Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1436ھ

ہ رسالہ

8 - 16
الصلوٰة
نماز کی اہمیت، افادیت اور رموز پر

حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانویؒ کا پُرمغز بیان
تسہیل: محترم سید عروہ عرفان
ایک صاحب میرے پاس کسی کے لیے تعویذ لینے آئے۔ میں نے اُن سے کہا کہ دعا کرو، میں بھی دُعا کروں گا۔ کہنے لگے، ہماری زبان اس قابل کہاں ہے؟ میں نے کہا، قابل کیوں نہیں؟ میں نے یہ بھی پوچھا کہ ایمان افضل ہے یا دعا؟ کیوں عذر کرتے ہو؟ کلمہ پڑھنے میں کیوں عذر نہ کیا؟ بس کچھ نہیں، شیطان نے داؤ مارا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ نفس آرام چاہتا ہے، جب کہ دعا میں مشقت ہے۔ اس لیے صرف تعویذ تو طلب کرتے ہیں کہ ایک بار لے کر بے فکر ہو جائیں گے اور جو کچھ پڑھنے کو بتاتا ہوں، وہ نہیں کرتے۔ ظاہراً تو یہ کہتے ہیں کہ ہم اس قابل کہاں، مگر حقیقتاً یہ نفس کی شرارت ہے۔ نفس چوں کہ آرام طلب ہے اور تعویذ میں خود کچھ محنت نہیں کرنا پڑتی، لے کر بازو پر باندھ لیا، بس چھٹی ہوئی۔ پڑھنے میں ہے مصیبت۔ وقت صرف کرنا پڑتا ہے، اس لیے پڑھنے اور دعا کرنے سے گھبراتے ہیں۔

اسی طرح بہت سے ذاکرین و سالکین پر جب خطرات (مشکلات) آوارد ہوتے ہیں تو ان کے دل میں یہ خیال بیٹھ جاتا ہے کہ ذکر سے کیا فائدہ ہوا؟ خطرات بھی ختم نہیں ہوتے۔ شیطان ان لوگوں کے پیچھے اس قدر پڑ ارہتا ہے کہ ان وسوسوں کی وجہ سے ذکر ہی چھوڑ دیتے ہیں کہ جب وساوس کے بغیر ذکر ہوتاہی نہیں تو پھر ذکر کرنا ہی بے کار ہے۔ بالکل اسی طرح لوگوں نے قرآن کے ساتھ کیا ہے کہ جب قرآن کے معنی نہیں سمجھتے تو قرآن ہی چھوڑ دو۔ یہ تو بالکل ایسا ہے کہ کسی کی اولاد بدصورت ہو تو اس کا گلا ہی گھونٹ دو۔ یہ کتنی بڑی غلطی اور بے ہودہ حرکت ہے!!

غرض، الله کے ذکر کو بعض لوگ اس لیے بے کار سمجھتے ہیں کہ خدا تک ہماری رسائی کیسے ہو سکتی ہے؟ پھر یا دکہاں؟ اہل سلوک تک اس میں مبتلا ہیں۔ اسی وجہ سے الله تعالیٰ نے اس آیت میں اسم کا لفظ بڑھا دیا کہ اگر مسمیٰ کا ذکر ممکن نہیں تو اس کے اسم کا ذکر تو ممکن ہے۔

قرآن میں بعض جگہ ذات کا ذکر کرنے کو بھی فرمایا گیا ہے، جیسے ﴿فاذکروانی﴾ اور کہیں صفت کا ذکر لائے ہیں، جیسے ﴿واذکر ربک فی نفسک﴾۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ذات کا تصور نہ ہوسکے تو صفات کا سہی۔ اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو اسم اور لفظ کا ہی ذکر کر لو۔ اسی لفظی ذکر سے حقیقی ذکر بھی نصیب ہوتا ہے۔ مگرشرط یہ ہے کہ اس لفظی ذکر کا مقصد حقیقی ذکر ہو۔ یہ قصد (ارادہ/نیت) ہی ایسی چیز ہے کہ اس سے باطن میں ضرور اثر ہوتا ہے۔

