Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1436ھ

ہ رسالہ

6 - 16
آزمائش اور صبر

استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ
	
ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)

﴿ وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْْء ٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ،الَّذِیْنَ إِذَا أَصَابَتْہُم مُّصِیْبَةٌ قَالُواْ إِنَّا لِلّہِ وَإِنَّا إِلَیْْہِ رَاجِعونَ، أُولَئِکَ عَلَیْْہِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّہِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُون﴾․(سورہ بقرہ:157-155)

اور البتہ ہم آزمائیں گے تم کو تھوڑے سے ڈر سے او ربھوک سے اور نقصان سے مالوں کے اور جانوں کے اور میووں کے اور خوش خبری دے ان صبر کرنے والوں کو کہ جب پہنچے ان کو کوئی مصیبت تو کہیں ہم تو الله ہی کا مال ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کرجانے والے ہیں ایسے ہی لوگوں پر عنایتیں ہیں اپنے رب کی اور مہربانی اور وہی ہیں سیدھی راہ پر

ربطِ آیات:گزشتہ آیات میں صبر کے بڑے بڑے مواقع یعنی جہاد وقتال کا تذکرہ تھا اور اب صبر کے چھوٹے اور عمومی مواقع کا تذکرہ کرتے ہیں کہ الله تعالیٰ کے ہاں جس طرح اعلیٰ درجہ کے صبر کی قدر ہے، اسی طرح ادنی مواقع میں بھی صبر کی قدر کی جاتی ہے۔

تفسیر : ہر مؤمن کو تکالیف دے کر آزمایا جائے گا
اس آیت میں صیغہ تاکید کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ ہم تمہیں ضروربالضرور آزمائیں گے۔ لہٰذا ہر مسلمان، چاہے نیک اور صالح ہو یا بد اورفاجر، اس آزمائش سے نہیں بچ سکتا۔ اس آزمائش کا مقصد کسی کی نیکی اوربدی جاننا نہیں، کیوں کہ وہ تو الله تعالیٰ کو معلوم ہے، بلکہ اس کا مقصد اہل ایمان میں شکر گزار بندوں کا مرتبہ اورمقام لوگوں میں ظاہر کرنا اور ناشکر گزاروں کی حیرانگی ودرماندگی کو عیاں کرنا ہوتا ہے ،چناں چہ یہ آزمائش صبر کرنے والوں کے لیے رفع درجات اور قرب الہی کا ذریعہ بنتی ہے اور بے صبروں کے لیے تکلیف اور الله تعالیٰ سے مزید دوری کا ذریعہ بنتی ہے، جو تکلیف الله کے قریب کر دے وہ رحمت ہے، جو الله سے دور کردے وہ زحمت ہے ۔آیت کریمہ میں جن خاص چیزوں کو بیان کرکے بتایا گیا کہ ان کے ذریعے آزمائش ہو گی ان کے ساتھ ”بشییء“کا لفظ مذکورہے ، یعنی ان چیزوں میں سے بھی تھوڑے سے حصے کی آزمائش ہو گی۔ (تفسیر بیضاوی، البقرہ: ذیل آیت:155) ان میں پہلی چیز”خوف“ ہے ۔ خوف کا لفظ جامع ہے، جان، مال، عزت ، اولاد، ہر چیز کے متعلق اندیشہ پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔”الجوع“ بھوک کا امتحان ،ضرورت کے باوجود حرام مال سے بچنے، اسباب رزق میں حرام وسائل سے بچنے، قحط اور تنگی کی ساری صورتیں اس میں آگئی۔

﴿وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ…﴾ مالی نقصان خواہ تکوینی ہوں، جیسے چوری ہو جانا، آگ لگ جانا وغیرہ یا غیر شرعی معاملات سے دست بردار ہونے کی صورت میں ہو۔” وَالأنفُسِ“ جانوں کی کمی ،جوقریبی اعزہ کی موت ، بیماری یا جہاد میں شہادت کی شکل میں ظاہر ہو۔”وَالثَّمَرَات“ پھلوں میں کمی، اس سے اولاد کی کمی بھی مراد ہو سکتی ہے، نیز پھلوں، زراعت وتجارت میں کمی کی تمام صورتیں اس میں آگئیں۔

