مُعَوِ ّذَتَین کی فضیلت
مولانا محمد ساجد حسن مظاہری
﴿ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَق، مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ ، وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ، وَمِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ، وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ﴾
ترجمہ:”آپ کہیے کہ میں صبح کے رب کی پناہ میںآ تا ہوں،تمام مخلوق کے شر سے اور رات کے شر سے جب اندھیرا پھیل جا ئے اور گرہ لگا کر ان میں پھونک ما رنے والیوں کے شر سے اور حاسد کے شر سے جب وہ حسد کر نے لگے “۔
تشریح وتوضیح
اللہ رب العزت بندوں پر اپنی بے پناہ رافت ورحمت کی بنا پر یہ چاہتے ہیں کہ بندے آخرت کے نقصان وخسران اور وہاں کی سزا وہرطرح کے نقصان سے بچے رہیں،ایذاوتکلیف پہنچانے والی اور نقصان دینے والی کچھ چیزیں تو ایسی ہیں جو ظاہری، اوردکھائی دینے والی ہیں،اور حتی المقدورانسان ان کے شرسے بچتابھی رہتاہے،اور اگر معاملہ روشنی اور دن کا ہو تو دشمنی اور تکلیف دینے والی چیزیں کافی دور سے نظرآجاتی ہیں،اس لیے انسان ان کے شرسے گاہ بگاہ بچ بھی جاتاہے لیکن اگرواقعہ ،نہ دکھانے والی چیزوں کا ہو، اوروقت بھی رات کا ، اورظلمت وتاریکی کاہو،توایسے خطرناک دشمن اور مشکل ترین حالات میں ضعیف وناتواں انسان کے لیے بچنا دشوار ہو جاتا ہے،توایسے مشکل ترین وقت میں ،انسان کو یہ تعلیم دی گئی کہ وہ اس ذات اقدس کی پناہ چاہے، جس کی قدرت ِباہرہ کے سامنے، ہرقاہرو جابر سرنگوں ہے، جس کی منشا ومرضی کے بغیر، ایک پتہ بھی حرکت نہیں کرتااورجب کوئی بندہ خلوص ِدل سے اس کی پناہ چاہتاہے ،توپردہٴ غیب سے اس کی حفاظت وحمایت کے انتظام کیے جاتے ہیں اوراس کو شرور و فتن سے محفوظ کردیاجاتاہے۔
سوتے وقت کا عمل
حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سونے کے لیے جب رات کوبستر پرتشریف لاتے …تودونوں ہتھیلیاں اکٹھی کرکے” قُلْ ہُوَاللّٰہُ أَحَدٌاور قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاس“ پڑھ کر دونوں ہتھیلیوں پردم کرکے سارے بدن پر،جہاں تک پھیرسکتے، پھیرلیتے تھے، سراورچہرہ اوربدن کے اگلے حصہ سے ہاتھ پھیرنا شروع کرتے ، پھرباقی تمام بدن پر پھیر تے تھے اوریہ عمل (سارے بدن کا مسح) تین بار کرتے تھے۔
عَنْ عَائِشَةَ،أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا أَویٰ إِلٰی فِرَاشِہ کُلَّ لَیْلَةٍ جَمَعَ کَفَّیْہِ، ثُمَّ نَفَثَ فِیْہِمَا، فَقَرَأَفِیْہِمَا:قُلْ هوَاللّٰهُ أَحَدٌ، قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ، وَقُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ، ثُمَّ یَمْسَحُ بِہِمَا مَااسْتَطَاعَ مِنْ جَسَدِہ، یَبْدَأُبِھِمَاعَلٰی رَأْسِہ وَوَجْہِہ وَمَاأَقْبَلَ مِنْ جَسَدِہ، یَفْعَلُ ذٰلِکَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ“ (سنن أبی داود، رقم:5056)
حضرت عائشہ کابیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار ہوتے تومعوذتین پڑھ کر اپنے اوپردم کرلیاکرتے تھے ،لیکن جب بیماری سخت ہوگئی تومیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پرپڑھ کر دم کر دیتی اور برکتِ دست حاصل کرنے کے لیے دست ِمبارک پکڑکر بدن پر پھیردیتی تھی۔
عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم کَانَ إِذَا اشْتَکیٰ یَقْرَأُ فِیْ نَفْسِہ بِالْمُعَوِّذَاتِ وَیَنْفُثُ، فَلَمَّااشْتَدَّ وَجْعُہ کُنْتُ أَقْرَأُ عَلَیْہِ، وَأَمْسَحُ عَلَیْہِ بِیَدِہ؛ رَجَاءَ بَرَکَتِہَا“ (سنن أبی داود، رقم:3902)
ہر رات ضرور پڑھا کرو
حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میری ملاقات ہوئی،میں نے پہل کی اور آپ کا ہاتھ پکڑ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! کس عمل سے مومن کی نجات ہوتی ہے اور کون سا عمل مومن کی نجات کا ذریعہ بنتا ہے؟ آپ نے فرمایا : اپنی زبان کی حفاظت کر ،گھر سے باہر کم نکلا کر، اپنے گناہوں کو یاد کرکے رویا کر، عقبہ فرماتے ہیں کہ: دوسری بار میری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی،تو آپ نے پہل کی اور میرا ہاتھ پکڑ کر پوچھا:عقبہ! کیا میں تمھیں توریت ،زبور،انجیل ،قرآن کی سورتوں میں سے تین سب سے بہتر سورتیں سکھاوٴں؟ میں نے عرض کیا:(میں آپ کے قربان) ہاں یا رسول اللہ! ضرور سکھا دیجیے، آپ نے مجھے (قُلْ ھُوَاللّٰہُ أَحَدٌ) وَ(قُلْ أَعُوْذُبِرَبِّ الْفَلَقِ) وَ(قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ)سکھائی اور فرمایا : عقبہ ان کو کبھی نے بھولنا ،ہمیشہ یاد رکھنا،ان کو ہر رات ضرور پڑھا کرنا۔عقبہ کہتے ہیں کہ: وہ دن اور آج کا دن ، میں ان کو کبھی نہیں بھولااور کوئی رات میری ایسی نہیں گذری جس میں، میں نے ان کو نہ پڑھا ہو۔
عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ: قَالَ: لَقِیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم، فَابْتَدَأْتُہ فَأَخَذْتُ بِیَدِہ، قَالَ: فَقُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ، مَا نَجَاةُ الْمُوٴْمِنِ ؟ قَالَ: یَاعُقْبَةُ ، اُحْرُسْ لِسَانَکَ، وَلْیَسَعْکَ بَیْتُکَ، وَابْکِ عَلٰی خَطِیْئَتِکَ، قَالَ: ثُمَّ لَقِیَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم، فَابْتَدَأَنِیْ، فَأَخَذَ بِیَدِیْ، فَقَالَ: یَاعُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ،أَلاَأُعَلِّمُکَ خَیْرَ ثَلاَثِ سُوَرٍ أُنْزِلَتْ فِی التَّوْرَاةِ وَاْلإِنْجِیْلِ وَالزَّبُوْرِوَالْفُرْقَانِ الْعَظِیْمِ قَالَ: قُلْتُ: بَلٰی، جَعَلَنِیَ اللّٰہُ فِدَاکَ، قَالَ: فَأَقْرَأَنِیْ (قُلْ ھُوَاللّٰہُ أَحَدٌ) وَ(قُلْ أَعُوْذُبِرَبِّ الْفَلَقِ) وَ(قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ)،ثُمَّ قَالَ: یَاعُقْبَةُ، لاَتَنْسَاہُنَّ، وَلاتَبِتْ لَیْلَةً حَتّٰی تَقْرَأَہُنَّ قَالَ: فَمَانَسِیْتُھُنَّ قَطُّ مُنْذُ قَالَ: لاَتَنْسَاھُنَّ، وَمَابِتُّ لَیْلَةً قَطُّ حَتّٰی أَقْرَأَہُنَّ (مسند أحمد بن حنبل 17334 ، 17467)
سوتے ،جاگتے دونوں وقت پڑھنے کاحکم
حضرت عقبہ فر ما تے ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سا تھ، مدینہ کی گلیوں میں آپ کی سوا ری کی نکیل تھا مے چلا جا رہا تھا کہ آپ نے مجھ سے فر ما یا :اب آوٴ!تم سوا ر ہو جا وٴ!میں نے اس خیا ل سے کہ رسول اللہ صلی اللہ کی سواری پر سوار ہونا آپ کی عظمت کے خلاف ہے ،سوار نہیں ہوا،آپ نے دوبارہ ارشاد فرمایا:تم سوار نہیں ہوتے؟ میں نے خیال کیا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی با ت نہ ما نو ں گا تو نا فر ما نی ہو گی،اس دفعہ سوا ر ہو نا منظور کر لیا ،تھوڑی دیر کے بعد میں اتر گیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہو گئے ۔پھر آپ نے فر ما یا عقبہ!