Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1435ھ

ہ رسالہ

8 - 13
داڑھی سنت ہے یا واجب؟

مفتی محمد راشد ڈسکوی
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی

داڑھی رکھنا محض سنت ِ نبوی ہی نہیں ، بلکہ واجب ہے۔ اور اس کی مقدار ایک مشت ہے، اس سے کم کروانا (کاٹنے کی صورت میں ہویا مونڈنے کی صورت میں ) بالاجماع حرام ہے، ایک مشت کے بعد داڑھی کاٹنے میں راجح یہی ہے کہ اس کو اس طرح کاٹتے ہوئے برابر کر دیا جائے کہ دیکھنے والے کو بجائے وحشت کے ترغیب ہو۔

داڑھی رکھنا سنت ہے یا واجب؟
داڑھی کے بارے میں جو یہ مشہورہے کہ ”داڑھی کا رکھنا سنت ہے“ کا مطلب یہ ہے کہ داڑھی کا وجوب سنتِ نبوی صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے۔نہ یہ کہ خود یہ عمل سنت ہے، واجب نہیں۔

اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ :
سنت کہتے ہیں طریقہ پیغمبر صلی الله علیہ وسلم کو، یعنی نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے احکاماتِ الہیہ کی تعمیل کے لیے جن طریقوں کو اختیار کیا ان کو سنت کہتے ہیں، پھر ہر سنت یعنی : طریقہٴ پیغمبری صلی الله علیہ وسلم میں آپ علیہ الصلاة و السلام نے کس درجے کا اہتمام فرمایا؟!اس مقدار کو ظاہر کرنے کے لیے فقہائے کرام رحمہم اللہ نے مختلف درجات قائم کیے، جنہیں فرض، واجب، سنت اور مستحب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

جس طریقے / سنت کا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اتنا زیادہ اہتمام فرمایا کہ بغیر کسی شدید ضرورت کے کبھی اُسے ترک نہیں فرمایا، تو اس کو ”فرض“ یا ”سنت“ کا نام دیا گیا اور جس امر کا اہتمام اس سے کم ہوا اس کو ”سنت“ کا نام دیا گیا اور جس امر میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے امت کو کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دیا، اس کو ”مستحب“ یا ”نفل“ کا نام دیا گیا، مثلاً:پانچ وقت کی نمازیں کہ وہ اس اعتبار سے سنت بھی ہیں کہ ان کا ثبوت نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے واسطے سے ہوا اور خود نبی صلی الله علیہ وسلم نے بھی انہیں ادا کیا۔اور ساتھ ساتھ فرض، واجب، سنت اور نفل بھی ہیں کہ ان کی یہ درجہ بندی نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اہتمام کے سبب قائم کی گئی، مثلاً: ظہر کی نماز، اس میں چار رکعتیں سنت، چار رکعتیں فرض، دو رکعتیں سنت اور دورکعت نفل ہیں، لیکن اس کے باوجود ان تمام رکعات کو سنت بھی کہا جائے گا کہ آپ علیہ السلام نے انہیں ادا فرمایا ہے۔

اب دونوں قسم کی سنتوں (داڑھی اور نماز)کو دیکھا جائے کہ جناب ِ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے کس پر کس قدر اہتمام کیا؟ نماز جو ہر اعتبار سے، ہر کسی پراور ہر وقت فرض ہے، عذر کی وجہ سے غزوہ ٴخندق کے موقع پر آپ علیہ الصلاة والسلام سے قضا ہوئی، مگر آپ صلى الله عليه وسلم کی داڑھی جس دن سے نکلی ، اس وقت سے مرتے دم تک منڈوانا تو درکنار، ایک مشت سے کم کروانا بھی ثابت نہیں۔

تمام فقہاء کے نزدیک داڑھی رکھنا واجب ہے، ایک مشت سے کم کروانا حرام ہے اور ایسا کرنے والا فاسق وفاجر ہے، اس کی شہادت بھی مردود ہے ۔ داڑھی کے مذکورہ احکام وجوب سے تو تعلق رکھتے ہیں، لیکن سنت ِ اصطلاحی سے متعلق نہیں، سنت کے تارک پر یہ حکم مرتب نہیں ہوتا، پس داڑھی کو اگر سنت کہا بھی جائے گا تو اس اعتبار سے کہا جائے گاکہ اس کا ثبوت رکعات ِ نماز کی طرح نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے ہوا ہے۔لیکن حکم کے اعتبار سے یہ عمل واجب کہلائے گا ،نہ کہ سنت۔

