرنا
آپ صلی الله علیہ وسلم ہر نماز میں اپنے ہر اُمتی کے لیے بخشش، مغفرت کی دعا فرماتے تھے۔
چناں چہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی روایت ہے:
”عن عائشة رضی الله عنہا قالت: لما رأیت من النبی صلی الله علیہ وسلم طیب نفس قلت: یا رسول الله! ادع الله لی، قال: اللھم اغفر لعائشة، ماتقدم من ذنبھا وتأخر، وما أسرت وما أعلنت، ضحکت عائشة رضی الله عنہا، حتی سقط رأسھا فی حجرھا من الضحک، فقال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: أیسرک دعائی؟ فقالت: ومالی لا یسرنی دعاؤک؟! فقال: والله انھا لدعوتی لامتی في کل صلاة․“ (مجمع الزوائد، کتاب المناقب، باب جامع فیما بقی من فضل عائشة رضی الله عنہا،243/9، دارالفکر)
حضرت عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ ( ایک دن میں نے ) آپ صلی الله علیہ وسلم کی خوش دلی دیکھ کر عرض کیا، اے الله کے رسول ! میرے لیے الله تعالیٰ سے دعا فرما دیجیے، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے دعا فرمائی ۔
اے الله! عائشہ کے اگلے پچھلے گناہوں کو بخش دے اور وہ گناہ بھی جو چھپ کر کیے اور وہ بھی جو ظاہر کرکے کیے۔
(جب حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے اپنے بارے میں یہ دعا سنی، تو خوشی کے مارے) اتنی ہنسیں کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا کا سر آپ صلی الله علیہ وسلم کی گود مبارک میں چلا گیا۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے :(حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے) پوچھا کہ کیا میری دعا آپ کو اچھی لگی ہے؟
تو حضرت عائشہ رضی الله عنہا کہنے لگیں کہ آپ کی دعا مجھے کیوں نہ خوش کرتی؟ ( اتنی بڑی، بہترین دعا آپ صلی الله علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ) تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
الله کی قسم! میری ہر نماز میں ہر امتی کے لیے یہ دعا ہوتی ہے۔
افضل استغفار
آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک ”استغفار“ تعلیم فرمایا، جس کو سید الاستغفار فرمایا اور اس کے بارے میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے یہ کلمات صدق دل سے کہے اور شام ہونے سے پہلے اسی دن مر گیا، تووہ جنتی ہے اور جس نے یہ کلمات صدق دل سے رات میں کہے اور صبح ہونے سے پہلے وہ مر جائے وہ جنتی ہے۔
وہ کلمات یہ ہیں:﴿اللّٰھُمَّ أنتَ رَبیّ، لَا إلٰہَ إلاَّ أَنتَ، خَلَقْتَنِی وَأنا عَبْدُک، وَأَنا علی عَہْدِکَ وَوَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعْوُذُبِک مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، أَبُوْءُ لکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ، وَأَبْوءُ لکَ بِذَنْبیِ، فَاغْفِرْلیِ، فَإِنَّہ لَا یَغْفِر، الذُّنُوبَ إلاَّ أَنتَ﴾․(الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الدعوات، باب فضل الاستغفار، رقم الحدیث:6306)
اے میرے الله !تو میرا رب ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، تو نے ہی مجھے پیدا کیا اور تیرا ہی میں بندہ ہوں اور میں تیرے عہد اور وعدے پر ہوں جتنا ممکن ہے، جو کچھ میں نے کیا اس کی برائی سے میں تیری پناہ مانگتا ہوں اور ان نعمتوں کا میں اقرار کرتا ہوں، جوتونے مجھ پر کی ہیں اور اپنے گناہ کا اقرار کرتا ہوں، مجھے بخش دے، تیرے سوا گناہوں کو بخشنے والا کوئی نہیں ہے۔
مرنے سے پہلے ایک گناہ گار کی توبہ کا عجیب واقعہ
