Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاول 1435ھ

ہ رسالہ

9 - 15
قناعت کے راہ نما اصول

مفتی ثناء الله ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف، جامعہ فاروقیہ کراچی

چوتھی بات
مال ودولت میں ہمیشہ اپنے سے کم درجے والے پر نظر ہو
شیطان دنیا کے معاملے میں اعلیٰ کو نمونہ بنا کر پیش کرتا ہے اور اس طرح کہتا ہے کہ توکیوں سست ہے ؟ مال داروں کو دیکھ! کس طرح مزے اڑاتے ہیں لذیذ اور خوش ذائقہ کھانے کھاتے ہیں ، عمدہ عمدہ لباس پہنتے ہیں؟ اور دین کے معاملے میں ادنی کو نمونہ بناتا ہے او رکہتا ہے توکیوں اپنے آپ کو تنگی میں مبتلا کیے رکھتا ہے ؟ فلاں شخص کو دیکھ کہ تجھ سے زیادہ علم رکھنے کے باوجود الله سے نہیں ڈرتا اور وہ اس طرح کام کرتا ہے ۔

جب کہ شریعت نے اس کی الٹ تعلیم دی ہے کہ مال ودولت میں تو اپنے سے کم درجے والے پر نظر ہو اور دین داری میں اپنے سے اوپر والے پر نظر ہو ۔

چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”إذا نظر احدکم إلی من فضل علیہ في المال والخلق فلینظر إلی من ھو أسفل منہ“  (الجامع الصحیح للمسلم، کتاب الزھد،407/2، قدیمی)

ترجمہ:” جب تمہاری نظر ایسے شخص پر پڑے ، جسے الله تعالیٰ نے مال اور خلق میں برتری سے نوازا ہے ، تو تمہیں اس شخص کو دیکھنا چاہیے، جس پر تمہیں فوقیت حاصل ہے۔

پانچویں بات
دنیا کی حرص کم ہونی چاہیے
ہر انسان چاہے وہ جتنا بھی مال دار ہو ، وہ اس پر راضی نہیں ہوتا ، بلکہ مزید کی فکر میں ہو جاتا ہے او رجو کچھ الله تعالیٰ نے اسے دیا ہے ، اسے کم تصور کرتا ہے ، لہٰذا زیادہ سے زیادہ کمانے کے چکر میں دن رات فکر مند رہتا ہے۔

چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”لو کان لابن آدم وادیان من مال لا بتغی ثالثاً، ولا یملأ جوف ابن آدم إلا التراب  (الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الرقاق، باب ما یتقی من فتنة المال، رقم الحدیث:6436)

آدمی کی حرص کا یہ حال ہے کہ اگر اس کے پاس دو وادیاں مال کی ہوں، تو وہ تیسری کی تلاش کرے گا او رابن آدم کے پیٹ کو صرف مٹی ہی بھرتی ہے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم کی نصیحت
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کی روایت ہے کہ سرکار دو عالم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:”کن ورعا تکن اعبدالناس، وکن قنعا تکن اشکر الناس، وأحب للناس ماتحب لنفسک تکن مؤمنا․(سنن ابن ماجہ، ابواب الزھد، باب الورع والتقوی،ص:311، قدیمی)

ورع اختیار کر تو لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت کرنے والا ہو جائے گا ، قناعت پسند بن تو لوگوں میں سب سے زیادہ شکر کرنے والا بن جائے گا اور لوگوں کے لیے وہی چیز پسند کر جو تو اپنے لیے پسند کرتا ہے ، ایسا کرنے سے تومومن ہو جائے گا۔

