وقت کی قدر کیجیے
صدام حسین
طالب علم جامعہ فاروقیہ، کراچی
وقت ایک نہایت قیمتی سرمایہ ہے، اس لیے اس کی بڑی قدر کرنی چاہیے، اس نعمتِ عظمیٰ کی قدر کے لیے ضروری ہے کہ ہم صبح سے شام تک زندگی میں جس قدر مشاغل ہیں ، ان کے لیے نظام الاوقات مرتب کریں، تاکہ ہر کام مناسب وقت پر آسانی سے ہوجائے۔
حدیث شریف میں آتا ہے:
ترجمہ:”فرصت کو غنیمت جانو مصروفیت سے پہلے“۔( مشکوٰة المصابیح ،2/454،حدیث نمبر:4944،مکتبہ رحمانیہ ، لاہور)
آج اللہ تعالیٰ نے ہمیں وقت دیا ہے اور ہم وقت جیسی قیمتی اور اہم چیز کو گزارنے کے لیے فضول قسم کی مصروفیات ڈھونڈتے پھرتے ہیں کہ وقت کٹ جائے، جو سچا مسلمان ہوتا ہے، وہ اپنے اس سرمائے کو قیمتی بنانے کے لیے نیکی کے کام کرکے اپنے آپ کو تھکاتا ہے اور ہر وقت آخرت کے کاموں میں مصروف دکھائی دیتا ہے۔ حضرت امام رازی فرماتے ہیں: ”میرا جو وقت کھانے پینے میں صَرف ہوتا ہے، اس پر بھی افسوس ہوتا ہے کہ اس وقت میں مطالعہ نہیں کرسکتا“۔
شہاب الدین محمود آلوسی مفسرِ قرآن نے اپنے رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کررکھا تھا:
پہلے حصے میں آرام واستراحت فرماتے۔ دوسرے حصے میں اللہ کی عبادت کرتے ۔ تیسرے حصے میں لکھنے پڑھنے کا کام کرتے تھے۔
تاریخ بغداد کے مصنف خطیب بغدادی لکھتے ہیں:امام جاحظ کتاب فروشوں کی دکانیں کرایہ پر لے کر ساری رات کتابیں پڑھتے رہتے تھے۔
مشہور محدث، امام ِجرح وتعدیل یحییٰ بن معین کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے دس لاکھ حدیثیں خود اپنے دست ِ مبارک سے لکھیں اور جب ان کا انتقال ہوا تو کتابوں کے ایک سو چودہ کارٹن اور چار بڑے بڑے مٹکے سیاہی اور روشنائی کے چھوڑے۔
صاحب مستدرک، علامہ حاکم کی تالیفات کی تعداد ایک ہزار پانچ سو اجزاتک شمار کی گئی ہے، تقریباً پینتالیس ہزار صفحات پر مشتمل تفسیر اور تاریخ بھی ان کی تصانیف میں شامل ہے، ان کی وفات کے بعد ان کی کثرتِ تصانیف کو دیکھتے ہوئے جب ان کی یومیہ تالیف کا حساب لگایا گیا تو بچپن کی عمر کو چھوڑ کر روزانہ چودہ صفحے لکھنے کا اوسط نکلا، اس حساب سے انہوں نے بہتر سال میں تین لاکھ باسٹھ ہزارآٹھ سو اسی(880،62،3) صفحات تصنیف فرمائے۔
اس نوع کے سینکڑوں نہیں، ہزاروں واقعات میں سے یہ چند مثالیں ہمیں واشگاف الفاظ میں بتلاتی ہیں کہ ہمارے اَسلاف اپنے وقت کو کس طرح ناپ تول کر استعمال کرتے تھے، حالاں کہ ہمارے سلف صالحین رحمہم اللہ تعالیٰ کی جو مصروفیات ہوتی تھیں، اُن مصروفیات کے درمیان وہ اپنے ہر ہر لمحے سے فائدہ اٹھاتے تھے کہ جو وقت گزرگیا، وہ دوبارہ کسی صورت میں نہیں مل سکتا، اس لیے وہ وقت کو سب سے قیمتی متاع سمجھتے تھے ، وہ زندگی کے ہر ہر لمحے کو آخرت کا سرمایہ سمجھتے تھے، اس سے فائدہ اٹھاتے تھے اور کوئی نہ کوئی نیکی کاکام کرتے رہتے تھے۔
انہی پاکیزہ نفوس کی طرف دیکھتے ہوئے اوراِنہی کے نقش ِ قدم پر چلتے ہوئے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی روزانہ کی زندگی کانظام مرتب کریں، فضول اور لایعنی کاموں کو ایک طرف کریں، جن کاموں کا کرنا ضروری ہے ان کے لیے مناسب وقت متعین کریں اور باقی اوقات کو بھی مختلف ذاتی خیر کے کاموں، دوسروں کی خیر و بھلائی کے کاموں، والدین کی خدمت، پڑوسیوں کی خبر گیری، معاشرے میں امن وصلاح کے لیے کیے جانے والے کاموں، دعوت وتبلیغ، تعلیم وتعلم، ذکر وفکر اور خدمت کے کاموں میں گذاریں، اس سے ان شاء اللہ ہمارے اندر خیر کی صلاحیتیں روز بروز بڑھتی چلی جائیں گی، شرور ، حوادث اور فتنوں سے مامون رہیں گے، اور اللہ کے ہاں بھی سرخ رو اور کام یاب رہیں گے۔ اللہ رب العزت ہم سب کو اپنے اس قیمتی سرمائے کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین!