Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاول 1435ھ

ہ رسالہ

2 - 15
المجیب جل جلالہ

ڈاکٹر محمد اشرف کھوکھر
	
دعا مانگنا دین ودنیا دونوں کی فلاح، کام یابی وکامرانی کے لیے مشروع ہے، قرآن وحدیث میں دعا کی ترغیب وفضیلت اور تاکید کی گئی ہے ۔ دعا صرف اور صرف الله تعالیٰ ہی سے مانگنی چاہیے، جو المجیب جل جلالہ ہے ۔ دعا کے ساتھ تدبیر وتوکل اور رزق حلال کا استعمال بھی ضروری ہے، انتہائی عاجزی، خضوع کامل، یکسوئی اور یقین قلب ، وثوق قلب کے ساتھ، ساری انسانیت کی فوز وفلاح کے لیے دعائیں مانگنی چاہییں۔ دعا کے اول وآخر دورود پڑھنا اجر وثواب اور قبولیت دعا کا باعث ہو گا۔

الله تعالیٰ کی ذات محیط وبسیط اور بے کیف ہے ، اس کا وجود تعینات ومحسوسات سے ماوریٰ ہے، اس کا سننا دیکھنا اور کلام فرمانا ، جملہ اوصاف وکمالات بالا تر ہیں ، اس کا کلام ظاہری لحن وآواز کا پابند نہیں۔ دنیا میں صرف مثالی واسطوں کے ذریعے اس کے کلام کا ادراک ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا گیا ہے کہ :
ترجمہ:” کسی بشر کے لیے یہ ممکن نہیں کہ الله تعالیٰ اس سے کلام کرے ،مگر وحی یا کسی پردہ کی آڑسے۔“

”المجیب جل جلالہ “الله تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ایک ہے۔ الله تعالیٰ ہی حقیقی مجیب الدعوات ہے، الله تعالیٰ کی ذات ہماری نگاہوں سے پوشیدہ ہے ، ہماری ظاہری بصارت کو ایسی قوت وطاقت حاصل نہیں کہ وہ الله کی ذات کا مشاہدہ کر سکے ، خدا کی ذات کی پوشیدگی ہمارے اعتبار سے ہے، ورنہ وہ توبالکل ظاہر وکمال درجہ کی نورانیت کے ساتھ ہر طرف جلوہ فگن ہے ۔ کائنات کی ساری چیزیں اسی کے سبب ظاہر اور موجود ہیں ۔ ظہور کا اصل سبب تنہا اسی کی ذات ہے، جس طرح ہماری آنکھوں کو بیرونی محرک ”روشنی“ کی ضرورت ہے ، اسی طرح ہماری عقل کو باطنی روشنی کی ضرورت ہے ، محدود طاقت رکھنے والی بینائیاں صرف اسی چیز کا ادراک کر سکتی ہیں جو محدود ہو ، جس میں کمی بیشی ہوتی ہو، جس کے ظہور کے ساتھ کبھی فنا بھی ہو، جس کی کوئی ضد ہو ، جس کے سامنے آ کر وہ نمایاں ہو سکے، لیکن ذات مطلق محدود نہیں اور اس کا نور شدید اور لازوال ہے ۔ سورج کی روشنی کا ادراک ہمیں اس لیے ہوتا ہے کہ وہ ہمارے سامنے سے کبھی ہٹ بھی جاتی ہے ، اسی طرح آواز کی تیزی اگر حددرجہ بڑھ جائے تو اس کا ادراک بھی ہو سکے گا۔ ہمارے حواس خمسہ اور ادراک کسی واسطے کے بغیر حقیقت کے حسن وکمال کا مشاہدہ کرنے سے قاصر ہیں ، ہماری قوت سماعت بھی محدود ہے، جیساکہ اوپرذکر کیا گیا ۔