حضرت حسن بصری رحمہ الله کا دور ہے ، آپ کی ایک شاگردہ جو باقاعدہ آپ کا درس سننے کے لیے آیا کرتی تھی، اس کا ایک بیٹا تھا، خاوند کا اچھا کاروبار تھا، یہ نیک عورت تھی، عبادت گزار خاتون تھیں، باقاعدہ درس سنتی اور نیکی پر زندگی گزارتی تھیں، اس بے چاری کا جوانی میں خاوند چل بسا، اس نے دل میں سوچا کہ ایک بیٹا ہے، اگر میں دوسرا نکاح کر لوں گی، تو مجھے خاوند مل جائے گا، مگر بچے کی زندگی برباد ہو جائے گی، پتہ نہیں وہ اس کے ساتھ کیا سلوک کرے گا؟
اب وہ جوان ہونے کے قریب ہے، یہی میرا سہارا سہی، لہٰذا یہ سوچ کر ماں نے جذبات کی قربانی دی۔
ایسی عورت کے لیے حدیث پاک میں آیا ہے کہ جو اس طرح اگلی شادی نہ کرے اوربچوں کی تربیت وحفاظت کے لیے اسی طرح زندگی گزارے تو باقی پوری زندگی اس کوغازی بن کر زندگی گزارنے کا ثواب دیا جائے گا، کیوں کہ وہ جہاد کررہی ہے اپنے نفس کے خلاف۔
وہ ماں گھر میں بچے کا پورا پورا خیال رکھتی تھی، لیکن یہ بچہ جب گھر سے باہر نکل جاتا، تو ماں سے نگرانی نہ ہوپاتی، اب اس کے پاس مال کی بھی کمی نہ تھی، اٹھتی ہوئی جوانی بھی تھی، یہ جوانی دیوانی اور مستانی ہوتی ہے، چناں چہ وہ بچہ بری صحبت میں گرفتار ہو گیا، شباب اور شراب کے کاموں میں مصروف ہو گیا۔
ماں برابر سمجھاتی، لیکن بچہ پر کچھ اثر نہ ہوتا، چکنا گھڑا بن گیا، وہ ان کو حضرت حسن بصری رحمہ الله کے پاس لے کر آتی، حضرت بھی اس کو کئی کئی گھنٹے سمجھاتے، لیکن اس کا نیکی کی طرف دھیان ہی نہیں تھا، کبھی کبھی ماں سے ملنے آتا، ماں پھر سمجھاتی اور پھر اس کو حضرت حسن بصری رحمہ الله کے پاس لے جاتی، حضرت بھی سمجھاتے ، دعائیں بھی کرتے، مگر اس کے کان پر جوں نہ رینگتی، حتی کہ حضرت حسن بصری رحمہ الله کے دل میں یہ بات آئی کہ شاید اب اس کا دل پتھر بن گیا ہے، مہر لگ گئی ہے، ماں تو بہرحال ماں ہوتی ہے، دنیا میں ماں ہی تو ہے، جو اچھوں سے بھی پیار کرتی ہے، بروں سے بھی پیار کرتی ہے، اس کی نظر میں تو اس کے بچے بچے ہی ہوتے ہیں، ماں تو ان کو نہیں چھوڑ سکتی، باپ بھی کہہ دیتا ہے کہ گھر سے نکل جاؤ ،اس کو دھکا دو، مگر ماں کبھی نہیں کہتی ،اس کے دل میں الله نے محبت رکھی ہے۔
چناں چہ ماں اس کے لیے پھر کھانا بنا کر دیتی ، اس کے لیے دروازہ کھولتی اور پھر پیار سے سمجھاتی اے میرے بیٹے !نیک بن جا، زندگی اچھی کرلے۔
اب دیکھیے الله کی شان کہ کئی سال برے کاموں میں لگ کر اس نے صحت بھی تباہ کر لی اور دولت بھی تباہ کر دی اور اس کے جسم میں بیماریاں پیدا ہو گئیں ،اطباء نے بیماری بھی لاعلاج بتلائی، اب اٹھنے کی بھی سکت نہ رہی اور بستر پر پڑ گیا، اتنا کمزور ہو گیا کہ اب اس کا آخرت کا سفر سامنے نظر آنے لگا، ماں پھر پاس بیٹھی ہوئی محبت سے سمجھا رہی ہے، میرے بیٹے! اب تونے جو زندگی کا حشر کر لیا، وہ تو کر لیا، اب بھی وقت ہے ، تو معافی مانگ لے، توبہ کر لے، الله تعالیٰ گناہوں کو معاف کرنے والا ہے، جب ماں نے پھر پیار ومحبت سے سمجھایا، اس کے دل پر کچھ اثر ہوا ،کہنے لگا، کہ ماں! میں کیسے توبہ کروں؟ میں نے بہت بڑے بڑے گناہ کیے ہیں، ماں نے کہا بیٹا! حضرت سے پوچھ لیتے ہیں۔ کہا، امی میں چل کر نہیں جاسکتا، آپ اٹھا کر لے جا نہیں سکتیں، تو میں کیسے ان تک پہنچوں؟ امی آپ ایسا کریں کہ آپ خود ہی حضرت کے پاس جائیں اور حضرت کو بلا کرلے آئیں، ماں نے کہا، ٹھیک ہے بیٹا، میں حضرت کے پاس جاتی ہوں ، بچے نے کہا کہ امی اگر آپ کے آنے تک میں دنیا سے رخصت ہو جاؤں، تو امی حضرت سے کہنا کہ میرے جنازے کی نماز وہی پڑھائیں۔
