Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1436ھ

ہ رسالہ

1 - 16
مرنے کے لیے زندہ

 عبید اللہ خالد
	
پوری کائنات کا نظم و نسق اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور وہی اس کائنات کے ایک ذرے ذرے کو، ایک ایک سیارے کو اپنی ہی طرف سے طے شدہ پلان اور نظم کے مطابق چلا رہا ہے۔ چوں کہ یہ اس کا اپنا طے شدہ پلان ہے تو اس لیے اسے معلوم ہے، کون سی شے کا کیا مقام ہے، کیا مقصد ہے، کیا غرض ہے اور کب تک اس کو باقی رکھنا۔ وہ اپنے حکم سے اس پلان میں جہاں رد وبدل چاہتا ہے، کرتا ہے اور جب چاہتا ہے، جہاں چاہتا ہے، اپنا حکم نافذ کرتا ہے۔ کائنات کی ہر شے اس کے حکم اور خواہش کے مطابق کام میں مصروف ہے۔

مگر ․․․ انسان کو اس نے کچھ تھوڑا سا اختیار بھی دیا ہے۔ انسان کے پاس اتنا سا اختیار ہے کہ وہ اللہ کے حکم کو جب چاہے پورا کرے؛ جب چاہے، پہلو تہی برتے۔ انسان کے پاس اختیار ہے کہ وہ اس دنیا میں رہتے ہوئے اللہ کی خواہش پر اپنی خواہش کو قربان کردے یا اپنی خواہش کو اللہ کی خواہش پر برتر رکھے۔ انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کے احکام اسلامی تعلیمات کی صورت میں موجود ہیں جو درحقیقت اس کے لیے زندگی گزارنے کا رہ نمایانہ ضابطہ بھی ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ اسے یہ انتباہ بھی کردیا گیا ہے کہ وہ جو کچھ الله تعالیٰ کے احکام کے خلاف اپنی مرضی سے کرنا چاہتا ہے، کرلے مگر درحقیقت اسے پابندی اللہ کے حکم ہی کی کرنی چاہیے اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے حکم کی پابندی نہیں کریں گے، انھیں اللہ تعالیٰ ایک حد تک تو مہلت دے گا، لیکن اس مہلت کے اختتام پر ان لوگوں کو اپنی نافرمانی کی سزا بھگتنی پڑے گی۔

یہ مہلت عموماً زندگی کے اختتام پر ختم ہوجاتی ہے اور جب انسان مرتا ہے تو اس کا وہ تھوڑا سا اختیار بھی ختم کردیا جاتا ہے۔ اب وہ دور شروع ہوتا ہے کہ جب انسان کو اپنے اُن اعمال کا حساب دینا ہے جو وہ دنیا میں اپنے اختیار کے ساتھ کرتا رہا ہے۔ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اگرچہ خاصی حد تک عمل کی چھوٹ دے رکھی تھی، اس لیے آدمی اس غلط فہمی میں مبتلا تھا کہ وہی سب کچھ ہے، اللہ کی پکڑ اسے کہاں اور کیسے دبوچے گی، لیکن یہ غلط فہمی اسی لمحے ختم ہوجاتی ہے کہ جب انسان موت کی طرف بڑھنا شروع کردیتا ہے۔ اکثر موت کے ساتھ اور بعض اوقات موت سے کچھ پہلے بھی انسان کے سامنے اس کے اعمال آنے لگتے ہیں۔ تب وہ کف افسوس ملتا ہے۔ دل میں کچھ سوز ہو تو روتا ہے اور اپنے ان ایام کو جنھیں کبھی وہ طویل اور لامحدود گردانتا تھا، اسے بہت ہی مختصرسا گزرا ہوا لمحہ محسوس ہونے لگتے ہیں۔

ذرا غور کیجیے، اپنے چالیس پچاس یا ساٹھ سال والی زندگی کے لیے جو انسان بہت کچھ کرتا ہے، جب یہ برس بیت جاتے ہیں، کتنی مختصر اور مہین سے دکھائی دیتے ہیں۔ اسے اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ جن دنوں کے لیے راتوں کو جاگ جاگ کر محنت کرتا تھا، وہ پلک جھپکتے میں بیت گئے۔ جس جوانی پرغرور تھا، وہ لمحوں میں ڈھل گئی۔ جس صلاحیت پر اسے مان تھا، وہ مضمحل ہوگئی۔ جس کامیابی کے لیے دن رات ایک کیے تھے، وہ آئی اور بیت گئی۔ وہ گھر بار جس کی خاطر سخت دوڑ دھوپ کی تھی، وہ دولت کدہ اب اس کے پاس نہیں۔

اسے پتا چلتا ہے کہ اس کا اصلی گھر تو قبر ہے، خواہ وہ کتنا ہی طرم خاں اور نواب زادہ ہو۔ وہ یہ پہلے بھی جانتا تو تھا مگر دنیا کی رنگینیوں نے اس پر پردہ غفلت ڈال دیا تھا ․․․ اب چونکہ خود اسے اس مٹی کے گھر میں لے جایا جانے والا ہے تو اسے احساس ہوا ہے۔ لیکن یہ وقت احساسِ ندامت کا ہے، کیوں کہ اب اس کے پاس وہ اختیار نہ رہا جس کے بل بوتے پر وہ اپنے اللہ کو خوش کرسکتا۔ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر اپنی ضرورت کو خیر باد کہہ دیتا؛ اللہ تعالیٰ کی خواہش کی خاطر اپنی خواہش کو تج دیتا۔

حدیث نبوی صلى الله عليه وسلم کے مطابق، عقل مند وہ ہے جو مرنے سے پہلے مرنے کی تیاری کرلے․․․ مگر عقل کی اس کسوٹی پر بہت ہی کم لوگ پورے اترتے ہیں․․․ بہت کم لوگ ہیں جو اپنی زندگی کا معیار اپنی موت کو بناتے ہیں․․․ یہاں ہر شخص․․․ زندہ رہنے کے لیے نہیں آیا․․․ مرنے کے لیے زندہ ہے․․․ لیکن زندگی میں کتنی بار سوچا کہ مرنا ہے؟

Flag Counter