Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1436ھ

ہ رسالہ

3 - 16
سیرت طیبہ میں
تاجروں کے لیے رہنمائی

مفتی محمد راشد ڈسکوی
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی
کائنات میں بسنے والے ہر ہر فرد کی کامل رہبری کے لیے اللہ رب العزت کی طرف سے جس معزز ومکرم ہستی کو مبعوث کرنا متعین ہوتا ، تو لازم تھا کہ اس امرِ عظیم کی تکمیل کے لیے ایسی کامل واکمل ہستی کا انتخاب کیا جاتا، جس کی ذات وصفات میں ہر راہنمائی لینے والے کے لیے ہمہ جہت اور ہمہ وقت سامان موجود ہوتا، چناں چہ! اس کے لیے سردار الانبیاء، رحمة للعالمین، حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم کو مبعوث کیا گیا، سب سے آخر میں بھیج کر، قیامت تک کے لیے آنجناب کے سر پر تمام جہانوں کی سرداری ونبوت کا تاج رکھ کر اعلان کر دیا گیاکہ : ﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَةٌ حَسَنَة﴾ (الأحزاب:21) اے دنیا بھر میں بسنے والے انسانو! اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر اور پُرسکون بنانا چاہتے ہو تو تمہارے لیے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی مبارک ہستی میں بہترین نمونہ موجود ہے، ان سے راہنمائی حاصل کرو اور دنیا وآخرت کی ابدی خوشیوں اور نعمتوں کو اپنا مقدر بناوٴ۔ گویا کہ اس اعلان میں دنیا میں بسنے والے ہر ہر انسان کو دعوت ِعام دی گئی ہے کہ جہاں ہو، جس شعبے میں ہو، جس قسم کی راہنمائی چاہتے ہو، جس وقت چاہتے ہو، تمہیں مایوسی نہ ہو گی، تمہیں تمہاری مطلوبہ چیز سے متعلق مکمل راہنمائی ملے گی، شرط یہ ہے کہ تم میں طلبِ صادق ہونی چاہیے، چناں چہ! تاجر ہو یا کاشت کار،شریک ہو یا مضارب، مزدور ہو یا کوئی بھی محنت کش، ماں ہو یا باپ، بیٹا ہو یا بیٹی، میاں ہو یا بیوی، مسافر ہو یا مقیم، صحت مند ہو یا مریض، شہری ہو یا دیہاتی، پڑھا لکھا ہو یا اَن پڑھ؛ اگر وہ چاہے کہ میرے لیے میرے شعبے میں راہنمائی ملے، تو اس کے لیے جنابِ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی مبارک ہستی میں نمونہ موجود ہے، مذکورہ آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو جنابِ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے لا کھڑا کیا ہے کہ میرے اس محبوب کو دیکھو، تمہیں ہر چیز ملے گی، اپنے سے متعلق روشنی حاصل کرو اور اس پر عمل پیرا ہو کر اللہ کے محبوب بن جاوٴ، تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کی تشریح میں علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

”ھٰذہ الآیة الکریمة أصلٌ کبیرٌ في التأسّي برسول اللہ صلی الله علیہ وسلم في أقوالہ، وأفعالہ، وأحوالہ․“ (تفسیر ابن کثیر، سورة الأحزاب:31، 6/391)

کہ یہ آیت کریمہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور احوال کی اتباع کرنے میں بہت بڑی بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ علمائے امت نے امتِ محمدیہ علی صاحبہا الف الف صلوات کی آسانی اور سہولت کی خاطر جنابِ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے ہر ہر پہلو کو پوری طرح واضح کرنے کے لیے خوب سے خوب محنت کی، بے شمار کتب تصنیف کیں، تا کہ کوئی بھی شخص اپنے شعبے سے متعلق جنابِ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی مبارک زندگی کو دیکھنا چاہے تو اسے بغیر دقّت کے آپ علیہ الصلاة والسلام کی تعلیمات معلوم ہو سکیں، جنابِ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی اتباع کرنا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ہم پر حق بھی ہے اور محبت کا تقاضا بھی اور یہ بات بھی پوری طرح واضح رہنی چاہیے کہ یہ حق اور تقاضا صرف ماہِ ربیع الاول کے پہلے بارہ دن یاپورے مہینے کے لیے ہی نہیں، بلکہ پوری زندگی اور زندگی کے ہر ہر لمحے کے لیے ہے۔