چناں چہ ماں حضرت حسن بصری رحمہ الله کے پاس گئی، حضرت حسن بصری رحمہ الله کھانے سے فارغ ہو ئے تھے او رتھکے ہوئے تھے اور درس بھی دینا تھا، اس لیے قیلولہ کے لیے لیٹنا چاہتے تھے، ماں نے دروازہ کھٹکھٹایا، پوچھا، کون؟
عرض کیا حضرت میں آپ کی شاگردہ ہوں، میرا بچہ اب آخری حالت میں ہے ، وہ توبہ کرنا چاہتا ہے، لہٰذا آپ گھر تشریف لے چلیں اور میرے بچہ کو توبہ کرادیں۔
حضرت نے سوچا کہ اب پھر وہ اس کو دھوکہ دے رہا ہے، پھر وہ اس کا وقت ضائع کرے گا اور اپنا بھی کرے گا، سالوں گزر گئے، اب تک کوئی بات اثر نہ کر سکی، اب کیا کرے گی، کہنے لگے، میں اپنا وقت کیوں ضائع کروں؟ میں نہیں آتا، ماں نے کہا، حضرت اس نے تویہ بھی کہا ہے کہ اگر میرا انتقال ہو جائے تو میرے جنازے کی نماز آپ پڑھائیں۔
حضرت حسن بصری رحمہ الله نے کہا، میں اس کی جنازہ کی نماز نہیں پڑھاؤں گا، اس نے تو کبھی نماز ہی نہیں پڑھی۔
اب وہ شاگردہ تھی، چپ کرکے اٹھی، مغموم دل سے ایک طرف بیٹا بیمار ،دوسری طرف سے حضرت کا انکار، اس کا غم تو دوگنا ہو گیا تھا۔
وہ بے چاری آنکھوں میں آنسو لیے اپنے گھر واپس آئی، بچے نے ماں کو زار وقطار روتے ہوئے دیکھا، اب اس کا دل اور موم ہو گیا ، کہنے لگا امی ! آپ کیوں اتنا زار وقطار رورہی ہیں؟ ماں نے کہا، بیٹا! ایک تیری یہ حالت ہے اور دوسری طرف حضرت نے تیرے پاس آنے سے انکار کر دیا، تو اتنا برا کیوں ہے؟ کہ وہ تیرے جنازے کی نماز بھی پڑھانا نہیں چاہتے۔
اب یہ بات بچے نے سنی تو اس کے دل پر چوٹ لگی، اس کے دل پر صدمہ ہوا، کہنے لگا امّی! مجھے مشکل سے سانسیں آرہی ہیں ایسا نہ ہو میری سانس اکھڑنے والی ہو، لہٰذا میری ایک وصیت سن لیجیے، ماں نے پوچھا، بیٹا! وہ کیا ہے؟
کہا امی میری وصیت یہ ہے کہ جب میری جان نکل جائے، تو سب سے پہلے اپنا دوپٹہ میرے گلے میں ڈالنا، میری لاش کو کتے کی طرح صحن میں گھسیٹنا جس طرح مرے ہوئے کتے کی لاش گھسیٹی جاتی ہے ۔ماں نے پوچھا، بیٹا !وہ کیوں؟
کہا امی! اس لیے کہ دنیا والوں کو پتہ چل جائے کہ جو اپنے رب کا نافرمان اور ماں باپ کا نافرمان ہوتا ہے، اس کا انجام یہ ہوا کرتا ہے۔
اور امی مجھے قبرستان میں دفن نہ کرنا، ماں نے کہا بیٹے! تجھے قبرستان میں دفن کیوں نہ کروں؟
کہا امی! مجھے اسی صحن میں دفن کر دینا، ایسا نہ ہو کہ میرے گناہوں کی وجہ سے قبرستان کے مُردوں کو تکلیف پہنچے، جس وقت نوجوان نے ٹوٹے دل سے عاجزی کی یہ بات کہی، تو پروردگار کو اس کی یہ بات اچھی لگی، روح قبض ہو گئی، ابھی روح نکلی ہی تھی او رماں بھی اس کی آنکھیں بند کر رہی تھیں، کہ باہر سے دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے۔
عورت نے اندر سے پوچھا، کون ہے؟
جواب آیا، میں حسن بصری ہوں۔
کہا، حضرت آپ کیسے؟ فرمایا: جب میں نے تمہیں جواب دے دیا اور میں سو گیا، خواب میں الله رب العزت کا دیدار نصیب ہوا، پروردگار نے فرمایا: حسن بصری! تو میرا کیسا ولی ہے ، میرے ایک ولی کا جنازہ پڑھنے سے انکار کرتا ہے؟ میں سمجھ گیا کہ الله نے تیرے بیٹے کی توبہ کو قبول کر لیا ہے، تیرے بچے کی نماز جنازہ پڑھنے کے لیے حسن بصری کھڑا ہے۔
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی دعا
حضرت عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے”اللّٰھُمَّ اجْعَلْنِی مِنَ الَّذِیْن إِذَا أَحْسَنُوْا استَبْشَُروا، وَإِذَا أَسَاءُ وا استَغْفَرُوا․“(سنن ابن ماجہ، کتاب الأدب، باب الاستغفار، رقم الحدیث:3820)
اے الله! مجھے ان لوگوں میں سے بنا، جو نیکی کریں تو خوش ہوں اور برائی کریں تو استغفار کریں۔