مسلمانوں کی حالت زار
متعلم محمد عادل بن علی خان
اسلام ایک کامل ومکمل دین او رایک ضابطہٴ حیات ہے۔ اسلام نے زندگی کے ہر ہر شعبے کے لیے مختلف احکام وضع کر رکھے ہیں۔ آج بہت سے لوگ اسلام کا دعویٰ تو بڑے شوق سے کرتے ہیں، لیکن اس کے احکام پر عمل پیرا ہونے کے بجائے دنیا کے رواج یا غیر اسلامی طور طریق کو اختیار کرتے ہیں۔ اپنی جوانی اور بڑھاپا سب اسی میں ختم کر دیتے ہیں، گناہ گار ہو کر جیتے ہیں او راسی حالت میں مر بھی جاتے ہیں۔ داڑھی منڈے چہرے لے کر قبروں میں چلے جاتے ہیں، حتیٰ کہ حج وعمرہ کے لیے بھی یہ غیر مسنون چہرہ لے کر جاتے ہیں اور پھر اسی طرح واپس ہو آتے ہیں۔
ایک طرف دعویٰ تو اسلام کا ہے، لیکن شکل وصورت، عادات واطوار اور ظاہر وباطن دشمنانِ اسلام کے مماثل ہوتے ہیں۔ اس کو ہنر، کمال اور عزّت بھی سمجھتے ہیں۔ یہ کتنی شرم کی بات ہے کہ ایک طرف حضور صلی الله علیہ وسلم کا امّتی ہونے کا دعویٰ ہے اور دوسری طرف الله اور رسول کے دشمنوں کی صورت اپنانے کا شیوہ۔ دراصل انسان کا اپنا نفس اور شیطان دونوں دینی صلاح وفلاح کے کاموں سے روکتے ہیں اور مؤمن بندوں کو آخرت کی کام یابی سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔ چناں چہ مسلمانوں نے تقریباً زندگی کے تمام تر شعبوں میں یہی زندگی اختیار کر رکھی ہے۔
اوّل، نماز ہی کو دیکھ لیں۔ نماز کا اہتمام او رپابندی، نیز صحیح ارکان ادا کرنے والے بہت کم ہیں۔ پھر جو پڑھنے والے بھی ہیں ان میں بہت سوں کو نماز صحیح یاد نہیں ہوتی، حال آں کہ نماز ایک اہم فریضہ ہے اور قیامت کے دن سب سے پہلے حساب نماز کے متعلق ہی ہو گا۔ اگر نماز صحیح نکلی تو ثواب ملے گا، اگر صحیح نہ ہوئی تو دوسرے اعمال بھی فاسد اور خراب اور بے فائدہ ثابت ہوں گے۔ اپنا ہی جائزہ لے لیں۔ اگر سالن میں نمک کم یا زیادہ ہو جائے تو بیوی کی جان تک لینے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ اگر نوکر سے ذرا سی لغزش ہو جائے تو بری طرح سے ڈانٹ دیتے ہیں اور تنخواہ کاٹ لیتے ہیں، لیکن احکم الحاکمین جلّ جلالہ کی بارگاہِ عظیم میں کیسی نماز لے کر حاضر ہوں گے، اس کی ہمیں کوئی فکر نہیں۔
اگر زکوٰة کا جائزہ لیا جائے تو اس کا بھی یہی حال ہے۔ اوّل تو زکوٰة کی ادائیگی کا دھیان ہی نہیں۔ اگر کسی کو کچھ خیال بھی ہے تو حساب سے نہیں دی جاتی، بلکہ چند روپے دو چار فقیروں کو دے کر سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے مال کا فریضہ ادا کر دیا۔
اگر بات تجارت کی کریں تو اس میں بھی جو طریقے کافروں اور دشمنانِ اسلام نے وضع کر رکھے ہیں انھی طریقوں کو اپنا کر آج کا مسلمان پیسہ کما رہا ہے اور قرآن وحدیث کی تعلیمات او راحکام کو پس پشت ڈالتا جارہا ہے۔ بس اس کی یہی ایک تمنّا ہے کہ وہ جو چاہے اور جیسے چاہے خریدے، حلال وحرام کی بالکل تمیز ہی نہ ہو، بس کسی طرح مال ہاتھ لگ جائے۔ یہی وجہ ہے کہ آج مسلمانوں میں بھی سودی کاروبار کا رواج بڑھتا چلا گیا ہے۔ مسلم معاشروں میں خلافِ شرع معیشت اپنی جڑیں مضبوط کرچکی ہے۔ یہ کیسی ایمان داری اور دین داری ہے؟
