حضرت حسن بن محمد ابن حنفیہ اور اِرجا ء کے قول کی تحقیق
مفتی ابو الخیر عارف محمود
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی
نام وسلسلہ نسب
آپ کا نام ونسب یوں ہے:حسن بن محمدبن علی بن ابی طالب، قرشی، ھاشمی ،مدنی ہیں ۔( البدایة والنہایة:9/ 151، تھذیب تاریخ دمشق الکبیر، المعروف بتاریخ ابنِ عساکر: 4/ 248، تاریخ الاسلام:3/ 132،التاریخ الکبیر:2/305،سیر اعلام النبلاء: 4/ 130طبقات ابنِ سعد :5/ 328،کتاب الثقات:4/122، تھذیب الکمال:6/ 316، تھذیب التھذیب: 2/320، خلاصة الخزرجی،ص:81، الجرح والتعدیل: 3/ 39، تقریب التھذیب: 164، الکاشف:1/ 329)
آپ کے” والد محمد بن علی“ابن الحنفیہ کے نام سے معروف ہیں، ابو محمد ان کی کنیت ہے، خلیفہ بن خیاط وغیرہ کہتے ہیں کہ ان کی والدہ کا نام جمال بنت قیس بن مخرمہ بن المطلب بن عبد مناف ہے ۔حنفیہ حضرت علی کی د وسری بیوی ہیں، جن سے آپ نے حضرت فاطمہ کی وفات کے بعد نکاح فرمایا، ان سے محمد پیدا ہوئے، جو اپنی والدہ کی نسبت سے محمد بن الحنفیہ کے نام سے مشہور ہوئے ۔(فتح الباری: 2/ 485، ارشاد الباری: 1/492، الکنز المتوزی: 3/195، تہذیب الکمال: 6/ 318، تاریخ الاسلام :3/133، طبقات ابن سعد:5/ 328، تہذیب الکمال:6/ 317، تہذیب التہذیب:2/ 320،طبقات ابن سعد :5/ 328)
علومِ حدیث میں کسب فیض
آپ نے جن اکابرین امت سے حدیث مبارکہ کا فیض پایا ان میں حضرت جابر بن عبد اللہ، سلمہ بن الاکوع ،عبد اللہ بن عباس،عبید اللہ بن ابی رافع ،ابو سعید خدری ،ابو ھریرہ،ام الموٴمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھم اجمعین کے علاوہ ان کے والد محمد بن الحنفیہ اور بنت ِ عبد اللہ بن جعفر شامل ہیں۔ (تہذیب الکمال :6/317،تہذیب التہذیب :2/320،تہذیب الاسماء واللغات :1/160،تاریخ ابن عساکر: 4/ 248)
تلامذہ
آپ سے حدیث کی روایت کرنے والوں میں ابان بن صالح، سعید بن المرزبان ،ابو سعد البقال،مسلمہ بن اسلم جہنی،عاصم بن عمر و بن قتادہ،عبدالوحد بن ایمن ،عثمان بن ابراھیم بن محمد بن حاطب جمعی،عمرو بن دینار ،قیس بن مسلم،محمد بن خلیفہ اسدی،محمد بن عبد اللہ بن قیس بن مخرمہ،محمد بن مسلم بن شھاب زھری ،منذر ثوری،موسیٰ بن عبیدہ ربذی اور ھلال بن خباب شامل ہیں ۔(حوالہ سابق ،تاریخ الاسلام :3/132،کتاب الثقات :4/ 122،خلاصة الخزرجی ،ص:81)
حالاتِ زندگی اور ائمہ کے اقوال
حسن بن محمد ابن حنفیہ بنو ھاشم کے خوش اسلوب، ہوشیار، زیرک اور عقل مند و دانا لوگوں میں سے تھے ۔(طبقات ابن سعد :5/ 328، تاریخ ابن عساکر:4/249،البدایة والنہایة9/151)یحییٰ بن معین فرماتے ہیں کہ حسن تابعین اہل ِ مدینہ اور محدثین اہل ِ مدینہ میں سے تھے۔ (تاریخ ابن عساکر :4/ 249)آپ کو صورت ،سیرت و کردار میں اپنے بھائی ابو ھاشم عبد اللہ پر برتری حاصل تھی ۔(طبقات ابن سعد :5/ 328،تہذیب الکمال :6/ 317،تہذیب التہذیب :2/320)اسلم کہتے ہیں کہ لوگوں کے ہاں آپ کا شمارمعتمد ترین شخصیات میں ہوتا تھا ۔(تاریخ ابن عساکر :4/ 249،تہذیب الکمال :6/319) حافظ ابن ِ کثیر فرماتے ہیں کہ لوگوں کے ہاں اختلافی مسائل ،فقہ اور تفسیرکے علم میں آپ کو نمایاں مقام حاصل تھا ۔(البدایة والنہایة:9/151)آپ نے اپنے پیچھے کوئی اولاد نہیں چھوڑی ۔(طبقات ابن سعد :5/ 328،تہذیب الکمال 6/ 318)
آپ فرمایا کر تے تھے کہ سب سے بہترین چادر حلم اور برد باری کی ہے ،اللہ کی قسم!یہ تمہارے لیے یمنی چادروں سے بہتر ہے ،اگر تمہارے اندر حلم و بردباری نہ ہو تو بتکلف حلیم و بردبار بنو ۔( تاریخ ابن عساکر : 4/249، تہذیب الکمال :6/ 320)حسن بن محمد اللہ کی محبت کے حوالے سے فرماتے تھے کہ جس کو کسی سے محبت ہوتی ہے وہ اس کی نا فرمانی نہیں کرتا ہے ،پھر آپ نے یہ اشعار پڑ ھے :
تعصی الإلہ وأنت تظہر حبہ
عارً علیک إذا فعلت شنیع
لو کان حبک صادقاً لأطعتہ
إن المحب لمن أحب مطیع
(تاریخ ابن عساکر :4/ 249،تہذیب الکمال :6/320)
تم اپنے معبودکی نا فرمانی کرتے ہواور اس سے محبت کا اظہار کرتے ہو (یعنی اس سے محبت کے دعوے دار ہو )اگر تم ایسا کرو تو یہ باعثِ شرم اور قابل ِ نفرت بات ہے ۔
اگر تمہاری محبت سچی ہوتی تو تم اس کی اطاعت و فرماں برداری کرتے ؛اس لیے کہ محب اپنے محبوب کافرماں بردار (مطیع) ہوتا ہے ۔
مزید فرماتے ہیں کہ :
ما ضر من کانت الفردوس منزلہ
ما کان فی العیش من بوٴس واقتار
تراہ یمشی حزیناً جائعاً شعثاً
إلی المساجد یسعی بین أطمار
(تہذیب الکمال :6/321،تاریخ ابن عساکر :4/249)
زندگی میں موجود بد حالی اور تنگی معاش اس شخص کو کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتی جس کا ٹھکانہ جنت الفردوس ہو۔
تو اسے دیکھے گا اے مخاطب کہ وہ غمگین ،بھوکا ،پرا گندہ حال، بوسیدہ و پرانے کپڑوں میں اور ناداری و مفلسی کی حالت میں مساجد کی طرف جاتا ہے ۔
مسعر کہتے ہیں کہ حسن بن محمد حضور صلی الله علیہ وسلم کے ارشاد ”لیس منا“ کی تفسیر”لیس مثلنا“سے کرتے تھے ۔(تاریخ الاسلام: 3/133،تہذیب الکمال :6/ 319)علامہ ذہبی فرماتے ہیں کہ حسن علمائے اہل ِ بیت میں سے تھے ،ان کی فضیلت کے بارے میں عمرو بن دینار کا یہ قول کافی ہے :”ما رأیت أحدا ً أعلم بما اختلف فیہ الناس من الحسن بن محمد، ماکان زھریُّکم إلا غلاماً من غلمانہ“ (سیر اعلام النبلا: 4/ 130،تہذیب التہذیب :2/ 320،تاریخ الاسلام :3/ 132،133) یعنی میں نے لوگوں کے اختلافی مسائل میں حسن بن محمد سے بڑھ کر کسی کو عا لم نہیں پایا ،تمہارے زہری تو ان کی خدمت میں رہنے والے نوجوانوں میں سے ایک تھے ۔
حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کے بارے میں حسن بن محمد کا موقف
