ازواج مطہرات
مولانا محمد نجیب قاسمی، ریاض
ازواج مطہرات (نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی بیویوں) کے متعلق اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام ( سورہ احزاب ، آیت:32) میں ارشاد فرماتا ہے۔ ﴿یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ…﴾ اے نبی صلى الله عليه وسلم کی ازواج (مطہرات) !تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو……تم بلند مقام کی حامل ہو۔ تمہاری ایک غلطی پر دوگنا عذاب دیا جائے گا۔ اور اسی طرح تم میں سے جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے گی اور نیک کام کرے گی ہم اسے اجر (بھی) دوہرا دیں گے اور اس کے لیے ہم نے بہترین روزی تیار کر رکھی ہے…۔ جیساکہ سورہ احزاب آیت 30 اور31 میں مذکور ہے۔
قرآن کریم‘ روز قیامت تک کے لیے لوگوں سے مخاطب ہے: ﴿وَلَآ اَنْ تَنْکِحُوآ اَزْوَاجَہُ مِنْ بَعْدِہِ اَبَداً﴾ (سورہ احزاب ۔ آیت 53) اے ایمان والو! تمہارے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے بعد ان کی ازواج مطہرات میں سے کسی سے نکاح کرو۔ یعنی ازواج مطہرات تمام ایمان والوں کے لیے ماں (ام الموٴمنین) کا درجہ رکھتی ہیں۔
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے چند نکاح فرمائے۔ ان میں سے صرف حضرت عائشہ کنواری تھیں، باقی سب بیوہ یا مطلقہ تھیں۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے سب سے پہلا نکاح‘ 25 سال کی عمرمیں حضرت خدیجہ سے کیا۔ حضرت خدیجہ کی عمر نکاح کے وقت40 سال تھی، یعنی حضرت خدیجہ آپ صلی الله علیہ وسلم سے عمر میں 15 سال بڑی تھیں۔ نیز وہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ نکاح کرنے سے پہلے دو شادیاں کرچکی تھیں اور اُن کے پہلے شوہروں سے بچے بھی تھے۔ جب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی عمر50 سال کی ہوئی تو حضرت خدیجہ کا انتقال ہوگیا۔ اس طرح نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنی پوری جوانی (25 سے 50 سال کی عمر) صرف ایک بیوہ عورت حضرت خدیجہ کے ساتھ گزاردی۔
50 سے60 سال کی عمر میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے چندنکاح کیے۔ یہ نکاح کسی شہوت کو پوری کرنے کے لیے نہیں کیے کہ شہوت 50 سال کی عمر کے بعد اچانک ظاہر ہوگئی ہو۔ اگر شہوت پوری کرنے کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نکاح فرماتے تو کنواری لڑکیوں سے شادی کرتے۔ نیز حدیث میں آتا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے کسی عورت سے شادی نہیں کی اور نہ کسی بیٹی کا نکاح کرایا مگر اللہ کی طرف سے حضرت جبرئیل علیہ السلام وحی لے کر آئے۔ بلکہ چند سیاسی ودینی واجتماعی اسباب کو سامنے رکھ کر آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ نکاح کیے۔ اِن سیاسی ودینی واجتماعی اسباب کا بیان مضمون کے آخر میں آرہا ہے۔
سب سے قبل‘ نبی اکرم ا کی ازواج مطہرات کا مختصر تعارف
1..امّ الموٴمنین حضرت خدیجہ :
یہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی پہلی بیوی ہیں۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی دیانت ، کمال اور برکت کو دیکھ کر انہوں نے خود شادی کی درخواست کی تھی۔ نکاح کے وقت آپ صلی الله علیہ وسلم کی عمر25 سال اور حضرت خدیجہ کیعمر40 سال تھی۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی چاروں بیٹیاں (زینب ، رقیہ ، ام کلثوم اور فاطمہ ) اور ابراہیم کے علاوہ دونوں بیٹے (قاسم اور عبداللہ ) حضرت خدیجہ ہی سے پیدا ہوئے۔ حضرت فاطمہ کے علاوہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی ساری اولاد آپ صلی الله علیہ وسلم کی زندگی میں ہی انتقال فرماگئی تھی۔ حضرت فاطمہ کا انتقال نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے انتقال کے چھ ماہ بعد ہوگیا تھا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی پہلی بیوی حضرت خدیجہ کے انتقال کے وقت آپ صلی الله علیہ وسلم کی عمر50 سال تھی۔ حضرت خدیجہ کا انتقال نبوت کے دسویں سال ہوا ، اس وقت حضرت خدیجہ کی عمر65 سال تھی۔ حضرت خدیجہ کی سچائی اور غم گساری کو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ان کی وفات کے بعد بھی ہمیشہ یاد فرماتے تھے۔
2..امّ الموٴمنین حضرت سودہ :
یہ اپنے شوہر (سکران بن عمرو) کے سا تھ مسلمان ہوئی تھیں، ان کی ماں بھی مسلمان ہوگئی تھیں، ماں اور شوہر کے ساتھ ہجرت کرکے حبشہ چلی گئی تھیں۔ وہاں ان کے شوہر کا انتقال ہوگیا۔ جب اُن کا کوئی بظاہر دنیاوی سہارا نہ رہا تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد نبوت کے دسویں سال اِن سے نکاح کرلیا ۔ اُس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم کی عمر50 سال اور حضرت سودہ کی عمر 55 سال تھی۔ اور یہ اسلام میں سب سے پہلی بیوہ عورت تھیں۔ حضرت خدیجہ کے انتقال کے بعد تقریباً تین چار سال تک صرف حضرت سودہ ہی آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ رہیں، کیوں کہ حضرت عائشہ کی رخصتی‘ نکاح کے تین یا چار سال بعد مدینہ منورہ میں ہوئی۔ غرض تقریباً 55 سال کی عمر تک آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ صرف ایک ہی عورت رہی اور وہ بھی بیوہ ۔ حضرت سودہ کا انتقال 54 ہجری میں ہوا۔
3..امّ الموٴمنین حضرت عائشہ :
یہ خلیفہ اوّل حضرت ابو بکر صدیق کی بیٹی ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق کی آرزو تھی کہ میری بیٹی نبی کے گھر میں ہو۔ چنانچہ حضرت عائشہ کا نکاح نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کے ساتھ مکہ ہی میں ہوگیا تھا۔ مگر نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے گھر (مدینہ منورہ) میں 2 ہجری کو آئیں۔ یعنی 3 ،4 سال بعد رخصتی ہوئی۔ اُس وقت نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی عمر 55 سال تھی۔ جیسے باپ نے اسلام کی بڑی بڑی خدمات انجام دی تھیں، بیٹی بھی ایسی ہی عالمہ وفاضلہ ہوئیں کہ بڑے بڑے صحابہ کرام اُن سے مسائل دریافت فرمایا کرتے تھے۔ 2210 احادیث کی روایت اُن سے ہے۔ حضرت ابوہریرہ اور حضرت عبداللہ بن عمر کے بعد سب سے زیادہ احادیث حضرت عائشہ سے ہی مروی ہیں۔ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی صرف حضرت عائشہ ہی کنواری بیوی تھیں، باقی سب بیوہ یا مطلقہ تھیں۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم حضرت عائشہ سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے۔ حضرت عائشہ کے حجرہ میں ہی آپ صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور اسی میں آپ صلی الله علیہ وسلم مدفون ہیں۔ حضرت عائشہ کا57یا 58 ہجری میں انتقال ہوا۔
4..امّ الموٴمنین حضرت حفصہ بنت عمر :
یہ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق کی بیٹی ہیں۔ انہوں نے اپنے پہلے شوہر کے ساتھ حبشہ اور پھر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی۔ ان کے شوہر غزوہ احد میں زخمی ہوگئے تھے اور انہیں زخموں سے تاب نہ لاکر انتقال فرماگئے تھے۔ اس طرح حضرت حفصہ بیوہ ہوگئیں، تو نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے ان سے 3 ہجری میں نکاح فرمالیا۔ اُس وقت آپ صلى الله عليه وسلم کی عمر 56 سال کی تھی۔ حضرت حفصہ بہت زیادہ عبادت گزار تھیں۔ حضرت حفصہ کا انتقال 41 یا 45 ہجری میں ہوا۔
5..امّ الموٴمنین حضرت زینب بنت خزیمہ :
ان کا پہلا نکاح طفیل بن حارث سے، پھر عبیدہ بن حارث سے ہوا تھا۔ یہ دونوں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے حقیقی چچیرے بھائی تھے۔ تیسرا نکاح حضرت عبد اللہ بن جحش سے ہوا تھا، یہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے، وہ جنگ اُحد میں شہید ہوئے۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت زینب کے تیسرے شوہر کے انتقال کے بعد اِن سے 3ہجری میں نکاح کرلیا۔ اُس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم کی عمر 56 سال کی تھی۔ وہ نکاح کے بعد صرف تین ماہ زندہ رہیں۔ یہ غریبوں کی اتنی مدد اور پرورش کیا کرتی تھیں کہ ان کا لقب امّ المساکین (مسکینوں کی ماں) پڑگیا تھا۔
6..امّ الموٴمنین حضرت ام سلمہ :
ان کا پہلا نکاح حضرت ابو سلمہ سے ہوا تھا، جو نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔ انہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ حبشہ اور پھر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی۔ اِن کے شوہر حضرت ابو سلمہ کی جنگ احد کے زخموں سے وفات ہوگئی تھی۔ چار بچے یتیم چھوڑے۔ جب کوئی بظاہر دنیاوی سہارا نہ رہا تو نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے بے کس بچوں اور ان کی حالت پر رحم کھاکر ان سے 3ہجری میں نکاح کرلیا۔58 یا61ہجری میں حضرت ام سلمہ کا انتقال ہوگیا۔ امہات الموٴمنین میں سب سے آخر میں انہی کا انتقال ہوا۔
غرضیکہ حضرت حفصہ ، حضرت زینب بنت خزیمہ اور حضرت ام سلمہ کے شوہر غزوہ احد (3ہجری) میں شہید ہوئے ، یا زخموں کی تاب نہ لاکر انتقال فرماگئے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان بیوہ عورتوں سے ان کے لیے دنیاوی سہارے کے طور پر نکاح فرمالیا۔
7..امّ الموٴمنین حضرت زینب بنت جحش :
یہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی سگی پھوپھی زاد بہن تھیں۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ان کا نکاح کوشش کرکے اپنے منھ بولے بیٹے (آزاد کردہ غلام) حضرت زید سے کرادیا تھا۔ لیکن شوہر کی حضرت زینب کے ساتھ نہیں بنی اور بیوی کو چھوڑدیا۔ اگرچہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے زید کو بہت سمجھایا،مگر دونوں کا ملاپ نہیں ہوسکا۔ حضرت زینب کی اس مصیبت کا بدلہ اللہ نے یہ دیا کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ اُن کا نکاح 5ھجری میں ہو گیا، یعنی اُس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم کی عمر 58 سال تھی۔ زمانہ جاہلیت میں منھ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹے کی طرح سمجھ کراس کی مطلقہ یا بیوہ عورت سے نکاح کرنا جائز نہیں سمجھتے تھے۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت زید کی مطلقہ عورت سے نکاح کرکے امت ِمسلمہ کو یہ تعلیم دی کہ منھ بولے بیٹے کا حکم حقیقی بیٹے کی طرح نہیں ہے، یعنی منھ بولے بیٹے کی مطلقہ یا بیوہ عورت سے شادی کی جاسکتی ہے۔ یاد رکھیں کہ باپ اپنے حقیقی بیٹے کی مطلقہ یا بیوہ عورت سے کبھی بھی شادی نہیں کرسکتا ۔ حضرت زینب کا انتقال 20ہجری میں حضرت عمر فاروق کے زمانہ خلافت میں ہوا۔
8..امّ الموٴمنین حضرت جویریہ :
یہ لڑائی میں پکڑی گئی تھیں اور حضرت ثابت بن قیس کے حصہ میں آئیں، حضرت ثابت بن قیس 20 سال کے نوجوان تھے۔ حضرت ثابت بن قیس نے حضرت جویریہ سے اُن کو آزاد کرنے کے لیے کچھ پیسہ مانگا۔ حضرت جویریہ مالی تعاون کے لیے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور یہ بھی ظاہر کیا کہ میں مسلمان ہوچکی ہوں۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ساری رقم ادا کرکے اُن کو آزادکرادیا۔ پھر فرمایا کہ بہتر ہے کہ میں تمہارے ساتھ نکاح کرلوں۔ چناں چہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ اُن کا نکاح 5ھجری میں ہو گیا، یعنی اُس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم کی عمر 58 سال کی تھی۔ جب لشکر نے یہ سنا کہ سارے قیدی نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے رشتہ دار بن گئے تو صحابہ کرام نے سب قیدیوں کو آزاد کردیا۔ اس طرح نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی اس چھوٹی سی تدبیر نے 100سے زیادہ انسانوں کو لونڈی وغلام بنائے جانے سے بچا دیا۔ نیز حضرت جویریہ کے ساتھ نکاح کرنے کی وجہ سے قبیلہ بنو مصطلق کی ایک بڑی جماعت نے اسلام قبول کرلیا۔ (یاد رکھیں کہ اسلام نے ہی عربوں میں زمانہ جاہلیت سے جاری انسانوں کو غلام ولونڈی بنانے کا رواج رفتہ رفتہ ختم کیا ہے)۔ حضرت جویریہ کا انتقال 50 ہجری میں ہوا۔
9..امّ الموٴمنین حضرت صفیہ بنت حیی بن اخطب :
ان کا تعلق یہودیوں کے قبیلہ بنو نضیر سے ہے۔ حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ ان کے باپ ، بھائی اور ان کے شوہر کو جنگ میں قتل کردیا گیا تھا۔ یہ قید ہوکر آئیں۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ان کو اختیار دیا کہ چاہیں اسلام لے آئیں یا اپنے مذہب پر باقی رہیں۔ اگر اسلام لاتی ہیں تو میں نکاح کرنے کے لیے تیار ہوں۔ ورنہ ان کو آزاد کردیا جائے گا، تاکہ اپنے خاندان کے ساتھ جاملیں۔ حضرت صفیہ اپنے خاندان کے لوگوں میں واپسی کے بجائے اسلام قبول کرکے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے نکاح کرنے کے لیے تیار ہوگئیں۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ان کو آزاد کردیا ، پھر 7 ہجری میں ان سے نکاح کرلیا۔ نکاح کے وقت نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی عمر60 سال تھی۔ حضرت صفیہ کا انتقال 50ہجری میں ہوا۔
10..امّ الموٴمنین حضرت ام حبیبہ :
حضرت ابو سفیان اموی کی بیٹی ہیں۔ جن دنوں اِن کے والد نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ لڑائی لڑرہے تھے، یہ مسلمان ہوئی تھیں، اسلام کے لیے بڑی بڑی تکلیفیں اٹھائیں۔ پھر شوہر کو لے کر حبشہ کی طرف ہجرت کی، وہاں جاکر اُن کا شوہر مرتد ہوگیا۔ ایسی سچی اور ایمان میں پکی عورت کے لیے یہ کتنی مصیبت تھی کہ اسلام کے واسطے باپ، بھائی، خاندان، قبیلہ اور اپنا ملک وطن چھوڑا تھا۔ پردیس میں خاوند کا سہارا تھا۔ اس کی بے دینی سے وہ بھی جاتا رہا۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ایسی صابرہ عورت کے ساتھ حبشہ ہی میں 7 ہجری میں نکاح کیا، یعنی اُس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم کی عمر60 سال تھی۔ 44 ہجری میں حضرت ام حبیبہ کا انتقال ہوگیا۔
11.. امّ الموٴمنین حضرت میمونہ :
ان کے دو نکاح ہوچکے تھے ۔ اُن کی ایک بہن حضرت عباس کے، ایک بہن حضرت حمزہ کے ، ایک بہن حضرت جعفر طیار کے گھر میں تھیں۔ ایک بہن حضرت خالد بن ولید کی ماں تھیں۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس کے کہنے پر 7ھجری میں حضرت میمونہ سے نکاح کرلیا۔ اُ س وقت آپ صلى الله عليه وسلم کی عمر 60 سال تھی۔ 51ہجری میں حضرت میمونہ کی وفات ہوئی۔
ان ازواج مطہرات میں سے حضرت خدیجہ اور حضرت زینب بنت خزیمہ کا انتقال آپ صلی الله علیہ وسلم کی زندگی میں ہوگیا تھا ، باقی سب کا انتقال آپ صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہوا۔
یہ سب نکاح اُس آیت سے پہلے ہوچکے تھے، جس میں ایک مسلمان کے واسطے بیویوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ (بشرطِ عدل) چار تک مقرر کی گئی ہے۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ا کی بیویوں کو دوسروں کے لیے حرام قرار دیا۔ جیسا کہ مضمون کے شروع میں گزر چکا ہے۔ نیز سورہ احزاب 52 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَآءُ مِنْ بَعْدُ وَلَا اَنْ تَبَدَلَّ بِھِنَّ مِنْ اَزْوَاج وَلَوْ اَعْجَبَکَ حُسْنُہُنَّ﴾ اس کے بعد اور عورتیں آپ کے لیے حلال نہیں ہیں۔ اور نہ یہ درست ہے کہ ان کے بدلے اور عورتوں سے نکاح کرو، اگرچہ ان کی صورت اچھی بھی لگتی ہو۔ یعنی آپ ا کو اِن ازواج مطہرات کے علاوہ (جن کی تعداد اس آیت کے نزول کے وقت 9تھی) دیگر عورتوں سے نکاح کرنے یا ان میں سے کسی کو طلاق دے کر اس کی جگہ کسی اور سے نکاح کرنے سے منع فرمادیا۔ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد نبی اکرم ا نے کوئی دوسرا نکاح بھی نہیں کیا۔