انتہائی حریض اور طامع آدمی کی مثال
شعبی کہتے ہیں کہ ایک شکاری نے چڑیا پکڑی ، اس نے پوچھا تم میرا کیا کرو گے؟ شکاری نے جواب دیا ، ذبح کرکے کھاؤں گا، چڑیا نے کہا کہ میرا یہ تھوڑا سا گوشت نہ تیری بھوک مٹائے گا ، نہ تجھے شکم سیرکرے گا ، البتہ میں تجھے تین باتیں ایسی بتلا دیتی ہوں ، جو تیرے لیے میرے گوشت سے زیادہ مفید ثابت ہوں گی ، ایک بات میں ابھی بتلائے دیتی ہوں ، دوسری اس وقت بتلاؤں گی جب تو مجھے آزاد کردے گا اور میں تیری قید سے نکل کر درخت پر جا بیٹھوں گی اور تیسری اس وقت، جب میں پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ جاؤ ں گی، شکاری نے کہا، اچھا پہلی بات بتلا، اس نے کہا ، گزری ہوئی بات پر افسوس مت کرنا، شکاری نے اسے آزاد کر دیا ، جب وہ اڑ کر درخت پر پہنچ گئی ، تو شکاری نے کہا ، اب دوسری بات بیان کر، اس نے کہا جو بات ناممکن ہو ، اس کا یقین مت کرنا، اتناکہہ کر وہ درخت سے اڑی اور پہاڑ کی چوٹی پر جا بیٹھی ، شکار ی نے کہا ، اب تیسری بات بتلا، اس نے کہا ، اے بدبخت! اگر تو مجھے ذبح کرتا ، تو میرے معدے سے دو بیش قیمت موتی نکلتے، ہر موتی کا وزن بیس مثقال ہوتا ، یہ سن کر شکار ی نے غم وغصے کی شدت سے اپنے ہونٹ کاٹ لیے او رکہنے لگا ، مجھے تیسری بات بتلا، چڑیا نے کہا تیسری بات کیسے بتلاؤں؟ تو پہلی دو باتیں بھول گیا ہے ، کیا میں نے تجھے یہ نہیں بتلایا تھاکہ جو گزر جائے اس پر افسوس مت کرنا اور جو ناممکن ہو ، اس کا یقین مت کرنا، میرا گوشت خون ، سب مل کر بھی بیس مثقال کے برابر نہیں ہو سکتے، چہ جائیکہ میرے پوٹے میں بیس مثقال کے دو موتی ہوں، اتنا کہہ کر چڑیا اڑ گئی۔

یہ واقعہ انتہائی حریص اور لالچی آدمی کی مثال ہے، وہ شدت حرص کی وجہ سے حق کے ادراک سے اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے اور غیر ممکن کو ممکن تصور کر بیٹھتا ہے۔ ( اتحاف السادة المتقین، کتاب ذم البخل وذم حب المال،704/9 دارالکتب)

چھٹی بات
بقدر کفایت موجود ہو تو مستقبل کے لیے بے چین نہ ہونا
چھٹی بات یہ ہے کہ اگر فی الوقت بقدر کفایت موجود ہو تو مستقبل کے لیے زیادہ مضطرب اور بے چین نہ ہونا چاہیے ، اگر آدمی اپنی امیدیں مختصر کر دے اور اس اعتقاد کو راسخ کرلے کہ جو رزق مقدر ہے وہ مل کر رہے گا ، خواہ حرص ہو یا نہ ہو تو مستقبل کی فکر پریشان نہیں کرے گی۔

انسان کی امیدوں کی مثال
حضرت ابن مسعود رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے زمین پر ایک مربع بنایا، اس کے بیچ میں ایک لکیرکھینچی ، جو مربع سے باہر نکل گئی او راس کے دونوں طرف چھوٹی چھوٹی لکیریں اس طرف بنا دیں ، جو حصہ اس مربع کے درمیان تھا اور فرمایا: یہ آدمی ہے اور یہ اس کی موت ہے ، جو اس کو گھیرے ہوئے ہے اور وہ خط جو باہر کو نکلا ہوا ہے ، اس کی لمبی آرزوئیں ہیں اور یہ چھوٹی چھوٹی لکیریں اعراض او رمصائب ہیں ، اگر ایک سے بچ نکلا، تو دوسرے میں پھنسا او راس سے نکلا تو پھر کسی او رمیں پھنسا۔ (الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الرقاق، باب فی الأمل وطولہ، رقم الحدیث:6417)

