Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1435ھ

ہ رسالہ

4 - 13
اسلام ہی دین حق ہے

محترم یرید احمد نعمانی
	
﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَاء کُمُ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ مِن رَّبِّکُمْ فَآمِنُواْ خَیْْراً لَّکُمْ وَإِن تَکْفُرُواْ فَإِنَّ لِلَّہِ مَا فِیْ السَّمٰوَاتِ وَالأَرْضِ وَکَانَ اللّہُ عَلِیْماً حَکِیْماً﴾․(سورة النساء:170)
ترجمہ:”اے لوگو! یہ رسول تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے حق لے کر آگئے ہیں۔اب (ان پر) ایمان لے آؤکہ تمہاری بہتری اسی میں ہے۔ اوراگر( اب بھی) تم نے کفر کی راہ اپنائی تو ( خوب سمجھ لو کہ ) تمام آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ کا ہی ہے اور اللہ علم اور حکمت دونوں کا مالک ہے۔“(آسان ترجمہ قرآن)

تشریح وتوضیح
حضرت مولانا ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ آیت بالا کی تفسیر وتشریح بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:”اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے اللہ کے سچے رسول (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) دین حق لے کر آچکے ہیں ( جس سے مقصود تمہاری تربیت ہے اورحق تو جس طرح بھی پہنچے ،اس کے قبول میں تامل نہ کرنا چاہیے۔ تھوڑاتھوڑا اورچاہے یک دم اور پھر مزید برآں یہ کہ وہ رسول برحق ،حق اورصداقت کو لے کر خود تمہارے پاس پہنچ گیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ تم خود حق کی تلاش میں نکلتے، لیکن ستم بالائے ستم یہ ہے کہ پیغمبر خدا تو حق لے کر تمہارے پاس پہنچ گیااور تم ہوکہ اس میں خدشے نکال رہے ہو کہ یہ دین حق تھوڑا تھوڑا ہو کر کیوں نازل ہورہاہے؟یک دم کتابی شکل میں کیوں نازل نہیں ہوجاتا؟ پس عقل اور دانائی کا مقتضی یہ ہے کہ اس حق اور اس رسول برحق پر تم فوراً ) ایمان لے آؤ۔ ایمان لانا ہی تمہارے لیے بہتر ہوگا اور اگر آپ کی نبوت (ورسالت کو ) نہیں مانو گے تو اللہ کو (تمہارے ایمان کی کوئی حاجت نہیں) تحقیق اللہ کی ہی ملک ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے (ایمان لانے میں تمہاراہی نفع ہے ،اس کا کوئی فائدہ نہیں اور) ہے اللہ جاننے والا، حکمت والا(اسے تمہارے ایمان اور کفرکی سب خبرہے اور اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں)“۔(معارف القرآن :395/2،مکتبہ المعارف، دارالعلوم، حسینیہ شہداد پور)

آیت …حدیث مبارکہ کے آئینے میں
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی الہٰی کے نزول کی ابتدا کیسے ہوئی؟ اس کی صورتیں کیا کیا رہیں؟ اس کاجواب ہمیں امیر المومنین فی الحدیث محمد بن اسماعیل بخاری نور اللہ مرقدہ کی ”الصحیح“ سے ملتاہے۔ امت کے تمام اکابر واسلاف نے امام بخاری قدس سرہ کی کتاب کو”اصح الکتب بعد کتاب اللہ “ کہاہے۔ حضرت امام بخاری  نے اپنی کتاب کی ابتدا جس باب سے فرمائی ،اس کا نام ہی”باب کیف کان بدء الوحی الیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم؟ “رکھا۔جس کامطلب یہ ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب وحی کی ابتدا کیسے ہوئی؟اس عنوان کے تحت حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے پانچ احادیث مبارکہ ذکر فرمائی ہیں۔ جن میں سے ایک طویل اور ایک مختصر حدیث مبارکہ کا ترجمہ ہم ذیل میں پیش کررہے ہیں:

…ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ طاہرہ رضی اللہ عنھا کی روایت ہے۔ وہ فرماتی ہیں:”وحی کی سب سے پہلی صورت جو آپ عليه السلام کے ساتھ پیش آئی ،وہ نیند میں سچے خواب دیکھنا تھا۔ آپ عليه السلام جو خواب (رات میں ) دیکھتے،وہ دن کی روشنی کی طرح سچا ثابت ہوتاتھا۔

پھر خلوت وتنہائی آپ کے لیے مرغوب بنادی گئی۔ (اس مقصد کے لیے ) آپ غار حرا میں گوشہ نشینی اختیار فرماتے تھے۔ چند راتوں تک گھر آنے سے پہلے خوب عبادت فرماتے اور(جتنے دن قیام کا ارادہ ہوتا،اتنے عرصے کا ) سامان ضرورت ساتھ لے جاتے تھے۔پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کے پاس تشریف لے آتے اور اسی طرح توشہ ساتھ لے کر ( اگلی مدت کے لیے تشریف لے جاتے)

یہاں تک کہ ( ایک دن) حق (یعنی وحی الٰہی) اسی غار حرا میں آپ کے پاس آگیا۔(جس کی صورت یہ ہوئی کہ ) ایک فرشتہ آپ علیہ السلام کے پاس آیا اور اس نے کہا:”اقرأ“یعنی پڑھیے!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا:”میں پڑھا ہوانہیں ہوں۔“(اس کے بعد )آپ عليه السلام نے فرمایا، اس فرشتے نے مجھے پکڑاا ور زور سے بھینچا۔ یہاں تک اس نے اپنا پورا زور صرف کرڈالا۔ پھر مجھے چھوڑ دیا۔ دوبارہ کہا:”اقرأ“ میں نے (جواب میں پہلی والی بات دہراتے ہوئے کہا)”میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔“اس نے دوبارہ مجھے پکڑ کر پہلے کی طرح زور سے اپنے سینے سے چمٹایا اورچھوڑدیا اور کہا: ”اقرأ“ میں نے (تیسری مرتبہ بھی یہی)کہا :”ماانا بقاریٴ “ اس فرشتے نے تیسری مرتبہ مجھے اپنے ساتھ چمٹایا اور پھر چھوڑتے ہوئے کہا :”اقراء باسم ربک الذی خلق خلق الانسان من علق اقرأ وربک الاکرم“․

ان آیات مبارکہ کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس (گھر) تشریف لے آئے۔ حالت مبارکہ یہ تھی کہ قلب اطہر بے چین و مضطرب ہورہاتھا۔ (ام المومنین) حضرت خدیجہ بنت خویلد کے پاس تشریف لاکر آپ علیہ السلام نے دومرتبہ ارشادفرمایا:”مجھے چادر اوڑھا دو“۔ آپ کے ارشاد کے مطابق گھر والوں نے چادر اوڑھادی۔ یہاں تک کہ وہ خوف اورہیبت ختم ہوگیا۔ اس کے بعد آپ عليه السلام نے سارامعاملہ حضرت خدیجہ  کو سنایا اور فرمایا:”مجھے اپنی جان (جانے) کا اندیشہ ہے۔“ (یہ سن کر) حضرت خدیجہ  نے فرمایا:”(جیسا آپ سوچ رہے ہیں ) ایسا ہر گز نہیں ہے۔خداکی قسم!اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ کیوں کہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں۔ کمزوروں یتیموں کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ بے سہاروں اورلاچاروں کی امداد کرتے ہیں۔ “اس کے بعد حضرت خدیجہ  آپ عليه السلام کو لے کر اپنے چچا زاد بھائی ورقة بن نوفل بن اسد بن عبد العزیٰ کے پاس آئیں۔

(ورقہ کا تعارف یہ ہے کہ وہ ) زمانہ جاہلیت میں بت پرستی چھوڑ کر عیسائی ہوچکے تھے اور انجیل کو عبرانی سے عربی میں ،جو اللہ تعالیٰ چاہتے ،لکھا کرتے تھے۔ وہ اتنے ضعیف العمر ہوچکے تھے کہ آنکھوں سے بینائی چلی گئی تھی۔ ان سے حضرت خدیجہ نے کہا:”اے میرے چچا زادبھائی! آپ ذرا اپنے بھتیجے کی بات سن لیں۔“اس کے بعد ورقہ نے آپ علیہ السلام سے کہا:”بھتیجے! تم نے کیا دیکھاہے؟“آپ عليه السلام نے تمام واقعہ کہہ سنایا۔ یہ سن کر ورقہ نے کہا:”یہ تو وہ راز دار (فرشتہ) ہے جو حضرت موسی عليه السلام کے پاس بھی آتاتھا۔ اے کاش!(آپ کی نبوت کے زمانے میں) مجھے قوت وطاقت حاصل ہوتی۔اے کاش!میں اس وقت تک زندہ رہوں جب آپ کی قوم آپ کو نکال دے گی۔“ آپ عليه السلام نے فرمایا :”کیا واقعتا وہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟“ورقہ نے کہا:”جی ہاں!کیوں کہ جب کبھی کوئی (پیغمبر) وہ دعوت اور پیغام (الٰہی ) لے کر آیا،جو آپ لے کر آئے ہیں تو (ہمیشہ) اس سے دشمنی کی گئی ہے۔ اگر مجھے آپ کی نبوت ورسالت کا زمانہ مل گیا تو میں آپ کی بھرپور مدد کروں گا۔“(حضرت عائشہ  فرماتی ہیں )اس کے بعدورقہ زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکے اورانتقال کرگئے۔اوروحی (کی آمد کچھ مدت کے لیے) رک گئی۔“(بخاری:3/1)

دوسری روایت بھی امی عائشہ  سے مروی ہے۔ فرماتی ہیں کہ حارث بن ہشام مخزومی رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا :”یارسول اللہ! آپ کے پاس وحی کیسے آتی ہے؟“جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”کبھی میرے پاس وحی الٰہی ایسے آتی ہے جیسے بجتی ہوئی گھنٹی (یعنی پے درپے بجنے والی آواز، جو پہلی مرتبہ سننے میں سمجھ نہ آسکے)اور یہ صورت مجھ پر سب سے زیادہ گراں اور بھاری ہوتی ہے۔ جب یہ کیفیت ختم ہوتی ہے تومیں اس وحی کو یاد کرچکا ہوتاہوں جو فرشتے نے کہی ہوتی ہے۔ اورکبھی فرشتہ انسانی صورت میں میرے سامنے آتاہے اورمجھ سے ہم کلام ہوتاہے توجو کچھ وہ کہہ رہاہوتاہے میں اسے محفوظ کرلیتاہوں۔“

حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ بے شک میں نے شدید سردی کے دنوں میں خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کو اترتے دیکھا ہے۔جب وحی کی کیفیت ختم ہوتی تو (اس کی شدت کی وجہ سے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی مبارک سے پسینہ جاری ہوجاتاتھا۔“(بخاری:2/1)

نکات ومعارف
وحی کا ماننافرض ہے:
شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ آیت بالا کے ذیل میں فرماتے ہیں:”اس ارشاد سے صاف معلوم ہوگیا کہ وحی جو پیغمبر پر نازل ہو اس کا ماننا فرض اور اس کا انکار کفرہے۔“(تفسیر عثمانی:146)