اگر تعلیمی حوالے سے مسلمانوں کے رحجانات کا جائزہ لیں تو اس میں بھی مسلمان سازشوں کا شکار ہوتے دکھاتی دیتے ہیں۔ اکثر مسلمانوں کا رحجان یہ ہوتا ہے کہ ان کی اولاد انگریزی زبان بولے اور عصری فنون میں مہارت حاصل کرے اور پھر انجینئر، ڈاکٹر، سائنس داں یا پھر او رکوئی سرکاری عہدہ دار بنے، جس کے لیے وہ اپنی اولاد کو اسکولوں، کالجوں کی راہ دکھا دیتے ہیں۔بہت کم ایسے مسلمان ہیں جو اپنی اولاد کو دینی مدارس سے منسلک کرتے ہیں۔ ٹھیک ہے، عصری علوم کی ضرورت اپنی جگہ مسلّم ہے، ان کی افادیت کا انکار نہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی سیکھنی چاہیے۔ بہت سارے سادہ لوح مسلمان تو دینی تعلیمات کو کچھ سمجھتے ہی نہیں، انہیں صرف اسکول، کالج میں پڑھائی جانے والی تعلیم سے مطلب ہے او راسی تعلیم کو وہ اعلیٰ تعلیم گردانتے ہیں۔ چناں چہ اسکول کالج کا پڑھا ہوا اعلیٰ تعلیم یافتہ کہلایا جاتا ہے، حالاں کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔، قرآن وحدیث کی تعلیمات سے بڑھ کر او رکون سی تعلیم اعلیٰ ہو سکتی ہے؟ مغربی کلچر سے متاثر مسلمانوں کو اپنا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے، جو معیارِ تعلیم کو اپنی ناقص عقل کی کسوٹی میں پرکھتے ہیں او رپھر اپنی گم راہی کے ساتھ ساتھ لوگوں کی گم راہی کا بھی سبب بنتے ہیں۔
اسلامی تعلیمات کا تو بنیادی مقصد انسان کی اصلاح ہے اور اس طرح کی اصلاح کرنا کہ دنیا میں تمام انسان امن وامان کی زندگی بسر کریں اوراس طرح زندہ رہیں کہ اخلاق حسنہ کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوٹے، نیز آخرت کی لامتناہی زندگی کے لیے پورے اخلاق وتقویٰ کے ساتھ تیاری کریں کہ الله ان سے راضی ہو جائے اور یہ تب ہو گا جب وہ خالق کائنات اورمالکِ کل الله تعالیٰ کے حکم کے مطابق نور مجسم رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اسوہٴ حسنہ کی پیروی کریں۔
اگر مسلمانوں کے لباس پر تبصرہ کیاجائے تو اس میں بھی مسلمان مغربی تہذیب کو اپناتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ آج کل ہمارے معاشرے میں یہ چیز زیادہ مقبول ہو رہی ہے کہ لڑکوں کو لڑکیوں کا لباس اور لڑکیوں کو لڑکوں کا لباس پہناتے ہیں۔ یہ طرز بھی یورپ وامریکا کے نابکاروں سے شروع ہوا ہے۔ اُن کے نزدیک یہ فیشن اور فخر کی چیز ہے۔ جب کہ اسلام میں اسے معیوب سمجھاجاتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”لعنت ہو ایسے مرد پر جو عورت کا لباس پہنے اور لعنت ہو ایسی عورت پر جو مرد کا لباس پہنے۔“ (رواہ ابوادؤد)
اسی طرح حضرت ابن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے لعنت کی ان مردوں پر جو عورتوں کی طرح شکل وصورت بنائیں اور لعنت کی ان عورتوں پر جو شکل وصورت میں مردانہ پن اختیار کریں اور ارشاد فرمایا کہ ان کو اپنے گھروں سے نکال دو۔ (رواہ البخاری)
ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ ہمارے پیارے رسول صلی الله علیہ وسلم کو اس بات سے بہت زیادہ نفرت تھی کہ مرد زنانہ لباس پہنیں یا کسی طرح بھی زنانہ پن اختیار کریں۔اس بات سے بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کو سخت نفرت تھی کہ عورتیں مردانہ لباس پہنیں یا مردانہ چال ڈھال اختیا رکریں اور اسی نفرت کے باعث اس طرح کے مردوں اور عورتوں پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے لعنت فرمائی۔
