Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1436ھ

ہ رسالہ

7 - 16
تعلیم نسواں اور بچوں کی تربیت

محترم عبدالرحمن عمری
	
الحمد اللّٰہ رب العالمین ، والصلاة والسلام علیٰ أشرف الأنبیاء وسید المرسلین، نبینا محمد، وعلیٰ آلہ وأصحابہ أجمعین، ومن تبعہم بإحسان إلی یوم الدین ․․․ اما بعد!

فأعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
﴿یَرْفَع اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ أوتُوا الْعِلْم دَرَجَاتٍ، وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُون خَبِیر﴾ (سورة المجادلة : ۱۱)
﴿یا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا قُوْا اَنْفُسَکُمْ وَاَہْلِیْکُمْ نَاراً﴾․ (سورہ التحریم: الایہ:6)
        پگھلنا علم کی خاطر مثال شمع زیبا ہے
        بغیر اس کے نہیں پہچان سکتے ہم خدا کیا ہے
علم انسانی زندگی کا وہ جوہر ہے، جس کے بغیر نہ فرد کا کردار بن سکتا ہے اور نہ ہی صحت مند سماج کی تعمیر ممکن ہے۔ علم دلوں کی زندگی ، آنکھوں کا نور اور جسموں کی طاقت ہے ، اسی علم کی بدولت دنیا اور آخرت کے بلند وبالا درجات تک رسائی ممکن ہے ، علم ظلمت کی گھٹاؤں میں روشنی کا مینار ہے ، نیز معرفت ِ الٰہی کا ذریعہ ہے۔

معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم کا مقدس سلسلہ سرزمین مکہ ہی سے شروع فرمادیا تھا اور دار ارقم پہلی درس گاہ قرار پائی، جہاں نہ صرف اخلاقی ومذہبی تعلیم دی جاتی تھی، بلکہ عملی تربیت پر اچھا خاصہ زور تھا ، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری سے پہلے تین درس گاہیں (مسجد بنی زریق ، مسجد قبا والی جگہ اور نقیع الخصمات نامی علاقہ میں) قائم ہو چکی تھیں، جن میں مختلف صحابہ کرام تعلیم دینے پر مامور تھے۔

معلم اعظم جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر شعبوں کی طرح حصول علم کے معاملہ میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی تفریق نہیں کی ہے، ارشاد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ”طلب العلم فریضة علی کل مسلم“ یعنی حصول علم ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ (مسند احمد)

یہی وجہ ہے کہ عہد نبوی میں بھی تعلیم یافتہ خواتین کا ذکر ملتا ہے ، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہما علم حدیث کے اسرار ورموز میں اس قدر مہارت رکھتی تھیں کہ ان کا کوئی مدمقابل نہ تھا ، بہت سے تابعین نے ان سے اکتساب علم کیا۔ سیدہ ام الدرداء رضی اللہ عنہا کا علوم ومعارف میں بہت بلند مقام تھا ، ان سے بھی ایک کثیر تعداد فیض یاب ہوئی ، نیز شفا بنت عبد اللہ عدویہ ، حفصہ بنت عمر ، ام کلثوم بنت عقبہ، عائشہ بنت سعد اور کریمہ بنت مقداد رضی اللہ عنہن زیورِ علم سے آراستہ وپیراستہ تھیں ۔

اسلام تعلیم نسواں کی نہ صرف اجازت دیتا ہے، بلکہ اسے ضروری بھی سمجھتا ہے ، لیکن وہ تعلیم اور اس کی غایت کیا ہونی چاہیے؟اس کا فیصلہ ضروری ہے۔ خواتین کو دین کی بنیادی تعلیم سب سے پہلے دی جائے ، تاکہ وہ اپنے واجبات وفرائض اور دین کے احکام ومسائل کو اپنی ضرورت کی حد تک سمجھ سکیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے لیے اکیلے معلم تھے ، لیکن آپ نے نو ازواج مطہرات کے ذریعہ صحابیات کو اور ان کے واسطے سے تمام مسلم خواتین کو نو معلمات دیں۔

ایک مسلمان مرد یا عورت سے اولین مطالبہ دین کا علم ہے ،تاکہ وہ اسلامی زندگی بسر کرسکے ، پھر دوسرے علوم کا درجہ آتا ہے۔ اسلام لڑکیوں کی عصری تعلیم کا مخالف نہیں ہے ، البتہ مخلوط تعلیم اور اسلامی طور وطریقہ سے عاری ہوکر تعلیم حاصل کرنے کا سخت مخالف ہے۔

اس وقت بہت ساری مسلم لڑکیاں عصری تعلیم حاصل کرکے سرکاری وغیر سرکاری اداروں میں بے پردہ کام کر رہی ہیں ، مغربی تہذیب کی اندھی تقلید نے ان کو گھر کی چہاردیواری سے نکال کر بازاروں ، دکانوں ، کلبوں ، ہوٹلوں ، محفلوں اور عشرت کدوں کی زینت بنا دیا ہے ، نیز مخلوط نظام تعلیم نے عورتوں کو غیر شریفانہ زندگی گزارنے پر مجبور کردیا ہے اور یہ چیز ان کے لیے کافی خطرناک ہے ، بقول علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ
        جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
        کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت
ایک عورت کے ساتھ اس سے بڑا ظلم کیا ہوگا کہ اسے کلرک ، ٹائپسٹ اور ائیرہوسٹس بننے پر مجبور کیا جائے ، اسی صورتِ حال کا اندازہ کرتے ہوئے شاعر اسلام علامہ اقبال نے فرمایا تھا:
        لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
        قوم نے ڈھونڈ لی فلاح کی راہ
        روش مغربی ہے حد نظر
        وضع مشرق کو جانتے ہیں گناہ
        یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین؟
        پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
گھریلو زندگی میں عورت کی الگ الگ حیثیت ہوتی ہے، جیسے بیٹی ، بیوی ، بہو وغیرہ اور ہر حیثیت سے اس کی ذمہ داریاں بھی الگ الگ ہوتی ہیں، لیکن ماں کی حیثیت سے اس کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہو جاتا ہے ، ان ذمہ داریوں کی دو قسمیں ہیں ، پہلی قسم کا تعلق بچہ کی جسمانی نشوونما سے ہے ، مثلاً بچہ کو صحیح وقت پہ صحیح خوراک دینا ، مناسب لباس کا انتظام کرنا ، اس کو گرم اور سرد سے بچانا ، بیماری سے حفاظت کرنا اور بیمار ہونے پر تیمارداری کرنا وغیرہ۔ دوسری قسم کا تعلق ذہنی نشوونما سے ہے ، مثلاً اسے بولنا سکھانا ، جب کچھ بولنے اور سمجھنے کے قابل ہوجائے تو اس سے زیادہ سے زیادہ بات کرنا اور بتدریج اچھی اچھی باتیں بتانا ، بلاوجہ ڈانٹ پھٹکار اور ہر اس چیز سے احتراز کرنا جس سے بچہ میں خوف یا احساس کمتری پیدا ہو۔ پہلی قسم سے تعلق رکھنے والی ذمہ داریوں کو ایک عام عورت بھی انجام دے سکتی ہے ، لیکن پہلی قسم سمیت دوسری قسم کی ذمہ داریوں کو صحیح ڈھنگ سے نبھانا عام عورت کے بس میں نہیں ، ان کو صرف اور صرف ایک تعلیم یافتہ عورت ہی انجام دے سکتی ہے۔ایک بچے کی پیدائش کے بعد سے لے کر بڑے ہونے تک اس کی پرورش وپرداخت اور اس کی دیکھ ریکھ اور تربیت میں سب سے اہم اور بنیادی کردار ماں کا ہوتا ہے ، پرورش کے ان مراحل میں بچہ کی ضروریات بے شمار ہوتی ہیں، جن میں سے بیشتر کو ماں پورا کرتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ دوسروں کی بہ نسبت بچہ کا میلان اپنی ماں کی طرف زیادہ ہوتا ہے۔ پرورش کے اس دورانیہ میں بچہ اپنی ماں سے بہت کچھ سیکھتا ہے اور یہ سیکھی ہوئی چیزیں اس کی طبیعت کا حصہ بن جاتی ہیں ، ایسے میں ماں اگر تعلیم یافتہ ہے تو وہ اپنے بچہ کی پرورش بہترین خطوط پر کرتی ہے ، تاکہ اس کا لاڈلا جسمانی اور ذہنی دونوں اعتبار سے صحت مند اور توانا رہے ، اس کے برعکس اگر ماں تعلیم یافتہ نہیں ہے تو بچے کی پرورش صحیح ڈھنگ سے نہیں ہوپاتی ، لہٰذا آج وقت کا تقاضا ہے کہ عورتیں بھی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں اور ایک بیٹی ، ایک بیوی اور خصوصاً ایک ماں کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں بہ حسن وخوبی نبھا سکیں اور بچوں کی تربیت بہتر انداز سے کرسکیں۔ یاد رکھیں کہ ماں کی گود کو بچہ کی پہلی درس گاہ سے تعبیر کیا گیا ہے ، بچہ یہیں سے اپنی زندگی کی ابتدائی تعلیم حاصل کرتا ہے اور یہی ابتدائی تعلیم بچہ کی آنے والی زندگی کو سنوارنے اور بگاڑنے میں کلیدی رول ادا کرتی ہے۔

مسلم خواتین کے لیے ضروری ہے کہ وہ دینی تعلیم حاصل کریں ، تاکہ وہ اپنے دین کے تئیں حساس ہوں اور بلند کرداری کے ساتھ ایسی زندگی گزاریں جس میں اطاعت وعبدیت کی شان پائی جاتی ہو ، اسلام کی عظمت سے دل معمور ہوں ، نیز کھانے پینے میں ، اٹھنے بیٹھنے میں ، رہن سہن میں ،پہننے اوڑھنے میں اور رفتار وگفتار میں اسلامی شعار کا مکمل پاس ولحاظ ہو۔ بچوں کی اسلامی تربیت اسی وقت ممکن ہے جب ماں خود دین دار ،صالحہ اور پاک طینت ہو۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ہر کام یاب شخص کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے۔ شیخ عبد القادر جیلانی رحمة اللہ علیہ کی سچائی کی وجہ سے ڈاکوؤں کا گروہ اپنے جر م سے تائب ہوجاتا ہے ، اس کے پیچھے ایک ماں کا ہی ہاتھ تھا کہ اس نے اپنے بیٹے کو سچائی کی تعلیم دی تھی اور جھوٹ بولنے سے منع فرمایا تھا۔

مسلم خواتین اولاد کی تربیت میں اس بات کا مکمل اہتمام کریں کہ انہیں توحید کی تعلیم سب سے پہلے دیں ، ان کا عقیدہٴ توحید زندگی کے کسی بھی موڑ پر ڈگمگانے نہ پائے ، نیز اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور فرماں برداری کا درس اس انداز میں دیں کہ ان کے دل ودماغ میں آپ کی سچی محبت راسخ ہوجائے ، ان کو دیو مالائی کہانیوں کے بجائے انبیائے کرام ، صحابہ ، تابعین ، تبع تابعین اور سلف صالحین کے سبق آموز واقعات سنائیں۔ علوم اسلامیہ کی اہمیت وعظمت دلوں میں اتاری جائے ، فکر ومزاج ، تصور وخیالات ، معاملات وعادات کو اسلامی وایمانی رنگ میں ڈھالا جائے، ساتھ ہی ساتھ انہیں اخلاص وللہیت ، تقویٰ وپرہیزگاری ، اخلاق وکردار ، شرم وحیا اور عفت وعصمت کی تعلیم دی جائے ، ان کو اخوت وبھائی چارگی ، ایثار وقربانی ، عفو ودرگذر ، جرأت وبہادری اور حقوق کی پاسبانی کی اہمیت وفضیلت سے روشناس کرایا جائے اور معاشرتی آداب سے بھی ان کو آگاہ کیا جائے ، تاکہ جب یہ جوان ہوں تو ان کے پاس اسلام کی اتنی روشنی ضرور ہو جس سے وہ صحیح و غلط ، سچ وجھوٹ ، حلال وحرام اور حق وباطل کو آسانی سے پہچان لیں اور زندگی کی راہ پر کام یابی کے ساتھ محو سفر رہیں۔

خلاصہٴ تحریر یہ ہے کہ عورتیں حدود وقیود میں رہتے ہوئے دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم سے بھی لیس ہوں ، نیز امور خانہ داری ، کشیدہ کاری اور سلائی وغیرہ سے بھی واقفیت ہو۔ ایک تعلیم یافتہ اور ہنرمند عورت ہر جگہ باعزت طور پر زندگی گزار سکتی ہے ، اپنے بچوں کے مستقبل کو سنوار سکتی ہے اور اگر معاشی مسائل درپیش ہوں تو اس پر کافی حد تک قابو پاسکتی ہے۔ اس لیے ہماری تمام مائیں بہنیں علم دین ضرور حاصل کریں ، امہات المومنین ، صحابیات اور دیگر عظیم مسلم خواتین کے کردار کو اپنے سامنے رکھیں اور ان کی زندگیوں کو اپنا آئیڈیل بنائیں ، کیوں کہ اگر آپ دینی تعلیم سے آراستہ ہوں گی تو پورے گھر کو اسلام کے سانچے میں ڈھال سکتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہم کو اور ہماری ماوٴں بہنوں کو علم کی عظمت اور اہمیت کو سمجھنے والا ، اس کو حاصل کرنے والا اور دینی علوم کی روشنی میں اولاد کی اسلامی تربیت کرنے والا بنائے ، آمین۔
        اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
        میں نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا

Flag Counter