شاہ عبد الحق محدثِ دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”وگذاشتن آں بقدرِ قبضہ واجب است، وآنکہ آنرا سنت گویند بمعنی طریقہٴ مسلوک در دین است، یا بجہتِ آنکہ ثبوتِ آں بسنت است، چنانکہ نمازِ عید را سنت گفتہ اند“۔(اشعة اللمعات،کتاب الصلاة، باب السواک: 1/212، مکتبہ نوریہ، سکھر)

غور کر لیا جائے کہ عیدین کی نمازوں کو سنت کہا جا رہا ہے، باوجودیکہ وہ واجب ہیں، محض اس لیے کہ سنت بمعنیٰ طریقہٴ محمدی اور واجب میں کوئی تضاد اور منافات نہیں ہوتا، یعنی : عیدین کی نمازیں سنت ِاصطلاحی نہیں، سنت بمعنی طریقہٴ محمدی ہیں۔

اسی طرح نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے عید الاضحی کے موقع پر قربانی کے بارے میں ارشاد فرمایا:
عن زید بن أرقم قال: قلت: أو قالوا: یا رسول اللہ ما ھٰذہ الأضاحي: قال؟”سنة أبیکم إبراھیم“․ وقالوا: ما لنا منھا؟ قال: ”بکل شعرة حسنة“․ قالوا: یا رسول اللہ، فالصوف؟ قال: ”بکل شعرة من الصوف حسنة“․ (مسند أحمد بن حنبل، حدیث زید بن أرقم، رقم الحدیث: 19283، 22/34، موٴسسة الرسالة )

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے دریافت کیا، کہ یا رسول اللہ! یہ قربانیاں کیا( چیز) ہیں؟ (یعنی:ان کے کرنے کی کیا حقیقت، یا کیااصل ہے؟)آپ صلى الله عليه وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا: یہ تمہارے باپ (حضرت )ابراہیم (علیہ السلام )کی سنت/ طریقہ ہے، صحابہ نے دریافت کیا کہ اس طریقے پر عمل کرنے کی صورت میں ہمیں کیا نفع ہو گا؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے جواب دیا:قربانی کے جانور کے جسم پر موجود ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی، صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ اگر اس قربانی والے جانور کے جسم پر بالوں کے بجائے اون ہو تو ؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: اس اون کے ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی۔

اس حدیثِ مبارک میں خط کشیدہ الفاظ پر غور کریں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے قربانی کی وضاحت کرتے ہوئے لفظِ سنت استعمال کیا، حالاں کہ صاحب ِ نصاب شخص پر قربانی کرنا واجب ہوتا ہے، نہ کہ سنت۔ تو اس عمل کو سنت کہنا طریقہ کے معنی میں ہے، نہ کہ اصطلاحی سنت۔

ٹھیک ہے کہ داڑھی سنت ہے، لیکن اس معنی میں نہیں جو مخالفین کے نزدیک ہے، بلکہ اس معنی میں جو اوپر واضح کیے جا چکے، اسی معنی میں یہ عمل تمام انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات کی سنت ہے، اسی معنی میں یہ عمل سرکار دو جہاں صلی الله علیہ وسلم کی سنت ہے، اسی معنی میں یہ عمل تمام اصحابِ رسول صلی الله علیہ وسلم کی سنت ہے، اسی معنی میں یہ عمل تمام اولیاء اللہ رحمہم اللہ کی سنت ہے، اب سوچ لیا جائے کہ داڑھی کو منڈوا کے تمام انبیاء علیہم السلام ، سید الانبیاء صلی الله علیہ وسلم ، تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اور تمام اولیاء اللہ رحمہم اللہ کی سنت پر عمل کر رہے ہیں یا کافر بادشاہ کسریٰ کی سنت پر؟؟!!

اور اگر کچھ دیر کے لیے تسلیم بھی کر لیا جائے کہ داڑھی رکھنا فقہی اصطلاح کے مطابق ہی سنت ہے تو یہاں ترکِ سنت اور قطعِ سنت کا فرق بھی معلوم ہونا ضروری ہے، وہ یہ کہ اگر کسی سنت یا نفل کام کوکوئی شخص شروع ہی نہ کرے تو وہ ترکِ سنت کا مرتکب کہلائے گا، اس کو ترکِ سنت کا گناہ ہوگا، لیکن دوسرا شخص سنت عمل میں مشغول ہونے کے بعد اس عمل کو اُدھورا چھوڑ دیتا ہے ، تو اسے محض سنت چھوڑنے کا ہی گناہ نہیں ہوتا، بلکہ اُسے واجب چھوڑنے کا گناہ ہوتا ہے، جو ترکِ سنت کے گناہ سے اشد ہوتا ہے، وہ اس طرح کہ جب کوئی شخص کسی سنت عمل کو شروع کر دیتا ہے تو اسے پورا کرنا واجب ہو جاتا ہے، اسے درمیان میں چھوڑ دینے والا قاطع سنت نہیں کہلائے گا، بلکہ وہ قاطع واجب کہلائے گا، شرعی احکام میں اس کے بے شمار مثالیں ہیں، مثلاً: نفل شروع کرنے کے بعد انہیں پورا کرنا واجب ہو جاتا ہے، انہیں شروع ہی نہ کرنے والا اور شروع کر کے توڑ دینے والا گناہ میں برابر نہیں ہیں، بلکہ شروع کر کے توڑ دینے والا گناہ میں بڑھا ہوا ہے، اس لیے کہ اس نے ایک واجب کو توڑ دیا۔ اسی طرح جمعہ کا خطبہ سننا ابتداء ً سنت ہے، لیکن جب سننا شروع کر دیا جائے تو اسے پورا سننا واجب ہے، نفلی روزہ رکھنا ابتداء ً تو نفل ہے ، لیکن رکھ لینے کے بعد اسے غروب ِ آفتاب تک باقی رکھنا واجب ہے، اسی تناظر میں مخالفین اور منکرین حضرات سے گذارش ہے کہ چلیں ٹھیک ہے کہ داڑھی رکھنا سنت ہے، تو آپ پر لازم ہے کہ یا تو اس سنت کو چہرے پر نکلنے ہی نہ دیں (اس کے لیے جو بھی تدبیر اختیار کرنی پڑے کریں) یا پھر نکل آنے کے بعد اسے مرتے دم تک باقی رکھیں ، کیوں کہ سنت عمل شروع ہو جانے کے بعد پایہٴ تکمیل تک پہنچنے تک واجب ہو جاتا ہے، آپ تو بہر صورت قطعِ واجب کے مرتکب ہو کر عند اللہ مجرم بن رہے ہیں۔

اس سلسلے میں ایک اور پہلو مدِّ نظر رہنا چاہیے کہ سنتوں کی حکمتوں اور فوائد میں یہ بات ملتی ہے کہ سنتوں سے فرائض پر چلنے کی استعداد پیدا ہوتی ہے اور یہی سنتیں فرائض میں رہ جانے والی کمی کی تکمیل کرتی ہیں، مثلاً: نمازِ ظہر کی سننِ قبلیہ فرض کی ادائیگی کی استعداد پیداکرتی ہیں اور بعد کی سنن فرائض میں رہ جانے والی کمی کا تدارک کرتی ہیں۔ چناں چہ ! سنتوں کا تارک اور ان سے روگردانی کرنے والادرپردہ اس بات کا قائل ہے کہ اسے فرائض کی تکمیل کی کوئی حاجت نہیں ہے، دوسرے لفظوں میں اس کے فرائض درجہ کمال تک پہنچے ہوئے ہیں، حالاں کہ اس بات کا دعویٰ کرنے والے تو سید الانبیاء صلى الله عليه وسلم بھی نہ تھے، تو ہم جیسے ناقص ایمان وعمل والے لوگ اس بات کا دعویٰ (اگرچہ وہ عملاً ہو زبانی نہ ہو) کیسے کر سکتے ہیں؟؟!! جب سید الانبیاء صلی الله علیہ وسلم اس کی ضرورت سے مستغنی نہ ہو سکے تو امت کو کہاں زیبا ہے کہ وہ عملاً یا عقیدتاً اپنے آپ کو اس سے بے نیاز رکھے،حقیقت یہ ہے کہ ایسے اعراض کرنے والوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ کہیں وہ اپنے اس عمل کے سبب آپ صلى الله عليه وسلم کی مبارک جماعت میں سے ہی نہ نکل جائے، جیسا کہ سرکا ر دو جہاں صلى الله عليه وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
”من رغب عن سنتي فلیس مني“․ (جامع الأصول، حرف الہمزة، الکتاب الثاني: في الاعتصام بالکتاب والسنة، الباب الثاني: في الاقتصاد والاقتصار في الأعمال، رقم الحدیث: 84، 1/293، مکتبة دار البیان)
جس شخص نے میری سنت سے اعراض کیا، وہ مجھ سے نہیں۔

تو سوچیے کہ ایسی صورت میں ہمارے لیے کون سا ٹھکانہ نجات باقی رہ جاتا ہے؟اس وعید کی سختی اور انجام کا خوب اچھی طرح اندازہ کر کے کوئی قدم اٹھانا چاہیے۔

مقدارِ لحیہ میں نبی صلی الله علیہ وسلم کے فعل کی شرعی حیثیت
حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی صاحب شہید رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
” علمائے اصول نے نبی صلی الله علیہ وسلم کے افعال کی متعدد قسمیں بیان کی ہیں اور تفصیل سے ان پر لکھا ہے، اولاً: اجمالی طور پر آپ صلی الله علیہ وسلم کے افعال کی دو قسمیں بنتی ہیں، جیسے کھانا، پینا، بیٹھنا، پہننا، اوڑھنا، ایسے افعال کا شرعی حکم ”اباحت “ہے۔یعنی ان سے کسی چیز کا مباح ہونا ثابت ہوتا ہے۔

دوسری قسم کے افعال وہ ہیں ، جن کا تعلق عادت وجبلت سے نہیں، بلکہ قربت وعبادت سے ہے، اس قسم کے افعال کی متعدد قسمیں ہیں، ان میں ایک قسم وہ ہے، جس کا مسئلہ زیرِ بحث سے براہ ِ راست تعلق ہے، یعنی نبی صلی الله علیہ وسلم کے وہ افعال جو کتاب اللہ میں مذکور اَحکام یا خود نبی صلی الله علیہ وسلم کے اَوامر کی تعیین کرتے ہیں، اس قسم کے افعال کا وہی حکم ہوتا ہے، جو اُن اَحکام و اَوامر کا ، جن کی تبیین ان افعال سے ہوتی ہے، ان افعال کی حیثیت بیان کی ہوتی ہے، اگر مبیَّن (وہ امرجس کی تبیین وتوضیح کی گئی)واجب ہو تو بیان (وہ فعل جس سے تبیین ہوئی) بھی واجب ہو گا اور اگر وہ مندوب ہو تو فعل بھی مندوب ہو گا، یہ بات مسلَّمہ ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم کے فعل سے بیان کے تمام انواع واقسام ثابت ہوتے ہیں، اس سے مجمل کی توضیح بھی ہوتی ہے، عموم کی تخصیص بھی ہوتی ہے، ظاہر کی تاویل بھی ہوتی ہے اور کسی امرِ سبق کا نسخ بھی ثابت ہوتا ہے۔

اس متفقہ ومسلَّمہ اُصولِ شرعی کو زیرِ بحث پر منطبق کیجیے، یہ بات ہر شبہ سے بالاتر ہے کہ ”أعفوا اللحیٰ“ (داڑھی کو بڑھنے کے لیے چھوڑ دو) کے حکم کی تبیین حضور کے عمل نے کی اور آپ کے فعل وعمل کو اس حکم کے بیان کی حیثیت حاصل ہے، اب اگر اعفائے لحیہ کا حکم واجب ہے تو حضورصلى الله عليه وسلم کا فعل بھی واجب ہو گا اور اگر مندوب ہے تو فعل بھی مندوب ہوگا، تمام علمائے حق اس بات پر متفق ہیں کہ اعفائے لحیہ سنتِ موٴکدہ ہے اور داڑھی اسلامی شعار میں داخل ہے۔

احادیث وسیر میں رِیش مبارک کے بارے میں جو تفصیل ملتی ہے،اس سے یہ بات بالیقین معلوم ہوتی ہے کہ اس کی مقدار ایک مشت سے زیادہ تھی، کم ہر گز نہ تھی، ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم ”کثیر شعر اللحیة“ تھے، یعنی آپ صلى الله عليه وسلم کی رِیش مبارک میں بال بہت زیادہ تھے، کسی روایت میں کہا گیا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم ”کث اللحیة“تھے ، یعنی آپ صلى الله عليه وسلم کی رِیش مبارک گھنی تھی ا ور کسی روایت میں آپ صلى الله عليه وسلم کو ”عظیم اللحیة“کہا گیا ہے، یعنی آپ صلى الله عليه وسلم  کی داڑھی بڑی تھی، یہی بات سیر وسوانح کی کتابوں میں خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی داڑھیوں کے بارے میں بھی ملتی ہے، مدارج النبوة میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”لحیہ امیر الموٴمنین علی پرمی کرد سینہ رو، وہم چنیں لحیہ امیر الموٴمنین عمر و عثمان رضی اللہ عنہم اجمعین“.
ترجمہ:…”امیرالموٴمنین علی رضی اللہ عنہم کی داڑھی ان کے سینے کو بھر دیتی تھی، اسی طرح امیر الموٴمنین عمر وعثمان رضی اللہ عنہما کی داڑھیاں ان کے سینوں کو بھر دیتی تھیں“۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہا گیا ہے: ”کان کث اللحیة“۔ (استیعاب)

