انسانیت پر حق تعالیٰ کی اتمامِ حجت
محترم یرید احمد نعمانی
﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَاء کُم بُرْہَانٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَأَنزَلْنَا إِلَیْْکُمْ نُوراً مُّبِیْنا، فَأَمَّا الَّذِیْنَ آمَنُواْ بِاللّہِ وَاعْتَصَمُواْ بِہِ فَسَیُدْخِلُہُمْ فِیْ رَحْمَةٍ مِّنْہُ وَفَضْلٍ وَیَہْدِیْہِمْ إِلَیْْہِ صِرَاطاً مُّسْتَقِیْماً﴾․(سورة النساء:175-174)
ترجمہ:”اے لوگو!تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے کھلی دلیل آچکی ہے اور ہم نے تمہارے پاس ایک ایسی روشنی بھیج دی ہے جو راستے کی پوری وضاحت کرنے والی ہے۔ چناں چہ جو لوگ اللہ پر ایمان لائے ہیں اور انہوں نے اسی کا سہارا تھام لیا ہے،اللہ ان کو اپنے فضل اور رحمت میں داخل کرے گا۔اور انہیں اپنے پاس آنے کے لیے سیدھے راستے تک پہنچائے گا۔“(آسان ترجمہ قرآن)
تشریح و توضیح
مذکورہ آیت شریفہ کی تشریح کرتے ہوئے صاحب ایسر التفاسیر رقم طرازہیں:”اس آیت مبارکہ میں اللہ ربّ العالمین نے تمام لوگوں، خواہ مشرک ہوں، یہودہوں یا نصاریٰ… کو اتمامِ حجت کے تحت یہ خبر دے دی ہے کہ اُس ذات حق نے اپنے پیغمبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے۔ آپ علیہ السلام (کا یوں پیغمبر بن کر تشریف لے آنا) اللہ تعالیٰ کے وجود ، قدرت اور علم کی حتمی دلیل اور واضح ثبوت ہے ۔ خدا تعالیٰ کی ذات اور تمام رسولوں پر ایمان لانا اور اللہ کے رسول کی اتباع اور پیروی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی بندگی کو لازم پکڑنا واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب علیہ السلام پر ایسی کتاب نازل کی ہے جو(ہرظاہری اور باطنی مرض سے) شفا دینے والی ،(دنیا اور آخرت کے ہر معاملے میں)کفایت کرجانے والی، (حق کے طلب گاروں کو)ہدایت دینے والی اور(راہ ہدایت بتلانے کے لیے) سراپاروشنی ہے، جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ اس شخص کو سلامتی کے راستوں کی طرف راہ نمائی کرتے اور (کفر کے ) اندھیروں سے (اسلام کی) روشنی کی جانب نکال کر لے آتے ہیں، جو اللہ رب العالمین کی رضا مندی کا طالب ہو ۔ یوں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کے لیے ہر قسم کی معذرت اور عذر خواہی کا راستہ بند کردیاہے۔اب انسانوں کی (صرف)دو قسمیں ہیں ۔ایک مومن، دوسری کافر۔ جو لوگ اللہ پر ایمان لاتے ہیں ،وہ حق سبحانہ وتعالیٰ کو اپنا رب اور معبود مانتے اور اس کے نبی کو اپنا رسول اور پیغمبر مانتے ہیں اور قرآن کریم کو مضبوطی سے پکڑکر اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھتے ہیں، اس کی خبروں کی تصدیق کرتے ہیں اور اس کے بتلائے گئے آداب کی رعایت اور پابندی کرتے ہیں۔ چناں چہ یہی لوگ ہیں جنہیں اللہ ربّ کریم اپنی رحمت اور فضل سے اس طرح نوازیں گے کہ انہیں جہنم سے نجات اور جنت کے باغات میں داخل کریں گے۔ حقیقت میں یہی سب سے بڑی کام یابی ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ایک مقام پر ارشاد ہے :﴿فمن زحزح عن النار وأدخل الجنة فقد فاز﴾ رہے وہ لوگ جنہوں نے اللہ ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی کتاب کا انکار کیا تو ان کا ٹھکانا مشہور اور ان کا بدلہ معلوم ہے ،جس کے ذکر کی ضرورت بھی نہیں کہ وہ حرمان اور خسران ہے۔(ایسر التفاسیر 1/232،شاملہ)
آیت مبارکہ میں ایک لفظ ”برھان“آیا ہے۔ لغوی اعتبار سے جس چیز کے ذریعے مقصود و مطلوب پر دلیل حاصل کی جائے ،اسے برہان کہتے ہیں ۔یہاں اس لفظ سے مراد قرآن کریم ہے، جو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کی صحت پر دلالت کررہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ان (مختلف)احکام کو ثابت کرنے والا ہے جو اس کے اندر موجود ہیں،جن میں سے ایک احقاقِ حق اور ابطال ِباطل (بھی)ہے جس کا تذکرہ آیت مبارکہ میں ہے۔
دوسرے قول کے مطابق اس لفظ سے مراد معجزات نبوی علیٰ صاحبھا الصلوٰة والسلام ہیں۔
تیسرے قول کے مطابق وہ دین حق مراد ہے ،جو آپ علیہ السلام لے کر آئے ۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات مبارکہ کو ”برھان “سے تعبیر فرمایا ہے،کیوں کہ آپ علیہ السلام کے ساتھ ایسے معجزات تھے جو آپ کی حقانیت و سچائی پر دلالت کرنے والے تھے۔ (تفسیر ابوالسعود:2/193، 194،195شاملہ)
مصنف شہیر ،داعی کبیر حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہری نور اللہ مرقدہ مذکورہ آیت مبارکہ میں ”برھان“ اور”نور مبین“ کے اطلاق کی بابت حضرات مفسرین کرام رحمھم اللہ کے اقوال کی توضیح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”در حقیقت یہ کوئی اختلاف نہیں، کیوں کہ قرآن کریم حجت بھی ہے اور نور مبین بھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی بھی حجت ہے اور نور مبین بھی ہے۔ اللہ جل شانہ نے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو معجزات کثیرہ کے ساتھ مبعوث فرمایا۔آپ کی ذات گرامی ساری مخلوق کے لیے اللہ کی طرف سے ایک حجت ہے اور آپ کے اوصاف ،کمالاتِ اخلاق ،صفات و نعوت اور آپ کی دعوت ِتوحید اور دلائلِ توحید اس قدر واضح ہیں کہ کسی بھی شخص کے لیے جو اپنی عقل کو ذرا بھی استعمال کرے؛ان سے منحرف ہونے اور کفر اختیار کرنے کا کوئی بھی جواز نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی حجت ہے اور نورمبین ہے کہ آپ نے کھول کر ہدایت کے راستے بتائے اور خیر و شر کا امتیاز واضح فرمایا۔ پھر جس طرح آپ علیہ السلام کی ذات گرامی لوگوں پر حجت ہے اور نور مبین ہے، اسی طرح قرآن عظیم بھی عظیم معجزہ ہونے کے اعتبار سے لوگوں پر حجت ہے ، جس نے توحید کے دلائل بیان کیے اور کافروں اور مشرکوں کی گم راہی بیان کی اور صالحین اور طالحین کا انجام بتایا اور حجت ہونے کے ساتھ ساتھ؛ وہ نور مبین بھی ہے، جس نے خالق و مالک کو راضی کرنے کے طریقے سکھائے، احکام شرعیہ واضح فرمائے اور صلاح وفلاح کے راستے بتائے۔ ( تفسیر انوار البیان :49/2)
نکات ومعارف
مذکورہ آیت مبارکہ سے حاصل ہونے والے نتائج کا ذکر کرتے ہوئے صاحب ”ایسر التفاسیر“ لکھتے ہیں:
٭…اسلام کی دعوت اور اس کا پیغام بنی نوع انسان کے تمام افراد کے لیے عام ہے۔
٭… انسان کی سعادت مندی، خوش بختی اور بلند اقبالی کی قیمت اللہ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم پر ایمان اور اللہ سے ملاقات کا یقین پیدا کرنا ہے۔جب کہ ”عمل صالح “کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کا نام ہے۔
٭…”برھان “کا اطلاق جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اس اعتبار سے ہے کہ آپ علیہ السلام اپنی صفت امّیت اور عظمت و کمال کے ساتھ اس (بلند)مقام پر پہنچے ،جہاں کوئی انسان آپ سے آگے نہیں بڑھ سکتا(اور ایساہونادرحقیقت) اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کے علم اور رحمت کی دلیل ہے۔ (ایسر التفاسیر1/232،شاملہ)
جب کہ علامہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”جو لوگ اللہ پر ایمان لائیں اور اس کے احکام کو مضبوطی سے تھامے رکھیں ،ان کے لیے اللہ رب العالمین نے تین وعدے فرمائے ہیں:
1..رحمت۔2.. فضل۔3.. ہدایت۔
علامہ فخرالدین رازی رحمہ اللہ تینوں کی تشریح حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ نقل کرتے ہیں : ”رحمت سے مراد جنت ہے۔ فضل سے مراد اللہ تعالیٰ کی وہ نعمتیں ہیں جو کسی آنکھ نے دیکھیں ،نہ کسی کان نے سنیں۔ جب کہ ہدایت سے مراد دین قیم (اسلام) ہے۔ “
