Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاول 1435ھ

ہ رسالہ

6 - 15
کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
	
وزیراعظم یوتھ بزنس لون کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام وزیراعظم یوتھ بزنس لون اسکیم کے بارے میں کہ یہ آٹھ(8) فی صد مارک اپ پر دیا جاتا ہے ، قرض کی مدت کے دوران مارک اپ کی مذکورہ مقدار میں اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے اور تاخیر سے ادائیگی پر نیشنل بینک کے قواعد اور ضوابط کے مطابق عمل کیا جاتا ہے، اس کی تفصیل سمیڈا کی ویب سائٹ(www.smeda.org.pk) پر موجود ہے، اس اسکیم کے تحت قرض لینا اور ضامن بننا، اس اسکیم کے دستاویزات(Data) وغیرہ تیار کرنا یا اس میں کسی قسم کا تعاون کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟

جواب…سمیڈا کی ویب سائٹ(www.smeda.org.pk) پر دی گئی اسکیم سے متعلق معلومات کا بغور جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کہ وزیر اعظم یوتھ بزنس لون (Prime Minister's Youth Business Loans) صریح دوہرا سودی پروگرام ہے، چنا ں چہ اس پروگرام کے خدوخال بیان کرتے ہوئے پہلے صفحہ پر ہے : ”صرف آٹھ(8) فی صد سالانہ مارک اپ “ اور صفحہ نمبر4 پر تحریر ہے : ” کہ قرض کی واپسی میں دیر یا قرض واپس کرنے کی قابلیت نہ ہونے کی صورت میں کیے جانے والے جرمانے کی تفصیلات بینک سے حاصل کی جاسکتی ہے “ اس سے معلوم ہوا کہ یہ جرمانہ اس آٹھ(8 ) فی صد مارک اپ کے علاوہ ہے اور اس طرح کا جرمانہ سود ہی کا دوسرا نام ہے ، لہٰذا یہ دوہرا سود ہوا۔ قرآن وحدیث میں سود کی حرمت اور شناعت جس قدر وشدومد کے ساتھ بیان کی ہے وہ کسی مسلمان سے مخفی اور پوشیدہ نہیں ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے : ﴿َأَحَلَّ اللّہُ الْبَیْْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾ (البقرة:275)
ترجمہ:” الله تعالیٰ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام قرارا دیا ہے ۔“

﴿فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ فَأْذَنُواْ بِحَرْبٍ مِّنَ اللّہِ وَرَسُولِہ﴾ (البقرة:278)
ترجمہ:” اگر تم سودی کاروبار سے باز نہیں آؤ گے تو الله تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ سن لو۔“

﴿یَمْحَقُ اللّہُ الْرِّبَا وَیُرْبِیْ الصَّدَقَاتِ﴾ (البقرة:276)
ترجمہ:” الله تعالیٰ سود کو گھٹاتے ہیں اور صدقات کو بڑھاتے ہیں۔“

اسی طرح بہت ساری احادیث مبارکہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے سود کی قباحت بیان فرمائی ہے، ان میں سے چند احادیث مندرجہ ذیل ہیں:
عن جابر بن عبدالله رضی الله تعالیٰ عنہ قال: لعن رسول الله صلی الله علیہ وسلم آکل الرّبا وموکلہ وکاتبہ وشاھدیہ وقال: ھم سواء“  (رواہ مسلم) (البیوع، باب لعن آکل الرّبا وموکلہ، ص:297، رقم الحدیث:1598، ط: دارالسلام)
ترجمہ:”حضرت جابر بن عبدالله رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سود کھانے اور سود دینے اور سودی حسابات یا تحریر لکھنے والے اور سودی لین دین پر گواہ بننے والوں پر لعنت فرمائی ہے، اور فرمایا کہ یہ سب لوگ گناہ میں برابر ہیں۔“

