Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاول 1435ھ

ہ رسالہ

3 - 15
یہودیت کی کج رَوی کے چند نمونے

استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ
	
ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)

﴿وَلَمَّا جَاء ہُمْ کِتَابٌ مِّنْ عِندِ اللّہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمْ وَکَانُواْ مِن قَبْلُ یَسْتَفْتِحُونَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُواْ فَلَمَّا جَاء ہُم مَّا عَرَفُواْ کَفَرُواْ بِہِ فَلَعْنَةُ اللَّہ عَلَی الْکَافِرِیْنَ ،بِئْسَمَا اشْتَرَوْاْ بِہِ أَنفُسَہُمْ أَن یَکْفُرُواْ بِمَا أنَزَلَ اللّہُ بَغْیْاً أَن یُنَزِّلَ اللّہُ مِن فَضْلِہِ عَلَی مَن یَشَاء ُ مِنْ عِبَادِہِ فَبَآؤُواْ بِغَضَبٍ عَلَی غَضَبٍ وَلِلْکَافِرِیْنَ عَذَابٌ مُّہِیْن﴾ (البقرة، آیت:90-89)
ترجمہ:” او رجب پہنچی ان کے پاس کتاب، الله کی طرف سے، جو سچا بتاتی ہے اس کتاب کو جوان کے پاس ہے اور پہلے سے فتح مانگتے تھے کافروں پر، پھر جب پہنچا ان کو جس کو پہچان رکھا تھا، تو اس سے منکر ہو گئے۔ سو لعنت ہے الله کی منکروں پر، بری چیز ہے وہ جس کے بدلے بیچا انہوں نے اپنے آپ کو کہ منکر ہوئے اس چیز کے، جو اتاری الله نے، اس ضد پر کہ اتارے الله اپنا فضل، جس پر چاہے اپنے بندوں میں سے، سو کمالائے غصہ پر غصہ اور کافروں کے واسطے عذاب ہے ذلت کا۔“

تفسیر
﴿ولما جاء ھم کتب من عندالله… ﴾کتٰب سے قرآن کریم مراد ہے، جو خود بھی سچی کتاب ہے اورتورات میں نزول قرآن اور آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے متعلق جو بشارتیں مذکور ہیں ان کی بھی تصدیق کرتی ہے ، اس لیے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی تکذیب درحقیقت تورات ہی کی تکذیب ہے ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی بعثت سے قبل تم اس انتظار میں تھے کہ کب آخری نبی کی تشریف آوری ہو گی؟ اپنے دشمنوں کو ان کی آمد سے ڈرایا کرتے تھے، چناں چہ ایک انصاری سے روایت ہے کہ زمانہ قبل اسلام میں جب یہودی ہم سے شکست کھا جاتے تو ہمیں ڈراتے کہ ایک نبی ظاہر ہونے والا ہے، اس کی معیت میں ہم تمہیں قتل کرکے رکھ دیں گے ۔ ( سیرة ابن ہشام، باب خبر إنذار یہود برسول الله صلی الله علیہ وسلم: 211/2، المکتبة العلمیة، بیروت)

لیکن جب نبی منتظر تشریف لے آئے اور یہ انہیں پوری طرح پہچان بھی چکے، پھر بھی ایمان لانے سے انکار کر دیا، صرف اس لیے(ان کے زعم کے مطابق) کہ نبی کا ظہور بنی اسرائیل میں ہونا چاہیے تھا، بنی اسماعیل میں کیوں ہوا؟ ایسے حسد، تعصب او رہٹ دھرمی پر الله کی مار ہو۔

﴿فباؤا بغضب علی غضب﴾ ( سو کما لائے غصہ پر غصہ) الله تعالیٰ کے غضب کی ایک وجہ تو ان کا کفر اور دوسرا ان کا حاسدانہ رویہ تھا، مغضوب اسے کہتے ہیں جو دیدہ دانستہ احکام خداوندی کی خلاف ورزی کرے، حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ:”الیہود مغضوب والنصاری ضلال․“ (جامع الترمذی رقم:2953) یہود مغضوب علیہ ہیں اور نصاری گم راہ ہیں۔ غَضبٍ کا صیغہ نکرہ شدت غضب کے اظہار کے لیے ہے۔ (جلالین، البقرة، تحت آیة رقم:90)۔

ان آیات کی روشنی سے معلوم ہوا کہ نجات کے لیے صرف حق کا جان لینا کافی نہیں، بلکہ حق کا ماننا اور اس کی حقانیت کا اقرار کرنا بھی ضروری ہے اور یہ اقراراختیاری ہو، اضطراری نہ ہو ۔ یہود آپ کی نبوت اور حقانیت سے پوری طرح واقف تھے۔پھر بھی کافررہے۔