بعض کو یہ شبہ ہوتا ہے کہ نماز پڑھی، مگر اثر نہیں ہوا۔ میں کہتا ہوں کہ نماز سے اثر لینے کی نیت ہی نہیں کی۔ اور جب نیت ہی نہیں کی تو اس کے بارے میں الله تعالیٰ یوں فرماتے ہیں:﴿أَنُلْزِمُکُمُوہَا وَأَنتُمْ لَہَا کَارِہُونَ﴾․(سورہ ھود:28) کہ جب تم اعراض کرتے ہو تو ہم تمہارے پیچھے پیچھے دوڑے نہیں پھرتے۔

طلب ہونی چاہیے۔ جب طلب ہوتی ہے تو الله کی عنایت ہوتی ہے۔ ”من تقرب الیَّ شبراً اتقربت الیہ ذراعا، ومن تقرب الیَّ ذراعا تقربت الیہ باعا…“․ الحدیث، یعنی جب کوئی ایک بالشت میری طرف آتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کی طرف جاتا ہوں۔ اور جو ایک ہاتھ آتا ہے، میں ایک باع ( دو ہاتھ) اس کی طرف جاتا ہوں۔ اور جو پیدل آتا ہے، میں دوڑ کر جاتا ہوں۔ (مسند احمد،413/2 ،الترغیب والتہذیب للمنذری104/4 ،کنز العمال:1179)

گویا انسان کے فاصلہ ختم کرنے سے کیا کچھ ہو سکتا ہے۔ جب یہ انسان نیت ( قصد) کرتا ہے تو الله تعالیٰ اس سے نزدیک ہو کر اسے اپنے قریبی لوگوں میں شامل کر لیتے ہیں ( اپنا مقرب بنالیتے ہیں)۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ اُس سے جو کچھ ہو سکے، وہ کرتا رہے۔

بعض لوگ ریا ( دکھلاوے) کے خوف سے ذکر نہیں کرتے کہ جب ذکر کرتے ہیں تو ریا کا خیال ہوتا ہے۔ یہ بھی شیطان کا دھوکا ہے۔ خوب سمجھ لیجیے کہ اول تو ریا ہوتی ہے، پھر عادت ہوتی ہے، پھر عبادت بن جاتی ہے۔ مشاہدہ کر لیجیے کہ جب کسی کو نماز میں امام بناتے ہیں تو پہلے وہ بنا بنا کر نماز پڑھتا ہے کہ مقتدیوں کو اچھالگے۔ مگر دو چار دن بعد اس طرف اس کی توجہ بھی نہیں جاتی۔ ریا ہمیشہ، ریا نہیں رہتی۔ دوسرے، جوریا بغیر ارادہ کے ہوتی ہے، انسان اسے دور کرنے کا مکلف ہی نہیں ہے۔ پس ، ریا کے دو درجے ہیں: ایک، صورت ریا؛ دوسرا حقیقت ریا۔

صورت ریا کو حقیقت ریا سمجھ لیا جاتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ جب وہ تمہارے اختیار سے پیدا نہیں ہوئی تو اس میں حرج کیا ہے ؟ مجھ سے ایک شخص نے ریا کی شکایت کی۔ میں نے کہا کہ بلا قصد ہے یا بالقصد؛ اختیاری ہے یا غیر اختیاری؟ انہوں نے کہا کہ غیر اختیاری ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ بس یہ ریا کا وسوسہ ہے، ریا نہیں، اس لیے اس میں کوئی حرج نہیں۔ حتیٰ کہ اگر کفر کا بھی وسوسہ آئے تو اس میں بھی حرج نہیں۔ (کیوں کہ وسوسہ پر اختیار نہیں؛ پکڑ تو اختیار پر ہے۔)