ان سطور سے مقصود نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی پوری حیاتِ طیبہ کو سمیٹنا نہیں ہے، بلکہ صرف آپ علیہ الصلاة والسلام کی سیرتِ طیبہ سے تجارت کے پہلو کو واضح کرنا مقصود ہے،آپ علیہ الصلاة والسلام نے تجارت کا پیشہ اپنایا اور رزق حلال سے اپنی زندگی کا رشتہ استوار رکھا، نبوت کے اس پہلو کو سمجھنے کے لیے اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی حیات ِ مبارکہ کے دو حصے ہیں، ایک: نبوت ملنے سے قبل کا اوردوسرا: نبوت ملنے کے بعد کا، اول الذکر کا دورانیہ چالیس سال ہے اور ثانی الذکر کادورانیہ تئیس سال، اس دوسرے حصے کے پھر دو حصے ہیں، ایک: مکی دور اور دوسرا: مدنی دور۔

نبوت سے قبل کی معاشی کیفیت
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا نبوت سے پہلے والا دور مالی اور معاشی اعتبار سے بہت زیادہ خوش الحال دور نہیں تھا، لیکن اس کے برعکس یہ کہنا بھی درست نہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم بہت ہی زیادہ مفلوک الحال زندگی بسر کر رہے تھے، البتہ یہ ضرور تھا کہ آنجناب بچپن سے ہی محنت ومشقت کر کے اپنی مدد آپ ضروریات زندگی پورا کرنے کا ذہن رکھتے تھے۔

والد کی طرف سے ملنے والی میراث
جب آپ صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی تو آپ کے سرسے والد کا سایہ اٹھ چکا تھا، ان کی طرف سے بطورِ میراث بھی کوئی جائیداد آپ کی طرف منتقل نہیں ہوئی تھی، جیسا کہ کتب ِ سیرت میں اس کی تفصیل میں صرف یہ منقول ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو میراث میں صرف پانچ اونٹ، چند بکریاں اور ایک باندی ملی، جس کا نام ”ام ایمن“ تھا، (اس باندی کو بھی جنابِ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کے وقت یعنی: پچیس سال کی عمر میں آزاد کر دیا تھا) اس کے علاوہ مزید کوئی چیز میراث میں نہ ملی تھی، ملاحظہ ہو:

”ترک عبد اللہ بن عبد المطلب أم أیمن وخمسة أجمال أوارک، یعني: تأکل الأراک، وقطعة غنم، فورث ذٰلک رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم“․ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد، ذکر وفاة عبد اللہ بن عبد المطلب: 1/80)

میراث میں ملنے والی اشیاء اس قابل نہ تھیں کہ آپ کی کفالت کے لیے کافی ہو جاتیں، یہی وجہ تھی کہ دیہاتی علاقوں سے آکر جو عورتیں بچوں کو پرورش اور تربیت کے لیے لے جایا کرتی تھیں، آپ علیہ الصلاة والسلام کی طرف ان میں سے کسی کا بھی رجحان نہیں ہوا کہ یہ تو یتیم اور غریب بچہ ہے،اس کی پرورش کرنے پر ہمیں اس کی والدہ کی طرف سے کچھ خاص معاوضہ نہ مل سکے گا اور حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا نے جو آپ علیہ الصلاة والسلام کا انتخاب کیا تھا وہ بھی ابتدا میں نہیں کیا تھا، بلکہ جب ان کے لیے کوئی اور بچہ نہ بچا ، تو پھر ان کو خیال آیا چلو! خالی ہاتھ واپس جانے کے بجائے اس یتیم بچے کو ہی لے جانا چاہیے، مال تو نہیں ، لیکن اللہ تو راضی ہو گا ۔