درحقیقت، عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ مرد مرد بن کر رہیں اور عورتیں عورتیں بنی رہیں۔ آج کل کے لوگ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ہدایات کو نہیں دیکھتے بلکہ مروجہ غیر اسلامی وضع قطع اور سج دھج کو اپنا آئیڈیل بناتے ہیں۔ اُدھر سے جو لباس اور طور طریق ملتا ہے اسی کو اختیار کرنا ذریعہ عزت سمجھتے ہیں۔ اگرچہ وہ لباس اور طرز اور طور طریق الله کے نزدیک لعنت کا سبب ہی کیوں نہ ہو۔
عجیب بات یہ ہے کہ مردوں کے لیے شرعی حکم ہے کہ و ہ اپنا پائجامہ ٹخنوں سے اوپر رکھا کریں اور عورتوں کے لیے حکم ہے کہ وہ اپنے ٹخنوں کو بھی چھپا کر رکھیں، لیکن آج صورت حال بالکل برعکس ہے۔ حالاں کہ حدیثِ پاک میں اس مرد کے بارے میں سخت وعید آئی ہے جو اپنی شلوار کو ٹخنوں سے نیچے رکھتا ہے۔ حضرت ابن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ”جو شخص اپنی شلوار یا ازار ٹخنوں سے نیچے رکھے گا تو الله تعالیٰ اسے روزِ قیامت رحمت کی نگاہ سے نہیں دیکھے گا۔“ (رواہ مالک) اب ایک جانب حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے اور دوسری جانب عام لوگوں کی عار کا خوف۔ آج مسلمانوں کو لوگوں کی عار سے بچنے کی فکر تو ہے، پر نبی علیہ السلام کے ارشادات کی کوئی پروا نہیں۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ مسلمانوں کا طرزِ زندگی الگ ہے اور کافروں کا طرزِ زندگی الگ۔ کافر تو کبھی مسلمانوں کی وضع قطع اور شکل وصورت اختیار نہیں کرتے، لیکن جو لوگ ایمانی غیرت سے خالی ہیں وہ کافروں کے طرزِ زندگی سے متاثر ہیں اور ان کی طرف بڑھتے چلے جارہے ہیں، انہی کی تقلید کرتے ہیں،ان کے اعمال اپناتے ہیں، حتیٰ کہ دشمنان اسلام نے داڑھی نہ رکھنے کا سلسلہ کیا تو دین داری کا دعویٰ کرنے والوں تک نے اس کو بھی اپنا لیا۔ بعض کہہ دیتے ہیں کہ یہ سنت ہی تو ہے․․․ پہلے فرائض و واجبات تو پورے کرلیں۔ اگر یہی حال ہے تو ایمان کے تقاضوں کو کیوں کر پورا کیا جاسکتا ہے؟ حالاں کہ عزت تو وہ ہے جو الله سبحانہ وتعالیٰ کے نزدیک عزت ہو اور اصل عزت وہ ہے جو موت کے بعد حاصل ہو ، چناں چہ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے، ﴿أَیَبْتَغُونَ عِندَہُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ العِزَّةَ لِلّہِ جَمِیْعا﴾․
ترجمہ:” کیا یہ کافروں کے پاس عزت چاہتے ہیں؟ سو عزّت ساری الله کے لیے ہے۔“
اسی طرح بہت سے لوگوں کو اسلامی قوانین نافذ کرنا منظور نہیں۔ یہ ایمان کے دعوے دار اسلام کے قوانین کو ظالمانہ قوانین کہتے ہیں اور دشمنان اسلام جو سمجھائیں وہی سوچتے ہیں اور جو وہ کہلوائیں وہی کہتے ہیں۔ اسلام کے قوانین کے مطابق زندگی بسر کرنے کو عیب سمجھتے ہیں اور احکام اسلام کے جو فوائد ہیں اور جو ثمرات ہیں ان سے غافل ہیں ،اس لیے دشمنوں کے سامنے جھک جانے میں ترقی محسوس کرتے ہیں، الله جل جلالہ کافرمان ہے:﴿وَلاَ تَرْکَنُواْ إِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُواْ فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ﴾․(سورہٴ ھود:113)