اگلی آیت میں ان کا ایک قول نقل ہو رہا ہے ،جس سے ان کا کفر بھی ظاہر ہو رہا ہے او رحسد بھی ٹپک رہا ہے۔
< ﴿وَإِذَا قِیْلَ لَہُمْ آمِنُواْ بِمَا أَنزَلَ اللّہُ قَالُواْ نُؤْمِنُ بِمَا أُنزِلَ عَلَیْْنَا وَیَکْفُرونَ بِمَا وَرَاء ہُ وَہُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقاً لِّمَا مَعَہُمْ قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ أَنبِیَاء َ اللّہِ مِن قَبْلُ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْنَ،وَلَقَدْ جَاء کُم مُّوسَی بِالْبَیِّنَاتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِن بَعْدِہِ وَأَنتُمْ ظَالِمُونَ، وَإِذْ أَخَذْنَا مِیْثَاقَکُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَکُمُ الطُّورَ خُذُواْ مَا آتَیْْنَاکُم بِقُوَّةٍ وَاسْمَعُواْ قَالُواْ سَمِعْنَا وَعَصَیْْنَا وَأُشْرِبُواْ فِیْ قُلُوبِہِمُ الْعِجْلَ بِکُفْرِہِمْ قُلْ بِئْسَمَا یَأْمُرُکُمْ بِہِ إِیْمَانُکُمْ إِن کُنتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ، قُلْ إِن کَانَتْ لَکُمُ الدَّارُ الآَخِرَةُ عِندَ اللّہِ خَالِصَةً مِّن دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُاْ الْمَوْتَ إِن کُنتُمْ صَادِقِیْنَ، وَلَن یَتَمَنَّوْہُ أَبَداً بِمَا قَدَّمَتْ أَیْْدِیْہِمْ وَاللّہُ عَلِیْمٌ بِالظَّالِمیْنَ﴾  (البقرة، آیت:95-91)
ترجمہ:اور جب کہا جاتا ہے ان سے مانو اس کو جو الله نے بھیجا ہے تو کہتے ہیں ہم مانتے ہیں جو اترا ہے ہم پر او رنہیں مانتے اس کو جو سوا اس کے ہے، حالاں کہ وہ کتاب سچی ہے ،جو تصدیق کرتی ہے اس کتاب کی جو ان کے پاس ہے، کہہ دو پھر کیوں قتل کرتے رہے ہو الله کے پیغمبروں کو پہلے سے؟ اگر تم ایمان رکھتے تھے او ر آچکا تمہارے پاس موسی صریح معجزے لے کر، پھر بنا لیاتم نے بچھڑا اس کے گئے پیچھے اور تم ظالم ہو او رجب ہم نے قرارلیا تمہارا اور بلندکیا تمہارے اوپر کوہ طو رکو، پکڑو جو ہم نے تم کو دیا زور سے اور سنو۔ بولے سنا ہم نے اور نہ مانا اور پلائی گئی ان کے دلوں میں محبت اس بچھڑے کی بسبب ان کے کفر کے۔ کہہ دے کہ بری باتیں سکھاتا ہے تم کو ایمان تمہارا ،اگر تم ایمان والے ہو۔ کہہ دے کہ اگر ہے تمہارے واسطے آخرت کا گھر الله کے ہاں تنہا، سوا اور لوگوں کے تو تم مرنے کی آرزو کرو، اگر تم سچ کہتے ہو ۔ اور ہر گز آرزو نہ کریں گے موت کی کبھی، بسبب ان گناہوں کے کہ بھیج چکے ہیں ان کے ہاتھ اور الله خوب جانتا ہے گناہ گاروں کو۔

تشریح
جب یہودیوں کو قرآن کریم پر ایمان لانے کی دعوت دی جاتی تو یہ بڑے فخر او رتکبر سے یہ دعوت ٹھکرا کر کہتے کہ ہم تو صرف تورات پر ایمان رکھتے ہیں۔

ان کا یہ دعوی سراسر جھوٹ پر مبنی ہے، اگر یہ واقعتا تورات پر ایمان رکھتے ہیں تو پھر قرآن کریم پر ایمان لانے سے کیوں کتراتے ہیں ؟ وہ بھی تورات کی طرح ایک آسمانی صحیفہ ہے، اگر کوئی شک وشبہہ ہے تو پیش کریں، محض انکار تو کوئی معنی نہیں رکھتا۔

اگریہ تورات کے سچے پیروکار ہوتے تو انبیا علیہم السلام کو قتل نہ کرتے، بچھڑے کو معبود بنا کر اس کی پرستش نہ کرتے، عہد شکنی کا ارتکاب نہ کرتے، نافرمانیوں کا یہ سبق نہ حضرت موسی ں نے پڑھایا تھا، نہ تورات میں درج تھا۔

