سماجی انصاف تعلیمات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں
متعلم مسعود عظمت کشمیری
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل عرب دنیا، بلکہ دنیائے عالم جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں گھری ہوئی تھی، لڑائی جھگڑے،فتنہ فساد،قتل و غارت، ظلم وتعدی روز مرہ کے معمولات میں داخل تھے۔غریب اور امیر کے درمیان فرق رکھا جاتا۔رنگ و نسل کا امتیاز اور اپنے حسب و نسب پر فخر کیا جاتا ۔محفلوں کے اندر اپنے اپنے حسب نسب کے بارے میں اشعار پڑھے جاتے ۔معاشرہ کے اندر،شراب نوشی،جھوٹ و فریب ،دغا بازی،فسق وفجور عام تھا۔مظلوموں اورناتواں لوگوں کی داد رسی کے لیے کوئی قاعدہ قانون نہیں تھا، جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون چلتا تھا، جو جتنا زیادہ مال و دولت اور خاندانی اعتبار سے ذی و جاہت ہوتا اس کی اتنی ہی زیادہ عزت و تکریم کی جاتی، خواہ یہ شخص بدکرداری ناانصافی اور ظلم و جور میں کتنا ہی آگے بڑھا ہوا ہو، پھر بھی عزت و شرافت کا تاج اس کے سر پر سجایا جاتا ۔
عورت معاشرے کی ایک مظلوم ہستی تھی، اس کو کوئی عزت و تکریم نہیں دی جاتی ۔جانوروں سے بدتر سلوک کیا جاتا۔جب چاہا گلا گھونٹ کر قتل کردیا جب چاہا مٹی کے اندر زندہ درگور کردیا ،بچی کی پیدائش کو اس گھر کے لیے عار سمجھا جاتا، جب کسی عورت کا شوہر فوت ہوجاتا اسی عورت کو وراثت میں تقسیم کیا جاتا۔چوری اور ڈاکہ زنی کے کارنامے اپنی مجلسوں میں فخر سے بیان کیے جاتے۔معاشرے کے اندر ظلم و ستم کی بادِسموم چل رہی تھی، انسانیت اس سے تنگ آچکی تھی۔ بت پرستی کی وجہ سے دلوں پر زنگ پڑ چکا تھا، اس وقت رب کائنات کو اپنے بندوں پر رحم آتا ہے۔چناں چہ اپنے سب سے آخری پیغمبر، سرور کائنات، آقائے دوجہاں، رحمت کائنا ت، حضرت محمدصلی الله علیہ وسلم کو اس د نیا میں مبعوث فرمایا، تا کہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھی راہ دکھائی جائے اور شرک کے بھڑکتے ہوئے شعلوں کو توحید کی رم جھم سے ٹھنڈا کیا جائے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کا بچپن لڑکپن اور جوانی مکہ میں ہی گزری لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم کو صادق و امین کے لقب سے پکارتے تھے۔
بعثت سے پہلے سماجی انصاف
نبوت ملنے سے پہلے ہی آپ علیہ السلام نے سماجی انصاف کی کوشش و سعی کی، جب مکہ میں اندر سیلاب آیا اور اس سے خانہ کعبہ کی دیواریں گر گئیں تو تمام عرب قبائل جمع ہوئے اور مشورہ ہوا کہ خانہ کعبہ کی ازسرنو تعمیر کی جائے۔ چناں چہ اس کے لیے چندہ جمع ہونا شروع ہوا، شرط یہ لگائی تھی جو بھی مال ہو گا وہ لوٹ مار کے ذریعے حاصل کیا ہوا نہیں ہو گا، صرف حلال مال ہی ہو گا، تب خانہ کعبہ کی تعمیر ہونا شروع ہوئی، جب تعمیر مکمل ہوئی اورحجر اسود رکھنے کی باری آئی تو ہرایک قبیلہ یہ چاہتا تھا کہ یہ سعادت اس کے حصے میں آئے چناں چہ بحث و مباحثہ ہونے لگا، بحث نے طول پکڑنا شروع کردیا، تلواریں نیاموں سے باہر آگئیں، قریب تھا کہ لڑائی چھڑ جاتی، قوم کے سنجیدہ لوگوں نے مشورہ دیا کہ کل جو شخص سب سے پہلے خانہ کعبہ میں داخل ہوگا وہی اس بات کا فیصلہ کرے گا۔