خطاب عام بوجوب تصدیق رسالت محمدیہ:
”اے تمام(جہان کے) لوگو!تمہارے پاس یہ رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) سچی بات(یعنی سچا دعویٰ سچی دلیل) لے کر، تمہارے پروردگار(جل شانہ) کی طرف سے تشریف لائے ہیں۔سو( مقتضا اثبات دعوی بالدلیل الصحیح کا یہ ہے کہ ) تم ( ان پر اوراورجو جو یہ فرماویں سب پر) یقین رکھو(جو پہلے سے یقین لائے ہوئے ہیں ،وہ اس پر قائم رہیں اور جو نہیں لائے اب اختیار کرلیں)یہ تمہارے لیے بہتر ہوگا(کیوں کہ نجات ہوگی)اوراگر تم منکر رہے تو (تمہارا ہی نقصان ہے، خداتعالیٰ کا کوئی نقصان نہیں ،کیوں کہ) خداتعالیٰ کی (تو) ملک ہے، یہ سب جوکچھ (بھی )آسمانوں اورزمین میں (موجود) ہے اوراللہ تعالیٰ (سب کے ایمان وکفر کی ) پوری اطلاع رکھتے ہیں(اور دنیامیں جو پوری سزا نہیں دیتے تو اس لیے کہ )کامل حکمت والے (بھی) ہیں (وہ حکمت اسی کو مقتضی ہے) ۔“(بیان القرآن :429/1)

ابتدائے وحی سے متعلق حضرت شاہ ولی اللہ  کا قول:
امام بخاری  نے جو باب قائم کیا ہے، اس کی تشریح کرتے ہوئے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدس سرہ فرماتے ہیں:”میرے نزدیک اس (عنوان میں موجود سوال) کا مطلب یہ ہے کہ وحی خواہ متلو(جس کی تلاوت کی جاتی ہے)محفوظ ہے، جیسے قرآن کریم اپنے الفاظ کے ساتھ محفوظ ہے یا غیر متلو(جس کی تلاوت نہیں کی جاتی)،جس کو حدیث کہا جاتاہے اور یہ مسلمانوں کی زبانوں پر موجود ہے۔اس کی ابتدا کیسے ہوئی؟اور یہ وحی( مع اپنی دونوں قسموں کے)کہاں سے آئی ؟( یعنی اس کامنبع کیا ہے)اورہم تک کس طرح پہنچی؟

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ وحی ہم تک مستند اور ثقہ علماء کے توسط سے پہنچی۔انہوں نے حضرات صحابہ کرام سے ،صحابہ نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس وحی کو حاصل کیا۔اور آپ عليه السلام کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی جانب سے یہ وحی حاصل ہوئی۔چناں چہ امام بخاری جو باب میں احادیث لائے ہیں، وہ اس پر دلالت کررہی ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی جانب سے،آپ عليه السلام پر احکام دین سے متعلق وحی کانزول، امر متواترہے، جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے۔“(حاشیہ بخاری:2/1)

حاصل کلام
اسلام رہتی دنیا تک دین برحق، قرآن مجید تاصبح قیامت کتاب ہدایت اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ رب العالمین کی طرف سے بنی آدم کے لیے آخری نبی ورسول ہیں۔ یہ صداقت وحقانیت گزشتہ چودہ سو برس سے اپنا آپ منوارہی ہے۔ اپنے تو اپنے ہیں ۔ پرائے بھی نہ چاہتے ہوئے اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کے آگے جھکنے پر مجبور ہیں۔ مغرب نے لا کھ چاہا کہ انسانیت کو ذلت ورسوائی کے گڑھے میں دھکیل دے۔ اس مذموم مقصد کے لیے دین حق اور ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے خلاف منفی پروپیگنڈا کیاگیا۔دنیا کو یہ باور کرایاگیا کہ ایک پس ماندہ مذہب ہے۔ جس کا موجودہ دور اورمعاشرہ سے کوئی تعلق نہیں۔یہ معاذاللہ!فرسودہ روایات کا مجموعہ ہے۔ یہ عورتوں کی آزادی سلب کرتاہے۔ یہ مردوعورت کی مساوات کا قائل نہیں وغیرہ وغیرہ۔لیکن آج جب کہ پہلی وحی الٰہی کو اترے 1446برس گزرچکے ہیں،مغربی تعلیم گاہیں ”کلام مبین“ کی سچائی کی گواہی دینے پر مجبورہوچکی ہیں۔ جس قرآن کی نفی میں،جس کتاب ہدایت کے جھٹلانے میں اورجس کلام اللہ سے اعراض برتنے میں اہل یورپ نے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی،وہ خود کو اس اقرار پر مجبور پاتے ہیں کہ اسلام ہی دین فطرت ہے۔یہ انسانیت کو راہ ہدایت دکھاتاہے۔ اس کی تعلیمات وہدایات میں غور وفکر کا ایک سمند رپوشیدہ ہے۔اس کے عدل وانصاف کے پیمانوں کا مقابلہ کوئی انسانی سوچ نہیں کرسکتی۔ذیل کی خبر پر نظر ڈالیے اور سر دھنیے:

”امریکا کی معروف ہاورڈ یونیورسٹی نے سورة النساء کی 135 ویں آیت کی تختی شعبہ قانون کے داخلی دروازے پر لگارکھی ہے اور اسے انصاف کے لیے سب سے بہترین تحریر قرار دیا ہے۔ قرآن مجید کی آیت کی تختی لگاتے ہوئے کہا گیاہے کہ یہ فقرہ تاریخ میں انصاف کی وضاحت کا سب سے بہترین اظہار ہے۔ ایک سعودی طالب علم، جو ہاورڈ میں زیرتعلیم ہے، نے اس پوسٹر کی تصویر اپنے ٹویٹر پیج پر شائع کی۔ عبداللہ جمعہ نامی اس طالب علم کا کہنا ہے کہ اس آیت کو ہاورڈ کے شعبہ قانون میں لگاتے ہوئے وضاحت کی گئی ہے کہ اس سے بہترین انصاف کا اظہار ممکن نہیں۔ اس آیت کریمہ کے ابتدائی حصے کا ترجمہ یہ ہے”اے ایمان والو! انصاف قائم کرنے والے بنو، اللہ کی خاطر گواہی دینے والے، چاہے وہ گواہی تمہارے اپنے خلاف پڑتی ہو۔“(روزنامہ اسلام :14/1/2013)

افسوس ہم مسلمانوں پر ہے جو مغربی تہذیب کی پیروی کو اپنے لیے مایہ افتخار سمجھ بیٹھے ہیں۔کفار کی نقالی میں اپنے حبیب علیہ السلام کی اتباع سے منھ موڑے بیٹھے ہیں۔ حالاں کہ دنیا و آخرت کی قیمتی ترین دولت ہمارے پاس موجود ہے۔ قرآنی ہدایات پر صدق دل سے عمل نہ صرف ہماری موجودہ پستیوں کا ازالہ کرسکتاہے، بلکہ کھرے عمل کی بدولت ہمیں اقوام عالم میں کھویاہوامقام دوبارہ نصیب ہوسکتاہے۔مگر قرآن حکیم کے جاننے ،سمجھنے اور اس پر عمل پیراہونے کے لیے شرط اول کسی عالم ربانی اورمستند صاحب علم کی صحبت سے استفادہ ہے۔ آج کا سب سے بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ ہم حق وہاں ڈھونڈتے ہیں،جہاں باطل کے ہرکارے اورگماشتے موجود ہیں اور وہ اصحاب حق سے دل میں کدورت وبیر رکھتے ہیں۔اس صورت میں سوائے مزید ناکامی و نامرادی کے اورکچھ حاصل نہیں ہوتا۔مختصر وقت میں صحیح نتیجہ حاصل کرنے کے لیے کتاب اللہ کے ساتھ رجال اللہ کا دامن تھامنا ہوگا۔اسی میں ہماری نجات اوربقاہے۔ وماعلینا الا البلاغ المبین .

Flag Counter