یہ کام اگرچہ یہودیوں کے آباء واجداد نے کیے تھے، لیکن موجودہ یہودی انہیں اپنا مقتدا اور پیشوا سمجھتے ہیں، اس لیے قرآنی آیت میں انہیں مخاطب کیا گیا ہے۔
﴿قل إن کانت لکم الدار الاٰخرة…﴾
یہودی انبیا علیہم السلام کی اولاد ہونے کی وجہ سے نسلی تفاخر اور خود پسندی کے مرض میں مبتلا تھے، انہیں ہمیشہ یہ گھمنڈ رہتا کہ ہم الله تعالیٰ کے محبوب بندے ہیں، اس لیے جنت کی نعمتیں فقط ہمارے لیے ہیں۔

اولاً: تو یہ دعوی ان لوگوں کو کرنا چاہیے جو دین حق پر قائم ہوں۔ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی بعثت سے دین موسوی منسوخ ہو چکا ہے ، اب دین اسلام ہی دین حق ہے۔

ثانیا: اگر یہودی خود کو جنت کی نعمتوں کا حق دار سمجھتے ہیں تو اس پر کوئی دلیل پیش کریں ،اگر یہ نہیں کر سکتے تو اس کا فیصلہ قدرت الہٰی سے کرالیا جائے، چناں چہ حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کے زمانہ مبارک کے یہودیوں کو چیلنج دیا گیا کہ اگر تم اپنے دعوی میں سچے ہو تو موت کی تمنا کرکے دکھاؤ، کیوں کہ جنت کی نعمتوں سے لطف اٹھانے کا راستہ موت کے پل سے ہی گزر کر جاتا ہے ، لیکن یہودیوں کو مال ومتاع کا حرص، زندگی سے محبت، کافرانہ اعمال کی وجہ سے اخروی سزا کاخوف موت کی تمنا پر آمادہ نہ کر سکا۔ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا، اگر یہ لوگ قرآن کریم کا چیلنج قبول کرکے موت کی تمنا کر بیٹھتے تو ہلاک ہو جاتے۔ (مسند احمد:248/1) واضح رہے کہ یہ چیلنج آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے زمانہ مبارک کے یہودیوں کے ساتھ خاص تھا۔

ایک شبہے کا ازالہ
ممکن ہے یہاں کسی کو شبہہ ہو کہ موت سے خوف کھانا تو ہر انسان کی فطری کمزوری ہے ، یہ الزام صرف یہودیوں کو کیوں دیا گیا؟

یہ بات تو بلاشبہہ درست ہے کہ کسی کا دل موت کی تمنا پر آمادہ نہیں ہوتا، لیکن یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ زندگی کے راستے میں بعض موڑ ایسے آجاتے ہیں جہاں موت کا طبعی خوف زائل ہو جاتا ہے ۔ مثلاً دیکھا گیا ہے مصیبت زدہ کمزور دل کے لوگ حالات سے مایوس ہو کر موت کی تمنا کرنے لگتے ہیں، بلکہ بعض اوقات خود کشی کی حرام موت پر آمادہ ہو جاتے ہیں، اسی طرح الله تعالیٰ کے جن محبوب بندوں پر لقائے الہٰی کا شوق غالب آجاتا ہے وہ بھی شوق زیارت کی باطنی کیفیتوں سے مجبور ہو کر موت کی تمنا کرنے لگتے ہیں، تاکہ پردے کی یہ دیوار ہٹے اور محبوب حقیقی کے شربت دیدار سے جام محبت نوش کیا جاسکے، اولیاء الله کی یہ تمنا شرعاً مذموم بھی نہیں۔

ان مثالوں سے یہ حقیقت تو واضح ہو گئی کہ دنیا کے بعض حالات اور دل کی بعض کیفیتیں انسان کو موت کے طبعی خوف سے ماورا کر دیتی ہیں، یہ حقیقت جان لینے کے بعد اب سوچیے، جس شخص کو اپنے دین کی صداقت پر مکمل یقین ہو اور آخرت کی سرفرازی پر بھی پورا اطمینان ہو، اگر اسے موت نہیں، صرف موت کی آرزو کا چیلنج دے کر اس کے دین کی حقانیت طلب کی جائے تو اس کا ردِ عمل کیا ہو گا؟ اگر وہ سچے دین پر قائم ہے تو یقینا اس چیلنج کو اپنی متاعِ حیات کا قیمتی اعزاز سمجھ کر قبول کرے گا، اس کی دلی خواہش ہو گی کہ دین حق کی سربلندی کا یہ بہترین موقع او رنازک امتحان میری ہی حقیر جان سے انجام پائے، یہ وہ نازک لمحات ہیں جہاں دینِ حق کی آب یاری کے لیے جانثاری کا جذبہ ایک مومن کو موت کے خوف سے عاری کر دیتا ہے ۔ اگر یہودی اپنے دین میں سچے ہوتے تو اس موقع پر موت سے گریزاں رہ کر اپنے دین کے لیے شرم ساری کا باعث نہ بنتے۔

﴿وَلَتَجِدَنَّہُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَی حَیَاةٍ وَمِنَ الَّذِیْنَ أَشْرَکُواْ یَوَدُّ أَحَدُہُمْ لَوْ یُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَمَا ہُوَ بِمُزَحْزِحِہِ مِنَ الْعَذَابِ أَن یُعَمَّرَ وَاللّہُ بَصِیْرٌ بِمَا یَعْمَلُونَ، قُلْ مَن کَانَ عَدُوّاً لِّجِبْرِیْلَ فَإِنَّہُ نَزَّلَہُ عَلَی قَلْبِکَ بِإِذْنِ اللّہِ مُصَدِّقاً لِّمَا بَیْْنَ یَدَیْْہِ وَہُدًی وَبُشْرَی لِلْمُؤْمِنِیْنَ، مَن کَانَ عَدُوّاً لِّلّہِ وَمَلآئِکَتِہِ وَرُسُلِہِ وَجِبْرِیْلَ وَمِیْکَالَ فَإِنَّ اللّہَ عَدُوٌّ لِّلْکَافِرِیْنَ، وَلَقَدْ أَنزَلْنَا إِلَیْْکَ آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ وَمَا یَکْفُرُ بِہَا إِلاَّ الْفَاسِقُونَ،أَوَکُلَّمَا عَاہَدُواْ عَہْداً نَّبَذَہُ فَرِیْقٌ مِّنْہُم بَلْ أَکْثَرُہُمْ لاَ یُؤْمِنُون،وَلَمَّا جَاء ہُمْ رَسُولٌ مِّنْ عِندِ اللّہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمْ نَبَذَ فَرِیْقٌ مِّنَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ کِتَابَ اللّہِ وَرَاء ظُہُورِہِمْ کَأَنَّہُمْ لاَ یَعْلَمُونَ﴾ ( البقرہ، آیت:101-96)
ترجمہ:اور تو دیکھے گا ان کو سب لوگوں سے زیادہ حریص زندگی پر اور زیادہ حریص مشرکوں سے بھی، چاہتا ہے ایک ایک ان میں کا کہ عمر پاوے ہزار برس اور نہیں اس کو بچانے والا عذاب سے اس قدر جینا۔ اور الله دیکھتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں ، تو کہہ دے جوکوئی ہووے دشمن جبرئیل کا، سو اس نے تو اتارا ہے یہ کلام تیرے دل پر، الله کے حکم سے کہ سچا بتانے والا ہے اس کلام کو ،جو اس کے پہلے ہے اور راہ دکھاتا ہے اور خوش خبری سناتاہے ایمان والوں کو، جو کوئی ہوئے دشمن الله کا اور اس کے فرشتوں کا او راس کے پیغمبروں کا اور جبرئیل او رمیکائیل کا تو الله دشمن ہے ان کافروں کا اور ہم نے اتاریں تیری طرف آیتیں روشن اور انکار نہ کریں گے ان کا مگر وہی جو نافرمان ہیں۔ کیا جب کبھی باندھیں گے کوئی اقرار تو پھینک دے گی اس کو ایک جماعت ان میں سے؟ بلکہ ان میں اکثر یقین نہیں کرتے اور جب پہنچا ان کے پاس رسول الله کی طرف سے تصدیق کرنے والا اس کتاب کی جوان کے پاس ہے تو پھینک دیا ایک جماعت نے اہل کتاب سے، کتاب الله کو اپنی پیٹھ کے پیچھے، گویا کہ وہ جانتے ہی نہیں۔

تفسیر
یہودی زندگی کے حریص ہیں
جن لوگوں کو یقین ہو کہ جنت کی نعمتوں اور آسائشوں پر ہمارا ہی حق ہے، وہ دنیا کی مصیبتوں اور تکلیفوں میں رہنا پسند نہیں کرتے، لیکن یہودی بھی ایک عجب تماشا ہیں، ایک طرف تو ان کا دعوی ہے کہ ہم محبوبانِ خدا ہیں، دوسری طرف دنیاوی زندگی سے محبت کا یہ عالم کہ ہر یہودی کا دل عمر دراز کی خواہش کا بسیرا بن چکا ہوتا ہے، بلکہ اس معاملے میں یہ مشرکین سے بھی آگے نکل چکے ہیں ،جن کا سب کچھ دنیا ہی ہے، آخرت کا کوئی تصور نہیں۔ عمر دراز کی یہ خواہشیں ،دنیا سے محبت کا یہ عالم اس بات کی دلیل ہے کہ یہودیوں کا دعوی محبت خود ان کی اپنی نظر میں بھی جھوٹا ہے، جہنم کا خوف انہیں تمنائے موت پر آمادہ نہیں کرتا۔