 عن انس بن مالک رضی الله تعالیٰ عنہ قال: ”خطبنا رسول الله صلی الله علیہ وسلم فذکر أمر الرّبا وعظَّم شانہ وقال: إن الدّرھم یصیبہ الرّجل من الرّبا أعظم عندالله الخطیئة من ستّة وثلاثین زنیةً یزنیھا الرّجل وإن أربی الرّبا عرض الرّجل المسلم “ ( الزواجر، الکبیرة الرابعة والثمانون بعد المائة، اکل الربا واطعامھا لخ:378/1،ط:دارالفکر)
ترجمہ:” حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ہم سے خطاب فرمایا اور سود کا خاص تاکید او راہتمام سے ذکرکرتے ہوئے فرمایا ایک سودی درہم حاصل کرنا الله کی نظر میں چھتیس (36) مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ سخت گناہ ہے اور فرمایا سب سے بڑا سود یہ ہے کہ مسلمان کی آبرو پر حملہ کیا جائے۔“

 عن عبدالله بن حنظلة غسیل الملائکة قال: درھم ربایأ کل الرّجل وھو یعلم، أشَّدُ من ستّة وثلاثین زنیةٌ“… رواہ البیھقي في شعب الإیمان (مشکوٰة المصابیح: البیوع، باب الرّبا، الفصل الثالث:524/2،ط: الکتب العلمیة)
ترجمہ:” حضرت عبدالله بن حنظلہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ جس نے سود کا ایک درہم کھایا اور وہ اس کو معلوم ہے ( کہ یہ سود کا ہے) الله تعالیٰ کے نزدیک تینتیس(33) مرتبہ زنا کے گناہ کے برابر ہے۔“

 عن ابن عبّاس وزاد ”من نبت لحمہ من السُّحت فالنَّار أولیٰ بہ“ ( مشکوٰة المصابیح: البیوع ، باب الرّبا، الفصل الثالث:524/2،ط: الکتب العلمیة)
ترجمہ:” حضرت ابن عباس رضی الله عنہما سے مرو ی ہے کہ حرام سے نشو نما پانے والا جسم جہنم کا مستحق ہے۔“

عن ابی ھریرة رضی الله عنہ قال:”قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم : الرّبا سبعون حوبا أیسرھا أن ینکح الرّجل أمّہ“  ( سنن ابن ماجة، البیوع، باب التّغلیظ فی الرّبا: 596/3،ط: دارالجیل)
ترجمہ:” حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا سود کے ستر (70) گناہ ہیں ان میں سے ادنی درجہ کا گناہ ایسا ہے جیسے کوئی شخص اپنی ماں سے زنا کرے۔“

 وأخرج ابویعلیٰ باسناد جید عن ابن مسعود رضي الله عنہ انہ ذکر حدیثا عن النبی صلی الله علیہ وسلم قال فیہ: ما ظھر فی قوم الزنا والرّبا إلا أحلوابِأنفسھم عذاب الله “( الزاوجر، کتاب البیع، الکبیرة الرابعة والثمانون بعد المائة:378/1،ط: دارالفکر)
ترجمہ:” حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل فرمایا کہ جس قوم میں زنا اور سود پھیل جائے اس قوم پر الله کا عذاب آئے گا۔“

مندرجہ بالا آیات واحادیث میں واشگاف الفاظ میں یہ بات ارشاد فرمائی گئی ہے کہ سودی لین دین الله جل شانہ او رالله کے رسول صلی الله علیہ وسلم سے اعلان جنگ، باعث لعنت، ایک سودی درہم چھتیس مرتبہ زنا سے بڑا گناہ ہے ، بلکہ ماں کے ساتھ زنا کے برابر گناہ ہے جس کا مسلمان تصور بھی نہیں کر سکتا۔

مذکورہ آیات واحادیث کی رو سے وزیراعظم یوتھ بزنس لون اسکیم کے تحت قرض لینا، اس کا ضامن بننا اور اس کی دستاویزات تیار کرنا ، سب حرام ہیں، عوام پر اس سے بچنا لازم اور ضروری ہے۔