امام دار قطنی نے حسن بن محمد سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے اہلِ کوفہ کو مخاطب کر کے فرمایا : ”یا أھل الکوفہ! اتقواللّٰہ، ولا تقوا لوا فی أبی بکر وعمر ما یسالہ بأھل، إن أبا بکر کان مع رسول اللّٰہ في الغار ثاني اثنین، وإن عمر أعز اللّٰہ بہ الدین“․(تاریخ ابن عساکر :4/249، تھذیب الکمال :6/319)یعنی اے اہلِ کوفہ ! تم اللہ سے ڈرواور ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں ایسی بات مت کہو جو ان کی شایانِ شان نہیں،بے شک ابو بکر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ غارِ ثور کے دو میں سے ایک تھے اور عمر کے ذریعے اللہ نے دین ِاسلام کوعزت وبلندی عطا فرمائی ہے ۔
ابنِ حبان کہتے ہیں کہ حسن بن محمد فرمایا کر تے تھے :”من خلع أبا بکر وعمر فقد خلع السنة“․ (کتاب الثقات :4/122،خلاصة الخزرجی ،ص:81)
اہل بیت کے نام پر جادہ مستقیم سے گم راہ ایک فرقہ حسن بن محمد کی نظر میں
محمد بن طلحہ یامی کہتے ہیں کہ حسن بن محمد نے( اہل بیت کے نام گم راہ ہونے والے،جادہ مستقیم سے ہٹے ہوئے ایک فرقہ کا تعارف کرواتے ہوئے )فرمایا :”منھم شیعة متمنیة ینقمون المعصیة علیٰ أھلھا ویعملون بھا، اتخذوا أھل البیت من العرب إماماً، وقلدوھم دینھم، یوالون علی حبھم، ویعادون علیٰ بغضھم، جفاة للقراٰن، أتباع للکھان، یرجون الدولة في بعث یکون قبل قیا م الساعة، حرفوا کتاب الّٰلہ، وارتشوا في الحکم وسعوا في الارض فساداً“․(تاریخ الاسلام:3/134)یعنی لوگوں میں سے (شیعوں) کا امیدیں کر نے والا ایک گروہ ہے،جو گنہگاروں پر ان کے گناہوں کی وجہ سے کدح کرتے ہیں اور خود ان کا ارتکاب کرتے ہیں ،عرب میں اہلِ بیت کو اپنا امام قرار دیا اورد ین میں ان کی اتباع کے دعوے دار ہیں،اہلِ بیت سے محبت کی بنا پر لوگوں سے محبت اور ان سے بغض کی وجہ سے لوگوں سے بغض کا اظہار کرتے ہیں، یہ(لوگ) قرآن کے دشمن ہیں ،کاہنوں (جادوگروں) کے فرماں بردار ہیں، قیامت کے آنے سے پہلے حکومت کے قیام کے خواہش مند ہیں ، انہوں نے کتاب اللہ میں تحریف کی ،فیصلوں میں رشوت لی اور زمین میں فساد مچایا ہے ۔(تاریخ الاسلام :4/ 134)
ائمہ جرح و تعدیل کے توثیقی اقوال
امام احمد نے فرمایا : ”مدنی ،تابعی، ثقة“․تاریخ ابنِ عساکر:4/249،تاریخ الاسلام :3/134)حافظ ابنِ حجر نے فرمایا:”ثقة فقیہ“․ (تقریب التھذیب،ص164)امام نووی نے ”تہذیب الاسماء واللغات“ میں ائمہ کا ان کی توثیق پر اتفاق نقل کیا ہے ۔(تہذیب الاسماء واللغات :1/160)
حسن بن محمد کی طرف ارجاء کے قول کی تحقیق
حسن بن محمد کی طرف ارجاء کی نسبت کی گئی ہے ،بلکہ مصعب زبیری ،مغیرہ بن مقسم ،عثمان بن ابراہیم حاطبی ،ابن سعد ،ایوب سختیانی ،امام احمد ،عجلی وغیرہ نے کہا : ”أول من تکلم فی الإرجاء الحسن بن محمد الحنفیة“․(تھذیب التھذیب :2/320،تھذیب الکمال:6/318، طبقات ابن سعد :5/328،البدایة والنہایة:9/9/151،تاریخ ابنِ عساکر :4/249،تاریخ الاسلام :3/133)یعنی سب سے پہلے ارجاء کے بارے میں بات کرنے والے حسن بن محمد حنفیہ تھے ۔