﴿قل من کان عدوا لجبریل﴾
حضرت جبرائیل ں سے عداوت
نسلی اور قومیتعصب ایک ایسا نفسیاتی مرض ہے جو انسانی ذہن کو مفلوج اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری او رحق وباطل کی تمیز ختم کر دیتا ہے ، یہود اس مرض میں کس قدر میں مبتلا تھے ؟ اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ یہ حضرت جبرائیل علیہ السلام جیسے مقدس اور معزز فرشتے سے بھی دشمنی رکھتے تھے، کیوں کہ وہ ان نافرمانوں کے لیے عذابِ الہٰی کا پیغام لے کر آتے تھے، یہودی انہیں اپنا قومی دشمن سمجھتے، جب انہیں معلوم ہوا کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام وحی الہی لے کر آتے ہیں تو انہوں نے یہ کہہ کر ایمان لانے سے انکار کر دیا کہ ہم اپنے دشمن کی لائی ہوئی وحی پر ایمان نہیں لاسکتے ۔

فرشتے اپنی طرف سے تو کچھ نہیں کرتے، وہ تو محض سفیر ہیں، خدا کا پیغام انبیا تک پہنچاتے ہیں، ان سے دشمنی کے کیا معنی؟ یہ درحقیقت خدا سے دشمنی ہے، کیا خدا سے دشمنی کرنے والا خدا کی دشمنی سے محفوظ رہ سکتا ہے ؟

﴿ولقدا انزلنا الیک آیات بینات﴾ یہودی آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے معجزات کا مطالبہ کیا کرتے تھے ۔ اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی، جس میں آپ صلی الله علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرمایا گیا کہ آپ کی نبوت ورسالت پر ایسے واضح اور قطعی دلائل موجود ہیں جو شکوک وشبہات کا ہر پردہ ہٹا دیتے ہیں ، واضح اور قطعی دلائل سے قرآن کریم سمیت وہ تمام علامات نبوت، شواہد ومعجزات مراد ہیں جو آپ صلی الله علیہ وسلم کی ذات مبارکہ سے ظہور پذیر ہوئے۔ ان کا انکار صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جو کافرانہ رویہ رکھتے ہوں ، یہاں فسق سے مراد کفر ہے، کیوں کہ یہ فسق اعمال نہیں، فسقِ عقائد ہے۔ ( البحر المحیط، البقرہ، تحت آیة رقم:99)

﴿اوکلما عہدوا عہداً﴾ یہودیت کی تاریخ غداری، عہد شکنی مکروفریب کی داستانوں سے بھری پڑی ہے، اس آیت کریمہ میں ان کے اسی قومی مرض کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے کہ جب بھی ان کا الله تعالیٰ سے کوئی عہد وپیمان کا سلسلہ بند ھتا تو ان کی ایک جماعت اسے نظر انداز کرنے پر تل جاتی، تورات میں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم پر ایمان لانے کا عہد ہوا، اسے پورا کرنے کا موقع آیا تو اپنے عہد سے پھر گئے ،ایک جماعت کی تخصیص اس لیے کی گئی ہے کہ بعض لوگ عہد الہٰی پر پورے اترتے رہے ، یہاں تک کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم پر بھی ایمان لے آئے۔
﴿ وَاتَّبَعُواْ مَا تَتْلُواْ الشَّیَاطِیْنُ علَی مُلْکِ سُلَیْْمَانَ وَمَا کَفَرَ سُلَیْْمَانُ وَلَکِنَّ الشَّیْْاطِیْنَ کَفَرُواْ یُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْْنِ بِبَابِلَ ہَارُوتَ وَمَارُوتَ وَمَا یُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّی یَقُولاَ إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلاَ تَکْفُرْ فَیَتَعَلَّمُونَ مِنْہُمَا مَا یُفَرِّقُونَ بِہِ بَیْْنَ الْمَرْء ِ وَزَوْجِہِ وَمَا ہُم بِضَآرِّیْنَ بِہِ مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّہِ وَیَتَعَلَّمُونَ مَا یَضُرُّہُمْ وَلاَ یَنفَعُہُمْ وَلَقَدْ عَلِمُواْ لَمَنِ اشْتَرَاہُ مَا لَہُ فِیْ الآخِرَةِ مِنْ خَلاَقٍ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْاْ بِہِ أَنفُسَہُمْ لَوْ کَانُواْ یَعْلَمُونَ،وَلَوْ أَنَّہُمْ آمَنُواْ واتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ مِّنْ عِندِ اللَّہ خَیْْرٌ لَّوْ کَانُواْ یَعْلَمُونَ﴾  (البقرہ، آیت:103-102)
ترجمہ:اور پیچھے ہو لیے اس علم کے ، جو پڑھتے تھے شیطان سلیمان کی بادشاہت کے وقت او رکفر نہیں کیا سلیمان نے، لیکن شیطانوں نے کفر کیا کہ سکھلاتے تھے لوگوں کو جادو او راس علم کے پیچھے ہو لیے جو اتر ادو فرشتوں پر شہر بابل میں، جن کا نام ہاروت اور ماروت ہے اور نہیں سکھاتے تھے وہ دونوں فرشتے کسی کو، جب تک یہ نہ کہہ دیتے کہ ہم تو آزمائش کے لیے ہیں، سو تو کافر مت ہو، پھر ان سے سیکھتے وہ جادو جس سے جدائی ڈالتے ہیں مرد میں اور اس کی عورت میں اور اس سے نقصان نہیں کر سکتے کسی کا بغیر حکم الله کے اور سیکھتے ہیں وہ چیز جو نقصان کرے ان کا اور فائدہ نہ کرے اور وہ خوب جان چکے ہیں جس نے اختیار کیا جادو کو، نہیں اس کے لیے آخرت میں کچھ حصہ اور بہت ہی بری چیز ہے جس کے بدلے بیچا ا نہوں نے اپنے آپ کو، اگر ان کو سمجھ ہوتی اور اگر وہ ایمان لاتے اور تقوی اختیار کرتے تو بدلہ پاتے، الله کے ہاں سے بہتر، اگر ان کو سمجھ ہوتی۔

یہودیوں کی سحر سے دلچسپی
بابل نامی شہر موجودہ عراق کے محل وقوع میں انسانی تاریخ کا ایک عظیم الشان شہر گزرا ہے، جس میں سحر اور جادو کا چرچا شیطانی آنت کی طرح پھیلا ہوا تھا ، جادو کے عجیب وغریب اثرات دیکھ کر سادہ لوح انسان اسے مقدس عمل سمجھنے لگے، یہاں تک کہ انبیا علیہم السلام کے معجزات کی حقیقت وماہیت بھی ان کی نظروں سے اوجھل ہونے لگی اور وہ جادو اور معجزات کو ایک ہی رخ سے دیکھنے لگے ۔ (السحر… ابتلاء من الله تعالیٰ للناس… وتمیزاً بینہ وبین المعجزة، حیث إنہ کثر فی ذلک الزمان وأظہر السحرة اموراً غریبة، وقع الشک بھا فی النبوة، فبعث الله تعالیٰ الملکین لتعلیم أبواب السحر حتی یزیلا الشبہ روح المعانی، البقرة، تحت آیة رقم:102)

یہودیوں کی بیہودہ گوئی یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ وہ حضرت سلیمان علیہ السلام جیسے عظیم الشان پیغمبر کی سلطنت کو سفلی اعمال کا نتیجہ قرار دینے لگے تھے ، ان کا دعوی تھا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام جادو کی طاقت سے سلطنت کنٹرول کرتے ہیں۔ جب آپ صلی الله علیہ وسلم انبیا کے تذکرے میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا تذکرہ فرماتے تو یہودی تعجب کرتے اور فوراً تردید کرتے کہ وہ پیغمبر نہیں، جادو گر تھے۔ ( نعوذ بالله) الله تعالیٰ نے اس الزام کی تردید فرمائی۔ (وما کفر سلیمان اعتراض لتبرئة سلیمان علیہ السلام عما نسبوہ إلیہ، فقد اخرج ابن جریر عن شھر بن حوشب قال: قال الیہود: انظروا إلی محمد یخلط الحق بالباطل، یذکر سلیمان مع الأنبیاء، وإنما کان ساحراً، یرکب الریح  (روح المعانی، البقرة، تحت آیة رقم:102)․

﴿وماکفر سلیمان ولکن الشیطین کفروا﴾ (اورکفر نہیں کیا سلیمان نے لیکن شیطانوں نے کفر کیا) یہودیوں نے جادو کو مقدس عمل بناکر پیش کیا تو کچھ لوگ جادو گروں کو مقدس شخصیات جان کر ان کی پوجا کرنے لگے ۔ الله تعالیٰ نے سحر کے فریب سے پردہ اٹھانے کے لیے بابل میں دو فرشتے ”ہاروت ،ماورت“ انسانی شکل میں مبعوث فرمائے، جو لوگوں کو سحر کی حقیقت ، اس کے اصول وفروع، نتائج وحوادث سے آگاہ کرکے اس فعل بد سے روکیں۔ ( ان الله ارسل الملکین لیبینا للناس معانی السحر، ویعلموھم انہ کفر وکذب وتمویہ، لاحقیقة لہ، حتی یجتنبوہ، لما بین الله علی ألسنة رسلہ سائر المحظورات والمحرمات لیجتنبوہ  احکام القرآن للجصاص، البقرة، تحت آیة رقم:102، ابتلاء من الله تعالیٰ للناس، فمن تعلم وعمل بہ کفر، ومن تعلم وتوقی عملہ ثبت علی الایمان، ولله تعالیٰ أن یمتحن عبادہ بما یشاء کما امتحن قوم طالوت بالنھر روح المعانی، البقرة، تحت آیة رقم:102) اور بتائیں کہ شعبدہ بازی کے تمام کرتب شیطانی اثرات کے زیر اثر ظاہر ہوتے ہیں او رمعجزات رحمانی حکم سے ہیں ، لیکن یہودی ہاروت ماروت سے جادو سیکھ کر اصلاح نفس کی بجائے خلق خدا کو ایذا دینے پر آمادہ ہو گئے ، جو قوم تو حید کا علم لے کر آئی تھی اور خدا پرستی کے فروغ کی ذمہ داری جن کے کندھوں پر تھی وہ سحر، جادو، کہانت کے پیشوا بن گئے۔