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے: ”کان عظیم اللحیة“۔(اصابہ)

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی عملی توضیح مقدارِ لحیہ کے بارے میں یہ تھی کہ اتنی وافر ہو کہ اس پر عظیم وکثیر کا اطلاق ہو سکے۔“ (اختلاف امت اور صراطِ مستقیم، داڑھی کی مقدار کا مسئلہ، ضمیمہ:3،1/241تا243، مکتبہ لدھیانوی، کراچی)

داڑھی کے وجوب کی دلیل
داڑھی کا وجوب ان تمام احادیث سے ہے، جن میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے داڑھی رکھنے کا امر فرمایا ہے۔ اور داڑھی کاٹنے یا منڈوانے والوں پر سخت ناگواری اور نفرت کا اظہار فرمایا ہے، اس لیے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے کسی کام کا امر اور اس کے خلاف پر نفرت اور ناگواری کا اظہار اس کام کے وجوب پر دلالت کرتا ہے۔

جن احادیث مبارکہ میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے داڑھی رکھنے کا امر فرمایا ہے ، ان میں پانچ طرح کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں: ”أَعْفُوْا اللحیٰ، أَوْفُوْا اللحیٰ، أَرْخُوْا اللحیٰ، أَرْجُوْا اللحیٰ،اور وَفِّرُوْا اللحیٰ“ ذیل میں وہ تمام احادیث ذکر کی جاتیں ہیں جن میں یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں:

صحیح البخاری میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے:
قال رسول صلى الله عليه وسلم: ”انھکوا الشوارب، واعفوا اللحیٰ“․(صحیح البخاری، کتاب اللباس، باب إعفاء اللحیٰ، رقم الحدیث:5893)
جناب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مونچھوں کو خوب اچھی طرح کاٹو اور داڑھی کو بڑھاوٴ۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے اوردوسرے محدثین نے”أعفوا“ کے معنی تکثیر کے بیان کیے ہیں، ابن ِ دقیق العید رحمہ اللہ کہتے ہیں:
”تفسیر الإعفاء بالتکثیر من إقامة السبب مقام المسبب؛ لأن حقیقة الإعفاء الترک، وترک التعرض اللحیة یستلزم تکثیرھا“․
ترجمہ:…”اعفاء کی تفسیرتکثیر سے کرنا، اس اصول کے تحت ہے کہ سبب کو مسبب کی جگہ رکھا گیا ہے، کیوں کہ اعفاء کی حقیقت ترک کرنا اورجب داڑھی سے تعرض ترک کیا جائے گا تو لازماً اس میں تکثیر ہو گی“۔ (فتح الباری، کتاب اللباس، باب تقلیم الأظفار، رقم الحدیث: 5893، 10/351، دارالمعرفة، بیروت)

صحیح مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی ہی روایت ہے:
قال رسول اللہ صلى الله عليه وسلم :”خالفوا المشرکین؛ أحفوا الشوارب، وأوفوا اللحیٰ“․ (صحیح مسلم، کتاب الطھارة، باب خصال الفطرة، رقم الحدیث:)
جناب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مشرکین کی مخالفت کرو، مونچھوں کو پست (یعنی: چھوٹا) کرو اور داڑھیوں کو بڑھاوٴ۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ”أوفوا“ کے معنی ”أترکوھا وافیة“ (اسے چھوڑ دو اس حال میں کہ وہ پوری ہو) سے کیے ہیں۔(فتح الباری، کتاب اللباس، باب تقلیم الأظفار، رقم الحدیث:5892، 10/350، دارالمعرفة، بیروت)

صحیح مسلم میں ہی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ہی روایت ہے:
قال رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم: ”جُزُّوا الشوارب، وأَرخُوْا اللحیٰ، خالفوا المجوس“․ (صحیح مسلم، کتاب الطھارة، باب خصال الفطرة، رقم الحدیث:)
جناب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مونچھوں کو کاٹو اور داڑھیوں کو لٹکاوٴ اور مجوسیوں کی مخالفت کرو۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ”أرخوا“ کے معنی ”أطیلوھا“ (داڑھی کو لمبا کرو)سے کیے ہیں۔ (فتح الباری، کتاب اللباس، باب تقلیم الأظفار، رقم الحدیث:5892، 10/350، دارالمعرفة، بیروت)

