Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاول 1435ھ

ہ رسالہ

8 - 15
خواتین کی دین کی خاطرمشقت

مولانا محمد غیاث الدین حسامی
	
حضرات انبیائے کرام پور ی انسانیت کی ہدایت وراہ نمائی اور فلاح ونجات کے لیے الله کا پیغام لے کر اپنے اپنے زمانے میں تشریف لائے ، اس پیغام کو اپنے سینے سے لگانے ، اسے اپنی زندگی کا دستورِ عمل بنانے، اس کی خاطر تکالیف برداشت کرنے اور مصائب وابتلا کی صورت میں ثابت قدم رہنے میں جہاں مردوں نے جرأت وہمت کے ساتھ حیران کُن مظاہرہ کیا اور بے شمار مثالیں قائم کیں، وہیں خواتین نے راہِ حق سے اپنا رشتہ جوڑنے، الله اور اس کے رسولوں کے ساتھ وفا داری ، عقیدت ومحبت ، اطاعت وفرماں برداری کی ایسی حیرت انگیز نظیریں قائم کیں جن کی مثال آج کے مرد پیش کرنے سے قاصر ہیں اور جن کے ایمانی جذبہ سے آج بھی ملت اسلامیہ کا ہر فرد راہ نمائی حاصل کرتا ہے۔
خدائے واحد وبرتر کے لیے اپنے گھر اور اپنے رشتہ دارں کو چھوڑ کر، الله کی محبت میں ایسی جگہ جا کرتن تنہا رہنے والی بی بی ہاجرہ علیہا السلام کا واقعہ مفسرین نے بیان کیا ہے ، یہ وہ خاتون ہیں جو اپنی جان جوکھم میں ڈال کر چھوٹے سے بچہ اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ مکہ کی ایسی وادی میں زندگی بسر کرنے لگیں جس کو قرآن نے غیر ذی زرع کہا ہے ، اس بے آب وگیاہ وادی میں جب شوہر ابراہیم علیہ السلام دو کمزور جانوں کو چھوڑ کر جارہے تھے تو بی بی ہاجرہ علیہا السلام نے اپنے شوہر سے صرف اتنا ہی پوچھا کہ کیا یہ میرے ربّ کا حکم ہے ؟ ابراہیم علیہ السلام نے سر کے اشارے سے اثبات میں جواب دیا کہ ہاں! یہ الله کا حکم ہے ۔ بی بی ہاجرہ علیہا السلام نے اس خدائی فیصلہ کو پورے جذبہٴ اطاعت کے ساتھ قبول کیا ، جب ننھے اسماعیل علیہ السلام کو مکہ کی سخت گرمی کی وجہ سے پیاس لگتی تو بی بی ہاجرہ علیہا السلام پانی کی تلاش میں صفا اور مروہ دو پہاڑوں پر دوڑنے لگتیں، لیکن پانی کو نہ پاتیں، سات چکر کے بعدالله تعالیٰ بی بی ہاجرہ علیہا السلام اور ننھے اسماعیل علیہ السلام کے لیے پانی کاا نتظام کرتے ہیں او راس وادی میں الله اور اس کے رسول ابراہیم علیہ السلام کی خاطر بی بی ہاجرہ علیہا السلام نے اتنی تکالیف برداشت کیں کہ پوری تاریخ نسوانی اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے ۔ ( تفسیر مظہری، باب سورة ابراہیم5/267 مکتبہ رشیدیہ پاکستان)
اسی طرح فرعون کی بیوی اور اس کی ایک خادمہ کا واقعہ امام مجاہد  نے اپنی تفسیر”تفسیر مجاہد“ میں بیان کیا ہے ، فرعون کی بیوی آسیہ اور ان کی خادمہ مشاطہ حضرت موسی پر ایمان لائیں ، اس کی اطلاع فرعون کو ملی، اس نے پہلے مشاطہ کو بلا کر پوچھا ، انہوں نے بھرے دربار میں حقیقتِ حال بیان کر دی ، فرعون نے ان پر اتنے مظالم ڈھائے، لیکن الله کی اس نیک بندی نے دامنِ استقامت ہاتھ سے جانے نہیں دیا، فرعون نے ان کے دو بیٹوں کو ان کے سامنے ذبح کیا او ران پر سانپ چھوڑے گئے اور ہاتھ پیر میں کیلیں ٹھونکی گئیں ، اس سب کے باوجود اس نیک دل خاتون کی زبان پر ایک جملہ تھا :”فاقض ما انت قاض، ربی وربک ورب کل شیء: الله“ تو جو چاہے کر۔ میرا اور تیرا اور ہر چیز کا ربّ الله ہے ، یہی ایک جملہ کہتے ہوئے اپنی جان کی قربانی الله کے حضور میں پیش کر دی۔ لیکن ایمان جو جان سے زیادہ عزیز تھا اُسے نہ چھوڑا۔اس کے بعد فرعون نے اپنی بیوی آسیہ کو بلایا، انہوں نے بھی فرعون کی خدائی کا انکار کرکے ایک خدا کا اقرارکیا، اس ایک اقرار نے بی بی آسیہ  پر مظالم کا دروازہ کھول دیا، فرعون نے تمام لوگوں کے سامنے انہیں برہنہ کیا اور ان کے ہاتھوں او رپیروں میں لوہے کے کیل ٹھونکے گئے او رپورے جسم سے کھال اتاری گئی اور اس پر مرچ ڈالی گئی او راسی حالت میں مرتبہ شہادت پر فائز ہوئیں اور اس تکلیف دہ حالت میں وہ خدا ئے لاشریک سے دعا کرنے لگیں :﴿رب ابن لی عندک بیتافی الجنة ونجنی من فرعون وعملہ ونجنی مین القوم الظالمین﴾ اے پرورد گار! مجھے اس محل کے بدلے جنت میں آپ کے پاس ایک گھر چاہیے اور مجھے فرعون او راس کے عمل سے نجات :عطا فرما دیجیے ۔ ( تفسیر مجاہد ،باب سورة قصص1/425مکتبہ دارالفکر اسلامی)
جب تمام نوعِ انسانی کی ہدایت کے لیے مکہ میں نبی آخر الزماں کی بعثت ہوئی اور مکہ کے لوگ اسلام کے دامن میں جمع ہو رہے تھے ،اس وقت کفار مکہ نے انہیں اسلام سے پھیرنے کے لیے جان توڑ کوشش کی اور ہر طرح کی تکالیف ومظالم ان پر ڈھائے ، کسی کو آگ کے انگاروں پر لٹا یاگیا، کسی کو سخت تپتی ہوئی ریت پر لٹا کر سینہ پر وزنی پتھر رکھا گیا ،کسی پر کوڑوں کی بارش کی گئی اور کسی کو باری باری مارا گیا ،لیکن اس جان لیوا عذاب کے باوجود نبی کے بلند حوصلہ صحابہ کے قدم نہیں ڈگ مگائے بلکہ اور مضبوط ہو گئے۔
آپ صلی الله علیہ وسلم کے مشن کی سر بلندی اور اس کے اعلاء اور فروغ کی جد وجہد میں نوع انسانی کی اس صنف نازک نے اپنے حصے کا پورا پورا حق ادا کیا، بلکہ بعض مواقع پر تو وہ اس شرف میں مردوں پر بھی سبقت لے گئیں، یہ برکت تھی اس دین کی اور یہ جاذبیت تھی اس سراپا شفقت ہستی کی، جس کی ذات کی صورت میں اس طبقے کو اپنا ایک مخلص، ایک محسن ، ایک خیر خواہ اورایک ہم درد مل گیا تھا، جس کے پاس وہ اپنی مظلومی اور بے کسی کی شکایات لے کر جاسکتی تھیں، اُسی کی بار گاہ سے وہ اپنے دکھوں اور اپنی پریشانیوں کا مداو اور اپنی تکلیفوں کا تریاق حاصل کرسکتی تھیں۔ عبدالله کے درِ یتیم اور آمنہ کے لختِ جگر پر غارِ حرا میں پہلی وحی کا نزول ہوا ، آپ صلی الله علیہ وسلم پر کپکپی کی کیفیت طاری ہو گئی ، آپ صلی الله علیہ وسلم اسی حالت میں گھر تشریف لائے اور اپنی رفیقہٴ حیات سیدہ خدیجہ  سے فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے ، سیدہ نے غارِ حرا کی تمام داستان سن کر آپ صلی الله علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کرتے ہوئے یہ الفاظ فرمائے: خدا کی قسم ! الله آپ صلی الله علیہ وسلم کو کبھی رنج نہیں دے گا ، آپ صلی الله علیہ وسلم تو رشتے داروں کے کام آتے ہیں، سچ بولتے ہیں بے کسوں کی مدد کرتے ہیں ، نادار کی دست گیری کرتے ہیں ، مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں او رتمام نیک کاموں میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔
اس طرح الله کے آخری رسول صلی الله علیہ وسلم کی رسالت کی تصدیق کا اولین شرف ایک خاتون کے حصے میں آیا ، حضرت خدیجہ  حضور صلی الله علیہ وسلم کی بعثت کے بعد تقریباً9 سال زندہ رہیں ،اس مدت میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ہر طرح کے مصائب کو نہایت ہی ہمت سے برداشت کیا اور اپنے غیر مسلم رشتہ داروں کے طعن وتشنیع اور ملامت کی پروا کیے بغیر اپنے آپ کو تبلیغ دین میں لگایا ، کفار مکہ نے بنو ہاشم اور بنو مطلب کو شعبِ ابی طالب میں محصور کیا تو حضرت خدیجہ بھی اس مصیبت میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ تھیں، پورے تین سال یہ جان لیوا آلام ومصائب بڑے ہی صبر واستقامت کے ساتھ برداشت کیے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی معیت کا حق ادا کیا ، ان کے اس شرف نے سیدہ خدیجہ کی تمام روحانی بیٹیوں کا سر فخر سے بلندکر دیا ، اس فخر پر وہ اپنے ربّ کی بار گاہ میں جذبہ شکر سے سر شار ہو کر اپنا سر جتنا بھی خم کریں کم ہے۔
اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم کی ایک اور زوجہ محترمہ حضرت امّ سلمہ اپنے دین وایمان کی حفاظت کی خاطر، جب اپنے پہلے شوہر حضرت ابو سلمہ  اور ننھے بیٹے سلمہ کے ساتھ مدینہ ہجرت کر رہی تھیں، ان کے قبیلہ بنو مغیرہ کو معلوم ہوا انہوں نے ان کا راستہ روک لیا او رابو سلمہ  سے کہا تم اکیلے جاسکتے ہو، ہماری لڑکی تمہارے ساتھ نہیں جائے گی ۔ یہ کہہ کر وہ امّ سلمہ  کو زبردستی اپنے ساتھ لے چلے ، اتنے میں ابو سلمہ  کے قبیلہ بند عبدالاسد والے وہاں آپہنچے، انہوں نے امّ سلمہ کے بچے سلمہ پر قبضہ کر لیا اور بنو مغیرہ سے کہا اگر تم اپنی لڑکی کو ابو سلمہ کے ساتھ جانے نہیں دیتے تو ہم اپنے قبیلہ کے بچے کو تمہارے پاس نہیں چھوڑیں گے ، مکمل ایک سال امّ سلمہ  نے اپنے بیٹے اور شوہر کے بغیر گذارا، وہ روزانہ صبح کے وقت گھر سے نکلتیں اور ایک ٹیلے پر بیٹھ کر رویا کرتی تھیں،دین کی خاطر حضرت امّ سلمہ  نے یہ تکالیف برداشت کی ہیں۔
حضرت عروة بن زبیر فرماتے ہیں کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کی صاحب زادی حضرت زینب  کو کنانہ یا ابن کنانہ مکہ سے لے کر چلے، قریش مکہ ان کی تلاش میں نکلے ،راستہ میں انہیں روک لیا ، ایک شخص اپنا نیزہ ان کے اونٹ کو مارتا رہا ، حضرت زینب اونٹ سے نیچے گرپڑیں ، جس کی وجہ سے ان کا حمل ساقط ہو گیا اور خون بہنے لگا ، لوگ انہیں ابو سفیان کے پاس لے گئے ، ابو سفیان نے انہیں عورتوں کے حوالے کر دیا، پھر کچھ عرصہ بعد حضرت زینب ہجرت کرکے مدینہ آئیں اور مسلسل بیمار رہنے لگیں ، اس بیماری میں ان کا انتقال ہو گیا ، سب مسلمان انہیں شہید سمجھتے تھے، حضور انور صلی الله علیہ وسلم ان کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ میری بیٹیوں میں سے یہ سب سے اچھی بیٹی ہیں، جنہیں میری وجہ سے بہت زیادہ تکلیف اٹھانی پڑیں۔
ایک دن آپ صلی الله علیہ وسلم بنی مخزوم کے محلے سے گزرے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے دیکھا کہ کفار قریش نے ایک بوڑھی عورت کو لوہے کی زرہ پہنا کر دھوپ میں زمین پر لٹا رکھا ہے اور پاس کھڑے ہو کر قہقہے لگا رہے ہیں ، ساتھ ہی اس مظلوم خاتون سے کہہ رہے ہیں کہ محمد کا دین قبول کرنے کا مزہ چکھو، اس مظلوم خاتون کی بے بسی دیکھ حضور صلی الله علیہ وسلم آبدیدہ ہو گئے او ران سے مخاطب ہو کر فرمایا”صبر کرو ۔تمہارا ٹھکانہ جنت ہے“ ۔یہ خاتون، جنہیں جنت کی بشارت دی گئی، حضرت سمیہ  بنت خباط ہیں ، جن کے تمام گھرانے پر قریش کا عتاب نازل ہوا، ان کے شوہر یاسر اور بیٹے عبدالله کفار کی اذیتوں کی تاب نہ لا کر واصل جنت ہوئے، ادھر بوڑھی سمیہ اوران کے بیٹے عمار کوہر طرح کی مصیبتوں سے آزمایا گیا، ایک مرتبہ ابو جہل نے غضب ناک ہو کر حضرت سمیہ پر نیزہ سے وار کیا، جو جسم کے آرپار ہو گیا ، انہوں نے اسی وقت اسلام کی پہلی شہید خاتون کے بلند مرتبہ پر فائز ہو کر جان جانِ آفرین کے سپردکردی۔
نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد حضور انور صلی الله علیہ وسلم نے دین حق کی دعوت کا کام شروع کیا ، حالات اور مصلحت کے تقاضوں کے پیش نظر ابتدا میں یہ کام نہایت راز داری سے کیا گیا، خفیہ دعوت وتبلیغ کا یہ سلسلہ پورے تین سال تک جاری رہا ، اس عرصہ میں اس مبارک محنت کو 133 جانباز اور وفاشعار اور مدد گار ملے ، ان میں 26 خواتین بھی تھیں، جو ہر قسم کے خطرات سے بے پروا ہو کر حق وصداقت کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوگئی تھیں جوں جوں دین اسلام کا غلبہ ہونے لگا ، لوگ اسلام کی طرف مائل ہونے لگے تو کفار ومشرکین کی طرف سے مخالفت ومزاحمت ، عناد ودشمنی کے ایک طوفان نے پوری شدت سے مکہ کے ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، ایمان واسلام کی دولت حاصل کرنے والوں کے لیے ظلم وستم کے نئے نئے طریقے ایجاد ہونے لگے ، غلاموں اور باندیوں کی داستان تو الگ ہے ، بڑے بڑے شریف گھرانوں کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھی ظلم وستم کے عذاب کی اس چکی میں پیسے جانے لگے، مگر یہ حق کا نشہ تھا کہ ہر تکلیف واذیت ،ہر سختی اور تنگی اس نشے کو اور تیز کرتی گئی ، ابتلا وآزمائش کے اس دو رمیں جہاں مردوں نے بے پایاں ثابت قدمی کا ثبوت دیا، وہیں خواتین بھی اس امتحان میں ان سے پیچھے نہ رہیں۔ تین سال کے بعد دعوت وتبلیغ کا کام کھلم کھلا شروع ہوا ، اس کے ساتھ ہی باطل کے پرستاروں کی طرف سے مزاحمت بھی شدت سے ہونے لگی، یہاں تک کہ الله کا نام لینے والوں پر مکہ کی زمین تنگ ہو گئی ، آخر کار مجبور ہو کر اپنے بنی ورسول کی اجازت سے کچھ بلند ہمت افراد اپنے دین وایمان کی حفاظت کے لیے مکہ کو خیر آباد کہہ کر حبشہ کی طرف جانے کے لیے نکلے ، اس قافلے میں اگر مرد گیارہ تھے تو اس پُر صعوبت سفر کی سختیاں برداشت کرنے والوں میں چار خواتین بھی تھیں، جنہوں نے خدا کی خاطر اپنے وطن کی تمام آسائشوں اور سہولتوں کو چھوڑ دیا تھا، نبوت کے چھٹے سال جب ہجرت کے ارادے سے اپنے شہر سے دوسرا قافلہ نکلا تو اس میں اگر مرد 80 تھے تو 19خواتین بھی ان کی شریک سفر تھیں، ان ہجرت کرنے والی خواتین کی فہرست پر ایک نظر ڈالنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان میں کوئی عمر رسیدہ یا باندی شامل نہ تھی ، بلکہ سب کی سب نو عمر او رمعزز قبیلوں اور خاندانوں کی بہو بیٹیاں تھیں ، ان میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بیٹی سیدہ رقیہ ، قریش کے سردار ابوسفیان کی بیٹی ام حبیبہ، اسلام کے سب سے بڑے دشمن ابو جہل کی چچازاد بہن ام سلمہ، بنی ہاشم سے اسماء بنت عمیس ،بنی امیہ سے فاطمہ بنت صفوان اور عمینہ بنت حلف، بنی خزاعہ سے ام حرملہ بنت عبدالاسود، بنی سہم سے رملہ بنت ابی عوف، بنی