ایک ایمان افروز واقعہ
چناں چہ مستقبل کی فکر کی وجہ سے بسا اوقات انسان مال جمع کرنے اور حرص ، بخل میں اتنا آگے بڑھ جاتا ہے کہ اپنے اوپر حقوق واجبہ کی ادائیگی میں کوتاہی برتنے لگتا ہے ۔

علامہ قرطبی رحمہ الله تعالی نے اپنی سند متصل کے ساتھ حضرت جابر بن عبدالله رضی الله عنہ سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص رسول کریم صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکایت کی ، کہ میرے باپ نے میرا مال لے لیا ہے ، آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: کہ اپنے والد کو بلا کر لاؤ، اسی وقت جبرئیل ں تشریف لائے اور رسول الله صلى الله عليه وسلم سے کہا کہ جب اس کا باپ آجائے ، تو آپ اس سے پوچھیں کہ وہ کلمات کیا ہیں ؟ جو اس نے دل میں کہے ہیں ، خود اس کے کانوں نے بھی ان کو نہیں سنا جب یہ شخص اپنے والدکو لے کر پہنچا تو آپ صلى الله عليه وسلم نے والد سے فرمایا کہ کیا بات ہے ؟ آپ کا بیٹا آپ کی شکایت کرتا ہے ؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ اس کا مال چھین لیں؟ والد نے عرض کیا کہ آپ اسی سے یہ سوال فرمائیں کہ میں اس کی پھوپھی، خالہ یا اپنے نفس کے سوا کہاں خرچ کرتا ہوں ؟رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ ایہ ! جس کا مطلب یہ تھا کہ بس حقیقت معلوم ہو گئی، اب اورکچھ کہنے ، سننے کی ضرورت نہیں ، اس کے بعد اس کے والد سے دریافت فرمایا کہ وہ کلمات کیا ہیں ؟ جن کو ابھی تک خود تمہارے کانوں نے بھی نہیں سنا ، اس شخص نے عرض کیا کہ یا رسول الله! ہمیں ہر معاملہ میں الله تعالیٰ آپ پر ہمارا ایمان اور یقین بڑھا دیتے ہیں جو بات کسی نے نہیں سنی ، اس کی آپ کو اطلاع ہو گئی ، ( جو ایک معجزہ ہے) پھر اس نے عرض کیا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ میں نے چند اشعار دل میں کہے تھے ، جن کو میرے کانوں نے بھی نہیں سنا، آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ وہ ہمیں سناؤ، اس وقت اس نے یہ اشعار سنائے #
        غذوتک مولودا ومنتک یافعا
        تعل بما أجنی علیک وتنھل
میں نے تجھے بچپن میں غذادی اور جوان ہونے کے بعد بھی تمہاری ذمہ داری اٹھائی، تمہارا سب کھانا پینا میری ہی کمائی سے تھا۔
        إذا لیلة ضافتک بالسقیم لم أبت
        لسقمک إلا ساھرا أتململ
جب کسی رات میں تمہیں کوئی بیماری پیش آگئی تو میں نے تمام رات تمہاری بیماری کے سبب بیداری اور بے قراری میں گزاری۔
        کأنی أنا المطروق دونک بالذي
        طرقت بہ دونی فعینی تھمل
گویا کہ تمہاری بیماری مجھے ہی لگ گئی ہے ، تمہیں نہیں، جس کی وجہ سے میں تمام شب روتا رہا۔
        تخاف الردی نفسی علیک وانھا
        لتعلم أن الموت وقت مؤجل
میرا دل تمہاری ہلاکت سے ڈرتا رہا، حالاں کہ میں جانتا تھا کہ موت کا ایک دن مقرر ہے، پہلے پیچھے نہیں ہو سکتی۔
        فلما بلغت السن والغایة التی
        الیھا مدی ما کنت فیک أؤمل
پھر جب تم اس عمر او راس حدتک پہنچ گئے، جس کی میں تمنا کرتا تھا۔
        جعلت جزائی غلظة وفظاظة
        کأنک أنت المنعم المتفضل
تو تم نے میرا بدلہ سختی اور سخت کلامی بنا دیا، گویا کہ تمہی مجھ پر احسان وانعام کر رہے ہو؟!
        فلیتک إذ لم ترع حق أبوتی
        فعلت کما الجار المصاقب یفعل
کاش! اگر تم سے میرے باپ ہونے کاحق ادا نہیں ہو سکتا، تو کم از کم ایسا ہی کر لیتے جیسا کہ ایک شریف پڑوسی کیا کرتا ہے۔
        فأولیتنی حق الجوار ولم تکن
        علی بمال دون مالک تبخل
تو کم از کم مجھے پڑوسی کا حق تو دیا ہوتا اور خود میرے ہی مال میں میرے حق میں بخل سے کام نہ لیا ہوتا۔