اکمال المعلم فی فوائد مسلم میں قاضی عیاض مالکی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ روایت میں ہمارے اکثر مشائخ کے نزدیک ”وأَرخُوْا اللحیٰ“ہی ہے ، لیکن ابن ماہان (عبد الوہاب بن عیسیٰ ابو العلاء الفارسی)کی روایت میں یہ لفظ ”أَرجُوْا اللحیٰ“ بالجیم ہے۔معنی اس کا وہی ہے ، جو أَرخُوْا اللحیٰ کا ہے، یعنی داڑھی کو چھوڑے رکھو“۔ (إکمال المعلم في فوائد مسلم للقاضي عیاض، کتاب الطھارة، باب خصال الفطرة:2/63، دارالوفاء)

صحیح البخاری میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے:
عن النبي صلى الله عليه وسلم  قال:”خالفوا المشرکین:وفِّروا اللحیٰ، وأَحفوا الشوارب“․ (صحیح البخاري، کتاب اللباس، باب تقلیم الأظفار، رقم الحدیث:5892)
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مشرکین کی مخالفت کرو اور داڑھیوں کو بڑھاوٴ اور مونچھوں کو پست (یعنی: چھوٹا) کرو۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ”وَفِّرُوْا“کے معنی ”الإبقاء أي:أترکوھا وافرة“ہیں(داڑھی چھوڑو ، اس حال میں کہ وہ وافر ہو)۔(فتح الباری، کتاب اللباس، باب تقلیم الأظفار، رقم الحدیث:8592، 10/350، دارالمعرفة، بیروت)

احادیث میں مذکور ان پانچوں الفاظ ’ ’ أَعْفُوْا اللحیٰ، أَوْفُوْا اللحیٰ، أَرْخُوْا اللحیٰ، أَرْجُوْا اللحیٰاور وَفِّرُوْا اللحیٰ“ کا واضح مطلب یہ ہی ہے کہ داڑھی کو اپنے حال پر چھوڑ دو۔ ”ومعناھا کلِّھا: ترکُھا علیٰ حالِھا“․(شرح النووی علی صحیح مسلم، کتاب الطہارة، باب خصال الفطرة:3/151، الطبعة المصریة، بالأزھر)

صیغہ امر کے استعمال کا حکم
یہ تمام کے تمام الفاظ امر کے صیغے ہیں۔ اور امر حقیقتاً وجوب کے لیے ہوتا ہے، الا یہ کہ قرائن سے معلوم ہو کہ یہاں امر کسی اور معنی کے لیے استعمال ہو گا، جب کہ یہاں امر کے صیغوں سے کسی اور معنی کا احتما ل نہیں ہے، جیسا کہ خود نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا عمل، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عمل اور ان کے اقوال اور ائمہ مجتہدین ومحدثین کرام رحمہم اللہ کے اقوال اور ان کے عمل اس پر شاہد ہیں کہ یہاں صیغہ امر سے مرادوجوب ہے، کوئی اور معنی نہیں۔

”عندنا:الوجوب حقیقة الأمر، فیحمل علیہ مطلقہ ما لم تقم قرینة خلافہ، وإذا قامت قرینتہ یحمل علیہ علیٰ حسب المقام“․ (نورالأنوار، مبحث الخاص، بیان موجب الأمر:1/75، مکتبة البشریٰ)

”والصحیح من المذھب أن موجبہ الوجوب، إلا إذا قام الدلیل علیٰ خلافہ“․ (أصول الشاشي، بحث تحقیق موجب الأمر المطلق، ص:34، قدیمي)

داڑھی کا وجوب صیغہ امر سے
حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی صاحب  فرماتے ہیں:
” داڑھی کے وجوب کے لیے اصطلاحی اور صریحی دلیل ہی درکار ہے، تو اس کے لیے ایک نہیں، متعدد شرعی اوامر احادیث میں وارد ہوئے ہیں، جن میں خصوصی طور پر داڑھی رکھنے کا صریح حکم دیا گیا ہے۔ ذخیرہ احادیث میں داڑھی بڑھانے کے لیے امر صریح کے پانچ صیغے استعمال فرمائے گئے ہیں: إعفاء، إیفاء، إرخاء، إرجاء، توفیر۔ اور پانچوں کے معنی ٰ محض داڑھی رکھنے کے ہی نہیں، بلکہ داڑھی بڑھانے اور اسے علیٰ حالہ بڑھنے دینے کے ہیں۔گویا جہاں تک قولی احادیث کا تعلق ہے، ان میں داڑھی بڑھنے کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی ہے، بلکہ داڑھی کو علیٰ حالہ چھوڑے رکھنے کا امرِ مطلق ہے، چناں چہ ! أعفوا، أوفوا، أرخوا، أرجوا، اور وفِّروا، بلا قید کے علیٰ الاطلاق مروی ہیں اور ان پانچوں صیغوں کے معنی ٰداڑھی چھوڑنے، یعنی اسے علیٰ حالہ بڑھنے دینے کے ہیں، جن میں کسی قسم کی کوئی قید یا شرط نہیں لگائی ۔