دادا اور چچا کی کفالت میں
ان ابتدائی دو سالوں میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی کفالت آپ کے دادا عبد المطلب کرتے رہے، دو سال کے بعد آپ کے دادا بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئے، دادا کے انتقال کے بعد آپ کے چچا ابو طالب نے آپ کی کفالت اپنے ذمہ لے لی، ابو طالب آپ کے حقیقی چچا تھے، جو بہت ہی ذوق وشوق اور محبت سے آپ کی پرورش کرتے رہے اور آپ کی ضروریات پوری کرنے کی اپنی مقدور بھر سعی کرتے رہے، چناں چہ ! آپ کے چچا جب تجارت کی غرض سے دوسرے شہروں میں جاتے تو اپنے بھتیجے کو بھی ہم راہ لے جاتے۔

بکریاں چرانا
مکہ مکرمہ میں حصول معاش کے لیے عام طور پر گلہ بانی اور تجارت عام تھی، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ مبارکہ کی ابتدا میں ہی اپنی معاش کے بارے میں از خود فکر کی، ابتداء ً اہلِ مکہ کی بکریاں اجرت پر چراتے تھے، بعد میں تجارت کا پیشہ بھی اختیار کیا اور یہ کوئی عیب کی بات نہیں تھی، بلکہ یہ تو آپ صلی الله علیہ وسلم کی عظمت اور تواضع کی کھلی دلیل ہے، اس لیے کہ بکریاں چرانے والے شخص میں جفاکشی، تحمل وبردباری اور نرم دلی پیدا ہو جاتی ہے، اس لیے کہ بکریاں چرانا معمولی کام نہیں ہے، بلکہ بہت ہی زیادہ ہوشیاری اور بیدار مغزی والا کام ہے، اس لیے کہ بکریاں بہت کمزور مخلوق ہوتی ہیں، تیزی اور پھرتی میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہوتا، انہیں قابو میں رکھنے کے لیے بھی خوب پھرتی کی ضرورت ہوتی ہے، دوسری بات یہ ہے کہ اس جانور پر قابو سے باہر ہونے کی صورت میں غصہ اتارنا بھی ممکن نہیں ہوتا، یعنی: غصہ کی وجہ سے مار بھی نہیں سکتے، کیوں کہ بوجہ ان کے چھوٹا، دبلا، پتلا اور کمزور ہونے کے ان کی ہڈیاں وغیرہ ٹوٹنے کا اندیشہ ہوتا ہے، اس بنا پر بکریاں چرانے والے میں خوب تحمل وغیرہ پیدا ہو جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ تمام انبیائے کرام علیہم السلام نے بکریاں چرائی ہیں، اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

”ما بعث اللہ نبیا إلا رعی الغنم، فقال أصحابہ: وأنت؟ فقال: نعم! کنت أرعاھا علیٰ قراریط لأھل مکة․ (صحیح البخاري، کتاب الإجارات، باب رعی الغنم علی قراریط، رقم الحدیث: 2262)

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ نے جو بھی نبی بھیجا، اس نے بکریاں ضرور چَرائیں، صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! کیا آپ نے بھی ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ہاں میں بھی مکہ والوں کی بکریاں قراریط پر چراتا تھا۔

”قراریط“ سے کیا مراد ہے؟ اس میں اختلاف ہے ، بعض کا قول یہ ہے کہ یہ درہم یا دینار کے ایک ٹکڑے کا نام ہے، اس صورت میں مطلب یہ بنے گا کہ کچھ قراریط کے عوض بکریاں چرائیں اور بعض کا قول ہے کہ یہ مکہ مکرمہ کے ایک محلہ ”جیاد“کا نام ہے، اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ مقام قراریط میں بکریاں چرائیں، علامہ ابن ملقن رحمہ اللہ نے اسی قول کو ترجیح دی ہے کہ یہ ایک جگہ کا نام ہے۔(التوضیح لشرح الجامع الصحیح، کتاب الإجارات، باب رعی الغنم، رقم الحدیث: 2262، 15/ 35،36)