تیم سے ریطہبنت الحارث، بنی عدی سے لیلیٰ بنت ابی حمنہ، جیسی معزز،شریف اور باحیثیت خواتین بھی مہاجرین کے ان قافلوں میں شامل تھیں ، اس ہجرت نے قریش کے تمام سرداروں اورمکہ کے پورے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا ، کسی کی بیٹی گئی تھی تو کسی کی بہن،ہر ایک یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ آخر اس نئے دین میں ایسی کیا خوبی اور کشش ہے کہ ان کی اولاد اور ان کی بہو بیٹیاں اپنے گھر ،اپنے شہراو راپنے قبیلے اور خاندان کی محبت کو قربان کرکے جلا وطنی کی ذلتیں، مصیبتیں قبول کرنے پر تیار ہو گئی ہیں ، اسی سوچ نے اکثر کو ایسا متاثر کر دیا کہ آخر کار وہ حلقہٴ اسلام میں داخل ہو کر رہے۔
حضرت امّ شریک دومیہ نے دعوتِ حق کے ابتدائی دور ہی میں اسلام قبول کر لیا تھا ، ان کے اسلام لانے کے جرم میں ان کے مشرک رشتہ داروں نے انہیں دھوپ میں کھڑا کر دیا اور اس حالت میں انہیں روٹی کے ساتھ شہد کھلاتے تھے، جس کی تاثیر سخت گرم ہوتی ہے ، پانی پلانا بند کر دیا ، اس طرح تین دن گزر گئے تو مشرکین نے کہا کہ جو دین تم نے اختیار کیا ہے اُسے چھوڑ دو، تین رات کی مصیبت سے وہ بدحواس ہو گئی تھیں ، لیکن مشرکین کی یہ بات سن کر پوری ہمت وجرات کے ساتھ فوراً بولیں : ”خدا کی قسم! میں تو خدا کی توحید کے عقیدے پر ہی قائم ہوں “۔ حضرت امّ شریک نے خود ہی اسلام قبول نہیں کیا، بلکہ پوری سر گرمی سے قریش کی عورتوں میں اس کی تبلیغ واشاعت کا سلسلہ بھی شروع کر دیا، جس پر قریش کے لوگوں نے انہیں مکہ سے نکال دیا، لیکن وہ اپنے دین اور عقیدہ پر بڑی مضبوطی سے قائم رہیں۔
ایک اور انصاری صحابیہ امّ عمارہ نے جنگ احد میں مردوں کی طرح ثابت قدمی اور بے باکی کا مظاہرہ کیا، سعد بن ربیع کی صاحب زادی امّ سعد نے امّ عمارہ سے ان کے کارناموں کے بارے میں دریافت کیا ، انہوں نے تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اُحد کے دن صبح ہی سے مجاہدین کی خدمت کے لیے میدان میں پہنچ گئی تھیں ایک موقع ایسا بھی آیا کہ جب لوگ افراتفری میں بھاگنے لگے ،اس وقت میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے قریب پہنچ کر آپ صلی الله علیہ وسلم کے دفاع میں تیر اور تلوار چلانے لگی، یہاں تک کہ دشمن کی تلوار کا ایک وار میرے کندھے پر لگا جس کی وجہ سے کندھا زخمی ہو گیا تھا۔ امّ سعد کہتی ہیں کہ میں نے ان کے کندھے پر بہت سارے زخم کے نشان دیکھے ، امّ عمارہ  کہتی ہیں کہ تلوار کا یہ وار ابن قمیئہ نے کیا تھا، وہ مسلمانوں کی شکست کو دیکھ کر آپ صلی الله علیہ وسلم پر حملہ کرنے کے لیے قریب آیا ،اس وقت میں اور مصعب بن عمیر اور چند دوسرے اصحاب نے اس کا جم کر مقابلہ کیا ، میں نے بھی اس پر بہت وار کیے ؛ لیکن وہ دو دوزرہیں پہنا ہوا تھا ۔ اس نیک دل اور بہادر صحابیہ کے بارے میں خود رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: دائیں بائیں جس طرف میں نے دیکھا امّ عمارہ کو اپنی مدافعت میں لڑتے ہوئے پایا، اس دن کی جرات وثابت قدمی کو دیکھ کر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج امّ عمارہ کی ہمت وجرأت اور ثابت قدمی فلاں فلاں سے بہتر رہی ہے۔ ( طبقات ابن سعد:315-8/311)
رضي الله عنہم وعنہن

Flag Counter