الله تعالیٰ مجیب الدعوات ہے ، الله تعالیٰ ہماری دعا مناجات کا سننے والا ہے ، اس لیے کہ وہ ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے، وہ ہماری چھوٹی سے چھوٹی او ربڑی سے بڑی بات کا بھی مکمل طور پر علم رکھنے والا ہے اور وہی ذات والا صفات ہماری دعاؤں اور مناجات کا جواب دینے والا ہے ۔ الله المجیب جل جلالہ ہے، جو ہر دعا مانگنے والے کی دعا کو سنتا اورقبول کرتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ ہم اپنے محدود ادراک کے سبب المجیب جل جلالہ کے جواب کو سن نہیں پاتے۔

ایک ننھا منا بچہ اپنی محدود سوچ وفکر کے سبب ہر قسم کی حاجت روائی کا ذریعہ اپنی مشفق ماں کو سمجھتا ہے اور وہ اضطراب کے وقت دوڑ کر اپنی ماں سے لپٹ جاتا ہے ۔ اسلام میں رب کے رتبہ اور مقام کے سامنے ماں کے رتبہ اور مقام کی حیثیت ہی نہیں، یعنی رب کا مرتبہ ہر چیز سے ہر رشتہ سے بلند وبالا ہے ۔ اس لیے کہ والدین کا اولاد سے تعلق جسمانی ہوتا ہے، مگر رب کا تعلق اپنے بندہ سے دائمی ہوتا ہے۔ مراحل زندگی، روحانی، جسمانی پیدائش اور موت وحیات کے بعد ابدی اور سرمدی تعلق بندہ کا اپنے رب سے ہوتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ مومن بندہ اپنی ہر حاجت اپنے اس مجیب ربّ ہی کے سامنے بیان کرتا ہے ۔ اپنے دل ودماغ سے، اپنے اعضاو جوارح سے اپنی ہر حاجت، مشکل ، اپنے اضطراب واضطرار کو اپنے ربّ کے سامنے پیش کرتا ہے ۔ اس لیے کہ اس کا غیر متزلزل ایمان ویقین ہے کہ اس کی جملہ حاجات کو پورا کرنے والا ، مشکل کشا، مصائب وآلام، دکھ درد اور تکالیف کو دفع کرنے والا وہی المجیب جل جلالہ ہے اور وہ ایسا رحیم وکریم ربّ ہے کہ خود اپنے بندوں کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے اور وہ پکارنے والے کو جواب دیتا ہے ۔ ارشاد خدا وندی ہے:”دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھ سے دعا کرتا ہے ۔“ نیز ارشاد ہے : ﴿ادعونی استجب لکم﴾
ترجمہ:” مجھے پکارو میں تمہاری پکار سنوں گا“۔ ایک اور مقام پر فرمایا ”مجھ ہی سے دعا مانگو اور مجھ ہی پر ایمان لاؤ۔“

معلوم ہوا وہی المجیب جل جلالہ ہے ،جو مجیب الدعوات ہے اور ہر مضطرب ومضطر کی دعا کو سنتا اور قبول کرتا ہے۔

تمام انبیاء علیہم السلام نے اسی المجیب جل جلالہ ہی کو پکارا، سب کچھ مانگا ہر نیکی او ربھلائی المجیب جل جلالہ ہی سے مانگی ،اس لیے توحید کی دعوت ان کی بعثت کا مقصود تھا۔

ابو البشر حضرت آدم اور حوا علیھما السلام نے اسی المجیب جل جلالہ ہی کو پکارا اور کہا :” اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر آپ نے ہمیں معاف نہ کیا تو ہم گھاٹا (خسارہ) پانے والوں میں سے ہو جائیں گے ۔“ دعا درج بالا الله تعالیٰ نے سکھلائی اور پھر قبول بھی کی۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کعبة الله کے بعد دعا مانگی کہ :
ترجمہ:” اے ہمارے رب ! ان میں رسول بھیج، جو ان میں سے ہو، جو تیری آیتیں پڑھ پڑھ کر ان کو سنائے او ران کو کتاب وحکمت کی تعلیم دے ۔“

المجیب جل جلالہ نے آپ علیہ السلام کی دُعا سنی اور قبول کی، آپ علیہ السلام کی اولاد میں سے حضرت اسحق علیہ السلام کی پشت سے بہت سے انبیاء علیہم السلام مبعوث کیے گئے، جب کہ آپ علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ لاسلام کی اولاد میں سے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو تمام بنی نوع انسان کے لیے آخری نبی ورسول بنا کر مبعوث فرمایا گیا۔