چنا ں چہ بائبل میں ہے:” تیرے سودا گر زمین کے امیر تھے ، تیری جادو گری سے زمین کی ساری قوتیں گم راہ ہو گئیں اور نبیوں او رمقدسوں اور زمین کے اور سب مقتولوں کا خون اس میں بہایا گیا ۔“ ( مکاشفہ:24,23:18) (تفسیر ماجدی، البقرة، تحت آیہ رقم:102)

گزشتہ مضمون پر ہونے والے کچھ شبہات اور ان کا ازالہ
پہلاشبہہ: معجزات اور سحر میں فرق نمایاں کرنے کا کام ملائکہ سے کیوں لیا گیا؟ یہ کام انبیا علیہم السلام سے بھی لیا جاسکتا تھا ؟

جواب… اس وقت انبیا علیہم السلام کی حیثیت جادو گروں کے مقابلے میں ایک فریق کی تھی، دونوں فریقوں میں کون سچا اور کون جھوٹا ہے ؟ اس کا بہترین فیصلہ ثالث کے ذریعے ہو سکتا تھا۔ اس لیے ملائکہ کا انتخاب ہوا کہ وہ معجزات اور سحر کا فرق نمایاں کریں۔
نیز جادو کے فریب میں جکڑے ہوئے لوگوں کی ذہنی اور نفسیاتی آزادی کے لیے ضروری تھا کہ وہ سحر یہ اقوال وافعال کا عملی مشاہدہ کرکے اس کفر کو جان لیں، جو جادو کی اثر آفرینی کے لیے بنیادی اہمیت رکھتا ہے، اب اگر اس کا عملی مشاہدہ انبیا علیہم السلام سے کرایا جاتا تو بھی اس میں کچھ حرج نہ تھا، کیوں کہ نقل کفر کفر نہ باشد، لیکن انبیا علیہم السلام کا وجود سراپا مظہر ہدایت ہونے کے باعث اس کام کے لیے وہ موزوں نہ تھے، اس لیے عملی مشاہدے کے لیے ملائکہ کا انتخاب ہوا اور اس کی روک تھام، وعد وعید کا فریضہ انبیا علیہم السلام نے انجام دیا۔

دوسرا شبہہ: ملائکہ تو مجسمہ خیر ہیں ،ان سے یہ کیسے توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ ایسے فن کی تعلیم دیں جو سراسر شر ہو ؟
جواب… پہلی بات تو یہ ہے کہ ملائکہ کارخانہ تکوین کے کارکنان ہیں، ان سے خیر وشر کے وہ تمام کام لیے جاتے ہیں جو مجموعی حیثیت سے عالم کے لیے خیر اور بھلائی کا پہلو رکھتے ہوں، اگرچہ وہ فی نفسہ شر ہوں۔

دوسری بات یہ ہے کہ سحر کی تعلیم کی مثال ایسی تھی جیسے کوئی عالم دین کفریہ اقوال نقل کر کے اس سے مجتنب رہنے کی ہدایت کرتا ہے ، یا طلباء کو قدیم فلسفہ کی کتابیں اس لیے پڑھاتا ہے کہ وہ فلاسفہ کے پیدا کردہ اعتراضات ، وساوس کی تردید فلسفے کی زبان میں کر سکیں ، اب اگر کوئی کفریہ اقوال یا فلاسفہ کے اعتراضات لے کر اسلام پر ہی حملہ آور ہو جائے تو اس میں عالم کا کیا قصور ؟

علم کے غلط استعمال کا وبال استاد پر نہیں آتا ، ملائکہ جب لوگوں کو سحر کے اصول وفروع سے آگاہ کرتے تو ان سے عہد لے لیتے کہ سحر کاری سے اجتناب کریں گے، یہ سرتا پاشرہی شر ہے، لیکن یہودی اس نصیحت سے بے پروا ہو کر اپنی عاقبت خراب کرتے رہے۔