چناں چہ دوسرے دن جب لوگ خانہ کعبہ میں پہنچے تو دیکھا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم وہاں کھڑے ہیں، چنا ں چہ سب لوگوں نے آپ علیہ السلام کو اپنا حَکَم تسلیم کر لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر منگوائی اور اس میں حجر اسود کو رکھا، پھر فرمایا کہ ہر قبیلہ کا ایک آدمی یا سردار اس چادر کے ایک ایک کونے کو پکڑے اور دیوار تک لے جائے۔ دیوار کے قریب جب حجر اسود پہنچا تو آپ علیہ السلام نے وہاں سے حجر اسود کو اٹھایا اور اپنی جگہ پر رکھ دیا ۔ اس طرح قوم کو ایک بڑی لڑائی سے بچا لیا۔اسی طرح ایک اور موقع پر جب قریش کے معزز لوگ بیٹھے اور یہ فیصلہ کیا کہ مظلوموں کی دادرسی اور ان کی حمایت کی جائے اور کوئی شخص غریب و مفلس اور نادار لوگوں پر ظلم نہیں کرے گا۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں موجود تھے اور اس معاہدے میں شریک تھے، جس سے معاشرہ کے اندر عدل و انصاف ،رواداری بھائی چارہ کی فضا قائم ہوئی۔
نبوت ملنے کے بعد سماجی انصاف
نبوت ملنے کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اچھا معاشرہ قائم کرنے کے لیے بے شمار کوششیں کیں، لوگوں کے گھر گھر جا کر دین کی دعوت دی اور ایک خدائے واحد کی عبادت کرنے اور اسی سے مانگنے کی دعوت دی، وہی لوگ جو پہلے آپ علیہ السلام کو صادق و امین کے القاب سے نوازتے تھے، اب آپ علیہ السلام کے جانی دشمن بن گئے، آپ علیہ السلام اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کو اذیت ناک تکلیفیں دیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کو تپتے انگاروں پر لٹایا جاتا، گرم دوپہرمیں زمین پر گھسیٹا جاتا جس سے جسم کی کھا ل اتر جاتی کبھی اتنا مارا جاتا کہ بے ہوش ہوکر گر پڑتے، لیکن پھر بھی زبان پر اَحد اَحد ہی جاری رہتا ۔جب قریش کی تکلیفیں بہت بڑھ گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ہجرت کرنے کی اجازت دے دی ۔
جب لوگ جانی دشمن بنے ہوئے تھے، قتل کی سازشیں ہورہی تھیں، طرح طرح کی اذیتیں دی جاتی تھیں، اس وقت بھی لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنی امانتیں رکھواتے، لوگوں کو آپ علیہ السلام کی امانت و دیانت پر اتنا یقین تھا۔یہی تو وہ انصاف تھا کہ ایک مرتبہ جب کوئی شخص آپ علیہ السلام کی بات سن لیتا تو وہ دشمن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی بن جاتا ،آخر کار اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ علیہ السلام نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی اور مدینہ منورہ جاکر اسلام کی دعوت کو عام کیا۔
ریاست مدینہ کی تشکیل اور سماجی انصاف
ریاست مدینہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنا قدم رکھا اور مہاجرین آہستہ آہستہ مکہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کر رہے تھے تو اس وقت سب سے اہم مسئلہ وہاں پر مہاجرین کو بسانا تھا، آپ علیہ السلام نے مہاجرین اور انصار کو بھائی بھائی بنا دیا۔اور ان کے درمیان مواخات قائم کی، انصار نے اپنے مہاجر بھائیوں کے لیے اپنے گھر کے دروازے کھول دیے، اپنے باغات ،مال و جائیدادمیں مہاجرین کو شامل کیا، یہ وہ سماجی انصاف تھا جس کی وجہ سے مدینہ میں پُر امن فضا قائم ہوئی۔