عثمان بن ابراہیم کہتے ہیں کہ میں اس دن(جس دن حسن بن محمد بن حنفیہ نے ا رجاء کے بارے میں بات کی) اپنے چچا کے ساتھ ان کے حلقہ میں موجود تھا ،اس مجلس میں حجدب بھی تھا۔(ابن عساکر :4/249،تاریخ الاسلام : 3/133میں حجدب اور جندب منقول ہے۔) اور اس کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی تھے ،ان لوگوں نے حضرت علی،عثمان ،طلحہ،اور زبیررضی اللہ عنہم کے بارے میں نکتہ چینی شروع کردی ،ان کی باتیں زیادہ ہوگئیں ،جب کہ حسن بن محمد خاموش بیٹھے ہوئے تھے ،پھر حسن بن محمد نے گفتگو کی اور فر مایا :”قد سمعت مقالتکم، ولم أر شیئاً أمثل من أن یرجا علي وعثمان، وطلحة والزبیر، فلا یتولوا، ولا یتبرأ منھم“․ (تھذیب الکما ل : 6/321، تاریخ الاسلام :133،تاریخ ابن عساکر :4/249)”یعنی میں نے تمہاری باتیں سنی، میں اس سے بڑھ کر کسی چیز کو نہیں پاتا کہ علی،عثمان ،طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنھم اجمعین کا معاملہ موٴخر کیا جائے، نہ ان سے موالات (دوستی) کا اظہار کیا جائے، نہ برأت کا “۔
ان کے والد محمد بن الحنفیہ کو جب اس قول کا پتہ چلا تو تو انہوں نے حسن کی خوب تائید کی اور فرمایا کہ کیا تم اپنے دادا حضرت علی سے بھی محبت کا اظہار نہیں کروگے ؟(البدایة والنہایة: 9/ 151، تاریخ الاسلام : 3/133، ابن عساکر : 4/249)اسی ارجاء کے بارے میں انہوں نے کوئی رسالہ بھی لکھا تھا۔(تاریخ الاسلام : 3/133،ابن عساکر :4/25،تھذیب الکمال: 6/ 322)
علامہ ذھبی کا قول
علامہ ذھبی فرماتے ہیں کہ جس ارجاء کا قول حسن بن محمد نے کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عثمان و علی رضی اللہ عنھما کا معاملہ اللہ کے حوالہ کر دیا جائے ،وہ جو چاہیں ان کے بارے میں فیصلہ فرمادیں ۔(تاریخ الاسلام : 3/133)
حافظ ابن حجر کی تحقیق
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ :”المراد بالإرجاء الذي تکلم الحسن بن محمد فیہ غیر الإرجاء الذي یعیبہ أھل السنة المتعلق بالایمان“ ․یعنی حسن بن محمد کے ارجاء کے بارے میں قول سے مراد وہ ارجاء نہیں جس کا تعلق ”ایمان“سے ہے اور جس کو اہلِ سنت معیوب سمجھتے ہیں ۔ (تھذیب التھذیب :2/321)
حافظ صاحب مزید فرماتے ہیں کہ میں نے حسن بن محمد کی کتاب کو پڑھا، اس میں تقویٰ کی وصیت اور وعظ کے بارے میں ایک طویل کلام تھا، اس کے آخر میں یہ لکھا ہوا تھا کہ ہم حضرت ابو بکرو عمررضی اللہ عنھما سے دوستی کا اظہار کر تے ہیں اور ان دونوں کے بارے میں کوشش کرتے ہیں کہ (کوئی ان کے بارے میں غلط بات نہ کہے )اس لیے کہ امت کا ان دونوں کے بارے میں کوئی جھگڑا اور لڑائی نہیں ہوئی اور امت کو ان کے معاملہ میں کوئی شک نہیں، البتہ ان کے بعد جو لوگ فتنہ میں مبتلا کیے گئے، ان کا معاملہ موٴخر کر تے ہیں اور ان کا معاملہ اللہ کے حوالہ کرتے ہیں ۔