یاد رکھیں کہ حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے تمام نکاح اللہ کے حکم سے ہی کیے۔ نیز عربوں میں ایک سے زیادہ شادی کرنے کا عام رواج تھا۔ نیز صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو چالیس مرد کی طاقت دی گئی تھی۔ غور فرمائیں کہ چالیس مرد کی طاقت رکھنے کے باوجودنبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے پوری جوانی اس بیوہ عورت کے ساتھ گزرادی جو پہلے دو شادیاں کرچکی تھیں، نیز اُن کے پہلے شوہروں سے بچے بھی تھے۔ اس کے بعد تین چار سال ایک دوسری بیوہ حضرت سودہ کے ساتھ گزار دئے۔ اس طرح 55 سال کی عمر تک آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ صرف ایک ہی بیوہ عورت رہی۔
50 سے 60 سال کی عمر میں آپ صلى الله عليه وسلم نے چندنکاح کیے
جن کے سیاسی ودینی واجتماعی چند اسباب یہ ہیں:
1..خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق کی بیٹی حضرت عائشہ ، خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق کی بیٹی حضرت حفصہ سے آپ صلی الله علیہ وسلم نے نکاح کیے۔ خلیفہ ثالث حضرت عثمان اور خلیفہ رابع حضرت علی کے ساتھ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنی صاحب زادیوں کا نکاح کیا۔ غرضیکہ نکاح کے ذریعہ (آپ کی وفات کے بعد آنے والے) چاروں خلفاء کے ساتھ داماد یا سسر کا رشتہ قائم ہوگیا۔ جس سے صحابہ کے درمیان تعلق مضبوط اور مستحکم ہوا، اور امت میں اتحاد و اتفاق پیدا ہوا۔
2..جنگوں میں بعض صحابہ کرام شہید ہوئے یا کفار مکہ نے مسلمان عورتوں کو طلاق دے دی تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اُن بیوہ یا مطلقہ عورتوں پر شفقت وکرم کا معاملہ فرمایا اور ان سے نکاح کرلیا، تاکہ ان بیوہ یا مطلقہ عورتوں کوکسی حد تک دلی تسکین مل سکے۔ نیز انسانیت کو بیوہ اور مطلقہ عورتوں سے نکاح کرنے کی ترغیب دی۔
3..نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے سارے نکاح بیوہ یا مطلقہ عورتوں سے کیے۔ لیکن صرف ایک نکاح کنواری حضرت عائشہ سے کیا، انہوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی صحبت میں رہ کر مسائل سے اچھی طرح واقفیت حاصل کی۔ عربی میں محاورہ ہے : (اَلْعِلْمُ فِی الصِّغَرِ کَالنَّقشِ عَلَی الْحَجَرِ) چھوٹی عمر میں علم حاصل کرنا پتھرپر نقش کی طرح ہوتا ہے۔ تقریباً2210 احادیث حضرت عائشہ سے مروی ہیں۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے انتقال کے42 سال بعد حضرت عائشہ کا انتقال ہوا۔ یعنی نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد42 سال تک علوم نبوت کو امت محمدیہ تک پہنچاتی رہیں۔
4..یہود ونصاریٰ میں سے جو حضرات مسلمان ہوئے ، ان کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم نے شفقت ورحمت کا معاملہ فرمایا۔ چناں چہ حضرت صفیہ مسلمان ہوئیں تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کو آزاد کیا اور ان کی رضامندی پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان سے شادی کی ۔ اسی طرح حضرت ماریہ جو عیسائی تھیں، ایمان لائیں تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کو عزت دے کر انہیں اپنے ساتھ رکھا۔ آپ کے بیٹے ابراہیم حضرت ماریہ سے ہی پیدا ہوئے۔
غرض نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے مرد ہونے کی حیثیت سے صرف ایک نکاح کیا اور وہ حضرت خدیجہ سے کیا۔ اور پوری جوانی انہیں کے ساتھ گزاردی۔ البتہ باقی نکاح رسول ہونے کی حیثیت سے کیے۔ جس کی تفصیل اوپرگزر چکی ہے۔