اور سب جانتے ہیں کہ امر کا مفاد وجوب ہے، یعنی امر کا صیغہ حقیقتاًوضع کیا گیا ہے، وجوب اور ایجاب کے لیے، اس ایجاب میں خفت یا ہلکا پن ، جسے استحباب یا ندب کہتے ہیں، صیغہ امر سے نہیں نکلتا، بلکہ خارجی قرائن سے پیدا ہو سکتا ہے۔ اگر یہ خارجی قرائن موجود نہ ہوں توامر اپنی حقیقت پر رہے گا اور اس کے معنی ایجاب والزام کے ہوں گے، جس کا حاصل یہ ہوگا کہ یہ کام تم کو کرنا ہی ہے، تم پر واجب ہے اور تم کسی حال میں اس سے گریز کرنے کا حق نہیں رکھتے۔

اس لیے داڑھی رکھنا ان اوامر سے اصطلاحاًبھی واجبِ صریح نکلا، جس سے کسی حالت میں بھی گریز وانحراف جائز نہ رہا، جو اس مسئلہ کے شرعی ہونے ہی کی نہیں، بلکہ واجب شرعی اور تسنن (اُسے سنت ٹھہرا لینا) بھی ملا لیا جائے، تو یہ واجب اور بھی زیادہ موٴکد ہوجاتا ہے، جس سے گریز گویا سارے انبیاء علیہم السلام کے اجماع سے گریز ہے“۔ (مجموعہ رسائل حکیم الاسلام، داڑھی کی شرعی حیثیت: 4/525، 526، مکتبہ الاحرار، مردان)

حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”احادیثِ مبارکہ میں مذکور امر کے صیغے (اگر) وجوب کے لیے نہ ہوتے، بلکہ سنیت کے لیے ہوتے تو احیاناً امر کے خلاف بھی منقول ہوتا، مگر نہ قولاً منقول ہے (اور) نہ فعلاً، کبھی بھی بیانِ جواز کے لیے اس کی نوبت نہیں آئی، یہ دوام ومواظبت بلا ترک ہی وجوب کے لیے قوی دلیل ہے، چہ جائیکہ اس کے ساتھ ہی اس کے خلاف کی مخالفت بھی صراحةً وارد ہے: ”خالفوا المجوس“․

اس امر کے اولین مخاطب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں، انہوں نے اس کا مطلب قولاً وعملاً یہی سمجھا اور ان کے اس فہم کو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے برقرار رکھا کہ ایک مشت سے جو زائد ہوجائے اس کے کٹانے کی اجازت ہے اور اسی حدیث سے عملاً ثابت ہوتا ہے، یہ گمان نہیں کیا جاسکتا کہ ان کو یہ حدیث نہ پہنچی ہو، کیوں کہ وہ خود اس کے راوی ہیں، اگر ان کا عمل نہ ہوتا تو ایک مشت سے زائد کو بھی کٹانے کی اجازت نہ ہوتی۔

پس صحابہ کرام کے جمِ غفیر کے عمل کو برقرار رکھنا اور ان حضرات کا دوام واستمرار کے ساتھ اس کا اہتمام فرمانا اجتماعی توارث وتواتر ہے“۔ (فتاویٰ محمودیہ، داڑھی کی مقدار، باب خصال الفطرة: 19/402، ادارہ الفاروق)

داڑھی کا وجوب ”لفظ امر “سے
مذکورہ بالا بحث اس بارے میں تھی کہ صیغہ امر کا حقیقی معنی اور مصداق ”وجوب“ ہی ہوتاہے، الا یہ کہ صیغہ امر سے کسی اور معنی کو مراد لینے کے لیے قرینہ موجود ہو، اب یہ پہلو سامنے لایا جائے گا کہ اوپر والی بحث تو صیغے سے اصولی طور پر ماخوذ تھی، لیکن اگر خود شارع علیہ السلام کی طرف سے حکماً کسی کام کے کرنے کا فرما دیا جائے اور اس کے لیے صیغہ امر بھی استعمال کیا جائے ، تو پھر تو وہاں صیغہ امر سے وجوب کے علاوہ کسی اور معنی کو مراد لینے کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہ سکتی، مثلاً: کوئی شخص اپنے بیٹے کو کہے کہ بیٹا ! مجھے پانی پلاوٴ۔ یہاں پانی پلانے کے لیے امر کا صیغہ استعمال کیا گیا، جس کا مقتضیٰ تعمیل ِ امر کا وجوب ہے۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ بیٹا یا کوئی کہہ دے کہ یہاں وجوب مراد نہیں ، استحباب یا کسی اور معنی کے لیے ہے، لہٰذا اگر پانی پلا دیا جائے یا نہ پلایا جائے، دونوں کی گنجائش ہے، ہاں! اگر پلا دیا جائے تو حکم دینے والے کی خوش نودی حاصل ہو جائے گی اور اگر نہ پلایا جائے تو کوئی حرج نہیں۔

لیکن اگر باپ اپنے بیٹے کو یہ کہے کہ بیٹا!میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ مجھے پانی پلاوٴ۔ تو پھر بیٹے کے لیے تعمیلِ ارشاد کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا، اس لیے کہ اس جگہ پانی پلانے کے لیے صیغہ امر کے علاوہ صراحةً حکم بھی موجود ہے، اس لیے یہاں تو بہر حال وجوب متعین ہے۔

ایسے ہی داڑھی کے معاملہ میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے بے شمار ارشادات ہیں، جن سے اولاً تو وجوب ہی ثابت ہوتا ہے، لیکن اگر کسی کی کج روی ان احادیث مبارکہ سے وجوب داڑھی کو تسلیم کرنے سے مانع ہو تو پھر صحیح مسلم میں ایسی حدیثِ مبارکہ بھی موجود ہے ، جس سے ایسے کج روی والے افراد کی کج روی ختم ہونے کا سامان موجود ہے، یعنی : نبی صلی الله علیہ وسلم نے صراحةً داڑھی رکھنے کا حکم فرمایاہے،ملاحظہ ہو:

عن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عن النبي صلی الله علیہ وسلم أنہ ”أمر بإحفاء الشوارب، وإعفاء اللحیة“․(صحیح مسلم، کتاب الطھارة، باب خصال الفطرة، رقم الحدیث:259، ص:129، بیت الأفکار)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے مونچھیں پست کرنے اور داڑھیاں بڑھانے کا حکم فرمایاہے۔

تو آپ  کی اس حدیث کے معنی وہی ہوئے کہ ” ہم تمہیں داڑھی بڑھانے کا حکم دیتے ہیں“ ۔ چناں چہ ! اب ”داڑھی بڑھاوٴ“ کے صیغہ میں جو احتمالِ استحباب یا تعمیل وعدم ِ تعمیل میں مخاطب کے اختیار کا پیدا کیا جا سکتا تھا، وہ کلیةً ختم ہو گیا اور داڑھی کا بڑھانا اورتاکید کے ساتھ اس کا شرعی وجوب ثابت ہو جاتا ہے۔

نیز! جب آپ صلى الله عليه وسلم نے کسریٰ کے بھیجے ہوئے سپاہیوں سے دریافت کیا تھا کہ تمہیں ایسی صورت (جس میں مونچھوں کو بڑھایاگیا تھا اور داڑھیوں کو مونڈوایا گیا تھا)بنانے کا کس نے حکم دیا؟ تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ :”أمرنا بھٰذا ربّنا-یعنیان کسریٰ؟ “ہمیں ہمارے رب کسریٰ نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔

تو آپ صلى الله عليه وسلم نے جواب دیا تھا: ”لکن ربي قد أمرني بإعفاء لحیتي، وقص شاربي“․یعنی: میرے رب نے مجھے داڑھیاں بڑھانے اور مونچھیں کتروانے کا حکم دیا ہے۔ (السیرة الحلبیة في سیرة الأمین المأمون، ذکر کتابہ صلی الله علیہ وسلم إلی کسریٰ ملک فارس علیٰ ید عبد اللہ بن حذافة :3/292، دارالمعرفة)

مطلب یہ ہے کہ جناب رسول اللہ صلى الله عليه وسلم اپنے رب کی طرف سے داڑھی بڑھانے کے مامور ہیں، تو ہم (امتی)بارگاہِ رسالت صلى الله عليه وسلم کے واسطے سے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے مامور ہیں۔ (جاری)

Flag Counter