(تھذیب التھذیب :2/321،تاریخ الاسلام :3/133)حافظ صاحب فرماتے ہیں کہ حسن بن محمد کے اس مذکورہ بالا کلام کا مطلب یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کی ان دو جماعتوں کے بارے میں اس خطا وصواب کا حتمی فیصلہ نہیں فرماتے جن کے ما بین فتنہ کے زمانہ میں لڑائی ہوئی ،بلکہ وہ ان کا معاملہ اللہ کے حوالے کر تے تھے، اس سے معلوم ہوا کہ ان کی مراد ارجاء سے وہ نہیں جس کا تعلق ایمان سے ہے ،لہذا اس قول کی وجہ سے ان کو کوئی عیب و خامی لاحق نہیں ہوتی ہے۔(تھذیب التھذیب :2/321)
مزید برآں حسن بن محمد سے ارجاء کے اس قول ( جس کی وضاحت سابق میں گئی)سے رجوع بھی ثابت ہے ،چناں چہ عطاء بن سائب نے زاذان اور میسرہ سے نقل کیا ہے کہ وہ دونوں حضرت حسن کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان دونوں نے ان کو ارجاء پر لکھی ہوئی کتاب پر ملامت کی تو حضرت حسن بن محمد نے فرمایا: ”لوددت أنی مت ولم أکتبہ“ ․”کاش میں مرجاتا اور اسے نہ لکھتا “۔(تاریخ ا لاسلام:3/133،تاریخ ابن عساکر:4/ 25، تھذیب الکمال :6/322)
سابقہ تصریحات سے ایک تو ان کی طرف منسوب ارجاء کے قول کی حقیقت معلوم ہوئی اور اس سے ان کا رجوع بھی ثابت ہوگیا ۔لہٰذا”ارجاء“ کے قول کی وجہ سے ان کو عیب دار کرنا درست نہیں ۔
وفات حسرت آیات
آپ کے سنہ وفات میں اختلاف ہے، ابو یعقوب اسحاق بن ابراہیم بن عبد الرحمٰن ھروی اور ابو عبید القاسم بن سلام وغیرہ سے 95ہجری منقول ہے۔(تاریخ الاسلام :4/ 134 ،البدایة والنہایة :9/151، 156،تھذیب الکمال : 6/322 ،الکاشف :1/ 330،خلاصة الخزرجی، ص: 81) خلیفہ بن خیاط اور محمد بن واقدی کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز کے دور میں انتقال ہوا۔(تاریخ الاسلام : 3/134، طبقات ابن سعد :5/328، البدایة والنہایة: 9/151)خلیفہ بن خیاط نے طبقات میں فرمایا کہ سنہ 99ہجری یا 100ہجری میں انتقال ہوا، جب کہ خلیفہ بن خیاط سے تاریخ میں 101ہجری بھی منقول ہے۔(سیر اعلام النبلاء :4/130، تھذیب التھذیب :2/ 320،321،تاریخ ابن عساکر : 4/ 250، تھذیب الکمال:6/322،تھذیب الاسماء واللغات: 1/ 160، تقریب التھذیب :ص:164)ا سی کو علامہ مزی نے ابن عساکر سے بھی نقل کیا ہے۔(تاریخ ابن عساکر:4/ 250،تھذیب الکمال: 6/322)
طبقات میں مذکور99یا 100 ہجری اور عمر بن عبد العزیز کے دورِ خلافت والے قول میں کوئی تعارض نہیں ،اس لیے کہ99اور100 ہجری عمر بن عبد العزیز کا دورِ خلافت ہی ہے ،جب کہ101 ہجری والا قول مزی اور ابن عساکر دونوں کا وہم ہے، ایک دوسرے سے نقل چلا آرہا ہے۔(تعلیقات تھذیب الکمال:6/322،323) رحمہ اللّٰہ رحمة واسعة․