صحابہ کرام رضی الله عنہم نے ایک دفعہ حضور صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں شکایت کی کہ ہمارے قلب میں ایسی باتیں آتی ہیں کہ جل کر کوئلہ ہو جانا گوارا ہے، مگر ان کا زبان پر لانا گوارا نہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کفر تک کے وسوسے ہوں گے۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے سُن کر فرمایا: ”الحمد الذی ردّ امرہ الی الوسوسة․“ (مسند احمد340/1) کہ” خدا کا شکر ہے کہ اس کی کوشش وسوسہ ہی کے اندر محدود کردی۔“

ذکر میں لگنا ہمارا کام ہے۔ وسوسہ آنا یا نہ آنا، ہماراکام نہیں۔ اپنے کام میں لگنا چاہیے۔ اور جو اپنا فعل ( ذمے داری) نہیں ہے، اُس میں کیوں مشغول ہوں کہ وہ بے مقصد ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص بادشاہ کی تلاش میں جارہاتھا۔ کسی حاسد کو خبر ہوئی تو وہ راستے میں جاکھڑا ہوا۔ وہ شخص جب وہاں سے گزرا تو حاسد نے اس سے پوچھا، کہاں جاتے ہو؟ اس نے کہا، بادشاہ کے دربار میں جارہاہوں۔ حاسد نے بادشاہ کی شان میں گستاخی شروع کر دی کہ اگر یہ بادشاہ کو واقعی چاہنے والا ہے اور بادشاہ سے واقعی ملاقات کرنا چاہتا ہے تو گستاخی میں میرے ساتھ شریک نہ ہو گا، بلکہ سیدھا چلا جائے گا، حتیٰ کہ کان میں منھ لگاکر بھی گالیاں دوں گا، تب بھی ادھر متوجہ نہ ہو گا۔ حاسد کی غرض بھی یہی تھی کہ دربار کی حاضری کا وقت جاتا رہے اور یہ شخص بادشاہ کی عطایا سے محروم رہے۔

اب یہ شخص ہوش سے کام لے گا تو سمجھ جائے گا کہ یہ حاسد اسی لیے شرارت کر رہا ہے کہ مجھے بادشاہ کی زیارت سے محروم کر دے۔ لہٰذا، اسے چاہیے کہ اس حاسد کی طرف بالکل توجہ نہ دے اور سیدھا چلا جائے۔ تبھی وہ بادشاہ تک پہنچ پائے گا۔ وہ گستاخی کرنے والا بادشاہ کے دربار میں نہیں پہنچ سکتا۔ لیکن، اگر یہ شخص حاسد کی گالیوں میں الجھ گیا اور اسے جواب دینے میں لگ گیا تو تمام وقت اسی میں لگ جائے گا اور نتیجہ یہ ہو گا کہ بادشاہ کی ملاقات سے محروم رہے گا۔

اسی طرح شیطان دل میں وسوسے ڈال کر قرب الٰہی سے محروم رکھتا ہے۔ لہٰذا جو شخص وسوسے کی فکر میں مشغول ہو جاتا ہے، وہ ترقی سے رک جاتا ہے اور جو اس میں مشغول نہیں ہوتا، ترقی کرتا رہتا ہے، حتیٰ کہ مقام قرب حاصل کر لیتا ہے۔ جب مقام قرب حاصل ہوجاتا ہے تو وساوس بھی ختم ہو جاتے ہیں، کیوں کہ دربار میں شیطان کا داخلہ کہاں!

اسی لیے بزرگوں نے وسوسوں کا علاج” عدم التفات“ تجویز کیا ہے، یعنی وسوسوں کی طرف توجہ ہی نہ کرے۔ اس کے سوا اس کی تدبیر نہیں ہے۔

الغرض، جیسے ریا کا وسوسہ ریا نہیں، اسی طرح کفر کا وسوسہ کفر نہیں؛ اور نہ ہی یہ قابل ملامت ہے۔ راز اس کا یہ ہے کہ یہ وسوسہ قلب کے اندر نہیں ہوتا، گو محسوس ایسا ہوتا ہے کہ قلب کے اندر ہے ۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے آئینے پر مکھی بیٹھی ہو او راس کا عکس آئینے میں پڑتا ہو۔ اس لیے مکھی آئینے کے اندر نظر آتی ہے، حال آنکہ وہ آئینے کے اندر نہیں ہوتی۔

اسی طرح، غیر اختیاری وسوسے قلب کے اندر نہیں ہوتے۔ قلب میں تو خدا کا ذکر اور خدا کی محبت ہوتی ہے اور وسوسہ قلب کے باہر ہے۔ اہل الله کے قلب میں الله کے سوا کوئی چیز نہیں ہوتی، اس لیے سالک کو اپنا قلب قوی رکھنا چاہیے اور کام میں لگے رہنا چاہیے۔

اگر زیادہ خلجان (وسوسوں کا ہجوم) ہو تو دل کو یوں سمجھائے کہ اور کچھ نہ ہو، ذکر لفظی تو ہے، نہ یہ کہ اس فکر میں پڑ جائے کہ یکسوئی کیوں نہیں ہوتی (اور ذکر ہی چھوڑ بیٹھے)!

فکر دو طرح کی ہیں: ایک ہے اصلاح کی فکر اور دوسری یکسوئی۔ اصلاح کی فکر تو ہونی چاہیے، جب کہ یکسوئی یہ ہے کہ قلب میں کوئی چیز نہ ہو۔ اس میں کام یابی نہ ہونے پر یہ سمجھا کہ میرا ذکر ہی بے کار ہے۔بس ذکر ہی کو چھوڑ دیا۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا اصل ” کبر“ ہے، یعنی خود کو اتنا بڑا سمجھتاہے کہ میں اپنے ذکر وعمل میں موجودہ حالت سے زیادہ کا مستحق تھا، مگر مجھے وہ نہیں ملا۔ اتنے دن ذکر کیا، مگر پہلے دن والی کیفیت ہے۔ یہ کبر ہے۔ ورنہ اگر سچا عاشق ہو تو اسے بھی غنیمت سمجھتاکہ چلو اُس کا نام لینا میسر ہو گیا۔ اسی لیے کہتے ہیں #
        ادائے حق محبت عنایت ست زدوست
        وگرنہ عاشق مسکین بہیچ خورسند است
یعنی حق محبت کی ادائیگی سراسر دوست کی عنایت کے سبب ہے، ورنہ عشق بے چارہ یوں ہی خوش وخرم ہے۔

اگرتمام عمر ذکر لفظی ہی کی پابندی ہو جائے تو یہ بھی غنیمت ہے۔ ہم تو اس کے بھی مستحق نہ تھے۔ تواضع میں حد سے بڑھنا ہی بعض اوقات غرور تک پہنچا دیتا ہے۔ دیکھیے اس نے کتنی تواضع کی تھی کہ اپنی حالت کو حقیر سمجھتا تھا ،مگر آہستہ آہستہ یہ خیال ہونے لگا کہ میں تو اتنا ذکرکرتا ہوں اورپھر بھی میری حالت اتنی بری ہے۔ بس تکبر تک پہنچ گیا۔

ہماری نماز کیا ، ہمارا روزہ کیا․․․ اس پر جو انعام بھی ہو جائے، اُس کا احسان سمجھنا چاہیے۔ اب یہ خیال کرنا کہ مجھے زیادہ ملنا چاہیے تھا، ناقدری ہے، ناشکری ہے۔ بہرحال، لفظ” اسم“ بڑھانے میں یہ نکتہ ہے۔ حضرت حاجی امداد الله صاحب رحمہ الله علیہ فرماتے تھے کہ زبان سے الله الله کرنے کو غنیمت سمجھے، حقیر نہ سمجھے۔ غنیمت سمجھے گا تو شکر کرے گا اور شکر پر وعدہ ہے: ﴿لئن شکرتم لازیدنکم﴾ اگر تم شکر کرو گے تو ہم مزید ترقی دیں گے۔شکر سے ترقی ہو گی۔ لہٰذا جس کی طلب ہے، اس تک پہنچ جائے گا۔