ترجمہ:” اور نہ مائل ہو جاؤ ان لوگوں کی طرف جنھوں نے ظلم کیا، کہیں تمہیں آگ نہ پہنچ جائے۔“
اس آیت مبارکہ کے مضمون پر غور کریں اور خوب سمجھ لیں کہ اغیار کی طرف جھکنے کا کیا انجام ہے۔
اصل میں آج مسلمان مغرب کی گھناؤنی سازشوں کا شکار ہو چکے ہیں، کیوں کہ مغرب نے جب دیکھا کہ مسلمانوں کو جسمانی طور پر اتنی آسانی سے ختم نہیں کیا جاسکتا تو اس کے تخریبی ذہن نے اس سے زیادہ کاری ضرب لگانے کا منصوبہ بنا لیا ،جو جنگوں کے ذریعے تباہی سے زیادہ خطرناک ہے کہ اہل اسلام اپنی مرضی سے ہمارے بچھائے ہوئے جال میں اپنے آپ کو جکڑ لیں اور اپنی تباہی کا سامان اپنی مرضی سے اختیار کرتے ہوئے ذہنی طور پر مفلوج ہو جائیں۔ تب ان مسلمانوں کو زیر کرناکوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔چناں چہ اپنے اس منصوبے کی تکمیل کی خاطر مسلم دشمن قوتوں نے مختلف موثر آلات و ذرائع کے ذریعے ایسی اسکیمیں تیار کیں کہ ہم مسلمان انتہائی آسانی سے اپنی مرضی سے ان کے اس ناپاک جال میں پھنستے چلے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فحاشی عام ہو گئی اور دین داری مفقود۔ بے ایمانی اور بے حیائی کا یہ زہر ہماری رگوں میں بہت تیزی سے سرایت کرتا جارہا ہے۔ انسانیت تباہی کے دہانے کھڑی ہے۔
انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے الله تعالیٰ نے جو نسخہ کیمیا آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے تجویز کیا تھا وہ تو قرآن کریم ہے ، جو بلاشبہ اہل اسلام کی روحانی غذا اور روحانی شفا ہے۔ مسلمانوں کے لیے جناب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی پاکیزہ حیات میں اتباع کا بہترین نمونہ ہے۔ قرآن اور سنت، یہ دوہی کام یابی کی ضمانت ہیں۔
آئیے، پختہ عزم کرتے ہیں کہ آج سے ہم نے مغرب کی کسی معاملے میں تقلید نہیں کرنی۔ ہم نے اگر اتباع کرنی ہے تو جناب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی اتباع کرنی ہے، حضرت صحابہ کرام رضی الله عنہم اجمعین کی اتّباع کرنی ہے، قرآن وسنت کی پیروی کرنی ہے، ہم نے ہر موڑ پر یہ دیکھنا ہے کہ قرآن کا ہم سے کیا مطالبہ ہے، احادیث نبویہ علی صاحبہا الف الف تحیہٴ وسلام کا ہم سے کیا مطالبہ ہے؟ خود اپنا قبلہ بھی درست کرنا ہے او راپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کو بھی سلکتی آگ کی طرف جانے سے روکنا ہے، یہی سب سے بڑی خیر خواہی ہے، کیوں کہ خدا نے امّت مسلمہ کو پیدا ہی اسی لیے کیا ہے کہ وہ دوسروں تک خدا کا دین پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے۔ اگر ایسا نہ کیا تو ہمارے خسارے میں کوئی شک نہیں۔ حضرت جابر رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے، ”خدائے بلند برتر نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو حکم دیا کہ ایسی ایسی بستی کو الٹ دو ، حضرت جبرئیل نے کہا پرورد گار! ان میں توتیرا ایک ایسا نیک بندہ بھی ہے جس نے پلک جھپکانے کی حد تک بھی کبھی تیری نافرمانی نہیں کی ہے۔ پروردگار نے فرمایا، ہاں! جبرئیل بستی کو اس پر بھی الٹا دو اور دوسروں پر بھی، اس لیے کہ ان بستیوں میں علی الاعلان میری نافرمانی ہوتی رہی اور اس کے ماتھے پر شکن تک نہیں آئی۔“ (مشکوٰة شریف)