اسی طرح ایک بار نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ جنگل تشریف لے گئے، صحابہ بیریاں توڑ توڑ کر کھانے لگے، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو خوب سیاہ ہوں وہ کھاوٴ، وہ زیادہ مزے کی ہوتی ہیں، یہ میرا اس زمانے کاتجربہ ہے، جب میں بچپن میں یہاں بکریاں چرایا کرتا تھا، ملاحظہ ہو:

عن جابر رضي اللہ عنہ قال: کنا مع النبي صلی الله علیہ وسلم ونحن نَجتَنِي الکَبَاث، فقال النبي صلی الله علیہ وسلم: ”علیکنّ بالأسودَ منہ، فإنہ أطیب، وإني کنت آکلہ زَمَنَ کنت أرعیٰ“، قالوا: یا رسول اللہ! أو کنتَ ترعیٰ؟ فقال: ”وھل بُعِث نبيٌ إلا وھو راعٍ“․(صحیح ابن حبان، کتاب الإجارة، ذکر العلة التي من أجلھا قال صلی الله علیہ وسلم للکباث الأسود: إنہ أطیب من غیرہ، رقم الحدیث: 5144، 11/544)

ملک ِ شام کی طرف پہلا سفر
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے شام کی طرف دو سفر کیے، پہلا: اپنے چچا کے ہم راہ، لیکن اس سفر میں آپ صلی الله علیہ وسلم بطورِ تاجر شریک نہ تھے،بلکہ محض تجارتی تجربات حاصل کرنے کے لیے آپ کے چچا نے آپ کو ساتھ لیا تھا، اسی سفر میں بحیرا راہب والا مشہور قصہ پیش آیا، جس کے کہنے پر آپ کے چچا نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو حفاظت کی خاطر مکہ واپس بھیج دیا، ملاحظہ ہو:

”لما بلغ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اثنتي عشرة سنة، خرج بہ أبو طالب إلی الشام في العیر التي خرج فیھا للتجارة، ونزلوا بالراھب بحیرا، فقال لأبي طالب في النبي صلی الله علیہ وسلم ما قال، وأمرہ أن یحتفظ بہ، فردہ أبو طالب معہ إلی مکة“․ (الطبقات الکبریٰ، ذکر أبي طالب وضمہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم إلیہ، وخروجہ معہ إلی الشام في المرة الأولی: 1/99)

ملکِ شام کی طرف دوسرا سفر
اور دوسرا سفر: آپ صلی الله علیہ وسلم نے بطور تاجر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا سامان لے کر اجرت پر کیا۔قصہ کچھ اس طرح پیش آیا کہ جب آپ صلی الله علیہ وسلم پچیس برس کے ہوگئے تو آپ کے چچا ابو طالب نے کہا کہ اے بھتیجے! میں ایسا شخص ہوں کہ میرے پاس مال نہیں ہے، زمانہ کی سختیاں ہم پر بڑھتی جا رہی ہیں، تمہاری قوم کا شام کی طرف سفر کرنے کا وقت قریب ہے، خدیجہ بنت خویلد اپنا تجارتی سامان دوسروں کو دے کر بھیجا کرتی ہے، تم بھی اجرت پر اس کا سامان لے جاوٴ، اس سے تمہیں معقول معاوضہ مل جائے گا، یہ گفتگو حضرت خدیجہ کو معلوم ہوئی تو انہوں نے خود آپ صلی الله علیہ وسلم کو پیغام بھیج کے بلوایا کہ جتنا معاوضہ اوروں کو دیتی ہوں، آپ کو اس سے دوگنا دوں گی، اس پر ابو طالب نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو کہا کہ یہ وہ رزق ہے جو اللہ نے تمہاری جانب کھینچ کے بھیجا ہے۔ اس کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم قافلے کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہوئے، آپ کے ہم راہ حضرت خدیجہ کا غلام ”میسرہ “بھی تھا، جب قافلہ شام کے شہر بصریٰ میں پہنچا تو وہاں نسطورا راہب نے آپ صلی الله علیہ وسلم میں نبوت کی علامات پہچان کر آپ کے نبی آخر الزمان ہونے کی پیشن گوئی کی۔