خلاصہ یہ کہ ذکر اسم ربہ میں تمام برائیوں سے بچنے کی تدبیر بتائی ہے کہ ذکر کرنے میں مصروف ہو جاؤ، برائیوں سے بچ جاؤ گے۔

اس کے علاوہ اس آیت میں ایک نکتہ اور ہے۔ وہ یہ کہ فصلی میں توف لائے اور ذکراسم ربہ میں و۔ حال آنکہ دونوں جگہ عطف ہے، مگر اول میں واؤ کے ساتھ عطف کیا ہے اور دوسری جگہ فاکے ساتھ۔ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ نماز بعض وجہ کی بنا پر مقصد اعظم (سب سے بڑا مقصد) ہے، کیوں کہ ذکر پر نماز کو اس طرح بلند کیا ہے کہ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ذکر دراصل نماز کا مقدمہ ہے او راصل مقصود نماز ہے۔ چناں چہ اس آیت کے معنی یہ ہوئے کہ پہلے ذکر سے نماز کی قابلیت پیدا کی اورپھر نماز پڑھی۔ اس سے نماز کا عظیم تر ہونا معلوم ہوا۔

قد افلح من تزکی (کام یاب ہوا وہ شخص جو (عقائد واخلاق کی خیانتوں) سے پاک ہو گیا) کے ساتھ ﴿ذکراسم ربہ فصلی﴾ (او راپنے رب کا نام لیتا اور نماز پڑھتا رہا) کی شرط لگانے سے یہ اشارہ ہے کہ اگرچہ تزکیہ بہت بڑا عمل ہے، مگر کام یابی کے لیے صرف تزکیہ، بغیر نماز کے، کافی نہیں۔ ہاں، جب تزکیہ کے ساتھ نماز بھی پڑھی تو اس وقت سمجھ لینا چاہیے کہ ہماری فلاح ہو گئی۔ نماز، کام یابی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔

آپ کو یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اذان میں حی علی الفلاح کیوں فرمایا ہے۔ درحقیقت، فلاح لقب ہے نماز کا۔ نماز ہی کو فلاح (کام یابی) کے نام سے تعبیر کیا ہے، تاکہ لوگ یہ بات سمجھ لیں کہ نماز کام یابی کا ایسا سبب ہے گویا نمازحقیقی فلاح ہے، سبب کے قائم مقام ہے۔ لہٰذا جس نے نماز پڑھی، اسے کام یابی مل گئی۔ نماز ہی ایک ایسی عبادت ہے کہ اسے دیگر اعمال سے امتیاز حاصل ہے، یعنی اعمال فرعیہ سے۔ ایک عمل تو ایسا ہے جو سب کی اصل ہے، ایمان․․․ ایمان تو نماز سے بھی افضل ہے، کیوں کہ اگر ایمان نہ ہوتا تو نماز ہی نہ ہوتی اور ایمان تو نماز کے بغیر بھی مفید ہو جاتا ہے(مثلاً انسان ہمیشہ کے لیے دوزخ میں جانے سے بچ گیا)، تاہم دوسری عبادتوں کے مقابلے میں نماز کا امتیاز یہ ہے کہ نماز میں تمام عبادتیں موجود ہیں۔