اسی طرح حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کی جدائی میں اپنے پدرانہ جذبات اوحساسات ،ہم دردی اور شفقت ومحبت کے باعث اپنے غم واندوہ اور اپنے اضطراب قلبی کو اسی المجیب جل جلالہ کے سامنے تضرع وعاجزی سے پیش کیا کہ :﴿انما اشکو بثی وحزنی إلی الله﴾،(جز:13، سورة یوسف)
ترجمہ:” میں اپنے غم واندوہ کی فریاد الله کے سامنے بیان کرتا ہوں۔“

حضرت یونس علیہ السلام نے مچھلی کے پیٹ میں اسی مجیب جل جلالہ ہی کو پکارا تو حق تعالیٰ شانہ نے ان کی دعا کو قبول فرمایا اور انہیں مچھلی کے پیٹ سے نجات عطا فرمائی۔

دعا جس وقت چاہیں المجیب جل جلالہ سے مانگ سکتے ہیں، لیکن تضرع وعاجزی سے اور درماندگی سے فریاد کرنا، اپنی تمام مشکلات وحاجات، مصائب وآلام اور درد والم کو دل کی گہرائیوں سے بیان کرنا او رانتہائی عاجزی سے بیان کرنا، درماندگی سے فریاد کرنا قبولیت دعا کے لیے ضروری ہے ۔

دین اسلام مکمل ضابطہٴ حیات ہے اور قرآن وسنت تمام بنی نوع انسان کے لیے تا قیامِ قیامت مشعل راہ ہے اور زندگی کے تمام مسائل کا حل قرآن وسنت میں موجود ہے، اس لیے ہر آن، ہر لمحہ اپنے رب کریم کے ساتھ تعلق استوار رکھنے کے لیے قرآن مجید میں بہت سی دعائیں موجود ہیں اور احادیث مبارکہ میں بھی بے شمار دعائیں سکھلائی گئی ہیں ۔

نماز ایک بہترین دعا ہے ، فرشتوں کی عبادات کی تمام اشکال اس میں موجود ہیں ، نیت نماز ، تسمیہ وتعوذ، تکبیر تحریمہ، ثنا، تعوذ، تسمیہ، قیام ،رکوع، سجدہ، جلسہ، تشہد، درود شریف ، دعائیں اور آخر میں پھر سلام۔ یہ سب کچھ المجیب جل جلالہ کے سامنے اپنے عجر اور انکساری ہی کی تو مختلف کیفیات ہیں ، روز مرہ زندگی میں مسنون دعاؤں کے ساتھ ایک مومن بندہ چوبیس گھٹنے کی زندگی بطریق احسن گزار سکتا ہے ۔

الله تعالیٰ نے انسانوں کو باہمی انس ومحبت اور ہم دردی کا کتنا عمدہ اور بہترین طریقہ دیا ہے کہ جب دو مسلمان آپس میں ملتے ہیں تو سب سے پہلے السلام علیکم کے دعائیہ جملے کہتے ہیں ،جن میں دونوں کے لیے المجیب جل جلالہ سے تحفظ وسلامتی کی دعا ہے۔

دعائیہ جملوں کے ساتھ ”ورحمة الله وبرکاتہ“ کا اضافہ زیادہ ثواب کا باعث ہو گا ۔ اسی طرح کھانے پینے سے قبل اور بعد کی دعائیں ، مہمان ہونے کی صورت میں دعائیں، حصول علم کی دعائیں، علم میں اضافہ کی مسنون دعائیں، دکھ، تکلیف ، درد سے شفا یابی ، نجات وخلاصی کی دعائیں، شیاطین سے پناہ مانگنے کی دعائیں ، کفار ومشرکین پر فتح ونصرت کی دعائیں، اعدائے اسلام کی جارحیت اور اسلامی ممالک کی حفاظت اور دفاع کی دعائیں، تمام اُمت مسلمہ کی بھلائی اور ترقی کی دعائیں، ساری کی ساری انسانیت کی ہدایت کی دعائیں (سب کی سب دعاؤں کے عنوانات نقل کرنے سے قاصر ہیں )، ساری کی ساری دعائیں المجیب جل جلالہ سے غیر متزلزل اور مستحکم ایمان ویقین اور پختہ تعلق اور وابستگی ہی کے لیے تو ہیں، ایک مومن کینشست وبرخاست ، چال ڈھال ،ہر طرح کا طور طریقہ، کھانے پینے ، سونے جاگنے، معیشت ومعاشرت، غرضیکہ ہر عمل میں دعاؤں کا پڑھنا اور المجیب جل جلالہ کی جانب سے قبولیت دعا کا استحضار ہونا ایمان میں ترقی کا باعث ہوتا ہے ۔

ایک بندہٴ مومن گفتارو کردار میں اپنے رب کریم المجیب جل جلالہ کے سامنے عجز ونیاز وانکساری پیش کرتا ہے، ہر وقت کا سئہ سر اور قلبِ حزیں کی زنبیل لے کر چلتا ہے ، دکھ ،درد، مصائب وآلام اور اضطرار واضطراب کا مرہم المجیب جل جلالہ کے سامنے اپنے خضوع وخشوع، اپنی تضرع وعاجزی کو سمجھتا ہے ۔الله تعالیٰ کی مخلوق کو پریشان اور گرفتار مصائب وآلام دیکھ کر اپنے قلب حزیں کے ساتھ ربّ کے سامنے دست سوال دراز کرتا ہے ۔ اپنے حزن وملال اور درماندگی کو المجیب جل جلالہ کے سامنے پیش کرتا ہے ، اس لیے پختہ یقین ہے کہ المجیب جل جلالہ اس کی ہر دعا او رپکار کو سنتا اور قبول کرتا ہے #
        تری رحمت ہے میرے تصور سے بڑھ کر یارب
        اشرف بجز کاسہءِ سر، قلب حزیں مرا دامن تو خالی ہے

وہ قطرہ موتی بنتا ہے جو تلاطم خیز موجوں میں سطح آب پر آنے والی سیپ کے منھ میں جاتا ہے ۔ اسی طرح اگر انسان ندامت ، صدق دل، کامل یکسوئی اور خضوع وخشوع، تضرع وعاجزی سے المجیب جل جلالہ کے سامنے دست سوال دراز کرتا ہے اور یقین سے یوں بھیک مانگتا ہے۔

یا مجیب الدعوات! میرے حال پر رحم وکرم فرما … المجیب اس کی دعاؤں کو شرف قبولیت بخشتا ہے۔

ہماری بہت سے دعائیں نقد قبول ہو جاتی ہیں ، بعض اوقات ہماری دعاؤں کے نتائج ذخیرہ کے طور پر آخرت کے لیے جمع کر دی جاتی ہیں، ہمیں یقین کر لینا چاہیے کہ شب وروز مانگی جانے والی دعاؤں کا اثر ضرور ہوتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ بعض دعائیں فوری طور پر قبول ہوتی ہیں،المجیب جل جلالہ جلد قبول کر لیتا ہے ، ہماری پکار کو سن کر فوری اس کاردِ عمل ہوجاتا ہے اور بعض اوقات ان کی برکات سے کوئی مصیبت رک جاتی ہے اور بعض دعائیں آخرت کے لیے ذخیرہ کر دی جاتی ہیں ،جن کا اجر وثواب آخرت میں ہمیں ملے گا۔ ( ان شاء الله)

المجیب جل جلالہ سب کی دعائیں سنتا ہے اور اپنی حکمت کے مطابق ہر ایک کی دعا کو شرف قبولیت بخشتا ہے ۔

ذیل میں ایک حکایت ملاحظہ فرمائیں کہ ایک درماندہ مسافر کی دعا نقد کیسے قبول ہوئی؟

ایک مسافر، متمدن دنیا سے دور، لق ودق صحرا میں سفر کرتے ہوئے پیاس محسو س کرتا ہے ۔ کڑکتی اور چلچلاتی دھوپ کی شدت سے پیاس میں اور شدت آتی جاتی ہے، مسافر اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے اپنی دائیں جانب دیکھتا ہے، تاحدِ نظر پانی ملنے کے آثار نہیں ۔ بائیں جانب دیکھتا ہے تو بہت دور ایک سایہ دار درخت دکھائی دیتا ہے او راس سے پہلے ایک پانی کا تالاب نظر آتا ہے ۔ مسافر کی ہمت بندھتی ہے اور وہ اس جانب رواں دواں ہوتا ہے۔ چلتے چلتے یہ صحرا نورد دوڈھائی کلو میٹر کا کٹھن سفر طے کرکے جب درخت کے قریب پہنچتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ پانی نام کی کوئی چیز وہاں نہیں ، یہ تو ایک سراب کی وجہ سے ”بصری دھوکہ تھا“ ،پیاس سے نڈھال، زاد راہ ایک طرف پھینک کر، پیاسا مسافر درخت کی چھاؤں میں تھوڑی دیر سستاتا ہے ۔ قریب آبادی کے آثار نہیں، منزل دور ہے، کٹھن اور دشوار گزار سفر درپیش ہے ، پیاس سے زبان خشک ہو چکی ہے ، صحرا میں شب گزاری کا خطرہ اور اندیشہ ہے، کچھ دیر بعد وہ سفر کا دوبارہ آغاز کرتا ہے، لیکن موت سامنے نظر آرہی ہے، چلتے چلتے شدت پیاس سے نڈھال ہو کر بیٹھ جاتا ہے او راپنے رب رحیم وکریم اور المجیب جل جلالہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے ،دونوں کانپتے ہاتھ اٹھاتا ہے او راپنی خشک زبان سے سوال کرتا ہے، یارب العالمین! تو جانتا ہے میں شدت پیاس سے قریب المرگ ہوں تو ساری کائنات کا خالق ومالک ہے تو جانتا ہے کہ میرا سفر طویل ہے ، یا مجیب الدعوات!

میرے حال پر رحم وکرم فرما! میری پیاس بجھانے کا بندوبست فرما دے۔ یا رب العالمین! میری پیاسی دھرتی کو اپنی رحمت سے سیراب کر دے، دعا دل سے مانگی، الله رب العزت نے قبول فرمائی #
        دعا دِل سے جو کبھی نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
        پر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے

شمال مغرب سے بادل کی چند ٹکڑیاں نظر آئیں، مسافر نے زاد سفر اٹھایا او رمنزل کی طرف رواں دواں ہو گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے بادل آسماں پر چھا گیا، مسافر کی ہمت بندھی، ہر ہر قدم پر اپنے رب کے سامنے اظہار عاجزی کر رہا ہے، اگرچہ زبان پیاس کی شدت سے خشک ہو چکی ہے، لیکن ذکر الله سے تَر ہے، سفر طے ہوتا گیا، ادھر المجیب جل جلالہ کے حکم سے میکائیل علیہ السلام نے بادل سے کہہ دیا کہ اب اتنا بر س کہ جل تھل کردے، لیکن بندہٴ خدا کو ضرر نہ پہنچے ۔سو اس بارش سے وہ بندہٴ خدا بھی سیراب ہوا ، اس کی پیاس بھی بجھی اور پیاسی دھرتی بھی سیراب ہو کر انسان وحیوان کے لیے نفع کا سبب بن گئی۔

الله رب العزت بڑے رحیم وکریم اور جواد ہیں، جو اپنی مخلوق پر ماں سے زیادہ شفیق ہیں ۔ الله رب العزت نے شفقت کا ایک حصہ ساری مخلوق میں تقسیم کیا اور ننانوے حصے اپنے پاس رکھے، ایک ماں اپنے بچے کے لیے سب کچھ لٹا دیتی ہے او راس کی مامتا اسے اولاد کے لیے خواب راحت اور دنیا وی عیش وعشرت سے روک دیتی ہے ، بچے کی ہر آواز پر مستعد رہتی ہے، یہ سب کچھ ذرا سے ایک حصے کی وجہ سے ہوا ، الله تعالیٰ نے جو اپنی مخلوق میں تقسیم کیا ہے ۔ اندازہ کیجیے کہ خالق ومالک، رحیم وکریم اور مجیب ذا ت، جس نے ننانوے حصے اپنے پاس رکھے ہیں وہ مخلوق پر کتنی رحیم ہو گی؟ اگر اس کریم داتا، اس مجیب مالک کو، المجیب جل جلالہ کو سچے دل سے پکارا جائے تو وہ کیوں نہ لبیک کہے گا؟!

ارشاد باری تعالی ہے :
ترجمہ:”مجھے پکارو۔ میں تمہاری درخواست قبول کروں گا ۔“ (المومن:40)
ترجمہ:” اور بے شک! الله خوب سننے والے اور جاننے والے ہیں۔“

المجیب جل جلالہ ایسے جواد ہیں، ایسے غنی ہیں کہ ان کے خزانے کبھی ختم نہ ہوں گے۔ احسانات کے بارش مخلوق پر ہر وقت برستی رہتی ہے ۔ جو کہ مانگنے والے کے سوال پر ”لبیک یا عبدی“ فرماتے ہیں ، اس کی دعا قبول کرتے ہیں اور وہ عالم الغیب ذات جو ہماری بہتری اور بھلائی کو ہم سے زیادہ سمجھتی ہے ،وہہمیں وہ چیز عطا کرتی ہے جو ہمارے لیے بہتر ہو، اس لیے کہ ہمارا علم مختصر اور ادراک ناتمام ہیں۔ اسی طرح جس طرح صحرا کا مسافر دھوپ کی تمازت سے صحرا میں پانی کا تالاب دیکھتا ہے، حالاں کہ یہ اس کا بصری دھوکہ تھا، سراب تھا۔

مسافر نے اپنے رب کے سامنے اظہار ندامت کیا، صدق دل، کامل یکسوئی، خضوع وخشوع، تضرع اور عاجزی سے دست سوال دراز کیا، کامل یقین کے ساتھ بھیک مانگی کہ ”یارب العالمین! یا مجیب الدعوات! میں مسکین ہوں ، فقیر ہوں او رعاجز ہوں ،یا ارحم الرحمین مرے حال پر رحم فرما!“

ادھر ندامت کا بادل چھایا، ادھر آسمان پر بادل چھایا، ادھر آنسوؤں کی رم جھم اور ادھر ہلکی پھلکی پھوار، جس کے بعد موسلادھار بارش برسنا شروع ہوئی ۔ سبحان الله وبحمدہ سبحان الله العظیم․

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا” دعا عبادت کا مغز ہے۔“

دوسری جگہ فرمایا:” مظلوم کی بد دعا سے ڈرو، کیوں کہ اس کے درمیان اور خدا کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہے۔“

جس طرح کسی سے ہم کلام ہوتے ہوئے ہماری زبان سے نکلے ہوئے ،ہر حرف ہر لفظ اور ہر جملے کا سامع پر اثر ہوتا ہے ، کسی کی بد کلامی پر سامع کو غصہ آنا اور ایک جبلی اور فطری بات ہے ، اسی طرح ہماری زبان سے ادا کیے ہوئے ہر اچھے اور بہتر جملے سے سامع متاثر ہوتا ہے اور کتنی ہی اچھی بات ہے! دو مسلمانوں کی ملاقات کا آغاز سلام اور دعائیہ جملوں سے ہو او رملاقات کا اختتام بھی دعا پر ہو ۔ یہ تمام برکات ہمارے دین کی عمدہ تعلیمات کی وجہ سے ہیں، ورنہ یورپی معاشرت اور دیگر غیر مسلم معاشروں میں انتہائی لچر او ربے فائدہ جملے ملاقات واختتام ملاقات کے وقت کہے جاتے ہیں #
        بھلا وہ بات ہی کیا جس میں ذکر خدا نہ ہو
        ما در دو جہاں غیر خدا یار نہ داریم