آیت میں چھوٹی اور بڑی پریشانیوں پر صبر کرنے کا صلہ یکساں جو بتلایا گیا وہ محض صبر کی جزا ہے، کیوں کہ نفس صبر میں سب کے سب مشترک ہیں۔لیکن چوں کہ ہر صابر کے صبر کی مقدار، کیفیت، شان اور خصوصیت جدا جدا ہے، لہٰذا ان خصوصیات کے بدلے میں جو ان سے وعدہ کیا گیا ہے ان پر وہ عنایتیں بھی جدا جدا ہوں گی۔

مصیبت کے وقت کلمہ استر جاع کی فضیلت
چھوٹی، بڑی، جانی،مالی، پریشانی کے موقع پر کلمہ استر جاع ”إِنَّا لِلّہِ وَإِنَّا إِلَیْْہِ رَاجِعونَ“ کے پڑھنے کی فضیلت اور ثواب کا تذکرہ بہ کثرت احادیث میں آیا ہے ، حضرت ام سلمہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں، میں نے حضور علیہ الصلاة والسلام سے سنا: جب کسی بندے کو تکلیف پہنچے اور وہ یہ کہے ”إِنَّا لِلّہِ وَإِنَّا إِلَیْْہِ رَاجِعونَ، اللَّھمَّ اجِرْنِیْ فِی مصیَبِتیْ وَاخْلف لِیْ خَیْرْاً مِنّْھا“ تو الله تعالیٰ اسے مصیبت کا اجر اور اس کا نعم البدل عطا فرماتے ہیں۔ (صحیح مسلم، رقم الحدیث:918) حضرت سعید بن جبیر فرماتے تھے، اس امت کو مصیبت کے موقع پر جو کلمہ استر جاع دیا گیا ہے، اس سے پہلے کسی امت کو یہ نہیں ملا ۔( زاد المسیر، البقرة ذیل آیت:156)

إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَآئِرِ اللّہِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْْہِ أَن یَطَّوَّفَ بِہِمَا وَمَن تَطَوَّعَ خَیْْراً فَإِنَّ اللّہَ شَاکِرٌ عَلِیْمٌ ، إِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنَاتِ وَالْہُدَی مِن بَعْدِ مَا بَیَّنَّاہُ لِلنَّاسِ فِیْ الْکِتَابِ أُولَئِکَ یَلعَنُہُمُ اللّہُ وَیَلْعَنُہُمُ اللَّاعِنُونَ، إِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُواْ وَأَصْلَحُواْ وَبَیَّنُواْ فَأُوْلَئِکَ أَتُوبُ عَلَیْْہِمْ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ ، إِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوا وَمَاتُوا وَہُمْ کُفَّارٌ أُولَئِکَ عَلَیْْہِمْ لَعْنَةُ اللّہِ وَالْمَلآئِکَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ، خَالِدِیْنَ فِیْہَا لاَ یُخَفَّفُ عَنْہُمُ الْعَذَابُ وَلاَ ہُمْ یُنظَرُونَ﴾․( سورہ بقرہ:162-158)
بے شک صفا او رمروہ نشانیوں میں سے ہیں الله کی، سو جو کوئی حج کرے بیت الله کا یا عمرہ ،تو کچھ گناہ نہیں اس کو کہ طواف کرے ان دونوں میں، او رجو کوئی اپنی خوشی سے کرے کچھ نیکی، تو الله قدر داں ہے، سب کچھ جاننے والابے شک جو لوگ چھپاتے ہیں جو کچھ ہم نے اتارے صاف حکم اور ہدایت کی باتیں بعد اس کے کہ ہم ان کو کھول چکے لوگوں کے واسطے کتاب میں، ان پر لعنت کرتا ہے الله اور لعنت کرتے ہیں ان پر لعنت کرنے والےمگر جنہوں نے توبہ کی اور درست کیا اپنے کام کو اور بیان کر دیا حق بات کو تو ان کو معاف کرتا ہوں اور میں ہوں بڑا معاف کرنے والا، نہایت مہربانبے شک جو لوگ کافر ہوئے اور مر گئے کافر ہی، انہی پر لعنت الله کی اور فرشتوں کی اور لوگوں کی سب کیہمیشہ رہیں گے اسی لعنت میں، نہ ہلکا ہو گا ان پر سے عذاب اور نہ ان کو مہلت ملے گی

ربطِ آیات:حضرت ابراہیم عليه السلام کی دعا میں یہ دعا بھی شامل تھی کہ” اے الله! ہمیں ہمارے مناسک سکھا“ اور افعال حج بھی منجملہ انہی مناسک میں سے ہیں ۔ بس درمیان میں صبر وآزمائش کے تذکرے کے بعداسی مناسبت سے صفا ومروہ کے درمیان سعی کا تذکرہ کرتے ہیں۔

شان نزول
روح المعانی میں ہے کہ حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما سے مروی ہے، زمانہٴ جاہلیت میں صفا اورمروہ پر اساف اور نائلہ نامی دو بت نصب تھے، پہلے لوگوں کا خیال تھا کہ ان دونوں نے حرم شریف میں زنا کیا تھا، جس کی سزا میں الله تعالیٰ نے انہیں بطور عبرت پتھر بنا دیا ، پھر جب بت پرستی شروع ہوئی تو لوگ اس بات کو بھول گئے اور سعی کے دوران ان بتوں کو پوجنے لگے۔اب مسلمانوں کو اس میں شدید تردد لاحق ہوا کہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا صحیح ہے یا غلط ؟ انصار مدینہ تو پہلے ہی اس سعی کو ناپسند کرتے تھے، پس مذکورہ آیت نازل فرماکر اس بارے میں راہ نمائی کر دی گئی۔ (روح المعانی، سورة البقرة، تحت الایة:158)

تفسیر: صفا ومروہ کی حقیقت
صفا کے لغوی معنی صاف پتھر اور سفید چٹان کے ہیں ۔( مفردات الفاظ القرآن للراغب،ص:317) اور مروہ بھی سفید پتھر کو کہتے ہیں۔ (روح المعانی: البقرة ذیل آیت:158) کسی زمانے میں تو مسجد الحرام کے پاس یہ دونوں پہاڑیاں موجود تھیں، لیکن اب تعمیرات میں وہ برابر ہوگئی ہیں او ران کی نشانیاں ہی باقی رہ گئی ہیں، صفا او رمروہ دونوں کے درمیان تقریباً سات فرلانگ کا فاصلہ ہے، جب حضرت ابراہیم عليه السلام، حضرت ہاجرہ او رحضرت اسماعیل عليه السلام کو الله تعالیٰ کے حکم سے مکہ کی بے آب وگیاہ وادی میں چھوڑ کر چلے گئے تو حضرت ہاجرہ، حضرت اسماعیل علیہما السلام کی پیاس بجھانے کے لیے پانی کی تلاش میں اور دور افتادہ مقامات سے گزرتے کسی قافلے کو دیکھنے کے لیے انتہائی بے تابی کے ساتھ کبھی صفا پر چڑھتی، کبھی مروہ پر، الله تعالیٰ کو ممتا کی بے قرار ی پر رحم آگیا اور شیر خوار بچے حضرت اسماعیل عليه السلام کی ایڑیاں رگڑنے کی جگہ سے آب زم زم جاری کر دیا، چوں کہ حضرت ابراہیم عليه السلام انہیں الله کے حکم سے چھوڑ گئے تھے اور حضرت ہاجرہ نے الله کے حکم کو سر آنکھوں پے رکھتے ہوئے اس رہائش کو قبول کر لیا تھا، جہاں انسانی زندگی کی بقا کاکوئی سامان بظاہر میسر نہیں تھا، لیکن اطاعت الہٰی کے جذبے نے کوئی گلہ وشکوہ لبوں پر نہ آنے دیا، اس لیے یہ پہاڑیاں جو الله تعالیٰ کے فرماں بردار بندوں سے تاریخی تعلق رکھتی ہیں ۔ انہیں ”شعائر الله“ کا خطاب دیا گیا” شعائر، شعیرہ “کی جمع ہے، علامت کو کہتے ہیں، یعنی الله کے دین کی علامتیں۔ طاعت الہی کے اسی جذبے کو تازہ رکھنے کے لیے الله تعالیٰ نے ملّت ابراہیمی میں صفا ومروہ پر دوڑنے کو عبادت بنا دیا۔

فَمَنْ حَجَّ الْبَیْْتَ أَوِ اعْتَمَر:حج وعمرے میں سعی کا حکم
حج او رعمرے میں صفا ومروہ میں سعی کا حکم دیا جارہا ہے، حج لغت میں ارادے کو کہتے ہیں او راصطلاح شریعت میں مخصوص ایام میں، مخصوص مقامات پر، مخصوص عبادت کرنے کا نام حج ہے ۔ حج کے تین فرائض ہیں1.. حدود حرم میں داخل ہونے سے پہلے بغیرسلا لباس ”احرام“ پہننا۔ 2.. وقوف عرفہ یعنی 9 ذوالحجہ کو میدان عرفات میں حاضر ہونا۔ 3..طواف زیارت۔ اور واجبات چار ہیں 1.. ۹/۱۰ ذوالحجہ کی درمیانی شب مزدلفہ میں قیام،2.. صفا ومروہ کے درمیان سعی،3.. مزدلفہ کے قیام کے بعد منی میں کنکریاں پھینکنا، جسے رمی جمرات کہا جاتا ہے 4..طواف صدر۔ مفرد کے لیے قربانی کرنا، سر کے بال اتروانا وغیرہ۔ دوسرے سنن ومستحبات بھی ہیں جو فقہی کتابوں میں مذکور ہیں۔

عمرہ کو حج اصغر کہتے ہیں، اس میں مخصوص دنوں کی قید نہیں ہے۔ اس میں وقوف عرفہ ہے اور نہ ہی قیام مزدلفہ، بس احرام باندھ کر طواف کعبہ اور سعی کرکے قصر کر ادینے سے عمرہ ادا ہو جاتا ہے۔

احکام سعی
حج اور طواف میں سعی کا کیا حکم ہے؟ اس میں ائمہ کا اختلاف ہے۔امام احمد رحمہ الله کے نزدیک سعی مستحب ہے ۔ (روح المعانی، سورة البقرة، تحت الاٰیة:158)امام شافعی او رامام مالک کے نردیک رکن ہے ۔ (فتح القدیر: کتاب الحج، باب الاحرام،2/471، رشیدیہ)جب کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله کے نزدیک سعی واجب ہے ۔ (ایضاً) کیوں کہ حضرت عبدالله بن عباس رضي الله عنه کے حوالے سے طبرانی کی روایت میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سعی کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: بے شک الله تعالیٰ نے تم پر سعی فرض کی ہے، پس تم سعی کرو ۔ (فتح القدیر: کتاب الحج، باب الاحرام، 2/471، رشیدیہ) اور چوں کہ حدیث کی سند ظنی ہے،لہٰذا اس سے وجوب مستفاد ہوتا ہے۔ ( ایضاً)

﴿اِنّ الَّذِیْنِ یَکْتُمْونَ﴾
ربطِ آیات: بحث قبلہ کے ضمن میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی نبوت سے متعلق یہودیوں کے کتمان حق کا تذکرہ تھا، اب اسی مضمون کی تکمیل فرماتے ہیں اور اس پر اصرار کرنے پر وعید اور توبہ کرنے والوں کی معافی کا وعدہ فرماتے ہیں۔

تفسیر: کتمان حق پر وعید
جو لوگ توراة وانجیل میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی نبوت کی حقانیت سے متعلق مضامین اور احکام شریعت کو لوگوں سے چھپاتے ہیں ، انہیں اس آیت میں الله تعالیٰ اور مخلوق کی لعنت کا مستحق ٹھہرایا گیا ہے۔

کتمانِ حق سے کائنات کی ہر چیز اذیت محسوس کرتی ہے اور اس کی نحوست سے متاثر ہوتی ہے، اس لیے تمام چیزیں اس پر لعنت کرتی ہیں۔

آیت کا ظاہری اشارہ اگرچہ اہل کتاب کی طرف ہے، مگر اس وعید میں ہر وہ شخص داخل ہے جو الله کے نازل کردہ احکام کو چھپاتا ہے۔ ( روح المعانی، البقرة، تحت آیة،159)”البَیِّنٰت“ سے رسالت محمدی کے دلائل اور شواہدمراد ہیں اور ”الھدیٰ“ سے احکام شریعت مراد ہیں ۔اسی آیت سے فقہانے استدلال کیا ہے کہ عالم کے لیے حق اور علم کا بیان کرنا واجب ہے۔ ( احکام القرآن لابن العربی، البقرہ، ذیل آیت:199)

حدیث شریف میں ہے جس سے کوئی ایسی بات پوچھی گئی جس کا اسے علم تھا او راس نے اسے چھپایا تو قیامت کے دن آگ کی لگام اس کے منھ میں ڈالی جائے گی ۔ (سنن ترمذی، رقم الحدیث:651)

لعنت کا حکم
لعنت الله تعالیٰ کی رحمت سے دوری اور ابدی شقاوت کا نام ہے۔ اس لیے کسی گناہ گار مسلمان کو متعین کرکے لعنت کرنا جائز نہیں ہے، البتہ اس کے فعل بد کا حوالہ دے کر لعنت کرنا درست ہے۔ مثلاً جھوٹے پر الله کی لعنت ہو، چور پر لعنت ہو۔

کافروں پر علی الاطلاق لعنت کرنا بالاتفاق جائز ہے۔ اسی طرح متعین کافر پر لعنت اس وقت درست ہے جب وہ کفر کی حالت میں مر چکا ہو۔ کفر کی حالت میں مرنے سے اس کی ازلی بدبختی کا یقین ہو گیا ہے، اس لیے لعنت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ البتہ زندہ کافر کو متعین کرکے لعنت کرنے میں دوآرا ہیں۔ ابن العربی رحمہ الله فرماتے ہیں میرے نزدیک صحیح یہ ہے کہ متعین کافر کی ظاہری حالت دیکھ کر اس پر لعنت کرنا جائز ہے، جس طرح اس کی ظاہری حالت کود یکھ کر اس کے ساتھ قتل وقتال جائز ہے۔ ( احکام القرآن لابن العربی، ذیل آیت:161)یہی رائے علامہ جصاص رحمہ الله کی ہے۔ (احکام القرآن للجصاص، البقرہ، ذیل آیت:161)

اہل علم کی ایک جماعت متعین زندہ کافر پر لعنت کو درست نہیں کہتی۔ کیوں کہ بغیر کفر پر مرے اس کی ازلی بدبختی کا علم نہیں ہو سکتا، ابن کثیر رحمہ الله کا میلان بھی اسی طرف ہے۔ (تفسیر ابن کثیر، البقرہ، ذیل آیت:161)

علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ الله اسی مذہب کو محتاط سمجھتے ہیں۔ ( احکام القرآن، ظفر احمد عثمانی، البقرہ، ذیل آیت:۱۶۱)آگے ان لوگوں کا تذکرہ ہے جو اس لعنت سے مستثنیٰ ہیں ۔ یعنی جو لوگ الله کے نازل کردہ احکام کو چھپانے سے توبہ کر لیں او راپنی اصلاح کر لیں اور الله کے احکام کوبیان کر دیں ، بیان کرنے کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ مسلمان ہو کر عملی طور پر احکام خدا وندی کی تبلیغ کریں، پس ایسے لوگوں کی توبہ الله کی طرف سے قبول کی جاتی ہے، کیوں کہ الله تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا اورمہربان ہے۔

مگر وہ لوگ جو کتمان حق کی حالت میں کافر ہی مرے، ان پر الله اور ملائکہ او رتمام لوگوں کی ایسی لعنت ہو گی، جس میں وہ ہمیشہ گرفتار رہیں گے، او راس لعنت کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ہمیشہ سخت عذاب میں مبتلا رہیں گے، کبھی بھی عذاب میں تخفیف نہ ہوگی اور نہ ہی کبھی عذاب سے مہلت دی جائے گی۔

﴿وَإِلَہُکُمْ إِلَہٌ وَاحِدٌ لاَّ إِلَہَ إِلاَّ ہُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِیْمُ، إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْْلِ وَالنَّہَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِیْ الْبَحْرِ بِمَا یَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللّہُ مِنَ السَّمَاء ِ مِن مَّاء فَأَحْیَا بِہِ الأرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَ بَثَّ فِیْہَا مِن کُلِّ دَآبَّةٍ وَتَصْرِیْفِ الرِّیَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخِّرِ بَیْْنَ السَّمَاء وَالأَرْضِ لآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَعْقِلُون﴾․(سورہ بقرہ:164-163)

او رمعبود تم سب کا ایک ہی معبود ہے، کوئی معبود نہیں اس کے سوا، بڑا مہربان ہے، نہایت رحم والابے شک آسمان اور زمین کے پیدا کرنے میں اور رات اور دن کے بدلتے رہنے میں اورکشتیوں میں، جو کہ لے کر چلتی ہیں دریا میں لوگوں کے کام کی چیزیں او رپانی میں جس کو کہ اتارا الله نے آسمان سے، پھر جِلا یا اس سے زمین کو اس کے مر گئے پیچھے اور پھیلائے اس میں سب قسم کے جانور اور ہواؤں کے بدلنے میں اور بادل میں، جو کہ تابع دار ہے اس کے حکم کا درمیان آسمان وزمین کے، بے شک ان سب چیزوں میں نشانیاں ہیں عقل مندوں کے لیے

ربطِ آیت:گزشتہ آیات میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی رسالت سے متعلق آیات چھپانے پر وعید تھی، اگرچہ الفاظ عام تھے، مگر اشارہ خاص اہل کتاب ہی کی طرف تھا ( جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں )۔

چوں کہ عقیدہ رسالت اور عقیدہ توحید نجات اخرویہ کے لیے آپس میں لازم وملزوم ہیں ، ایک کے بغیر دوسرا ناکافی ونامکمل ہے، لہٰذا اب مضمون، رسالت سے توحید کی طرف منتقل ہوتا ہے۔

تفسیر:توحید کے عقلی دلائل
وَإِلَہُکُمْ إِلَہ الله تعالیٰ اپنی معرفت کے لیے دقیق اور فلسفیانہ دلائل کے بجائے انسانی نظروں میں پھیلی کائنات کے مشاہدات کا حوالہ دیتا ہے، جو انسانی فطرت کے قریب اور ہر صاحب عقل انسان کو سوچنے سمجھنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق ، شمسی نظام کے بے شمار چاند، ستارے اور سورج، بادل، ہوائیں،سمندر، دریا، پہاڑ، صحرا، سر سبز وادیاں، وسیع وعمیق پر مہیب کھائیاں، جہانِ نیرنگ کے سارے مناظر اسی آسمان وزمین کی تخلیق سے وابستہ ہیں۔ رات اور دن کا مسلسل آنا جانا، سمندر کی تیز موجوں میں تجارتی سامان سے لدی کشتیوں کا رواں دواں رہنا، بادلوں سے پانی کا برسنا اور زمین کا سیراب ہونا، انسانی خدمت کے لیے ہر طرح کے جانور پیدا کرنا، ہواؤں کا چلانا، بادلوں کو فضاؤں میں معلق رکھنا، سب توحید اور وجود بار ی تعالیٰ پر واضح عقلی دلائل ہیں، کوئی ذات ہے جواس کائنات کے نظام کو سنبھالے ہوئے ہے۔

الله تعالیٰ کے وجود کی عقلی دلیل
عالم میں جتنے بھی موجودات ہیں، سب کے سب ممکن الوجود ہیں۔ کسی وجود کا ممکن ہونا یا تو مشاہدہ ہی سے معلوم ہو جاتا ہے، یا اس طرح کہ بعض اشیاء بعض کی محتاج ہوتی ہیں اور یا پھر اسی طرح کہ بعض اشیا اجزا سے مرکب ہوتی ہیں اور یہ سب امکان ہی کی علامات ہیں۔

پس ممکن الوجو د( کائنات کی ہر چیز) کا وجود اور عدم برابر ہوتا ہے، لہٰذا اس کے وجود کا کوئی نہ کوئی مُرجّح کاہونا لازم ہے ،پھر اس مُرجّح کے بارے میں بھی یہی کلام ہو گا کہ وہ بھی ممکن ہے، لہٰذا خود اس کا بھی کوئی مُرجّح کا ہونا لازم ہے، اس طرح ایک لامتناہی سلسلہ چل نکلے گا، حالاں کہ یہ محال ہے ۔ لہٰذا اس تسلسل ( سلسلہٴ غیرمتناہیہ) کو ختم کرنے کے لیے لازم ہے کہ ایک ایسا مرجح ہو جو بذاتہ واجب الوجود ہو، اس کے مرجح کا سوال ہی پیدا نہ ہو اور وہ واجب الوجود یعنی الله تعالیٰ کی ذات ہے۔

اس کا ثبوت اس طرح ہے کہ اگر نعوذبالله متعدد واجب الوجود ہوں،مثلاً: دو فرض کیے جائیں تو سوال ہو گا کہ وہ دونوں قادر ہوں گے یا عاجز؟ ان دونوں میں سے کسی کا عاجز ہونا ناممکن ہے، کیوں کہ عجز وجوب وجود کے منافی ہے، لہٰذا لامحالہ دونوں کا قادر ہونا ضروری ہے۔

پس اس صورت میں اگر ایک کسی امر کا ایجاد کرنا چاہے تو دوسرا اس کے خلاف کا ارادہ کر سکتا ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو دوسرے کا عجز لازم آئے گا، جومنافی وجوب وجود ہے۔ اگر کر سکتا ہے تو کیا اس سے مراد حاصل ہوجائے گی یا نہیں ؟ اگر دوسرے کی مراد حاصل نہ ہو تو ایک قادر مطلق کے ارادہ کے باوجود مراد کا حاصل نہ ہونا محال ہے ، لہٰذا یہ باطل ٹھہرا۔

اور اگر دوسرے کی مراد بھی حاصل ہو جائے تو دونوں واجب الوجود کے ارادہ سے دونوں کی مرادیں پوری ہونا لازم آئے گا، جس کا مطلب یہ ہو گا کہ ایک ہی شے کا ہونا اور نہ ہونا دونوں بیک وقت حاصل ہے، یعنی اجتماع ضدّین لازم آئے گا، جو کہ بداہةً باطل ہے۔

جب ایک سے زائد واجب الوجود فرض کیے جانے کی صورت میں محال ہی لازم آتا ہے تو ایک سے زائد کا وجود بھی محال ٹھہرا ۔پس وحدت الہٰی ہی واجب ہے۔یہ اختصار کے ساتھ وجوب ووحدت الہٰی سے متعلق دلیل کا تذکرہ کر دیا گیا ہے۔

اصول اسلام عقلی ہیں
مذکورہ آیت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اصول اسلام یعنی توحید ورسالت عقلی ہیں ،یعنی انہیں دلائل سے ثابت کیا جانا ممکن ہے، لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ جملہ فروعات اسلام بھی عقلی ہیں کہ ہر ہر مسئلہ عقل سے ثابت ہوتا ہو ، پس معلوم ہوا کہ آج کل ہر ہر سنت اور دینی عمل کی عقلی وجوہات تلاش کرنے کا جو سلسلہ چل نکلا ہے صحیح نہیں۔ ( بیان القرآن: ذیل تحت آیة رقم:164) (جاری)

Flag Counter