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے یہ اشعار سننے کے بعد بیٹے کا گریبان پکڑ لیا اور فرمایا:أنت ومالک لأبیک․ یعنی جا! تو بھی اور تیرا مال بھی سب باپ کا ہے۔ (الجامع لأحکام القرآن للقرطبی، سورہ اسراء :25،245/10 دارالفکر)

ساتویں بات
اپنی تنگی اور پریشانی الله کے سامنے رکھی جائے
ساتویں بات یہ ہے کہ اپنی تنگی او رمشکلات، پریشانی، اپنے رب کے سامنے رکھی جائیں اور مخلوق کے سامنے دست سوال پھیلانے سے حتی الامکان بچنا چاہیے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”من نزلت بہ فاقة فأنزلھا بالناس، لم تسد فاقتہ، ومن نزلت بہ فاقة فأنزلھا بالله فیوشک الله لہ برزق عاجل أو اٰجل“ (سنن الترمذی، کتاب الزھد، باب ماجاء فی الھم فی الدنیا وحبھا، رقم الحدیث:2326)

جس پر فاقہ اترا، یعنی وہ غریبی سے دو چار ہوا ، پس اس نے اس فاقہ کو لوگوں کے پاس اتارا، یعنی لوگوں سے مانگنا شروع کیا، تو اس کا فاقہ بند نہیں کیا جائے گا اور وہ شخص جس پر فاقہ اترا ، پس اس نے اس فاقہ کو الله تعالیٰ کے پاس اتارا، یعنی الله تعالیٰ سے مانگا تو قریب ہے کہ الله تعالیٰ اس کو جلدی یادیر سے روزی عنایت فرمائیں۔ (اور اس کا فاقہ ختم ہو جائے)۔

اسی طرح ایک حدیث میں ہے کہ دنیا میں بغیر ضرورت کے مانگنے کی وجہ سے آخرت میں چہرے پر زخم ہوں گے۔ (مشکوٰة، کتاب الزکوٰة، باب من لا تحل لہ المسألة، رقم الحدیث:1846)

البتہ دو صورتیں مستثنی ہیں:
1...ایک یہ کہ بادشاہ وقت سے سوال کرے ( یا علاقے کا بڑا ہو )۔
2..دوسرا یہ کہ ایسی ضرورت میں مانگے، جس میں مانگنا ناگزیر ہو، انتہائی مجبوری کی حالت میں ان دو صورتوں میں سوال کرنا وعید میں داخل نہیں۔ ( جامع الاصول، رقم الحدیث:144/10,7624)

آپ صلی الله علیہ وسلم کا تین باتوں پر قسم کھانا
حضرت ابو کبشہ انماری رضی الله عنہ کی روایت ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ثلاث اقسم علیھن… ما انقص مال عبدمن صدقة، ولا ظلم عبد مظلمة صبر علیھا إلا زادہ الله عزّاًولا فتح عبد باب مسألة إلا فتح الله علیہ باب فقر  “ ( سنن الترمذی، کتاب الزھد، باب ماجاء مثل الدنیا اربعة نفر، رقم الحدیث:2325)

تین باتیں ایسی ہیں ان پر میں قسم کھاتا ہوں… 1..کسی بندے کا مال صدقہ کی وجہ سے کم نہیں ہوتا، یعنی اپنا مال راہ خدا میں خرچ کرنے سے کبھی کوئی نادار نہیں ہو جاتا،بلکہ اس مال میں برکت ہوتی ہے ،الله تعالیٰ خزانہ غیب سے عوض دیتے ہیں۔2.. اور کسی بندے پر کوئی ایسا ظلم نہیں کیا گیا ، جس پر و ہ صبر کرے ، مگر الله تعالیٰ اس کی عزت بڑھاتے ہیں، یعنی جب کسی بندے پر کوئی ظلم کرتا ہے اوراس کو ستاتا ہے اور وہ بندہ صبر کرتا ہے ، تو الله تعالیٰ اس کی وجہ سے دنیا میں اس کی عزت بڑھاتے ہیں۔
3..اور کوئی بندہ سوال کا دروازہ نہیں کھولتا، مگر الله تعالیٰ اس پر فقر کا دروازہ کھو ل دیتے ہیں ، یعنی جو بندہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کا پیشہ اختیار کرتا ہے ، الله تعالیٰ اس پر دل کی محتاجگی مسلط کر دیتے ہیں۔

آٹھویں بات
معیشت میں اعتدال اختیار کرنا
جسے قناعت کی عزت مطلوب ہو ، اسے چاہیے کہ جہاں تک ہو سکے اپنے نفس پر اخراجات کے دروازے بند کرے اور صرف ضروریات پر خرچ کرے ، اس لیے کہ جس کے اخراجات کا دائرہ وسیع ہوتا ہے ، وہ قناعت کر ہی نہیں پاتا اور جس کے اخراجات میں اعتدال ہو ، اسے مفلسی کا منھ نہیں دیکھناپڑتا۔

چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ”ما عال من اقتصد“  ( الفتح الربانی لترتیب مسند الامام احمد بن حنبل، کتاب الاقتصاد، باب الاقتصاد فی المعیشة،18/19 دارالحدیث)
یعنی میانہ رو مفلس نہیں ہوتا۔

نیک کاموں میں بھی خرچ میں اعتدال ہو
شریعت مطہّرہ نے صرف دنیاوی امور میں خرچ میں اعتدال کی تعلیم نہیں دی ، بلکہ نیک کاموں میں بھی اعتدال کے ساتھ خرچ کرنے کی تعلیم دی ہے کہ نیک کاموں میں بھی اتنا نہ خرچ کرے کہ بعد میں خود احتیاجی کا سامنا کرنا پڑے،اگر چہ یہ بات بالکل نامانوس سی ہے، اس لیے کہ لوگ صرف ظاہری نمود ونمائش کے لیے تو دولت پانی کی طرح بہاتے ہیں ، لیکن نیک کاموں میں نفلی صدقات تو کجا، واجب زکوٰة وغیرہ بھی صحیح شرعی طریقے پر ادا نہیں کرتے۔ تاہم شریعت کی اس تعلیم سے خرچ میں اعتدال کی اہمیت خوب واضح ہو جاتی ہے ۔

چناں چہ قرآن کریم کی آیت ہے : ﴿وَلاَ تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُولَةً إِلَی عُنُقِکَ وَلاَ تَبْسُطْہَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوماً مَّحْسُورا﴾ (سورہ بنی اسرائیل:29)

اور نہ رکھ اپنا ہاتھ بندھا ہوا اپنی گردن کے ساتھ اور نہ کھول دے اس کو بالکل کھول دینا ، پھر تو بیٹھ رہے الزام کھایا، ہارا ہوا۔

اس آیت سے مقصود اقتصاد کی ایسی تعلیم ہے ، جو دوسروں کی امداد میں حائل بھی نہ ہو اور خو داپنے لیے بھی مصیبت نہ بنے۔