میں تجھے دو بہترین سورتیں نہ سکھا وٴں ؟میں نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ !ضرور سکھا ئیے ۔پس آپ نے مجھے سورہ﴿قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ﴾﴿قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾ سکھا ئیں ،پھر نما ز کھڑی ہو ئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نما ز پڑھا ئی اور نماز میں ان ہی دو نو ں سو رتوں کی تلا وت کی ،پھر مجھ سے فر ما یا :تو نے دیکھ لیا ،سن! جب تو سو ئے اور جب بیدا ر ہو تو انہیں پڑھ لیا کر ۔
عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍقَالَ: بَیْنَمَاأَقُوْدُ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم فِی نَقَبٍ مِنْ تِلْکَ النِّقَاب إِذْ قَالَ لی: یَاعُقْبَةُ ؟ أَلاَتَرْکَبُ؟ فَأَجْلَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم أَنْ أَرْکَبَ مَرْکَبَ رَسُوْلِ اللّٰہِ، ثُمَّ قَالَ أَلاَ تَرْکَبُ یَاعُقْبَةُ؟ فَأَشْفَقْتُ أَنْ یَّکُوْنَ مَعْصِیَةً، فَنَزَلَ وَرَکِبْتُ ھُنَیْھَةً، ثُمَّ نَزَلْتُ وَرَکِبَ رَسُوْل اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم،ثُمَّ قَالَ: أَلاَأُعَلِّمُکَ سُوْرَتَیْنِ مِنْ خَیْرِ سُوْرَتَیْنِ قَرَأَ بِہِمَاالنَّاسُ؟ فَأَقْرَأَنِیْ﴿قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ﴾وَ﴿قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾،وَأُقِیْمَتْ الصَّلاَةُ فَتَقَدَّمَ فَقَرَأَ بِھِمَا، ثُمَّ مَرَّبِیْ، فَقَالَ:کَیْفَ رَأَ یْتَ یَاعُقْبَةُ، إِقْرَأْ بِھِمَاکُلَّمَانِمْتَ وَقُمْتَ․(ألسنن الکبری للنسائی رقم:7843، مسند احمد بن حنبل 17229)
ہرنماز کے بعدپڑھنے کاحکم
عقبہ بن عا مر سے روا یت ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا تھا کہ :میں ہر نما ز کے بعد ﴿قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ﴾وَ﴿قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾ پڑھا کروں۔
عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍقَالَ:”أَمَرَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہ ِصلى الله عليه وسلم،أَنْ أَقْرَأَ بِالْمُعَوِّذَتَیْنِ فِی دُبُرِ کُلِّ صَلاَةٍ“ (سنن الترمذی، رقم:2903)
ایک سفرمیں ،میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی مہار پکڑ کر چل رہاتھا،تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے متوجہ کرنے کے لیے ارشاد فرمایا:عقبہ!میں تمہیں پڑھی جانے والی دوبہترین سورتیں سکھاوٴں؟پھرآپ نے مجھے﴿ أَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ﴾اور﴿أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾سکھائی،عقبہ کہتے ہیں جب آپ نے دیکھا کہ میں ان کے سیکھنے سے بہت خوش نہیں ہوا،توجب منزل پر قیام ہوا توصبح کو نمازفجرمیں انہی دوسورتوں کی تلاوت فرمائی،نمازسے فراغت کے بعد میری طرف متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا: عقبہ کیسی رہی۔یعنی بہت خوب۔
عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍقَالَ:کُنْتُ أَقُوْدُ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم، نَاقَتَہُ فِی السَّفَرِ،فَقَالَ لِیْ: یَاعُقْبَةُ، أَلاَ أُعَلِّمُکَ خَیْرَ سُوْرَتَیْنِ قُرِئَتَا، فَعَلَّمَنِیْ﴿قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ﴾وَ﴿قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾ قَالَ: فَلَمْ یَرَنِیْ سُرِرْتُ بِھِمَاجِدًّا، فَلَمَّا نَزَلَ لِصَلاَةِ الصُّبْحِ صَلّٰی بِھِمَاصَلاَةَ الصُّبْحِ لِلنَّاسِ، فَلَمَّافَرَغَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الصَّلاَةِ الْتَفَتَ إِلَیَّ فَقَالَ: یَاعُقْبَةَ کَیْفَ رَأَیْتَ؟“ (سنن ابی دا ود، رقم:1462)
امام احمد کی روایت ان الفاظ کے ساتھ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا میں تجھ کو ایسی سورتیں نہ سکھلادوں جن کی مثل نہ توریت میں کوئی سورت نازل ہوئی نہ زبورمیں نہ انجیل میں نہ قرآن میں؟میں نے عرض کیاکیوں نہیں(ضرورسکھلادیجیے)فرمایا:﴿قُلْ ھُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ﴾اور ﴿أَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ﴾اور﴿أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾
بچھو کے کاٹے کا علاج
حضرت علی سے منقول ہے کہ ایک بچھو نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے کاٹ لیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: خدا ناس کرے بچھو کاکہ نمازی بے نمازی کسی کو نہیں چھوڑتا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی اور نمک منگایااور کاٹی ہوئی جگہ پر لگاتے رہے اور ﴿قُلْ یَأَیُّھَاالْکَافِرُوْنَ، وَقُلْ أَعُوْذُبِرَبِّ الْفَلَقِ،وَقُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاس﴾پڑھتے رہے۔
عَنْ عَلِیٍّ، قَالَ: لَدَغَتِ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَقْرَبٌ وَہُوَ یُصَلِّیْ، فَلَمَّافَرَغَ، قَالَ: لَعَنَ اللّٰہُ الْعَقْرَبَ لاَتَدَعُ مُصَلِّیًا وَلاَغَیْرَہ، ثُمَّ دَعَا بِمَاءٍ وَمِلْحٍ، وَجَعَلَ یَمْسَحُ عَلَیْھَا،وَیَقْرَأُ بِ قُلْ یَأَیُّھَاالْکَافِرُوْنَ، وَقُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ، وَقُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ (المعجم الصغیر للطبرانی 2/23)
ہرپریشانی کاعلاج
حضرت عبداللہ بن خبیب کابیان ہے کہ ایک رات بارش اور سخت اندھیرا تھا، اس رات ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز پڑھانے کا انتظار کرتے رہے… آپ تشریف لائے تو فرمایا: پڑھو!میں نے عرض کیا ،کیا پڑھوں؟ فرمایا :صبح ،شام تین ،تین بارقل ہو اللہ احد اور معوذتین پڑھ لیا کرو، ہر پریشانی اور مصیبت والی چیز سے تمہاری حفاظت رہے گی۔
عَنْ مُعَاذِبْنِ عَبْدِاللّٰہِ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ:أَصَابَنَا طَشٌّ وَظُلْمَةٌ فَانْتَظَرْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:لِیُصَلِّیَ بِنَا، ثُمَّ ذَکَرَ کَلاَمًا، مَّعْنَاہُ: فَخَرَجَ (رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِیُصَلِّیَ بِنَا) فَقَالَ: قُلْ! قُلْتُ:مَاأَقُوْلُ؟ قَالَ:قُلْ ھُوَاللّٰہُ أَحَدٌ وَالْمُعَوِّذَتَیْنِ حِیْنَ تُمْسِیْ وَحِیْنَ تُصْبِحُ ثلَاَ ثًا، یَکْفِیْکَ کُلَّ شَیْءٍ“ (السنن الکبری للنسائی رقم:7860)
سفر کاتوشہ
سفر سے پہلے آدمی سامان سفر تیار کرتا ہے، تاکہ سفر میں کسی قسم کی دشواری نہ ہو ،مگر پھر بھی آدمی کو طرح طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے،اس سے بچاوٴ کا ذریعہ وواسطہ درج ذیل پانچ سورتیں ہیں۔
جیساکہ جبیر بن مطعم سے مروی ہے کہ : رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے مجھ سے پوچھا: اے جبیر! کیا تم یہ چاہتے ہو کہ جب تم سفر کرو تو ساتھیوں میں تمہاری حالت سب سے بہتر ہو اور تمہارا توشہ سب سے زیادہ ہو؟ میں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ،ہاں ضرور چاہتاہوں، آپ نے فرمایا: یہ پانچ سورتیں :قل یٰأیہاالکافرون،إذاجاء نصر اللہ والفتح،قل ھواللہ أحد،قل أعوذبرب الفلق،قل أعوذبرب الناساس طرح پڑھ لیا کروکہ ہر سورت کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم اور آخر میں بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ لیا کرو۔جبیر کہتے ہیں کہ: میں مال دار تھا اور جس کے ساتھ مقدر ہوتا ،سفر کیا کرتا تھا، لیکن ساتھیوں میں سب سے بد تر حالت میری ہوتی اور میرا توشہ بھی سب سے کم ہوتا ، مگر جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، مجھے یہ سورتیں سکھائیں اور میں نے پڑھنا شروع کیا تو واپسی تک ساتھیوں میں سب سے بہتر میری حالت ہوتی اور میرا توشہ بھی سب سے زیادہ ہوتا۔
جُبَیْرُبنُ مُطْعِمٍ یَقُولُ: قَالَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ صَلیَّ اللهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:اَٴتُحِبُّ یاجُبَیْرُ إذاخَرَجْتَ سَفَراً أنْ تَکُونَ مِنْ أمْثَلِ أصْحَابِکَ ھَیْئَةً، وَأکْثَرِہِمْ زَاداً؟ فَقُلْتُ: نَعَم،ْ بِأبِیْ أنْتَ وَأمِّی، قَالَ: فَاقْرَاْٴ ھٰذِہِ السُّوَر َالْخَمْسَ:(قل یاأیہاالکافرون) و (إذاجاءَ نَصْرُ اللہِ وَالْفَتْحُ) و (قل ھواللہ أحد) و(قل أعوذبرب الفلق) و(قل أعوذبرب الناس) وَافْتَحْ کُلَّ سُورَةٍ بِبِسْمِ اللہِ الْرَّحْمٰنِ الْرَحِیْمِ، وَاخْتِمْ قِرَائَتَکَ بِبِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، قَالَ جُبَیْرٌ: وَکُنْتُ غَنِیًّاکَثِیْرَالْمَالِ، فَکُنْتُ اَٴخْرُجُ مَعَ مَنْ شَاءَ اللّٰہُ اَٴنْ اَٴخْرُجَ مَعَہُمْ فِیْ سَفَرٍ، فَاَٴکُوْنَ اَٴبَذَّہُمْ ھَیْئَةً، وَاَٴَقَلَّہُمْ زَادًا، فَمَازِلْتُ مُنْذُ عَلَّمَنِیْھِنَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَقَرَاْٴتُ بِھِنَّ اَٴکُوْنُ مِنْ اَٴحْسِنِہِمْ ھَیْئَةً وَاَٴکْثَرِہِمْ زَاداً، حَتّٰی اَٴرْجِعَ مِنْ سَفَرِیْ ذٰلِکَ“ (الکتاب:مسند أبی یعلی 7419)
تہائی قرآن کا ثواب
حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:تہائی قرآن پڑھنے سے پہلے تم میں سے کوئی نہ سویا کرے،ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم میں سے ہر شخص اس کی طاقت کہاں رکھتا ہے کہ وہ روزانہ تہائی قرآن پڑھا کرے؟ آپ نے فرمایا :﴿قل ہواللہ أحد اور قل أعوذ برب الفلق اور قل أعوذ برب الناس﴾ نہیں پڑھ سکتے؟ (یعنی ان تینوں سورتوں کی تلاوت کا ثواب، تہائی قرآن کی تلاوت کے برابر ہے)
عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَةَ:أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: لاَیَنَامَنَّ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یَقْرَأُ ثُلُثَ الْقُرْآنِ قَالُوْا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَکَیْفَ یَسْتَطِیْعُ أَحَدُنَا أَنْ یَّقْرَأَ ثُلُثَ الْقُرْآنِ؟ قَالَ: أَلاَیَسْتَطِیْعُ أَنْ یَّقْرَأَ قُلْ ہُوَاللّٰہُ أَحَدٌ وَقُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ وَقُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ؟ (حاکم 1/567 وقال: صحیح الاسناد ووافقہ الذہبي)