دوسرا اہم واقعہ یہ پیش آیا کہ جب آپ صلی الله علیہ وسلم نے تجارتی سامان فروخت کر لیا تو ایک شخص سے کچھ بات چیت بڑھ گئی، اس نے کہا کہ لات وعزیٰ کی قسم اٹھاوٴ، تو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”ما حلفت بھما قط، وإني لأمرّ فأعرض عنھما“․میں نے کبھی ان دونوں کی قسم نہیں کھائی، میں تو ان کے پاس سے گذرتے ہوئے ان سے منہ موڑ لیا کرتا تھا۔اس شخص نے یہ بات سن کر کہا، حق بات تو وہی ہے، جو تم نے کہی، پھر اس شخص نے میسرہ سے مخاطب ہو کر کہا: ”ھٰذا واللہ نبي، تجدہ أحبارنا منعوتاً في کتبھم“۔خدا کی قسم! یہ تو وہی نبی ہے، جس کی صفات ہمارے علماء کتابوں میں لکھی ہوئی پاتے ہیں۔

تیسرا واقعہ یہ پیش آیا کہ میسرہ نے دیکھا کہ جب تیز گرمی ہوتی تودو فرشتے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم پر سایہ کر رہے ہوتے تھے، یہ سب کچھ دیکھ کر میسرہ تو آپ صلی الله علیہ وسلم سے بہت ہی زیادہ متاثر تھا، واپسی میں ظہر کے وقت جب واپس پہنچے تو حضرت خدیجہ نے اپنے بالاخانے میں بیٹھے بیٹھے دیکھا کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اونٹ پر بیٹھے اس طرح تشریف لا رہے تھے کہ دو فرشتوں نے آپ پر سایہ کیا ہوا تھا، حضرت خدیجہ اور ان کے ساتھ بیٹھیں ہوئی عورتوں نے یہ منظر دیکھ کر بہت تعجب کیا اور پھر جب میسرہ کی زبانی سفر کے عجائب، نفع کثیر اور نسطورا راہب اور اس جھگڑا کرنے والے شخص کی باتیں سنیں تو بہت زیادہ متاثر ہوئیں، حضرت خدیجہ بہت زیادہ دور اندیش، مستقل مزاج، شریف، با عزت اور بہت مال دار عورت تھیں، انہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو نکاح کا پیغام بھیج کر نکاح کر لیا، اس وقت نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی عمر مبارک پچیس سال اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر چالیس سال تھی۔ (ملخّص وبتغیر یسیر من الطبقات الکبریٰ، ذکر خروج رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم إلی الشام في المرة الثانیة، ذکر تزویج رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم خدیجة بنت خویلد: 1/109-107)

یمن کی طرف دو سفر
جو تجارتی اسفار نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکی وجہ سے کیے، ان میں دو سفر یمن کی طرف بھی تھے، امام حاکم رحمہ اللہ نے المستدرک میں نقل کیا ہے:

”استأجرت خدیجة رضوان اللہ علیھا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سفرتین إلیٰ جُرَشَ، کل سفرةٍ بقَلوصٍ“․ (المستدرک علی الصحیحین، کتاب معرفة الصحابة، ومنھم خدیجة بنت خویلد، رقم الحدیث: 4834، 3/200)

کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو جرش (یمن کے ایک مقام)کی طرف دو بار تجارت کے لیے اونٹنیوں کے عوض بھیجا۔