اس آیت کی شان نزول میں ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں ایک لڑکا حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میری والدہ آپ سے ایک کرتے کا سوال کرتی ہے ، اس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس کوئی کرتا اس کے سوا نہیں تھا ، جو آپ صلی الله علیہ وسلم کے بدن مبارک پر تھا ، آپ نے لڑکے کو کہا کہ پھرکسی وقت آؤ، جب کہ ہماے پاس اتنی وسعت ہو کہ تمہاری والدہ کا سوال پورا کر سکیں ، لڑکا گھر گیا اور واپس آیا او رکہا کہ میری والدہ کہتی ہیں کہ آپ کے بدن مبارک پر جو کرتہ ہے وہی عنایت فرما دیں ، یہ سن کر آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے بدن مبارک سے کرتہ اتار کرا س کے حوالے کر دیا ، آپ صلی الله علیہ وسلم ننگے بدن رہ گئے، نماز کا وقت آیا ، حضرت بلال رضی الله عنہ نے اذان دی ،مگر آپ صلی الله علیہ وسلم حسب عادت باہر تشریف نہ لائے، تو لوگوں کو فکر ہوئی، بعض لوگ اندر حاضر ہوئے، تو دیکھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کرتے کے بغیر ننگے بدن بیٹھے ہیں، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(الجامع لأحکام القرآن للقرطبی، سورہ اسراء: 29، 250/10 دارالفکر)

فائدہ: اس آیت سے بظاہر اس طرح خرچ کرنے کی ممانعت ہوتی ہے ، جس کے بعد خود فقیر ومحتاج ہو جائے اور پریشانی میں پڑ جائے۔

علامہ قرطبی رحمہ الله تعالی نے فرمایا کہ یہ حکم مسلمانوں کے عام حالات کے لیے ہے ، جو خرچ کرنے کے بعد تکلیفوں سے پریشان ہو کر پچھلے خرچ کیے ہوئے پر پچھتائیں اور افسوس کریں ، قرآن کریم کے لفظ ” محسورا“ میں اس کی طر ف اشارہ موجود ہے او رجو لوگ اتنے بلند حوصلہ ہوں ، کہ بعد کی پریشانی سے نہ گھبرائیں او راہل حقوق کے حقوق بھی ادا کر سکیں ان کے لیے یہ پابندی نہیں ہے ، یہی وجہ ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی عام عادت یہ تھی کہ کل کے لیے کچھ دخیرہ نہ کرتے تھے،جو کچھ آج آیا ، آج ہی خرچ فرما دیتے تھے او رصحابہ کرام رضی الله عنہم میں بھی بہت سے ایسے حضرات ہیں جنہوں نے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اپنا سارا مال الله کی راہ میں خرچ کر دیا ۔ (الجامع لأحکام القرآن للقرطبی، سورہ اسراء:29، 250/10، دارالفکر)

اصل بات یہ ہے کہ اس آیت نے بد نظمی کے ساتھ خرچ کرنے کو منع کیا ہے کہ آگے آنے والے حالات سے قطع نظر کرکے جوکچھ پاس ہے ، اسے اسی وقت خرچ کر ڈالے ، کل کو دوسرے صاحب حاجت لوگ آئیں او رکوئی دینی ضرورت اہم پیش آجائے ، تو اب اس کے لیے قدرت نہ رہے ، یا اہل وعیال جن کے حقوق اس کے ذمے واجب ہیں ان کے حقوق ادا کرنے سے عاجز ہو جائے۔ (الجامع لأحکام القرآن للقرطبی،251/10، دارالفکر)

واقعہ
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم میر ی عیادت کرنے تشریف لائے ، میں اس وقت مکہ میں تھا ، ( حجة الوداع، یا فتح مکہ کے موقع پر) حضور اکرم صلى الله عليه وسلم اس سر زمین پر موت کو پسند نہیں فرماتے تھے ، جہاں سے کوئی ہجرت کر چکا ہو ، آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا الله ابن عفراء ( سعد ) پر رحم فرمائے۔ میں نے عرض کیا ، یا رسول الله ! کیا میں اپنے سارے مال ودولت کی وصیت الله تعالیٰ کے راستے میں کر دوں ، آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: کہ نہیں ، میں نے پوچھا پھر آدھے کی کر دوں ؟ آپ نے اس پربھی فرمایا کہ نہیں۔ میں نے پوچھا، پھر تہائی کردوں آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایاکہ تہائی کر سکتے ہواور یہ بھی بہت ہے، اگر تم اپنے وارثوں کو اپنے پیچھے مال دار چھوڑو، تو یہ اس سے بہتر ہے کہ انہیں محتاج چھوڑو؟ کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ (الجامع الصحیح للبخاری،کتاب الوصایا، باب ان یترک ورثتہ… رقم الحدیث:2742)