آئیے! بارگاہ مجیب الدعوات میں دست سوال دراز کریں یا مجیب الدعوات! میں گناہ گار ہوں ،سیہ کار ہوں ، میرا دامن نیکیوں سے خالی ہے، میں اپنے گناہوں اور معصیت سے نادم ہوں ،اک قلب حزیں کے سوا میرے دامن میں کچھ نہیں، میری حیات کی کل پونجی چند آنسوں ہیں او ربجز نام خداکچھ نہیں، میں ترے در کا فقیر ہوں، اک درد جگر اور کاسہءِ سر لیے پھرتا ہوں، اے عادل ومجیب رب ! میں اپنے غم واندوہ، اضطرار واضطراب کے ازالہ کی تجھ سے فریاد کرتا ہوں #
        تری رحمت ہے مرے تصور سے بڑھ کر یارب!
        بجز کاسہءِ سر، قلب حزیں مرا دامن تو خالی ہے

یا مجیب الدعوات! ہمارے لیے برکت دے ، ہماری قوت سماعت وبصارت اور بصیرت میں ،ہماری بیویوں، ہماری اولاد میں ہر طرح خیر وبرکات عطا فرما ،ہماری توبہ قبول فرما۔

یا مجیب الدعوات!ہر سوالحاد کی تاریکی پھیلی جاتی ہے،تیری حسین دھرتی پر چہار سو الحاد کی تاریکی پھیلی جاتی ہے،ظالم نے ظلم روا رکھا ہوا ہے،مظلوم کی آہ وفغاں توہی سننے والا ہے، تیرے امیر مال مست، تیرے فقیر حال مست ہیں،یہ بے نوا وبے آسرا تجھ ہی سے اپنی درماندگی کی فریاد کرتا ہے۔

یا مجیب الدعوات! مظلوموں کی آہ وفغاں سن لے۔ یا مجیب الدعوات! تجھے انبیا علیہم السلام، اتقیا واولیا کے نیک اعمال کا واسطہ، دولت صدق ویقین دے دے۔ مجھے وہ بال وپر دے کہ تیری دھرتی پر ہر مظلوم کے آنسو پوچھنے والا اور درد کا مداوا کرنے والا بن جاؤں۔

اے نگاہوں کو شرم وحیا، فضاؤں کو مہک، ہواؤں کو دل افروزی، بہاروں کو شمیم جاں فزا بخشنے والے رب ! اے کلیوں کو مسکراہٹ ،غنچوں کو رنگینی، گل خنداں کو جمال دل ربا ، کہساروں کو رونق، شب کو نور قمر، زمانے کو گردش صبح وشامعطا فرمانے والے رب ! ہمیں اپنی محبت وعظمت سے آشنا کر دے ۔

یا مجیب الدعوات! ہمارے ایمان ویقین میں پختگی دے ۔ یا مجیب الدعوات! ہمیں حقوق الله اور حقوق العباد کی صحیح طور پر ادائیگی کی توفیق عطا فرما، یامجیب الدعوات! ہمارے گھروں میں ہمارے شہروں میں، ہمارے ملک میں خیر وبرکت نازل فرما۔

ہمارے عزیز واقارب اور دوستوں اور احباب کو نیکی او ربھلائی کی توفیق عطا فرما۔ ہم سب کو اپنے محبوب حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی سچی محبت واطاعت کی توفیق عطا فرما اور روز حشر آپ صلی الله علیہ وسلم کی شفاعت سے بہرہ مند فرما۔

یا مجیب الدعوات! ہمارے ملک کو اندرونی اور بیرونی خلفشار سے محفوظ فرما، ملک وملت کی حفاظت اور وحدت امت قائم فرما۔

یا مجیب الدعوات! ہماری نسلوں کو دارینِ کی فوز وفلاح سے ہم کنار فرما ۔

یا مجیب الدعوات! فوت شدہ آباؤ واجداد کی مغفرت اور ہم سب کا خاتمہ باfلخیر فرما۔ ہم سب کو حج مبرور ، زیارت روضہٴ رسول صلی الله علیہ وسلم سے بہرہ مند فرما۔ آمین ثم آمین #
        تمنا جالیوں پر ترے روضے کی جا بیٹھوں
        قفس جس وقت ٹوٹے طائر روح مقید کا

Flag Counter