ریاست مدینہ میں انصار کے دو قبیلوں اوس اور خزرج کے علاوہ یہود کے قبائل بنو قریظہ ،بنونفیر اور بنو قینقاع وغیرہ بھی بستے تھے، چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں تشریف لانے کے لیے یہود مدینہ سے دفاعی معاہدے کیے، جس کی وجہ سے یہ لوگ ایک دوسرے کے مدد گار ثابت ہوں گے اور مدینہ کے اندر امن و امان کی فضا برقرار ہوگی۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد عرب قبائل کے اخلاق و عادات میں نمایاں فرق رونما ہوا،وہ لوٹ مار،قتل و غارت،راہ زنی اور ڈاکہ زنی اور دوسری برائیوں سے تائب ہوکر باہمی تعاون ،حسن سلوک،اخلاق فاضلہ و حمیدہ کے خوگر ہوگئے، امانت و دیانت، صدق و وفا ،مودت و اخوت اور عدل و انصاف جیسی صفات کے حامل بن گئے۔اسلام نے پہلی مرتبہ ایک ایسے معاشرہ کو جنم دیا جو صراطِ مستقیم اور راہ اعتدال پر گام زن رہا، اس معاشرہ کا ہرہر فرد نیکی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والا اور برائی سے نفرت کرنے والا بن گیا۔یہی فرد جو پہلے قتل و غارت،لوٹ مار،شراب و کباب کا رسیا تھا ،جس کی صبحیں اور شامیں فسق و فجور میں گزرتی تھیں۔ اب امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو اپنا فرض منصبی سمجھنے لگا، دنیا میں عدل و انصاف اس صورت میں قائم ہو سکتا ہے جب قانون سب کے لیے برابر ہو غریب امیر،مفلس و مال دار، اونچے حسب نسب والے اور کم حسب نسب والے کے لیے قانون ایک ہی ہو، ان کے درمیان کسی چیز کا امتیاز باقی نہیں رہنا چاہیے، دنیا کی دوسری اقوام نے خواہ وہ یورپی ہوں یا ماقبل اسلام کی یونانی اور رومی تہذیبیں، سب تہذیبوں میں غریب اور امیر کے درمیان فرق باقی رکھا گیا، رنگ و نسل کی وجہ سے صدیوں کالی نسل کے لوگ غلام بنتے رہے۔امریکہ جب دریافت ہوا وہاں پر مقامی آبادی کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔افریقہ سے سینکڑوں قیدی لاکر اُن سے جانوروں جیسا سلوک کیا گیا، جب کوئی غلام کام کے قابل نہ رہتا اسی وقت اسے قتل کردیا جاتا، یہی سوچ آج تک اس قوم کے اندر باقی ہے۔۔
اس طرح ہند والے بھی ذات پاتوں میں تقسیم ہوئے، برہمن، شودر،کھشتری وغیرہ کی تقسیم، جس سے معاشرے میں طبقاتی نظام قائم ہوا برہمن کے لیے الگ قانون اور شودر کے لیے الگ قانون۔ اسی ذات پات کی تقسیم نے معاشرہ کو برائیوں کے گڑھے میں گرا دیا، لیکن جب ہم اسلام کااولین دور دیکھتے ہیں اور اسلام کے سماجی نظام کو پڑھتے ہیں تو ہمیں انسانوں کے اندر کوئی تفریق نظر نہیں آتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرہ ہی ایسا تشکیل دیا تھا کہ وہاں پرنا انصافی کاتصور ہی ناممکن تھا ،ایک مرتبہ قریش کے ایک معزز خاندان کی عورت نے چوری کرلی، یہ واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان ہوا، آپ علیہ السلام نے ثبوت مہیا ہونے پر اس عورت کا ہاتھ کاٹنے کا حکم فرمایا، جب یہ خبر اس کے خاندان والوں کو ملی تو وہ حضرت زید بن حارثہ کے پاس آئے اور اُن سے سفارش کی درخواست کی، سفارش کی درخواست لے کر حضرت زید بن حارثہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس عورت کی سفار ش کی، اس بات کا سننا تھا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ متغیر ہوگیا پھر فرمایا کہ تم سے پہلی قومیں اسی وجہ ہلاک ہوئیں کہ جب ان کا کوئی بڑا آدمی غلطی وجرم کرتا تو اسے معاف کردیا جاتا اور جب کوئی غریب ومفلس جرم کرتا تو اسے پوری سزا ملتی ۔خدا کی قسم !اگر آج اس عورت کی جگہ فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہوتی تو میں اسے یہی سزا سناتا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس سز ا کے سنانے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی تعلیمات میں رنگ و نسل، حسب و نسب کی کوئی تخصیص نہیں، اسی طرح جو شخص جرم کا مرتکب ہوگا سزا بھی وہی بھگتے گا، نہ کہ اس کی جگہ دوسرے آدمی کو سزا ملے گی۔آپ صلی اللہعلیہ وسلم نے جہاں سماجی انصاف کے لیے جرائم کرنے پر سزائیں دیں، وہاں اگر کسی سے کوئی غلطی سرزد ہوئی ہو جس سے اسلامی تعلیمات اور خدا اور اس کے رسول کا کوئی حکم نہ ٹوٹتا ہوتو وہاں عفو و درگزر سے بھی کام لیا، کئی لوگوں کی باتیں ناگوار گزرتیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُسے معاف کردیتے، ایک مرتبہ آپ علیہ السلام نے ایک شخص سے کوئی معاملہ کیا، اس شخص وعدہ کیا کہ آپ یہی تشریف رکھیں، میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔ وہ شخص گھرجاکر بھول گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تین دن وہاں پر رہے، تیسرے دن جب اس شخص کو یاد آیا تو فوراًبھاگتا ہوا آیا، جب آپ علیہ السلام نے اُسے دیکھا تو نہ اُسے ڈرایا نہ دھمکایا، بس صرف اتنا فرمایا کہ تم نے مجھے بہت تکلیف دی ۔یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ ہی تھے کہ دشمن دوست بن جاتے۔ راہ زن راہ بر بن جاتے۔
بادشاہوں کے نام خطوط
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی کا اصل اور منتہائے مقصود اسلام کی سربلندی اور کامرانی تھی، اس پورے عرصے آپ علیہ السلام تن من دھن سے بکھرے ہوئے اور گروہوں میں بٹے ہوئے لوگوں کو اتحاد کی لڑی میں پرونے،پرانی رقابتوں ،عصبیتوں کو مٹانے، سب لوگوں میں حقیقی بھائیوں جیسی اخو ت و محبت بیدار کرنے نفرتیں اور کدورتیں دور کر کے انسان کے ساتھ پیار کے جذبے کو بیدار کرنے اور جہالت کے زمانے کی تمام سماجی برائیوں کو ختم کرنے میں لگ گئے۔ آپ علیہ السلام نے پوری مدنی زندگی اسی مقصد و مشن، جو عظیم و برتر تھا ،کو پورا کرنے کے لیے اور اس مشن و مقصد کو عملی صورت دینے کی کوشش کی یہ وہ وقت تھا جب آپ علیہ السلام کو اس کے اختیار و ذرائع مل چکے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سوچوں ،خیالوں،جذبوں کو عملی شکل دے سکیں اور اسلام کے نظری اصولوں کو روزمرہ زندگی کے معمولات کا حصہ بنادیں، اس غرض کے لیے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بیرونی ملکوں میں اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے سفیر اور ایلچی بھیجے اور غیر ملکوں کے نام ور بادشاہوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت تحریری صورت میں دی۔