سحر کی تعریف
سحر عربی میں دھوکہ، ملمع سازی اور ہر اس چیز کوکہتے ہیں جس کا کوئی مخفی سبب ہو اور وہ اپنی حقیقت کے خلاف ظاہر ہو اور شریعت میں ہر اس چیز کو سحر کہتے ہیں جس کے حصول کے لیے خفیہ ( شیطانی) ذرائع سے مدد لی جائے، مثلاً شرکیہ اقوال، افعال شرکیہ، عقائد۔(السحر فی الأصل… إذا أبدی ما یدق وخفی، وھو من المصادرة الشاذة ویستعمل بما لطف، وخفی سببہ، والمراد بہ امر غریب یشبہ الخارق  ولیس بہ اذ یجری فیہ التعلم، ویستعان فی تحصیلہ بالتقریب إلی الشیطان بارتکاب القبائح قولاً؛ کالرقی التی فیھا الفاظ الشرک، ومدح الشیطان وتسخیرہ، وعملاً؛ کعبادة الکواکب، والتزام الجنایة، وسائر الفسوق، واعتقاداً؛ کاستحسان مایوجب التقرب إلیہ، ومحبتہ إیاہ، وذلک لایستتب، إلا بمن یناسبہ فی الشرارة وخبث النفس  (روح المعانی، البقرة، تحت آیة رقم:102)کیوں کہ شیطان کا تعاون انہیں کے ذریعے لیا جاسکتا ہے۔

سحر کا شرعی حکم
قرآن وحدیث کی اصطلاح میں سحر کا اطلاق صرف اس عمل پر کیا گیا ہے جس میں کفر وشرک اور فسق وفجور کے ذریعے شیاطین کو خوش کرکے ان سے تعاون لیا گیا ہو، بابل میں سحر کی یہی صورت مروج تھی۔ ( احکام القرآن للجصاص، البقرہ، تحت آیہ رقم:102) اسی کو قرآن کریم میں کفر سے تعبیر کیا گیا ہے ۔

ابو منصور رحمہ الله (ماتریدی) نے فرمایا مطلقاً سحر کی تمام اقسام کفر نہیں، بلکہ وہ سحر کفر ہے جس میں ایسے اقوال وافعال اختیار کیے گئے ہوں جو ایمانیات کے خلاف ہوں۔ (فلأن الشیخ ابا منصور ذھب إلی أن القول بأن السحر کفر علی الاطلاق خطا)

خلاصہ یہ ہے جس سحر میں کفریہ عمل دخل ہو ، جیسے شیاطین سے استغاثہ واستمداد، یا کواکب کی تاثیر کو مستقل ماننا یا سحر کو معجزہ قرار دے کر نبوت کا دعوی کرنا وغیرہ تو یہ سحر بالاتفاق کفر ہے اور جس میں یہ کفریہ افعال نہ ہوں لیکن معاصی کا ارتکاب ہو وہ گناہ کبیرہ ہے۔

سحر کی تعلیم وتعلم کا شرعی حکم
جس سحر میں اعتقادی یا عملی طور پر کفر کا ارتکاب ہو تا ہو تو اس کا سیکھنا اور سکھانا حرام ہے اور اس پر عمل کرنا بھی حرام ہے، البتہ اگر مسلمانوں سے دفع ضرر کے لیے کفر یہ عمل سے بچتے ہوئے بقدر ضرورت سیکھا جائے تو بعض فقہاء نے اجازت دی ہے۔ (یجب البحث عن حقیقتہ، فإن کان فی ذلک رد مالزم من شرط الایمان فھو کفر، وإلاّ فلا  روح المعانی، البقرة، تحت آیہ رقم:102)

تعویذ گنڈے وغیرہ جو عامل کرتے ہیں ان میں بھی اگر جنات وشیاطین سے استمداد ہو تو بحکم سحر ہیں اور حرام ہیں اور اگر الفاظ مشتبہ ہوں، معنی معلوم نہ ہوں اور شیاطین اور بتوں سے استمداد کا احتمال ہو تو وہ بھی حرام ہے ۔ (انما نکرہ العوذة إذا کانت بغیر لسان العرب، ولا یدری ماھو؟ لعلہ یدخلہ سحر أو کفر، أو غیر ذلک  رد المحتار، فصل فی اللبس، 26/378، معارف القرآن، البقرة، تحت آیہ رقم:102)

اگر تعویذ گنڈوں میں قرآن وحدیث کے کلمات درج ہوں، مگر ناجائز مقصد کے لیے تعویذ بنایا گیا ،مثلاً کسی کوناحق ضرر پہنچانے کے لیے تو یہ بھی حرام ہے۔

اگر تعویذ میں خلاف شریعت کوئی عمل نہ ہو ،قرآن وحدیث کے کلمات درج ہوں، مقصد بھی نیک ہو تو وہ بلاشبہہ جائز ہے۔(ولا بأس بالمعاذات إذا کتب فیھا القرآن أو اسماء الله تعالیٰ  ردالمحتار، فصل فی اللبس26/378) (جاری)

Flag Counter