مذکورہ انعامات کی مزید توضیح کرتے ہوئے علامہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”رحمت اور فضل تو جنت میں حاصل ہونے والے فائدے اورعظمت سے متعلق ہیں۔ جب کہ ہدایت سے مراد وہ سعادت اور نیک بختی ہے جو عالم قدس کے انوارات کی تجلی سے حاصل ہوتی ہے ۔ (اسی طرح)وہ بلند مقامی (بھی)مراد ہے جو انسانی روحوں کے درمیان حاصل ہوتی ہے اور اسی کا نام روحانی سعادت ہے اور اسے پہلی دو قسموں سے موٴخر ذکر کیا ،یہ بتلا نے کے لیے کہ روحانی سرورو مستی جسمانی لذت و کیف سے زیادہ وقعت اور عزت کے قابل ہے۔ “(التفسیر الکبیرللامام الرازی: 5/451،شاملہ)
آیت، حدیث نبوی کے آئینے میں
صاحب تفسیر حقی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:” آیت مبارکہ میں اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ہر نبی اور پیغمبر کو کسی نشانی اور برھان سے نوازا ہے ،تاکہ وہ اپنی امت پرا تمام حجت کرسکیں۔ جب کہ جناب نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ کی ذات مبارکہ کو(ہی) آپ کی طرف سے ایک برھان اور دلیل بناکر دنیا کے سامنے مبعوث فرمایا۔ کیوں کہ دیگر انبیا ئے کرام صلوات اللہ علیھم اجمعین کے براہین (و شواہد نبوت) تو ان کی ذات کے علاوہ دیگر چیزوں میں ہوا کرتے تھے؛ جیسے سیدنا حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ اور برھان عصا اور اس پتھر میں تھا جس سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے تھے۔ اس کے برعکس جناب نبی کریم سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ ہی کلیتاً برھان اور معجزہ ہے۔
چناں چہ آپ علیہ السلام کی دونوں آنکھوں کا معجزہ یہ تھا کہ آپ نے صحابہ کرام سے ارشاد فرمایا:”مجھ سے رکوع اور سجدے میں آگے نہ بڑھو، کیوں کہ میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی ایسے ہی دیکھتا ہوں جیسا آگے سے۔“
آپ علیہ السلام کی نگاہوں کا معجزہ قرآن کریم میں اللہ نے ارشاد فرمایا:”پیغمبر کی آنکھ (معراج کے موقع پر )نہ تو چکرائی اور نہ حد سے آگے بڑھی۔“(النجم:17)
آپ علیہ السلام کی ناک مبارک کا معجزہ یہ تھا کہ آپ نے ارشاد فرمایا :”میں رحمن کی سانس اپنے دائیں جانب پاتا ہوں۔“
آپ علیہ السلام کی زبان مبارک کا معجزہ قرآن کریم میں ذکر ہے: ”اور یہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے ،یہ تو خالص وحی ہے جو ان کے پاس بھیجی جاتی ہے۔“(النجم:3،4)
آپ علیہ السلام کے لعاب مبارک کا معجزہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ ذکر کرتے ہیں کہ خندق کے دن آپ صلی الله علیہ وسلمنے ارشاد فرمایا : میرے آنے تک اپنے گوندھے ہوئے آٹے سے روٹی مت بنانا اور نہ ہی اپنی ہانڈی چولھے سے اتارنا۔آپ علیہ السلام تشریف لائے اور آٹے میں تھوکااور برکت کی دعا فرمائی۔ اس کے بعد ہانڈی میں تھوکا اور برکت کی دعا فرمائی۔
حضرت جابر فرماتے ہیں کہ میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ لوگوں نے وہ کھانا کھا یا اور اسے چھوڑ کر واپس چلے گئے ،حالاں کہ وہ ہزار سے زیادہ تھے اورہماری ہانڈی اسی طرح جوش ماررہی تھی اور ہمارے آٹے سے روٹیاں بنائی جارہی تھیں۔
اسی طرح آپ علیہ السلا کے لعاب مبارک کا معجزہ یہ (بھی )تھا کہ خیبر کے دن حضرت علیؓ کی دکھتی آنکھ پرآپ نے تھوکاتو وہ درست ہوگئی۔
بدر کے دن ہاتھ مبارک کا معجزہ قرآن کریم میں ذکر ہے :” اور (اے پیغمبر) جب تم نے ان پر (مٹی) پھینکی تھی تو وہ تم نہیں تھے، بلکہ اللہ نے پھینکی تھی۔“ (الانفال:17)