تقوی کی ساتھ مال داری میں کوئی حرج نہیں
اگر کسی کو الله تعالیٰ نے مال ودولت سے نوازا ہے ، یا کم آمدنی ہے، لیکن بو قت ضرورت کام آنے کے لیے اگر اپنے پاس کچھ مال جمع کرتا ہے ، تو اس میں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ مال فی ذاتہ کوئی بری چیز نہیں ، اگر مال حلال ذرائع سے حاصل ہوا اور مال کے جو حقوق ہیں زکوٰة وغیرہ ان کی ادائیگی ہو ، تو مال پاس رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔

آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:” لا بأس بالغنی لمن اتقی الله عزوجل “ (الفتح الربانی لترتیب مسند الامام احمد بن حنبل، اباب الترغیب فی الغنی الصالح:123/19 دارالحدیث)

جو شخص الله عزوجل سے ڈرتا ہو اس کی مال داری میں دین کا کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”نعما بالمال الصالح للرجل الصالح“  ( مشکوٰة المصابیح، کتاب الإمارة والقضاء، باب رزق الولاة وھدایاہم،18/3، دارالکتب)

نیک آدمی کے لیے اس کا اچھا اور پاکیزہ مال بہترین متاع حیات ہے ۔
ان حدیثوں میں یہ بات بتائی ہے کہ صالح او رمتقی آدمی کا مال پاس رکھنا اس کے حق میں مضر نہیں ہے ، کیوں کہ ایسا شخص الله تعالیٰ سے خوف کھاتے ہوئے اپنے مال کو گناہوں میں خرچ کرنے سے بچے گا او رمال کی جو برائی منقول ہے وہ ان لوگوں کے حق میں ہے جوگناہوں میں خرچ کرکے اپنے کمائے ہوئے مال کو آخرت کے عذاب کا ذریعہ بناتے ہیں ۔

اور اس دور میں تو کچھ مال بوقت ضرورت کام آنے کے لیے جمع کرنا اور ضروری ہے ، اس لیے کہ دور حاضر میں لوگوں میں دین وایمان کی اہمیت زیادہ نہیں ہے ، دنیوی ساز وسامان کی طرف زیادہ متوجہ ہوتے ہیں اور معمولی سی تکلیف ہی نہیں ، بلکہ ظاہری فیشن کے خلاف ہو جانے پر دین چھوڑنے کو تیار ہو جاتے ہیں؟ اسی طرح کے لوگوں کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” کاد الفقر أن یکون کفرا“  ( مشکوٰة المصابیح، کتاب الآداب، باب ما ینھی عنہ من التھاجر والتقاطع،225/3، دارالکتب)

یعنی تنگ دستی انسان کو بعض اوقات کافر بنا سکتی ہے۔

حضرت سفیان ثوری رحمہ الله اس کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”کان المال فیما مضی یکرہ، فأما الیوم فھو ترس المؤمن“

یعنی زمانہ سابق میں مال کو پاس رکھنا اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا، لیکن آج یہ مال مومن کی ڈھال ہے۔ نیز انہوں نے فرمایا:”من کان في یدہ من ھذہ شیئا فلیصلحہ، فإنہ زمان إن احتاج کان أول من یبذل دینہ“

یعنی جس کے پاس دراہم ودنانیر میں سے کچھ موجود ہو اسے چاہیے کہ اس مال کو مناسب طریقہ پر کام میں لائے ، کیوں کہ یہ وہ زمانہ ہے کہ اگر کچھ حاجت پیش آگئی ، تو انسان سب سے پہلے حاجت پوری کرنے کے لیے اپنے دین ہی کو خرچ کرے گا۔ ( معارف القرآن للمفتی شفیع عثمانی رحمہ الله، 302/6) (جاری)

Flag Counter