اس کی مثال اُس مرکب جیسی ہے کہ جس میں تمام مفید اجزا کو جمع کر دیا گیا ہو۔ ظاہر ہے، ایسا خمیرہ یا معجون مفرد دو ا سے زیادہ مفید ہوتا ہے ۔ اسلام میں جو اعمال غذا یا دوا کی طرح ہیں ، نماز ان سب کا مجموعہ ہے، کیوں کہ دوا تو وہ ہے جس سے خبیث مواد جسم سے نکل جائے اور غذا وہ ہے جس سے جسم میں صالح اجزا پیدا ہوں۔ چوں کہ اعمال شرعیہ میں یہ دونوں شانیں ہیں، اس لیے وہ دوا کی طرح بھی ہے اور غذا کی طرح بھی۔ پس، جتنے بھی مفرد اعمال ہیں، ان سب کو نماز میں جمع کرکے ایک مرکب بنا دیا۔

ایک عمل روزہ ہے۔ ایک تلاوت کلام الله ہے۔ ایک اعتکاف ہے۔ روزے، تلاوت اور اعتکاف کے فضائل کتنے زیادہ ہیں، تو جس عمل میں یہ تمام اعمال جمع ہوں گے، اس عمل کی فضیلت کتنی زیادہ ہو گی؟! نماز وہ عمل ہے کہ اس میں ان تمام اعمال کی تھوڑی تھوڑی چیزیں موجود ہیں۔

روزے میں تین بڑی چیزیں ہیں۔ کھانا، پینا اور مقاربت ترک کرنا، نماز میں یہ سب چیزیں پائی جاتی ہیں۔ بلکہ نماز میں ایسے بہت سے جائز کاموں سے بھی منع کر دیا گیا کہ جن سے روزے میں اس قدر روکا نہیں گیا۔ روزے میں تو صرف تین چیزوں سے روکا گیا ہے۔ کھانے سے، پینے سے، مقاربت سے۔ نماز میں تو چلنے پھرنے، ہنسنے بولنے، کھانے پینے․․․سب کی ممانعت ہے۔ بولنا بھی منع ہے۔

نماز کی دعا بھی وہ جائز ہے جو انسانی گفت گو سے ملتی جلتی نہ ہو۔ اگر الله سے باتیں کرو تو ایسی نہ ہوں جس کا سوال تم انسانوں سے کرسکتے ہو۔ اگر ایسی دعا نماز میں کرو گے تو نماز فاسد ہو جائے گی۔ اور عربی کے سوا کسی دوسری زبان میں دعا مانگنا ہی حرام ہے۔ تاہم نماز میں اگر ”کلام ناس“ تکلم کر لیا ،یعنی جیسے انسان ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں، گفت گو کر لی تو نماز فاسد ہو جاتی ہے تو چاہے یہ کلام عربی میں ہو یا اردو یا کسی بھی زبان میں، نماز فاسد ہوجائے گی۔ عربی پر ایک حکایت یاد آئی کہ ایک صاحب لغت بہت بولتے تھے۔ ان کے پاس کچھ دیہاتی آئے۔ ان صاحب نے پوچھا، ”اِمسال تمہارے زارِ گندم پر تقاطر امطار ہوا ہے یا نہیں۔“ (اس سال تمہارے گندم کے کھیت میں بارش ہوئی یانہیں؟)

دیہاتی یہ سن کر حیران تھے کہ جانے یہ کیا کہہ رہے ہیں؟! انہوں نے ایسی گاڑھی زبان کہاں سنی تھی؟! ان میں سے ایک دیہاتی ذرا ہو شیار تھا، اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا کہ اس وقت صاحب قرآن پڑھ رہے ہیں، پھر آنا جب انسانوں کی سی گفت گو کرنے لگیں۔

المختصر، انسانی کلام سے، خواہ عربی میں ہو یا غیر عربی میں ، نماز ٹوٹ جاتی ہے، نماز وہ عبادت ہے کہ کھانا پینا تو در کنار، بات کرنے تک سے ٹوٹ جاتی ہے، حتیٰ کہ کسی مخلوق سے بات کرنا تو کہاں، خود الله تعالیٰ سے نماز میں ایسی گفت گو کی جائے کہ جیسے ہم انسانوں سے کرتے ہیں تو اس سے بھی نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ ہاں، جو چیز بندوں سے نہیں مانگی جاتی ، جیسے مغفرت اس سے نماز نہیں ٹوٹتی۔ ذرا سوچیے کہ نماز میں کتنا بڑا روزہ شامل ہے۔

نماز میں کلام کے ساتھ ہنسی کی بھی ممانعت ہے۔ ہنسی کے تین درجے ہیں: قہقہہ، ضحک او رتبسم۔ قہقہہ سے تو نماز سب فقہا کے نزدیک فاسد ہو جاتی ہے، لیکن امام ابو حنیفہ رحمة الله علیہ کے نزدیک وضو بھی جاتا رہتا ہے ۔ ضحک ( ہنسنا) سے نماز ٹوٹ جاتی ہے، وضو نہیں ٹوٹتا۔ اور تبسم(مسکراہٹ) سے بے ادبی تو ہے، مگر اس سے نماز نہیں ٹوٹتی، کیوں کہ شرعاً مسکراہٹ کو ہنسی قرار نہیں دیا گیا۔ گویا وہ گفت گو کے ملحقات میں سے نہیں، البتہ سب ہیں نماز کے خلاف۔ اگرچہ تبسم سے نماز نہ ٹوٹتی ہو، مگر یہاں نکتہ یہ ہے کہ نماز میں ہنسنے کا بھی روزہ ہوا۔

اب رونے کا حکم سنیے کہ نماز میں اس کی بھی ممانعت ہے۔ ہنسنے کا تو اس لیے روزہ ہوا تھا کہ وہ نماز کی شان ( ادب) کے خلاف ہے، مگر اس میں رونے کا بھی روزہ ہے۔ ہاں، جنت اور دوزخ کے ذکر سے رونا آئے تو الگ بات ہے۔ حال آنکہ رونا فی نفسہ وہ چیز ہے کہ اس میں پوری نیاز مندی اور عاجزی کی شان ہے اور نیاز مندی کی شان ہر حال میں محمود ہی ہے۔ اگر رونا آخرت کے لیے ہو تو وہ پسندیدہ ہے ہی، لیکن اگر دنیا کے لیے بھی ہو تو اس سے بھی قرب ملتا ہے، کیوں کہ رونا حزن ورنج کی وجہ سے ہوتا ہے اور حزن وغم کے بارے میں صوفیا ئے کرام کہتے ہیں کہ یہ بہت بڑی ریاضت ہے۔

ایک بزرگ رور ہے تھے۔ کسی نے کہا، کیوں رو رہے ہیں؟ جواب دیاکہ بھوک لگی ہے۔ واقعی ان حضرات کو اپنی ہستی پر بالکل نظر ہوتی تھی۔ اگر خود کو کچھ سمجھتے تو روٹی کے لیے ہر گزنہ روتے۔ یہ سوچتے کہ روٹی کے لیے رونا ہماری شان کے خلاف ہے۔ اگر کسی کو معلوم ہو گیا کہ محض روٹی کے لیے روتے ہیں تو کوئی کیا کہے گا؟ اس لیے انہوں نے صاف کہہ دیا کہ بھوک کی وجہ سے رو رہا ہوں۔ کہنے والے نے کہا، شرم نہیں آتی، بچوں کی طرح رو رہے ہو؟ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ خدا نے تو بھوک اس لیے لگائی ہے کہ میرا رونا دیکھیں۔ جب وہ ہمارا رونا دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہم کیوں نہ روئیں #
        چوں طمع خواہد زمین سلطاں دیں
        خاک بر فرق قناعت بعد ازیں
یعنی، جب دین کا بادشاہ مجھ سے طمع کا اظہار کر لے تو پھر ایسی قناعت پر خاک۔ (جاری)

Flag Counter