اسی طرح کنکریاں آپ علیہ السلام کے ہاتھ مبارک میں تسبیح کیا کرتی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگشت مبارک کا معجزہ یہ تھا کہ آپ نے اپنی انگلی سے چاند کی طرف اشارہ کیا تو وہ دو ٹکڑے ہوگیا ،یہاں تک کہ حراء پہاڑ کو اس کے دونوں ٹکڑوں کے درمیان دیکھا گیا۔
اسی طرح ایک موقع پر آپ علیہ السلام کی انگلیوں کے درمیان سے پانی پھوٹ پڑا،اسے پیا گیا اور بہت سوں نے ذخیرہ بھی کیا۔
آپ علیہ السلام کے صدر اطہر کا معجزہ یہ تھا کہ جب آپ نماز پڑھا کرتے تو آپ کے سینے سے رونے کی وجہ سے ایسی آواز نکلتی جیسے ہانڈی سے(پکنے کے وقت)نکلاکرتی ہے۔
آپ علیہ السلام کے قلب مبارک کا معجزہ یہ تھا کہ آپ کی آنکھ سوجایا کرتی ، لیکن دل بیدار رہتا ۔ قرآن کریم میں اللہ پاک نے آپ کے قلب مبارک کی یہ صفات بیان فرمائی ہیں: ”جو کچھ انہوں نے دیکھا، دل نے اس میں کوئی غلطی نہیں کی۔ “(النجم)…”(اے پیغمبر!)کیا ہم نے تمہاری خاطر تمہارا سینہ نہیں کھول دیا۔“(الم نشرح)…”بے شک یہ قرآن رب العالمین کا نازل کیا ہوا ہے،امانت دار فرشتہ اسے لے کر اترا ہے(اے پیغمبر!) تمہارے قلب پر اترا ہے تاکہ تم ان پیغمبروں میں شامل ہوجاؤ جو لوگوں کو خبردار کرتے ہیں۔ “ (الشعراء:192،193،194)
الغرض اِن جیسے معجزات بے انتہا ہیں۔ سب سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ آپ علیہ السلام کو معراج آسمانی کے لیے لے جایا گیا، یہاں تک کہ آپ قاب قوسین (دو کمانوں کے فاصلے)سے بھی آگے تشریف لے گئے اور انتہا کو پہنچے یااس کے قریب قریب۔ یہ کلی طور پر آپ علیہ السلام کا ذاتی اورجسمانی معجزہ تھا، اس سے قبل یہ معجزہ کسی اور نبی کو نہیں دیا گیا۔ اسی طرح عرب و عجم کی سب سے فصیح اور بلیغ زبان (عربی) میں وحی آپ کی طرف بھیجی گئی، حالاں کہ اس سے قبل آپ بے پڑھے لکھے تھے اور کتاب و ایمان کے بارے میں کچھ نہ جانتے تھے۔ (چناں چہ غور و فکر کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ )اس سے بڑھ کر(کوئی اور) معجزہ واضح، ظاہر اور مضبوط (نہ)ہوگا۔(تفسیر حقی:3/169،170،171،شاملہ)
حاصل کلام
صاحب تفسیر حقی فرماتے ہیں:” اللہ تعالیٰ نے اس امت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے عزت و وجاہت بخشی اور ان پر احسان کیا۔اب جو کوئی اللہ کے نور کو دیکھ کر، نہ کہ محض تقلید و اتباع کی وجہ سے،آپ علیہ السلام پر حقیقی ایمان لائے گا تو اللہ کی توفیق اس کی دست گیری کرے گی اور اسے صفات (کمال )کے عالم میں داخل کردے گی… (یہ بات قابل ذکر ہے کہ) باطن کو روشنی اور نورِ معرفت صرف اور صرف ذکر، عبادت اور اللہ کی پہچان سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ مذکورہ امور پر قوت و طاقت اس عبادت خالصہ سے حاصل ہوتی ہے جسے علیٰ وجہ الکمال اور سنت کے مطابق ادا کیا جائے ۔(کیوں کہ ایسی) عبادت (ہی )انسان کو شہوات اور مذموم اخلاق سے چھٹکارا دلانے میں صیقل کا کام دیتی ہے۔ (اور یاد رکھنا چاہیے کہ )توحید تمام نیک اعمال میں سب سے افضل عمل ہے، جو انسان کو سعادت مندی اور بھلائی کی جانب لے جاتاہے۔ حدیث مبارکہ میں ذکر ہے کہ جن لوگوں کی زبانیں اللہ کے ذکر سے تر رہتی ہیں، وہ جنت میں ہنستے داخل ہوں گے۔ دوسری حدیث مبارکہ میں ارشاد ہے: ” لاالہ الا اللہ کہنے والوں پر قبر اور نشر میں و حشت اور تنگی نہیں ہوگی۔ گویا میں قیامت کی چنگھاڑ کے وقت انہیں دیکھ رہا ہوں کہ وہ اپنے آپ سے مٹی جھاڑ تے کھڑے ہوں گے اور کہیں گے تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہم سے غم کو دور کردیا۔ بے شک ہمارا رب بڑا بخشنے والا اور قدر دان ہے۔“(تفسیر حقی:3/169،170،171،شاملہ)
وماعلینا الاالبلاغ المبین