نیز حکومت کو بھی چاہیے کہ غربت اور بے روز گاری کے خاتمہ کے لیے خلوص اور ہمدردی کے ساتھ کیے گئے اس اقدام کو مفتیان کرام اورماہرین معیشت کی مشاورت وراہ نمائی سے سود سے پاک، موثر اور کارآمد بنائے ، بصورت دیگر اس اسکیم سے نہ صرف یہ کہ مطلوبہ مقاصدواہداف حاصل نہیں ہوں گے، بلکہ یہ بے شمار مسائل کا پیش خیمہ بنے گا۔

الله تعالیٰ مسلمان حکم رانوں کو خیر اور نیکی کی توفیق عطا فرمائیں اوران کے ہاتھوں سے امت کو خیر پہنچا دیں! والله تعالیٰ اعلم بالصواب․

قبائلی جھگڑوں میں عورتوں کو صلح کے طور پر نکاح میں دینے کا حکم
سوال…کیا فرماتے ہیں علماء کرام او رمفتیان عظام اندر یں مسئلہ کہ:
قبائلی جھگڑوں میں صلح کے وقت جانبین یا جانب واحد سے عورتیں فریق مخالف کے لڑکوں کے نکاح میں دی جاتی ہیں تو آیا شرعاً یہ نکاح درست ہے ؟ نیز اگر عورتیں اس پر راضی نہہوں اگرچہ خوف کے مارے اظہار نہیں کرسکتیں تو پھر کیا حکم ہے؟

اسی طرح بسا اوقات کوئی آدمی مقروض ہو جاتا ہے یا کسی کی عزت کو لوٹا جاتا ہے ،زناء کی صورت ہو، تو مقروض زانی کی بیٹی وغیرہ مخالف فریق کے لڑکوں کے نکاح میں دی جاتی ہے ، تو اس صورت میں نکاح کا کیا حکم ہے؟

جواب… عورتوں کو صلح کے طور پر نکاح میں دینے کی رسم بہت سارے مفاسد پر مبنی ہے ، لہٰذا اس سے اجنتاب ضروری ہے ، جن جن علاقوں میں یہ طریقہ کار ائج ہے ، وہاں کے علمائے کرام اور دیگر با اثر لوگوں کی ذمے داری بنتی ہے، کہ حکمت وبصیرت کے ساتھ اس سے لوگوں کو منع کریں۔

تاہم اگر کوئی مجبوری کی بناء پر ایسا نکاح کرنا چاہے ، تو اگر وہ لڑکی جس کا نکاح کیا جارہا ہے بالغ ہو ، تو اس سے اجازت لینا ضروری ہے، اگر وہ زبان سے منظو رکرے یا خاموشی اختیار کرے ، تو نکاح منعقد ہو جائے گا۔

اور اگر وہ نابالغہ ہو تو اس صورت میں اگر باپ دادا نے لڑکی کی مصلحت کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف دنیاوی مفاد کے خاطر جو نکاح غیر کفو میں یا مہر میں غبن فاحش کے ساتھ کیا ہو ، جیسا کہ عموماً ایسے واقعات میں ہوتا ہے، تو وہ بالکلیہ باطل ہے ، جب باپ دادا کا نکاح غیر کفو میں یا مہر میں غبن فاحش کے ساتھ باطل ہے ، تو دیگر رشتہ داروں کا کیا ہوا اس طرح کانکاح تو بطریقہ اولیٰ باطل ہو گا۔

البتہ جو نکاح کفو میں یا مہر مثل کے ساتھ ہو ، وہ منعقد ہو جاتا ہے ، لیکن اگر اس صورت میں کوئی ناگوار اور ناقابل برداشت صورت ہو ، مثلاً عمر میں بہت زیادہ فرق ہو جس کی وجہ سے لڑکی کا شوہر کے ساتھ نباہ نہ ہو سکتا ہو،   تو اس صورت میں لڑکی کو خیار بلوغ کا حق حاصل ہو گا اور وہ عورت اس نکاح کو عدالت میں پیش کرے اور قاضی اہل الرأی سے تحقیق کرکے اگر مناسب سمجھتا ہو، تو نکاح کو فسخ کر دے۔

چنا ں چہ بوادر النوادر میں ہے:
کہ اگر نابالغ کا نکاح باپ دادا نے کیا ہے اور واقعات سے معلوم ہوا کہ طمع زر سے کیا ہے اور لڑکی کی مصلحت پر نظر نہیں کی تب بھی نکاح صحیح نہیں ہوگا۔ ( ص:97-96،ط: ادارہ اسلامیات)

اخبارات واشتہارات پر لکھی ہوئی آیات واحادیث کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان دین مبین اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
قرآن پا ک کے اوراق جو ایک دو صفحہ کی صورت میں ہیں۔ احادیث نبوی صلی الله علیہ وسلم جو کسی علیحٰدہ صفحہ پر لکھی ہوئی ہو۔ اخبارات میں قرآنی آیات اور حدیث مبارکہ جو لکھی ہوتی ہیں۔ اخبارات میں جو الله پاک اور رسول الله صلی الله علیہ وسلمکے نام مبارکہ لکھے ہوتے ہیں۔ اشتہارات میں جو قرآنی آیات اور حدیث مبارکہ لکھی ہوتی ہیں۔ اخبارات او راشتہارات میں جو حضرات صحابہ کرام رضی الله عنہم کے اسماء مبارکہ لکھے ہوتے ہیں۔ اخبارات اور اشتہارات میں لوگوں کے نام کے ساتھ الله اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے صفاتی نام مثلاً عبدالرحمن، عبیدالله، محمد احمد، نعمت الله، محمد یسٰین، محمد مزمل لکھے ہوتے ہیں۔ سالانہ/ رمضان کے کیلنڈر پر جو قرآنی آیات لکھی ہوتی ہیں۔ ایسی کتابیں، رسالے، اخبار، اشتہار جن پر قرآنی آیات اور حدیث مبارکہ لکھی ہوں ان کو ردّی میں فروخت کرسکتے ہیں ؟ ان کو تنہائی میں جلانا جائز ہے؟ان کی راکھ کو پانی میں بہانا یا ضائع کر دینا درست ہے یا نہیں؟

جواب…مذکورہ قسم کی قرآنی آیات، احادیث، اخبارات، اشتہارات کیلنڈر اور الله تعالیٰ او رانبیاء علیہم الصلاة والسلام کے اسماء مبارکہ وغیرہ کا ادب واحترام کرنا ضروری ہے ، سب سے بہتر یہ ہے کہ ان کو صاف کپڑے میں باندھ کر کہیں پاک جگہ میں دفن کیا جائے، جہاں سے لوگوں کا عمومی گزر نہ ہو او رانہیں روندانہ جاتا ہو ، البتہ اس کو پانی میں بہانا بھی جائز ہے البتہ جلانے سے اجتناب کیا جائے، لیکن بطور ردّی کے فروخت کرنا خلاف ادب ہے، ہاں آیات وغیرہ مٹاکر استعمال میں لانے کی گنجائش ہے۔

بیوی کتنے عرصے بعد اپنے والدین سے ملاقات کر سکتی ہے؟
سوال… کیا فرماتے ہیں علما دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ: ایک لڑکی کو شادی کے بعد اس کے بہن بھائیوں کے گھر لے کر جانا خاوند کی ذمے داری ہے سوال یہ ہے کہ قانونی طور پر وہ کتنے عرصے بعد ان کو ان کے گھرلے کر جائے۔ یا سال میں کتنی مرتبہ لے کر جانا اس پر ضروری ہے اور اگر وہ نہیں لے کر گیا تو گناہ گار ہو گا؟ اس کے علاوہ جو دوسرے رشتہ دار ہیں جیسے ماموں اور خالہ وغیرہ ان کے ہاں سال میں کتنی مرتبہ لے کر جانا ضروری ہے؟ ان سوالوں کے جواب عنایت فرما کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔

جواب…واضح رہے کہ بیوی والدین سے ہفتے میں اور دوسرے محرم رشتہ داروں سے سال میں ایک مرتبہ یا علیٰ قدرِ المراتب عام طور پر جتنا عرصہ بعد عورتیں اپنے والدین اور محرم رشتہ داروں سے ملتی ہیں ، مل سکتی ہے، نیزاگر والدین اور شتہ دار خود ملاقات کے لیے آسکتے ہوں، تو اس صورت میں ان سے ملاقات کے لیے بیوی شوہر کی اجازت ورضامندی کے بغیر نہیں جاسکتی، اسی طرح ملاقات کرانا، ملاقات کے لیے لے جانے اور لانے کا خرچ شرعاً شوہر پر لازم نہیں، البتہ مروّتاً شوہر کی ذمے ذاریوں میں داخل ہے۔

مذکورہ حکم صرف ملاقات کا ہے، رات کو ان کے ہاں ٹھہرنا شوہر کی اجازت کے بغیر جائز نہیں۔

میّت کو غسل دینے کا حکم اور اس کا طریقہ
حضرت مفتی صاحب مجھے جنازے سے متعلق کچھ بنیادی معلومات چاہیے ، برائے کرم مندرجہ ذیل سوالات کا تشفی بخش جواب عنایت فرمائیں۔ (1)..میّت کو غسل دینا فرض ہے یاسنت؟ (2)..میّت کو غسل دینے کا طریقہ کیا ہے؟

جواب…(1)..میت کو غسل دینا واجب ہے۔
(2)..میت کو غسل دیتے وقت سب سے پہلے جس تختے پر غسل دینا ہے اس کو طاق مرتبہ دھونی دیں، پھر میت کو تختہ پر اس طرح لٹائیں کہ قبلہ اس کے دائیں طرف ہو ،پھر موٹے کپڑے کا تہبند ناف سے پنڈلی تک ڈال کر میت کے کپڑے اتار دیں، پھر اپنے بائیں ہاتھ پر دستانہ پہن کر مٹی کے تین یا پانچ ڈھیلوں سے استنجاء کرائیں پھر پانی سے پاک کریں اگر ڈھیلے نہ ہوں تو ٹشو پیپربھی استعمال کیا جاسکتا ہے ، پھر اس طرح وضو کرائیں کہ تین مرتبہ روئی تر کرکے ہونٹوں، مسوڑھوں اور دانتوں پرپھیر کر پھینک دیں، اسی طرح ناک کے سوراخوں کو روئی سے صاف کریں ، پھر ناک منھ او رکانوں میں روئی رکھ دیں، منھ دھلائیں، ہاتھ کہینوں سمیت دھلائیں، سر کا مسح کرائیں ، تین دفعہ پاؤں دھلائیں۔ پھر سر اور داڑھی کو گلِ خیرو، خطمی یا صابن سے دھوئیں ،بائیں کروٹ لٹا کر تین دفعہ سر سے پاؤں تک دھوئیں، دھونے میں بیری کے پتوں میں پکایا ہوا نیم گرم پانی یا صابن استعمال کرنا زیادہ مناسب ہے،پھر دائیں کروٹ لٹا کر تین دفعہ اس طرح سر سے پیر تک پانی ڈالیں کہ پانی بائیں کروٹ تک پہنچ جائے۔

پھر میت کو اپنے بدن کی ٹیک لگا کر اس طرح بٹھائیں کہ اس کے پیٹ کو اوپر سے نیچے کی طرف دبائیں اور اگر فضلہ نکلے تو اسے صرف پونچھ کر دھولیں ازسرِ نو وضو یا غسل کرانا ضروری نہیں۔ بائیں کروٹ لٹاکر دائیں کروٹ پر کافور ملا ہوا پانی سرسے پاؤں تک تین دفعہ بہادیں، پھر دوسرا دستانہ پہن کر سارا بدن کسی کپڑے سے خشک کرکے تہبند بدل دیں۔

واضح رہے کہ نہلانے کا مذکورہ طریقہ سنت ہے، اگر صرف ایک دفعہ سارا بدن دھو ڈالیں تب بھی فرض ادا ہو جائے گا۔

Flag Counter