ان میں سے کچھ بادشاہوں نے مکتوبات کے جوابات بھی دیے، جب کہ کچھ ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے رسید تک نہ دی اور آپ علیہ السلام کے نامہ مبارک کو پھاڑ ڈالا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے خلاف عملی مزاحمت بھی کی، جنہوں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا تھا، مخالفین اسلام کے خلاف رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی ہرجہادی مہم کام یاب اور اسلامی فوج فتح سے ہم کنار ہوئی۔
مذہبی رواداری
ایک صحیح اور سماجی معاشرے کے لیے ضروری ہے کہ وہاں ایک دوسرے کے حقوق کا بھی خیال رکھا جائے، پڑوسی ہو توپڑوسی کے حقوق ادا کرے، گھر کا سربراہ ہوتو سربراہ کی حیثیت سے جو ذمہ داریاں اس پر عائد ہوتی ہیں ان کو پورا کرے، اسی طرح ایک معاشرہ میں مسلمانوں کے علاوہ اگر کسی دوسرے مذہب کے ماننے والے سکھ ،ہندو،عیسائی ،یہودی بستے ہوں تو ان کے مذاہب وادیان کے متعلق قرآن مجید میں واضح احکام موجود ہیں۔ اسی طرح اسلام کے اندر دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کی حفاظت کا ذکر بھی ہے۔ اپنے معبدوں کی حفاظت ایک فطری بات ہے اور یہ اجتماعی نفسیات کی ایک بنیادی حقیقت ہے ایسے حالات میں جب کفار و مشرکین مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کرتے اور جنگ و جدل میں حصے لیتے مسلمانوں کو حکم دیا جاتا ہے کہ ان کے عبادت خانوں کو کوئی نقصان نہ ہو، جنگ میں راہبوں اور مذہبی راہ نماؤں کو کوئی تکلیف نہ دی جائے، صرف ان لوگوں کو قتل کیا جائے جو میدان جنگ میں آکر تمہارے خلاف تلوار اٹھاتے ہیں ۔یہی وہ نظریہ تھا جس کے باعث اسلامی ملکوں میں اسلامی سیاسی استیلا کے باوجود غیر مسلم ملتیں اپنی انفرادی زندگی اور تمدن و تہذیب کو برقرار رکھ سکیں ۔ ہسپانیہ میں تقریباًآٹھ صدی تک مسلمانوں کی حکومت رہی، لیکن انہوں نے کبھی دباؤ یا جبر سے غیر مسلموں کو مسلمان بنانے کی کوشش نہیں کی ۔ اس سیقبل تاریخ اسلام پر نظر دوڑائی جائے اور خلفائے راشدین کے دور کو دیکھا جائے تو کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ کسی مسلمان نے یا سپہ سالار نے کسی کافر ذمی کو زبر دستی اسلام قبول کرنے پر مجبورکیا ہو۔ حضرت عمر فاروق ،جن کے راستے سے شیطان بھی بھاگ جاتاتھا اور ساڑھے بائیس لاکھ مربع میل پر دس سال سے زائد عرصے تک حکومت کی اور خلافت کے نظام کو چلایا ۔تاریخ ایک واقعہ بھی ایسا پیش کرنے سے قاصر ہے کہ کسی کافر و مشرک کو زور او ر زبردستی سے اسلام میں داخل کیا گیا ہو۔اسی طرح حضرت ابو بکر صدیق کا دو ڈھائی سالہ دور، نیز حضرت عثمان اور حضرت علی کے دور حکومت میں بھی کوئی ایک واقعہ ایسا نہیں گزرا۔
آپ علیہ السلام میدان جنگ میں
ایک قول مشہور ہے کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے۔ یعنی جس کو چاہو قتل کرو،لوٹ مار کرو،کھیتیاں تباہ و برباد کرو،آبادیاں ویران کردو، انسانوں کی کھوپڑیوں کیمینار بنادو، سب کچھ جائز ہے ،لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اصلاحی اور سماجی معاشرہ قائم کرنا تھا، بدی اور برائی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا تھا، اس کے لیے زندگی کے ہر گوشے اور ہر پہلو پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام ہیں، کیوں کہ یہ دین قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے ہے، یہ صرف کسی قوم، قبیلہ، آبادی اور علاقے کے ساتھ مخصوص نہیں، بلکہ تمام کائنات کے انسانوں کے لیے ہے، جو چاہے اسلام میں داخل ہو سکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے جنگ وامن، خوش حالی و بدحالی ،کی صورتوں میں انسان کو پیش آنے والے حالات کے متعلق بھی احکام بتائے، چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جنگ کے دوران بچوں ،بوڑھوں اور عورتوں کو قتل نہ کیا جائے،معبد خانوں، کلیساؤں اور مذہبی عبادت گاہوں کو اپنی حالت پر برقرار رہنے دیا جائے اور جو شخص تم سے امان کا طلب گار ہو اور تم میں سے کوئی ادنیٰ مسلمان بھی اس کو پناہ دے دے تو اب تم اس کو قتل نہیں کرسکتے۔ اسی طرح مذہبی راہ نماؤں،پادریوں کو بھی قتل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ہاں! اگر یہ لشکر کے ساتھ ساتھ جنگ میں شریک ہوں تو تم ان کو بھی قتل کر سکتے ہو۔
فتح مکہ کے بعد
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سن 8ھمیں مکہ فتح کیا تو لوگوں کے ذہنوں میں خیال تھا کہ آپ علیہ السلام کفار و مشرکین سے انتقام لیں گے کیوں کہ مشرکین مکہ نے مسلمانوں کے اوپر ظلم کے پہاڑ توڑے تھے جلتے انگاروں پر لٹایا جاتا تھا۔کبھی گلے میں رسی ڈال کر مکہ کی گلیوں میں گھمایا جاتااور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اونٹ کی اوجھڑی ڈال دی جاتی ،کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گلے میں چادر ڈال دی جاتی اور اُسے کھینچا جاتا۔ یہ وہ سب تکلیفیں تھیں جو مسلمان مشرکین کے ہاتھوں سہتے تھے، پھر تین سال تک شعب ابی طالب کی گھاٹی میں قید رکھا گیا،تجارت،نکاح،خریدو فروخت سب کچھ بند،مسلمانوں کے بچے بھوک سے تڑپتے رہتے ۔لیکن کوئی ان کی چیخ و پکار کو نہیں سنتا تھا، کھانے پینے کی اشیا جب ختم ہو گئیں اور پیچھے کچھ باقی نہ رہا تو اس وقت سوکھے چمڑے کو پانی میں اُبال کر کھایا جاتا، یہ سب تکلیفیں کفار و مشرکین کے ہاتھوں مسلمانوں کو سہنی پڑی تھیں، اس وجہ سے لوگوں کا خیال تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے انتقام لیں گے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں داخل ہونے کے بعد اعلان کردیا کہ جو کوئی اپنے گھر کا دروازہ بند کرے گا وہ امن میں ہے، اسی طرح وہ شخص جو ابو سفیانکے گھر میں داخل ہوگا وہ بھی امن میں ہے۔حالاں کہ آج سے پہلے حضرت ابو سفیان کی تلوار اور کوشش اسلام مخالف ہی ہوتی تھی، مشرکین مکہ نے معرکہٴ بدرمیں بڑے بڑے سرداروں کے قتل ہونے کے بعد آپ ہی کو اپنا سردار مقرر کیا تھا، لیکن فتح مکہ کے موقع پر آپ علیہ السلام فرما رہے ہیں کہ جو کوئی ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوگا وہ بھی امن میں ہے۔ اسی طرح جو شخص خانہ کعبہ میں پناہ لے گا وہ بھی امن میں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اعلان سے مشرکین مکہ اسلا م کی تعلیمات اور آپ علیہ السلام کے اخلاق حسنہ سے اتنے متاثر ہوئے کہ وہ فوراً اسلام کی طرف مائل ہوگئے، بت پرستی اور شرک کے اندھیروں سے نکل کر اسلام کی روشنی میں آگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دشمنوں کو بھی معاف کردیا اور انھیں گلے لگایا۔
معاشی معاملات اور سماجی انصاف
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا﴿یاقوم اوفوا المکیال والمیزان بالقسط ولا تبخسوا الناس اشیاء ھم ولا تعثوا فی الارض مفسدین﴾․
اے قوم!ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پورا پورا کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ کیا کرو اور زمین میں خرابی نہ کرتے پھرو۔
ناپ تول میں کمی کرنا اور خریدنے والے کو کم کر کے دینا معاشرے میں فساد اور بگاڑ کا سبب بنتا ہے ،اسی لیے اللہ تعالیٰ نے حکم نازل فرمایا اسلام نے معاملات اور تجارتی لین دین میں کمی بیشی کرنے سے منع فرمایا، اسی طرح زمین میں خرابی کرنا فساد برپا کرنا نہایت عام بات ہے اس کا مطلب صرف نقص امن نہیں، بلکہ دینی اور اخلاقی نیز معاشرتی اصولوں کی خلاف ورزی سے بھی فتنہ فساد رونما ہوتا ہے۔دوسروں کے حقوق غصب کرنا کسی کے ساتھ زبر دستی کرنا،دھوکہ دینا، دنیاوی کاروبار میں تعطل پیدا کرنا، سب فتنہ فساد کے نتائج وثمرات ہیں۔ اسلام نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا جو حکم دیا وہ اسی سماجی انصاف کے پیش نظر دیا۔ غیر اسلامی ثقافت اور غیروں کی اقدار اپنانے سے مسلمان اس فریضے کو بھول چکے، جس کی وجہ سے فتنہ فساد ہورہا ہے، سماجی انصاف کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اسلام کے پیش کردہ اصولوں کو اپنی زندگی پر لاگو کیا جائے اور اسلام کے مطابق اپنی زندگی گزاری جائے، معاشرہ اور سماج میں انصاف تب ہی برگ و بار لا سکتا ہے جب ہر شخص اپنی ذمہ داری کو پورا کرے۔ دوسرے پر انگلی اٹھانے کے بجائے یہ دیکھے کہ میں کتنا اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارتا ہوں۔دنیا کی سعادت و کامرانی تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان نوجوان اپنی قربانیوں سے ایک پل تعمیر کریں، ایک راستہ متعین کریں اور اسی راستے سے گزر کر وہ زندگی کی منزل تک پہنچ سکتے ہیں۔ زمین جس طرح کھاد کی محتاج ہوتی ہے اور کھاد ڈالنے کے بعد پیداوار میں اضافہ ہوجاتا ہے، اسلام کی کھیتی کی کھاد وہ اسلامی احکام ہیں جن پر چل کر انسان کا م یابیوں اور کامرانیوں کی منزلیں طے کر لیتا ہے اور وہ دوسرے انسانوں سے ممتاز نظر آنے لگتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مثالی معاشرہ قائم کیا، جس کا اعتراف آج تک غیر مسلم بھی کرتے آرہے ہیں اور اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر دین اسلام کے دامن میں پناہ لے رہے ہیں کیوں کہ وہ کفروشرک کے اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں، امن و سکون ان کے دلوں کو حاصل نہیں ہے، صرف ظاہری دکھانے کے لیے اپنے اپنے مذاہب سے چمٹے ہوئے ہیں، حالاں کہ امن وسلامتی صرف اور صرف اسلامی تعلیمات اور اسلامی معاشرہ کو اختیار کرنے ہی سے حاصل ہو سکتی ہے، دنیا کے دوسرے مذاہب اپنی اہمیت و افادیت کھو چکے ہیں، اپنی حقیقت گم کر چکے ہیں، اب نجات ہے تو صرف اسلام کو قبول کرنے میں ہے، کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں ،وہ خاتم الانبیاء ہیں، ان کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا اور نجات صرف اسلام کے دامن سے وابستہ رہنے میں ہی ہے۔