Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاول 1435ھ

ہ رسالہ

1 - 15
ترقی اور تنزل

عبید اللہ خالد
	
ٹیکنالوجی کی ترقی نے انسان کو اس غلط فہمی میں مبتلا کردیا کہ وہ جو چاہے،کرسکتا ہے۔ پھر نت نئی دریافتوں اور ایجادوں نے جیسے جیسے انسان کو حیرت میں مبتلا کیا، اس کا یہ زعم بھی بڑھتا چلا گیا کہ وہ نہ صرف یہ کہ سب کچھ کرسکتا ہے، بلکہ وہی سب کچھ ہے۔

اس فکر کی آواز بلند کرنے والا اگرچہ مغرب تھا، اور اس کی بنیادی وجہ وہاں مذہب سے بیزاری اور فرار تھا، لیکن یہ فکر انسان کو اتنی دل کش لگی کہ رفتہ رفتہ پوری دنیا میں پھیلتی چلی گئی اور آج نہ صرف مغرب بلکہ دنیا کا چپہ چپہ اس فکر میں غلطاں دکھائی دیتا ہے۔

اس فکر کا جائزہ اگر ایک اور زاویہ سے لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ فکر محض ایک اتفاق نہیں تھی بلکہ اس کے پیچھے پوری سوچی سمجھی منصوبہ بندی شامل تھی جس کا بنیادی مقصد انسان کو خدا کی بندگی کے مزاج سے دور کرنا تھا۔ لہٰذا، چند صدیوں کے سفر کے بعد ہوا یہ کہ آنے والی نسلیں اس مزاج سے نابلد و نا آشنا ہوتی چلی گئیں جو انسان کو انسان کی حیثیت سے ممیز کرتی ہیں اور انسانیت کی معراج عطا کرتی ہیں۔

انسانی فکر کی اس ”تبدیلی“ بلکہ کہنے دیجیے، ”زوال“ نے انسان کو صرف فلسفیانہ حد تک ہی جانور نہیں بلکہ عملی طور پر بھی جانوروں کی سی خصلتیں اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔ اور آج اکیسویں صدی میں جب انسان ایک طرف یہ سمجھتا ہے کہ وہ ترقی کی معراج پر ہے، دوسری جانب حقیقت یہ ہے کہ وہ غیر انسانی رویوں کی انتہاؤں پر پہنچا ہوا ہے۔

اس کا بدیہی نتیجہ وہ معاشرے ہیں جن کا تجربہ ہم دن رات خود بھی کرتے ہیں اور سنتے اور پڑھتے بھی رہتے ہیں۔ اس مزاج کے باعث آج کا انسان خواہ وہ مغرب کا ہو یا مشرق کا، اپنے تئیں ”آج“ کو بہتر کرنے کیلیے سب کچھ کرنے کو تیار ہے۔ اور، اس کیلیے وہ صرف اور صرف اپنی غرض کو ہی سب سے اہم سمجھتا ہے۔ اس کیلیے ”میں“ اس قدر اہم ہوچکی ہے کہ وہ اپنے ارد گرد موجود دیگر انسانوں کو بھی تہہ تیغ کرنے سے نہیں چوکتا۔ حتیٰ کہ اپنے قریب ترین اعزا اوراقربا سے بھی پیچھا چھڑانے کے در پہ رہتا ہے۔ چنانچہ آئے دن یہ خبریں تو آپ کو بھی سننے کو ملتی ہوں گی کہ کسی نے محض کسی معمولی اختلاف کی بنا پر اپنی بہن یا بھائی، حتیٰ کہ باپ یا ماں تک کو مار ڈالا۔ حالانکہ اگر اختلاف کی گہرائی میں جائیں تو معلوم ہوگا کہ یہ اختلافات بہت ہی معمولی اور وقتی نوعیت کے ہوتے ہیں۔

لیکن جب معاشرے میں خود غرضی اور ذاتی تسکین کا حصول ہی سب سے بڑا محرک بن جائے اور دوسروں کے حقوق اور وجود کی کوئی حیثیت ہی نہ رہے تو معاشرے میں ایسے ہی مزاج پروان چڑھتے ہیں اور پھر، ایسے ہی واقعات جنم لیتے ہیں۔

انسان کی فلاح اور کامیابی ٹیکنالوجی کی ترقی میں نہیں ہے۔ آج کا انسان اس زعم میں پہلی مرتبہ مبتلا نہیں ہوا، اس سے پہلے بھی بڑی بڑی ترقی یافتہ قومیں اس غلط فہمی میں مبتلا رہی ہیں اور تاریخ شاہد ہے کہ ایسی کسی بھی قوم کا انجام نہایت عبرت ناک ہوا ہے۔

آج اگر انسان کو واقعةً ترقی کرنی ہے اور پُرسکون اور کامیاب زندگی گزارنی ہے تو اسے اپنی فکر کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اسے خدا بیزاری سے نکل کر خدا کی اطاعت میں داخل ہونا ہوگا، تبھی یہ دنیا اس کیلیے امن اور آشتی کا مقام بن سکتی ہے۔
Flag Counter