بحرین کی طرف سفر
نبوت سے قبل آپ صلی الله علیہ وسلم کے بحرین کی طرف سفر کرنے کا بھی اشارہ ملتا ہے، وہ اس طرح کہ جس طرح آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں عرب کے تمام دور دراز مقامات سے وفود حاضر خدمت ہوتے رہے، انہی وفود میں بحرین سے وفدِ عبد القیس بھی آیا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اہلِ وفد سے بحرین کے ایک ایک مقام کا نام لے کر وہاں کے احوال دریافت فرمائے، تو لوگوں نے تعجب سے پوچھا، کہ اے اللہ کے رسول! آپ تو ہمارے ملک کے احوال ہم سے بھی زیادہ جانتے ہیں، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ ہاں! میں تمہارے ملک میں خوب گھوما ہوں۔ملاحظہ فرمائیں:

”حدثنا شھاب بن عباد أنہ سمع بعض وفد عبد القیس وھم یقولون: قدمنا علی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم، …فلما دنا منہ الأشج أوسع القوم لہ، وقالوا: ھا ھنا یا أشج، فقال؟ النبي صلی الله علیہ وسلم واستویٰ قاعدا، وقبض رجلہ: ”ھا ھنا یا أشج“، فقعد عن یمین النبي صلی الله علیہ وسلم، فرحب بہ، وألطفہ، وسألہ عن بلادہ، وسمّی لہ قریة قریة، الصفا والمشقر وغیر ذٰلک من قری ھجر، فقال: بأبي وأمي یا رسول اللہ، لأنت أعلم بأسمآء قُرانا منّا؟! فقال: ”إني قد وطئت بلادکم، وفسح لي فیھا“․ (مسند أحمد بن حنبل، بقیة حدیث وفد عبد القیس، رقم الحدیث: 15559، 24/327)

تجارتی اسفار میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے خصائل حمیدہ
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اپنی عمر مبارک کے پچیسویں سال تک تجارتی اسفار میں اپنے اخلاقِ کریمانہ، حسن معاملہ، راست بازی، صدق ودیانت کے وجہ سے اتنے زیادہ مشہور ہو چکے تھے کہ خلقِ خدا میں آپ ”صادق وامین “کے لقب سے مشہور ہو گئے تھے، لوگ کھلے اعتماد کے ساتھ آپ کے پاس بے دھڑک اپنی امانتیں رکھواتے تھے، انہی خصائل کی بنا پر حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا کی رغبت نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی طرف ہوئی تھی اور پیغام ِ نکاح بھیج دیا تھا۔

لڑائی جھگڑے سے پرہیز کرنا
تجارتی معاملات کی کام یابی کے لیے معاملات کی صفائی اور لڑائی جھگڑے سے پرہیز اہم ترین کردار ادا کرتا ہے اور یہ صفات نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم میں بدرجہ اتم موجود تھیں، چناں چہ حضرت قیس فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم زمانہ جاہلیت میں میرے شریک ہوتے تھے اور آپ صلی الله علیہ وسلم شرکاء میں سے بہترین شریک تھے، نہ لڑائی کرتے تھے اور نہ ہی جھگڑا کرتے تھے۔ملاحظہ ہو:

قال قیس: ”وکان رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم شریکي في الجاھلیة، فکان خیر شریک، لا یماري ولا یشاري“․ (الإصابة في تمییز الصحابة، القاف بعدھا الیاء، 5/471)

بحث وتکرار سے اجتناب
مسلمان تاجر کی صفات میں سے ایک صفت معاملات کے وقت شور شرابا اور آپس کی بے جا بحث وتکرار سے بچنا بھی ہے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے اس وصف عظیم کی گواہی زمانہ نبوت سے پہلے بھی دی جاتی تھی، چناں چہ حضرت عبد اللہ بن سائب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا تو آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم آپ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے میری تعریف اور میرا تذکرہ کرنے لگے، تو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں تمہاری نسبت ان سے زائد واقف ہوں۔ میں نے کہا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یا رسول اللہ! آپ سچ فرماتے ہیں، آپ زمانہ جاہلیت میں میرے شریک ہوتے تھے اور آپ کتنے بہترین شریک ہوتے تھے کہ نہ شور شرابا (بحث وتکرار) کرتے تھے اور نہ جھگڑا کرتے تھے۔ملاحظہ ہو:

عن السائب، قال أتیت النبي صلی الله علیہ وسلم، فجعلوا یُثنُونَ عليّ ویذکروني، فقال رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم: ”أنا أعلمکم“، یعنی: بہ، قلت: صدقت بأبي أنت وأمي، کنت شریکي، فنعم الشریک،کنت لا تُداري ولا تُماري․ (سنن أبي داوٴد، کتاب الأدب، باب في کراھیة المراء، رقم الحدیث: 4838)

ایفائے وعدہ
وعدوں کی پاس داری تجّار کی بہت بڑی خوبی شمار ہوتی ہے، آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے اندر یہ وصف کیسا تھا؟! اس بارے میں ”حضرت عبد اللہ بن ابی حمسآء رضی اللہ عنہ “ سے روایت ہے کہ میں نے نبوت ملنے سے قبل آپ سے خرید وفروخت کا ایک معاملہ کیا، خریدی گئی شے کی قیمت میں سے کچھ رقم میرے ذمہ باقی رہ گئی، تو میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے وعدہ کیا کہ میں کل اسی جگہ آ کر آپ کو بقیہ رقم ادا کر دوں گا، پھر میں بھول گیا اور مجھے تین روز بعد یاد آیا، میں اس جگہ گیا، تو دیکھا کہ جناب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اسی جگہ تشریف فرما ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اے نوجوان! تم نے مجھے اذیت پہنچائی، میں تین دن سے اسی جگہ پر تمہارا منتظر ہوں۔ملاحظہ ہو:

عن عبد اللہ بن أبي الحمساء قال: بایعتُ النبيَّ صلی الله علیہ وسلم بِبَیْعٍ قَبلَ أنْ یُبعَث، وبَقِیَتْ لہ بقیةٌ، فوعدتُّہ أنْ آتیَہ بھا في مکانِہ، فنسیتُ، ثم ذکرتُ بعد ثلاثٍ، فجئتُ، فإذا ھو في مکانِہ، فقال: ”یا فتیً! لقد شققتَ عليَّ، أنا ھا ھُنا منذُ ثلاثٍ، أنتظِرُک“․ (سنن أبي داود، کتاب الأدب، باب في العدة، رقم الحدیث: 4998)

نبوت کے بعد معاشی صورت حال
جناب ِ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمنے نبوت مل جانے کے بعد حصول معاش کے لیے کچھ کیا یا نہیں؟ اس بارے میں بالاتفاق قول فیصل یہ ہے کہ بعثت کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی محنت اور توجہ صرف اور صرف احیائے دینِ متین کی طرف مبذول کر دی تھی، بعثت کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم سے کسی بھی قسم کی معاشی مشغولیت کا ثبوت نہیں ملتاہے، البتہ ! دین کے دیگر شعبوں کی طرف راہنمائی کی طرح اس شعبے کی بھی بہت واضح اور تفصیلی انداز میں راہنمائی کی، اس میدان سے کام یابی کے ساتھ گذر جانے والوں کو جہاں بہت بڑی بڑی بشارتیں سنائیں تو وہاں اس میدان کے چور، ڈاکووٴں اور خائنوں کو وعیدیں سنا سنا کر انہیں لوٹ آنے کی طرف بھی متوجہ کیا، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے فرمودات کا جائزہ لیا جائے تو عبادت کے احکام اور معاملات کے احکام میں ایک اور تین کی نسبت نظر آئے گی، یعنی : عبادات سے متعلق احکام ایک ربع اور معاملات سے متعلق احکام تین ربع ملیں گے، چناں چہ! کتبِ فقہ میں اہم ترین کتاب” ہدایہ “کو دیکھ لیا جائے کہ اس کی چار ضخیم جلدوں میں سے صرف ایک جلد عبادات کے بارے میں ہے اور تین جلدیں معاملات کے بارے میں ہیں، اسی سے شعبہ معاملات کی اہمیت کا اندازہ کر لیا جائے۔ (جاری)

Flag Counter